انتہائی محترم
یوسف-2
پہلے تو ہمیں دہشت گرد وں اور مجاہدین میں فرق کرنا ہوگا ۔ جس کی بنیاد یقیناً اُن کا عمل ہوگا ۔ کہ اُن کا نشانہ کون بن رہے ہیں اور اُن کی اعانت کون کر رہا ہے ۔ کون خرقہ پوش ہیں اور کون خلعت کے خواہاں،
مجاہدین اسلام کے لیے احترام ہم سب پر واجب ہے ۔
اب دیکھیں پاکستان میں جن حملوں اور دہشت گردی کو طالبان نے تسلیم کیا ہے اُن میں کون لوگ شہید ہوئے ۔ اِن کے نشانے اسلامی یونیورسٹی ، مساجد ، امامبارگاہیں خانقاہیں اور عبادت گاہیں ، بازار ، سکول ہی ہیں ۔ کیا اِن کو مجاہدین کا نام دے کر جذبہ جہاد ، اور مجاہدین کی توہین کے مرتکب نہیں ہورہے ۔ ؟ ان معصوموں اور بے قصور طالب علموں ، عبادت گزاروں کا کیا قصور تھا ؟ کیا یہی اُن کے دشمن تھے انہی کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ؟
اب دیکھتے ہیں اسلامی جمیعت کا کردار :
اسلامی جمیعت طلبا کے الشمس و البدر کے کردار کو اگر دیکھیں تو شائد یہ بات ناگوار گزرے اُس وقت اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی ۔ غاصبوں اور محکو موں کی جنگ تھی ۔ جس کے پس منظر میں مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومیاں تھیں ، ایسے میں الشمس و البدر کو وہاں کے مقامی باشندوں کا ساتھ دینا چا ہئیے تھا جنہوں نے بہار سے ہجرت پر اُن کی مدد کی تھی ۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج چالیس سال کے بعد بھی بہاری وہاں مہاجر کیمپ میں انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں ۔
اب ان کا کردار دیکھیں یونیورسٹیوں میں ماضی میں کراچی ، پنجاب اور پشاور یونیورسٹیوں میں انہوں نے کئی دفعہ غنڈہ گردی ، اساتذہ کی مار پیٹ ، اسلحہ ، کا ستعمال کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں زمین میں دفن کیے گے اسلحہ کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ آٹھ دس سال تو یونیورسٹی میں یہ مختلف کورسز کے بہانے اپنی لیڈری قائم کر لیتے ہیں ۔ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کی غنڈہ گردی کی مثالیں تو ہماری عمر کے لوگوں کو عام یاد ہیں ۔ ۱۹۶۸ میں ایوب خان کے خلاف کوہاٹ کالج کے جلسوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے مولاناجاوید ابراہیم پراچہ آیا کرتے تھے ۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے ۔ ۱۹۷۸ میں یہی صاحب پشاور یونیورسٹی سے ایک ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ایل ایل بی کر رہے تھے اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے ۔ ان غریب بچوں کو تعلیم کا اتنا شوق ، روزگار اور والدین کا سہارا بننے کی کوئی فکر نہیں کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے ۔ آج یہی جاوید ابراہیم پراچہ پاکستان میں قید غیر ملکی دہشت گردوں کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے سودا بازی میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ مولانا مفتی محمود کے ساتھ بھی رہے ، پھر الیکشن کے ٹکٹ کے لیے نواز شریف کے ساتھ مل گئے پھر جہاد افغانستان میں اسلحہ بھی خوب بیچا ۔ ان کا کوہاٹ میں ایک مدرسہ بھی ہے ، روئت ہلال سے لے پشاور یونیورسٹی میں ان کی دو نمبریوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ گواہ بھی ہوں ۔
اسی طرح طالبات میں ایک غریب معمار کی بیٹی بارہ سال تک یونیورسٹی ہی میں زیر تعلیم رہی وہ بھی اتفاق سے جمیعت کی سرگرم رکن ، میری ماشااللہ پانچ بہنوں نے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی مگر جنہوں نے ایم فل کیا اُن کو زیادہ سے زیادہ چار سال لگے ۔ تعلیم اخراجات ، ہاسٹل کے اخراجات اور سفری اخراجت برداشت سے باہر ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے مردانہ اور زنانہ ہاسٹلز پر اِ ن کا بھر پور قبضہ ہوتا ہے ۔ انتظامیہ میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ کیا یہ ایک انفرادی فعل کہا جاسکتا ہے ؟ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ کو جس دن اسلامی یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا تھا ۔ جمیعت کے بیشتر طلبا و طالبات یونیورسٹی نہیں آئے تھے ۔ میری بیٹی کی دو سہیلیاں جو آپس میں بہنیں تھیں نہیں آئیں تھیں ، اسی طرح دیگر طلبا اور جماعت کے بعض دوست نہیں آئے تھے ۔ حادثہ کے بعد کئی دن تک جمیعت کے طلبا منظر عام پر نہیں آئے
اور کئی واقعات ہیں جو کبھی زندگی نے مہلت دی اور ملاقات ہوئی تو سناوں گا علاوہ ازیں اگر ہم ماضی کے کارنماے دیکھیں تو کیا مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق جماعت تھی اُس کی بد عنوانیاں اور غلاظت کو معاف کی جاسکتا ہے ۔ کیا نعوذ باللہ شیطان کو صرف اس لیے ملعون نہ کہیں کہ کبھی وہ بھی مقرب خاص تھا
میری کسی بات کو پلیزمحسوس نہ کریں یہ میرا تجربہ تھا جو شئیر کیا اور مجھے محفلین سے جو نسبت ہوگئی ہے وہ ہمیشہ عزیز رہے گی
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا