کیا اسلامی جمیعت طلبا دہشت گرد تنظیم ہے؟

x boy

محفلین
بھیا ایسا نہیں ہے۔
”دیگر غیر مسلموں“ اور ”قادیانی غیر مسلم“ میں ایک بنیادی فرق ہے، جسے آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔
  1. ”دیگر غیر مسلم“ خود کو ”مسلمان“ نہیں کہلواتے اور نہ ہی ”دیگر غیر مسلم“ اپنے ”عقائد“ کو اسلام کے نام پر پیش کرکے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو اس طرح مسخ کرتے ہیں
  2. ”دیگر غیر مسلم“ مرزا غلام احمد کو نبی نہ ماننے والے مسلمانوں کو ”کافر اور غیر مسلم“ قرار نہیں دیتے۔
اب میں قادینیوں کو گالی نہیں دیتا، کیونکہ اب وہ گالیوں کے لائق بھی نہیں
اور ان کے بچوں پر ترس آتا ہے کہ قرآن کریم کو استعال کرتے ہیں اور تفسیر یہودیوں کا سیکھتے ہیں
 

حسینی

محفلین
حسینی بھیا! شکر ہے آپ کا شمار ان ”مسلمانوں“ میں نہیں ہے، جو جہاد کے خلاف ہیں۔ اور آپ انسانی جان اور ناموس کے حوالہ سے اسلام کی تعلیمات سےبخوبی ” آگاہ“ ہیں۔
  1. سب سے پہلے تو یہ بتلائیے کہ یہ ”افغان مجاہدین“ دہشت گرد کب بنے یا کب ڈیکلیئر ہوئے؟ جب مسلم افغانستان میں افغانیوں (طالبان) کی حکومت تھی اور ایک کافر امریکہ نے ایک مسلم افغانستان پر حملہ کیا اور کرنے کا ارادہ کیا تو کیا ایک مسلم پاکستانی آرمی اور حکومت (صدر اور آرمی چیف قادیانی سہی) نے کس کا ساتھ دینا تھا۔ حملہ آور کافروں کا یا برادر مسلم ملک افغانستان کا۔ پاکستان نے حملہ آور کافروں کو فوجی اڈے دئے، انہیں سستے داموں ایندھن دیا، راہداری دی تاکہ ایک مسلم ریاست میں لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جاسکے۔ اور جو افغان مجاہدین بھٹو اور ضیاء الحق کے دور سے حکومت پاکستان کی اجازت سے فاٹا میں مقیم تھے، ان پر پاکستان آرمی نے اوپر سے کارپٹ بمباری کی اور زمین سے گولہ بارود کے ذریعہ ان کے گھروں کو جلایا گیا۔ ان سے بار بار معاہدے کئے اور بار بار معاہدے توڑے۔۔۔ کیا آپ کی عمر اتنی کم ہے کہ ابھی کل کے یہ ”اپنے کارنامے“ بھول گئے۔ جب آپ بلا کسی شرعی اور دنیوی جواز کے لوگوں کا اس طرح قتل عام کریں گے تو جواب میں کیا وہ پھول پیش کریں گے؟؟
  2. بھٹو حکومت کی پالیسی کے تحت افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ اور ضیاء الحق دور میں یہ زیادہ تعداد میں پاکستان میں حکومت کی منشا اور سپورٹ سے پاکستان میں آئے تھے۔ انہیں افغان مجاہدین اور مہمان قرار دیا گیا۔ پھر یکایک حکومت پاکستان اور پاک آرمی نے ان ”مسلمانوں“ کے خلاف ”جہاد“ کیسے شروع کردیا۔ حکومت اور آرمی کی جانب سے ”پہل اور جنگی کاروائیاں“ تو ”تصدیق شدہ، غیر مشکوک اور صاف صاف واضح“ ہیں۔ کوئی عقل کا اندھا بھی قادیانی مشرف کی آرمی اور حکومت کی جنگی پہل سے انکار نہیں کرسکتا۔۔۔ ۔ جواباً جو بھی کاروائیاں طالبان سے منسوب ہیں، وہ ساری کی ساری اور سو فیصد تصدیق شدہ من جانب طالبان نہیں ہیں۔ اور اس بات کے ”شواہد“ موجود ہیں کہ ان کاروائیوں میں امریکی سی آئی اے، بھارتی راء اور افغان حکومت بھی ملوث ہے۔ بلیک واٹر کے سینکڑوں کارندے تو محض ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے ”پاکستان بدر “ کئے گئے تھے۔
  3. یہی بات آپ کو پاکستان حکومت اور پاکستان آرمی سے بھی کہنی چایئے تھی، جب وہ امریکہ کافر کے ساتھ مل کر مسلم افغانوں کے ساتھ کر رہی تھی۔ تب پاکستان کے ”سارے مسلمان“کہاں تھے اور خاموش کیوں تھے؟
  4. جہاد کشمیر اور فلسطین میں ہی نہیں افغانستان میں بھی ہورہا ہے۔ جب روس کے خلاف ہورہا تھا تو پاکستان کی حکومت اور عوام نے درست طریقہ سے افغان عوام کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن جب یہی جہاد افغانیوں پر امریکہ اور نیٹو نے مسلط کردیا تب پاکستانی حکومت، آرمی اور عوام نے ”یو ٹرن“ کس اسلامی رول کے تحت لیا۔ اب بھی پاکستانی حکومت اور آرمی کو اپنے اس عظیم گناہ کا کفارہ ادا کرتے ہوئے افغان مجاہدین کا ساتھ دینا چاہئے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہئے۔ بالخصوص جب کافر امریکہ اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے راہ فرار اختیار کررہا ہے۔ لیکن امریکی ایجنٹوں اور قادیانیوں کی ملی بھگت ہے کہ پاکستان آرمی اور حکومت اب بھی ان افغانیوں سے مصروف جنگ رہے اور لڑ لڑ کر اتنی کمزور ہوجائے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سمیت پاکستان کی سالمیت کو امریکی پلان کے مطابق نقصان پہنچایا جاسکے۔
  5. اگر آپ کی یاد داشت بہت کمزور بھی ہو تب بھی صرف بارہ تیرہ سال پہلے کی تاریخ کو آپ یوں ”مسخ“ کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے، ۔ پاکستانی ریاست کے خلاف افغان مہاجرین نے ”بغاوت“ نہیں کیا تھا بلکہ امریکہ بہادر کے کہنے پر ایک قادیانی آرمی چیف اور صدر نے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ ان پرتو زیادہ سے زیادہ الزام ”جوابی کاروائی“ کا لگ سکتا ہے۔ پاک حکومت اور آرمی اپنے کئے پر شرمندہ ہو، جس طرح ان کے خلاف جنگ کا آغاز خود کیا تھا، اسی طرح خود سیز فائر کر کے اس پر قائم رہنے کا ثبوت دے۔ گرفتار شدہ طالبان کو غیر مشروط رہا کرے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی حکومت یا آرمی کے خلاف کاروائی کرے تب ”بغاوت“ کا الزام لگایا جاسکتا ہے، ویسے نہیں

افغان "مجاہدین" کا آپ جتنا دفاع کرتے جائیے۔۔۔۔۔۔۔ کیا پاکستانی طالبان کے لیے بھی ُ ُ آپ اتنا ہی نرم گوشہ رکھتے ہیں؟؟
آپ کے بقول: جب آپ بلا کسی شرعی اور دنیوی جواز کے لوگوں کا اس طرح قتل عام کریں گے تو جواب میں کیا وہ پھول پیش کریں گے؟؟
تو کیا جرم کے مقابلے میں جرم اور گناہ کے مقابلے میں گناہ کیا جا سکتا ہے؟؟؟؟؟
بم دھماکوں، معصوم لوگوں کے قتل عام کے حوالے سے ُ آپ نے کوئی بات نہیں کی۔
میں بغاوت ان لوگوں کے بارے میں کہ رہا ہوں جو پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے کے باوجود پاکستان کی ریاست اور معصوم عوام کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
آپ پاکستان کے عوام سے ذرا پوچھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ان بدبختوں سے کتنا تنگ ہیں۔
اور یقینا پاک آرمی کو شرمندہ اس بات پر ضرور ہونی چاہیے کہ آستین کے ان سانپوں کو دودھ دے کر پالا تھا۔۔۔۔ لیکن ابھی یہ خود جوان ہوکر باغی ہو گئے ہیں۔
گرفتار شدہ طالبان کو بغیر شرط کے آزاد کرنے کی کیا وجہ ہے؟؟؟؟
واہ جی۔۔ عوام کو مارو، لوگوں کا امن، گھر، کاروبار، ہر چیز خراب کرو، ریاست کی رٹ کو چیلینج کرو، دھماکے کرو، خودکش کرو۔۔۔ اور پھر غیرمشروط آزاد بھی کرو۔۔
کیوں نا پاکستان کی ریاست ہی ان کے حوالہ نہ کیا جائے؟؟۔۔۔۔
پاک آرمی کو ان تمام ریاستی دشمنوں کے خلاف ایکشن کرنا چاہیے۔۔۔۔ اگر اسلحہ ڈال دیتے ہیں تو ٹھیک۔۔۔ نہیں تو چن چن کے مارنا چاہیے۔۔۔ جس طرح سے سوات کو ان دہشت گردوں سے پاک کیا تھا۔۔۔ قبائلی علاقوں کو ان وطن دشمن عناصر سے پاک کیا جائے۔
 

x boy

محفلین
یہ اپر چینی میں جو حملہ ہوا ہے یعنی تبلیغ والوں پر یہ تبلیغ والے تو کسی کو کچھ نہیں کہتے۔
ابھی بات منظر عام میں آگئی ہے کہ یہ ایران اور سوات کے دھشت گرد تنظیم کی مشترکہ کاروائی ہے
اس کو جھٹلانا ہے تو جھٹلادیں لیکن یہی حقیقت ہے
 
گفتگو کا آغاز جمیعت کی مبینہ ”دہشت گردی“ سے ہوا۔ جمیعت دہشت گردی میں ملوث ہے یا نہیں، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن ”جمیعت دشمنی“ میں پاکستانی کی تاریخ مسخ نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی جمیعت کی ”کاروائیوں“کی آڑ میں، امریکی منشا کے مطابق جہاد کو دہشت گردی، اور مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے۔
یعنی جو جہاد امریکی منشاء کے مطابق ہے، اسکو دہشت گردی اور ان مجاہدین کو دہشتگرد قرار نہیں دینا چاہئیے(حکیم اللہ محسود والا جہاد، لیبیا اور عراق سے تیل نکلوانے والا جہاد اور شام میں فوجیوں کے دل چبانے والے کاجہاد)۔۔۔البتہ جو جہاد امریکی منشاء کے مطابق نہ ہو، اسے دہشت گردی قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں(اسرائیل کے ساتھ لڑنے والے حزب اللہ، حماس وغیرہ کا جہاد)۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
انتہائی محترم یوسف-2

پہلے تو ہمیں دہشت گرد وں اور مجاہدین میں فرق کرنا ہوگا ۔ جس کی بنیاد یقیناً اُن کا عمل ہوگا ۔ کہ اُن کا نشانہ کون بن رہے ہیں اور اُن کی اعانت کون کر رہا ہے ۔ کون خرقہ پوش ہیں اور کون خلعت کے خواہاں،

مجاہدین اسلام کے لیے احترام ہم سب پر واجب ہے ۔

اب دیکھیں پاکستان میں جن حملوں اور دہشت گردی کو طالبان نے تسلیم کیا ہے اُن میں کون لوگ شہید ہوئے ۔ اِن کے نشانے اسلامی یونیورسٹی ، مساجد ، امامبارگاہیں خانقاہیں اور عبادت گاہیں ، بازار ، سکول ہی ہیں ۔ کیا اِن کو مجاہدین کا نام دے کر جذبہ جہاد ، اور مجاہدین کی توہین کے مرتکب نہیں ہورہے ۔ ؟ ان معصوموں اور بے قصور طالب علموں ، عبادت گزاروں کا کیا قصور تھا ؟ کیا یہی اُن کے دشمن تھے انہی کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ؟

اب دیکھتے ہیں اسلامی جمیعت کا کردار :

اسلامی جمیعت طلبا کے الشمس و البدر کے کردار کو اگر دیکھیں تو شائد یہ بات ناگوار گزرے اُس وقت اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی ۔ غاصبوں اور محکو موں کی جنگ تھی ۔ جس کے پس منظر میں مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومیاں تھیں ، ایسے میں الشمس و البدر کو وہاں کے مقامی باشندوں کا ساتھ دینا چا ہئیے تھا جنہوں نے بہار سے ہجرت پر اُن کی مدد کی تھی ۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج چالیس سال کے بعد بھی بہاری وہاں مہاجر کیمپ میں انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں ۔

اب ان کا کردار دیکھیں یونیورسٹیوں میں ماضی میں کراچی ، پنجاب اور پشاور یونیورسٹیوں میں انہوں نے کئی دفعہ غنڈہ گردی ، اساتذہ کی مار پیٹ ، اسلحہ ، کا ستعمال کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں زمین میں دفن کیے گے اسلحہ کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ آٹھ دس سال تو یونیورسٹی میں یہ مختلف کورسز کے بہانے اپنی لیڈری قائم کر لیتے ہیں ۔ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کی غنڈہ گردی کی مثالیں تو ہماری عمر کے لوگوں کو عام یاد ہیں ۔ ۱۹۶۸ میں ایوب خان کے خلاف کوہاٹ کالج کے جلسوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے مولاناجاوید ابراہیم پراچہ آیا کرتے تھے ۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے ۔ ۱۹۷۸ میں یہی صاحب پشاور یونیورسٹی سے ایک ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ایل ایل بی کر رہے تھے اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے ۔ ان غریب بچوں کو تعلیم کا اتنا شوق ، روزگار اور والدین کا سہارا بننے کی کوئی فکر نہیں کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے ۔ آج یہی جاوید ابراہیم پراچہ پاکستان میں قید غیر ملکی دہشت گردوں کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے سودا بازی میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ مولانا مفتی محمود کے ساتھ بھی رہے ، پھر الیکشن کے ٹکٹ کے لیے نواز شریف کے ساتھ مل گئے پھر جہاد افغانستان میں اسلحہ بھی خوب بیچا ۔ ان کا کوہاٹ میں ایک مدرسہ بھی ہے ، روئت ہلال سے لے پشاور یونیورسٹی میں ان کی دو نمبریوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ گواہ بھی ہوں ۔

اسی طرح طالبات میں ایک غریب معمار کی بیٹی بارہ سال تک یونیورسٹی ہی میں زیر تعلیم رہی وہ بھی اتفاق سے جمیعت کی سرگرم رکن ، میری ماشااللہ پانچ بہنوں نے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی مگر جنہوں نے ایم فل کیا اُن کو زیادہ سے زیادہ چار سال لگے ۔ تعلیم اخراجات ، ہاسٹل کے اخراجات اور سفری اخراجت برداشت سے باہر ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے مردانہ اور زنانہ ہاسٹلز پر اِ ن کا بھر پور قبضہ ہوتا ہے ۔ انتظامیہ میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ کیا یہ ایک انفرادی فعل کہا جاسکتا ہے ؟ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ کو جس دن اسلامی یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا تھا ۔ جمیعت کے بیشتر طلبا و طالبات یونیورسٹی نہیں آئے تھے ۔ میری بیٹی کی دو سہیلیاں جو آپس میں بہنیں تھیں نہیں آئیں تھیں ، اسی طرح دیگر طلبا اور جماعت کے بعض دوست نہیں آئے تھے ۔ حادثہ کے بعد کئی دن تک جمیعت کے طلبا منظر عام پر نہیں آئے

اور کئی واقعات ہیں جو کبھی زندگی نے مہلت دی اور ملاقات ہوئی تو سناوں گا علاوہ ازیں اگر ہم ماضی کے کارنماے دیکھیں تو کیا مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق جماعت تھی اُس کی بد عنوانیاں اور غلاظت کو معاف کی جاسکتا ہے ۔ کیا نعوذ باللہ شیطان کو صرف اس لیے ملعون نہ کہیں کہ کبھی وہ بھی مقرب خاص تھا

میری کسی بات کو پلیزمحسوس نہ کریں یہ میرا تجربہ تھا جو شئیر کیا اور مجھے محفلین سے جو نسبت ہوگئی ہے وہ ہمیشہ عزیز رہے گی


سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ

ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
 
انتہائی محترم یوسف-2

پہلے تو ہمیں دہشت گرد وں اور مجاہدین میں فرق کرنا ہوگا ۔ جس کی بنیاد یقیناً اُن کا عمل ہوگا ۔ کہ اُن کا نشانہ کون بن رہے ہیں اور اُن کی اعانت کون کر رہا ہے ۔ کون خرقہ پوش ہیں اور کون خلعت کے خواہاں،

مجاہدین اسلام کے لیے احترام ہم سب پر واجب ہے ۔

اب دیکھیں پاکستان میں جن حملوں اور دہشت گردی کو طالبان نے تسلیم کیا ہے اُن میں کون لوگ شہید ہوئے ۔ اِن کے نشانے اسلامی یونیورسٹی ، مساجد ، امامبارگاہیں خانقاہیں اور عبادت گاہیں ، بازار ، سکول ہی ہیں ۔ کیا اِن کو مجاہدین کا نام دے کر جذبہ جہاد ، اور مجاہدین کی توہین کے مرتکب نہیں ہورہے ۔ ؟ ان معصوموں اور بے قصور طالب علموں ، عبادت گزاروں کا کیا قصور تھا ؟ کیا یہی اُن کے دشمن تھے انہی کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ؟

اب دیکھتے ہیں اسلامی جمیعت کا کردار :

اسلامی جمیعت طلبا کے الشمس و البدر کے کردار کو اگر دیکھیں تو شائد یہ بات ناگوار گزرے اُس وقت اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی ۔ غاصبوں اور محکو موں کی جنگ تھی ۔ جس کے پس منظر میں مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومیاں تھیں ، ایسے میں الشمس و البدر کو وہاں کے مقامی باشندوں کا ساتھ دینا چا ہئیے تھا جنہوں نے بہار سے ہجرت پر اُن کی مدد کی تھی ۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج چالیس سال کے بعد بھی بہاری وہاں مہاجر کیمپ میں انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں ۔

اب ان کا کردار دیکھیں یونیورسٹیوں میں ماضی میں کراچی ، پنجاب اور پشاور یونیورسٹیوں میں انہوں نے کئی دفعہ غنڈہ گردی ، اساتذہ کی مار پیٹ ، اسلحہ ، کا ستعمال کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں زمین میں دفن کیے گے اسلحہ کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ آٹھ دس سال تو یونیورسٹی میں یہ مختلف کورسز کے بہانے اپنی لیڈری قائم کر لیتے ہیں ۔ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کی غنڈہ گردی کی مثالیں تو ہماری عمر کے لوگوں کو عام یاد ہیں ۔ ۱۹۶۸ میں ایوب خان کے خلاف کوہاٹ کالج کے جلسوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے مولاناجاوید ابراہیم پراچہ آیا کرتے تھے ۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے ۔ ۱۹۷۸ میں یہی صاحب پشاور یونیورسٹی سے ایک ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ایل ایل بی کر رہے تھے اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے ۔ ان غریب بچوں کو تعلیم کا اتنا شوق ، روزگار اور والدین کا سہارا بننے کی کوئی فکر نہیں کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے ۔ آج یہی جاوید ابراہیم پراچہ پاکستان میں قید غیر ملکی دہشت گردوں کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے سودا بازی میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ مولانا مفتی محمود کے ساتھ بھی رہے ، پھر الیکشن کے ٹکٹ کے لیے نواز شریف کے ساتھ مل گئے پھر جہاد افغانستان میں اسلحہ بھی خوب بیچا ۔ ان کا کوہاٹ میں ایک مدرسہ بھی ہے ، روئت ہلال سے لے پشاور یونیورسٹی میں ان کی دو نمبریوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ گواہ بھی ہوں ۔

اسی طرح طالبات میں ایک غریب معمار کی بیٹی بارہ سال تک یونیورسٹی ہی میں زیر تعلیم رہی وہ بھی اتفاق سے جمیعت کی سرگرم رکن ، میری ماشااللہ پانچ بہنوں نے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی مگر جنہوں نے ایم فل کیا اُن کو زیادہ سے زیادہ چار سال لگے ۔ تعلیم اخراجات ، ہاسٹل کے اخراجات اور سفری اخراجت برداشت سے باہر ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے مردانہ اور زنانہ ہاسٹلز پر اِ ن کا بھر پور قبضہ ہوتا ہے ۔ انتظامیہ میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ کیا یہ ایک انفرادی فعل کہا جاسکتا ہے ؟ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ کو جس دن اسلامی یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا تھا ۔ جمیعت کے بیشتر طلبا و طالبات یونیورسٹی نہیں آئے تھے ۔ میری بیٹی کی دو سہیلیاں جو آپس میں بہنیں تھیں نہیں آئیں تھیں ، اسی طرح دیگر طلبا اور جماعت کے بعض دوست نہیں آئے تھے ۔ حادثہ کے بعد کئی دن تک جمیعت کے طلبا منظر عام پر نہیں آئے

اور کئی واقعات ہیں جو کبھی زندگی نے مہلت دی اور ملاقات ہوئی تو سناوں گا علاوہ ازیں اگر ہم ماضی کے کارنماے دیکھیں تو کیا مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق جماعت تھی اُس کی بد عنوانیاں اور غلاظت کو معاف کی جاسکتا ہے ۔ کیا نعوذ باللہ شیطان کو صرف اس لیے ملعون نہ کہیں کہ کبھی وہ بھی مقرب خاص تھا

میری کسی بات کو پلیزمحسوس نہ کریں یہ میرا تجربہ تھا جو شئیر کیا اور مجھے محفلین سے جو نسبت ہوگئی ہے وہ ہمیشہ عزیز رہے گی


سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ

ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا
بہت عمدہ اور بہترین پوسٹ ہے۔۔۔۔
دیکھتی انکھوں سنتے کانوں اور سمجھنے والے دلوں کو طارق عزیز کا سلام ۔۔۔اور نیلام گھر میں بکنے والی دیگر اشیاء مع صم بکم عم قبیل کے کاٹھ کباڑ سے خدا کی پناہ۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
ہم پاکستانی (حکومت، فوج اور عوام تینوں) اتنے احسان فراموش ہیں کہ کل تک جن مجاہدین نے افغانستان کے جہاد کے ذریعہ پاکستان اور پاکستانیوں کو روسی ریچھ کے پاؤں تلے روندے جانے اور سویت یونین کا غلام ہونے سے بچایا تھا، آج انہی افغان مجاہدین کو کافر امریکہ بہادر کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے دہشت گرد قرار دے کر انہیں چُن چُن کر قتل کر تے رہے، امریکہ کو بیچ کر ڈالر کماتے رہے اور قرآن کی تعلیماتِ جہاد کا مذاق اڑاتے رہے۔ کل یہی جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلباء مشرقی پاکستان میں البدر اور الشمش کے نام پر متحدہ پاکستان کے لئے بھارت اور بھارتی ایجنٹوں سے فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے پاکستان آرمی کے افسر اور جوانوں کی جانیں بچا رہی تھی۔ اگر یہ وہاں ایسا نہ کرتی تو 95 ہزار پاکستانی فوجیوں میں سے آدھے بھی پاکستان زندہ نہ پہنچتے۔ تب کے ان 95 ہزار فوجیوں میں سے اب بھی بہت سے زندہ ہیں۔ ان سے اور ان کے اہل خانہ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اور جمیعت نے ان کے ساتھ کتنا بڑا احسان کیا تھا۔ یہی جمیعت اور جماعت جہاد افغانستان میں بھی پاکستان کی طرف سے فرنٹ لائن پر تھی اور اس پورے افغان جہاد میں اپنی جانوں کا نذرانہ اس طرح پیش کیا کہ پاکستان آرمی کا ایک قطرہ خون تک نہ بہا۔
لیکن ایک قادیانی آرمی چیف مشرف اور اس کے ہم خیال گروہ منافقین نے پاکستان کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی سزا دینے کے لئے امریکہ سے مل کر وہ جال بنا کہ پہلے ایک منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا۔ پھر پاکستان آرمی کو اُن افغان مجاہدین سے لڑوایا جو ان کی محسن تھی۔ انہیں ان کے بیوی بچوں سمیت بمباری، ڈرون حملوں اور آرمی آپریشن کے ذیعہ نیست و نابود کیا اور یوں افغان جہاد کے دوران ابھرنے والی ایک طاقتور ایٹمی پاور والی آرمی کا یہ حشر نشر ہوا کہ اس کے تاحال ہزاروں فوجی مارے گئے اور مسلسل مارے جارہے ہیں۔ اس کی فوجی چھاؤنیاں حتیٰ کہ جی ایچ کیو تک غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ کیا ہم عقل کے اندھے پاکستانیوں کو یہ نظر نہیں آرہا کہ کہ قادیانی مشرف ٹولہ نے پاکستان کو کہاں سے کہاں لاکھڑا کردیا ہے۔ ہمارا حشر نشر مزید خراب سے خراب تر ہوتا جائے گا اگر ہم نے اپنے اصل دشمنوں، قادیانیوں، امریکہ، اور بھارت کے عزائم کو نہ پہنچانا۔
اللہ ہم پاکستانیوں کو عقل سلیم دے۔ منکرین جہاد کو ایمان کی توفیق دے۔ اپنے محسن افغان مجاہدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور سابقہ محسن کشی کا کفارہ ادا کرنے کا موقع دے۔ تاکہ ہم اپنی دینا و آخرت دونوں بچا سکیں۔ وگرنہ ہماری دنیا تو خراب ہو ہی رہی ہے، امریکہ کافر کے ساتھ مل کر مسلم افغانیوں سے جنگ کرتے ہوئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہماری آنکھیں بند ہوں اور ہم اللہ کے حضور پہنچیں تو ہمارا حشر بھی انہی کفار کے ساتھ نہ ہو، جن کے ساتھ اور جن کے لئے ہم اپنے مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں۔
یوسف-2 صرف ایک سوال۔ کیا اللہ کا قانون ہمیں کسی بے گناہ کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر یہی "مجاہدین" کس چکر میں بچوں، عورتوں اور غیر مسلح شہریوں کو قتل کرتے ہیں؟ اگر اسی کا نام جہاد ہے تو بتائیے۔ ورنہ بے گناہ افراد کی جان لینے والے افراد کو قاتلوں اور ظالموں کا گروہ ماننا پڑے گا
یعنی اگر جہادی افراد کے خلاف حکومت کاروائی شروع کر دے تو انہیں یعنی ان جہادیوں کو اس بات کی کھلی اجازت مل جاتی ہے کہ وہ نہتے شہریوں کو روزانہ دسیوں یا سینکڑوں کی تعداد میں ہلاک کرتے پھریں اور پھر بھی عقل کے اندھے ہم ہی لوگ؟ اللہ کا فرمان یاد ہے نا کہ ایک بے گناہ انسان کی ہلاکت ساری بنی نوع انسان کی ہلاکت کے مترادف ہے؟
باقی رہی بات جہاں تک عقل کے اندھے لوگوں کی تو آپ یہ بتائیے کہ افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد جو ہوا، کیا وہ بھی جہاد ہے؟ اگر نہیں تو مان لیجیئے کہ عقل کے اندھے شاید آپ بھی ہیں کہ جماعت اور جمعیت کے حق میں اس قدر جوشیلے ہو چکے ہیں کہ سامنے کی بات دکھائی نہیں دے رہی
 

فلک شیر

محفلین
تمام اسلامی تنظیمیں دہشت گرد تنظیمیں ہیں، خاص کر جماعت اسلامی اور انکے چمچے جمیعت طلباء اسلام جنکے قادیانی مخالف فسادات کی وجہ سے شہر لاہور میں پہلی بار مارشل لا لگا اور افواج پاکستان کی سیاست میں آنے کی راہ ہموار ہو گئی!
http://en.wikipedia.org/wiki/1953_Lahore_riots

اگر ان دہشت گردوں کو 1953 میں ہی بے دخل کر دیا جاتا تو آج پاکستانی طالبان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی جیسی لعنتیں اس ملک کا پیچھا نہ کرتیں۔ جمیعت کے دہشت گرد قومی رہنما عمران خان کیساتھ مسلمانوں والا سلوک کرتے ہوئے:
sabeenn-imran-khan-and-islami-jamiat-talba.jpg

Imran-being-tortured-480x238.jpg

20071115_04.jpg

مولانا دہشت گرد مودودی کا گند 1953 میں صاف نہ کرنے کی سزا آج تک قوم کو مل رہی ہے۔
پہلی بات ایک بے دلیل دعوٰی ہے
دوسری بات آپ کا ذاتی خیال ہے.........اگر آپ قادیا نی ہیں تو بھلے رہیے، مگر عالم اسلام کے قادیانیوں سے متعلق اجتماعی متفقہ مؤقف سے آپ آگاہ ہیں اور اس تحریک ختم نبوت کو "قادیانی مخالف فسادات" کہہ دینے سے اس حقیقت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تیسری بات جو آپ نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ارشاد فرمائی ہے................اس سے آپ کی غیر متوازن شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں کبھی جماعت یا جمعیت کا رکن تو کیا رفیق بھی نہیں رہا۔ سید مودودی کی بہت سی علمی رایوں سے اختلاف بھی رکھتا ہوں، لیکن کیا اب سید جیسے آدمی کو دہشت گرد کہا جائے گا................نفیس، صاحب علم........مخلص اور ہمہ دم خیر کے لیے سرگرم عمل.......اور آپ نے جس قدر بازاری زبان مولانا کے متعلق استعمال کی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ نجابت تو بڑی چیز، آپ کو شرافت بھی چھو کر نہیں گزری۔ محفل جیسی جگہ پہ آپ جیسے لوگ اہل علم کو گالی دیں اور اس کو گوارا کیا جائے........حیرت ہے۔
جماعت اسلامی اور جمعیت کی پالیسیوں اور اعمال سے اختلاف اور ان پہ اعتراض کرنے کا حق ہر ذی شعور رکھتا ہے.........کہ علم دلیل پہ استوار ہوتا ہے..............لیکن اہل علم گالی، دشنام اور سوقیانہ حملوں سے کوسوں دور رہتے ہیں............
افسوس صد افسوس
اللہم نور قبور المسلمین برحمتک یا ارحم الراحمین
 

قیصرانی

لائبریرین
جماعت اسلامی اور جمعیت کی پالیسیوں اور اعمال سے اختلاف اور ان پہ اعتراض کرنے کا حق ہر ذی شعور رکھتا ہے.........کہ علم دلیل پہ استوار ہوتا ہے..............لیکن اہل علم گالی، دشنام اور سوقیانہ حملوں سے کوسوں دور رہتے ہیں............
سو فیصد متفق۔ جزاک اللہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محفل جیسی جگہ پہ آپ جیسے لوگ اہل علم کو گالی دیں اور اس کو گوارا کیا جائے........حیرت ہے۔
جماعت اسلامی اور جمعیت کی پالیسیوں اور اعمال سے اختلاف اور ان پہ اعتراض کرنے کا حق ہر ذی شعور رکھتا ہے.........کہ علم دلیل پہ استوار ہوتا ہے..............لیکن اہل علم گالی، دشنام اور سوقیانہ حملوں سے کوسوں دور رہتے ہیں............
افسوس صد افسوس
اللہم نور قبور المسلمین برحمتک یا ارحم الراحمین
بہت خوب۔۔۔ یہی وہ رویہ ہے جو محفل پر مذہب و سیاست کے زمرہ میں گفتگو کرنے والے عمومی لوگوں کا خاصہ ہے۔۔۔ جس نے نہ صرف محفل کی فضا کو متعفن کر رکھا ہے۔۔ بلکہ اخلاقیات و شائستگی کو بھی فطری لباس عطا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی۔۔۔
 

فلک شیر

محفلین
بہت خوب۔۔۔ یہی وہ رویہ ہے جو محفل پر مذہب و سیاست کے زمرہ میں گفتگو کرنے والے عمومی لوگوں کا خاصہ ہے۔۔۔ جس نے نہ صرف محفل کی فضا کو متعفن کر رکھا ہے۔۔ بلکہ اخلاقیات و شائستگی کو بھی فطری لباس عطا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی۔۔۔
درست فرمایا آپ نے نین!
نظریات سے ہر کسی کو قلبی لگاؤ ہوتا ہے..........لیکن کیا وہ تہذیبِ نفس ہی کے نشان راہ نہیں ہوتے .......یا کم از کم ان کا مطمح نظر ی یامقصودِ اصلی یہی نہیں ہوتا.........؟؟
اگر ایسا ہے تو ان کی بنیا د پہ بے وجہ غوغا کیسا؟
 

زبیر مرزا

محفلین
کراچی میں نیشنل کالج میں تو جمعیت کی غنڈہ گردی کا میں چشم دیدگواہ ہوں اور جمعیت کی برقعہ پوش ہماری ایک اسکول میں اُستانی جو
جامعہ کی طالبہ تھیں اسکول میں پڑھانے کے لیے آتی تو پرس میں پستول لے کے آتی تھیں جو ایک بار کچھ تلاش کرتے ہوئے کلاس روم میں
گراتو پستول سب سے پہلے باہرنکلی تھی :) وہ دن بھی یاد ہے جب نیشنل کالج میں کامرس سیکشن کی چھت پہ کھڑے جمعیت کے مجاہد نے ہمارے پیروں کی جانب
گولیاں برساکر کالج میں داخل ہونے سے روکنے کا نیک عمل سرانجام دیا تھا اور فرسٹ ائیر کے طالب علم ہراساں ہوکر کئی دن کالج جانے سے گھبراتے رہے
یا وہ واقعہ یاد کروں جب جمعیت کے خدائی فوجداروں نےسائیکالوجی کی کلاس میں آکے ہماری پروفیسرمسز اختر کو گالیاں دے کر اسلام کی خدمت سرانجام دی تھی
 

فلک شیر

محفلین
عمران خان کے خلاف جو کچھ ہوا..............انتہائی افسوس ناک اور بے حد قابل مذمت تھا..........
زبیر بھائی اور دیگر احباب نے جو قابل افسوس واقعات شریک کیے ہیں، ایسے لوگ جو کوئی بھی ہوں .........ان کا اسلام اور اس کے آفاقی پیغام سے کچھ بھی لینا دینا نہیں..........اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔
 
زبیر بھائی اور دیگر احباب نے جو قابل افسوس واقعات شریک کیے ہیں، ایسے لوگ جو کوئی بھی ہوں .........ان کا اسلام اور اس کے آفاقی پیغام سے کچھ بھی لینا دینا نہیں..........اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔
یہی ہوتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا کیوں ہے؟
جب تک ان مسائل کی جڑ پر توجہ نہ دی جائے گی اور اس بنیادی ٹیڑھی اینٹ کو سیدھا نہیں کیا جائے گا جس پر نام نہاد مفکرین نے اسلامی آئیڈیالوجی کی دیوار تعمیر کی ہے، آسمان تک یہ دیوار ٹیڑھی ہی بنے گی۔
 

فلک شیر

محفلین
یہی ہوتا ہے تو پھر ایسا ہی ہوتا کیوں ہے؟
جب تک ان مسائل کی جڑ پر توجہ نہ دی جائے گی اور اس بنیادی ٹیڑھی اینٹ کو سیدھا نہیں کیا جائے گا جس پر نام نہاد مفکرین نے اسلامی آئیڈیالوجی کی دیوار تعمیر کی ہے، آسمان تک یہ دیوار ٹیڑھی ہی بنے گی۔
غزنوی صاحب............سیاسی و فکری اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟
ایک گروہ کے معتقدین دوسرے گروہ ائمہ کی کتابوں کو ردی ، پوچ اور لچر لٹریچر بتلاتے ہیں.......دوسرے کے پہلے والوں کو........
قرآن و حدیث کو سب مانتے ہیں.........تعبیرات فرق ہیں........میری نظر میں اخلاص اگر کہیں ہے تو آپ کو اس کی قدر کرنا چاہیے........جیسا کہ درست اجتہاد والے شخص کو دو ہرا اجر اور غلط والے کو اکہرا اجر ملنے کا بتا یا گیا ہے۔ :)
 
غزنوی صاحب............سیاسی و فکری اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟
ایک گروہ کے معتقدین دوسرے گروہ ائمہ کی کتابوں کو ردی ، پوچ اور لچر لٹریچر بتلاتے ہیں.......دوسرے کے پہلے والوں کو........
قرآن و حدیث کو سب مانتے ہیں.........تعبیرات فرق ہیں........میری نظر میں اخلاص اگر کہیں ہے تو آپ کو اس کی قدر کرنا چاہیے........جیسا کہ درست اجتہاد والے شخص کو دو ہرا اجر اور غلط والے کو اکہرا اجر ملنے کا بتا یا گیا ہے۔ :)
بصد احترام عرض کروں گا کہ اخلاص تو خودکش حملہ کرنے والوں میں بھی بہت ہوتا ہے۔۔۔کیا اسکے اس عمل کو ہم اجتہادی غلطی کہیں گے؟ یا اسکو اس عمل پر اسلام کا نام لیکر ابھارنے والوں کا یہ جرم، اجتہادی غلطی کہلائےگی؟۔۔۔میرا خیال ہے کہ جہاں ایک طرف حق اور دوسری طرف بھی حق ہو تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے میں کی گئی غلطی کو اجتہادی غلطی کہا جاسکتا ہے لیکن جب ایک جانب حق اور ایک جانب باطل ہو تو وہاں اجتہادی غلطی نہیں کہیں گے۔
 

حسینی

محفلین
انتہائی محترم یوسف-2

۔
آج یہی جاوید ابراہیم پراچہ پاکستان میں قید غیر ملکی دہشت گردوں کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے سودا بازی میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ مولانا مفتی محمود کے ساتھ بھی رہے ، پھر الیکشن کے ٹکٹ کے لیے نواز شریف کے ساتھ مل گئے پھر جہاد افغانستان میں اسلحہ بھی خوب بیچا ۔ ان کا کوہاٹ میں ایک مدرسہ بھی ہے ، روئت ہلال سے لے پشاور یونیورسٹی میں ان کی دو نمبریوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ گواہ بھی ہوں ۔
۔
جی ہاں۔۔۔۔۔۔ قبلہ ہارون رشید کے بقول جاوید ابراہیم پراچہ حقیقت میں مولانا فضل الرحمن کا آدمی ہے۔۔۔۔ جو ذاتی مفادات کے لیے نون لیگ میں آیا ہوا ہے۔۔۔۔ لہذا نون لیگ کو اس آدمی سے بہت محتاط رہنا چاہیے۔۔۔۔
یہ وہی آدمی ہے جس نے "اچھا طالبان" اور "برا طالبان" کی اصطلاحیں وضع کی ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
درست فرمایا آپ نے نین!
نظریات سے ہر کسی کو قلبی لگاؤ ہوتا ہے..........لیکن کیا وہ تہذیبِ نفس ہی کے نشان راہ نہیں ہوتے .......یا کم از کم ان کا مطمح نظر ی یامقصودِ اصلی یہی نہیں ہوتا.........؟؟
اگر ایسا ہے تو ان کی بنیا د پہ بے وجہ غوغا کیسا؟
آہ۔۔۔۔
آنرا کہ خبر شُد۔ خبرش باز نیامد
 

فلک شیر

محفلین
بصد احترام عرض کروں گا کہ اخلاص تو خودکش حملہ کرنے والوں میں بھی بہت ہوتا ہے۔۔۔ کیا اسکے اس عمل کو ہم اجتہادی غلطی کہیں گے؟ یا اسکو اس عمل پر اسلام کا نام لیکر ابھارنے والوں کا یہ جرم، اجتہادی غلطی کہلائےگی؟۔۔۔ میرا خیال ہے کہ جہاں ایک طرف حق اور دوسری طرف بھی حق ہو تو ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے میں کی گئی غلطی کو اجتہادی غلطی کہا جاسکتا ہے لیکن جب ایک جانب حق اور ایک جانب باطل ہو تو وہاں اجتہادی غلطی نہیں کہیں گے۔
مجھے آپ کے استدلال سے اتفاق ہے.........لیکن اس دھاگے میں جس علمی شخصیت سید ابو الاعلٰی مودودی کا تذکرہ ہے، میرے علم کے مطابق تو وہ اسلامی ریاست میں کسی بھی خفیہ کارروائیوں کے خلاف تھے........اور کسی انسان کا قتل .........جیسا کہ خود کُش حملہ آور کرتے ہیں، میرے خیال میں تو اس کے کسی صورت حامی نہ تھے............
دوسری بات یہ ہے محترم غزنوی صاحب! کہ دین کا صحیح فہم رکھنے کے بے شمار دعویدار ہیں.........ان میں سے کوئی بھی خود کو غیرِحق ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہوتا۔ کیا صورت ہے کہ فی زمانہ مسلمان کسی minimum common groundپہ ہی اکٹھے ہو جائیں۔ اس کے لیے کچھ حوصلہ اور سننے کو تیار رہنا لازم ہے، میرے خیال میں...........
اہل سنت والجماعۃ مشاجرات صحابہ کے معاملہ میں دونوں طرف حق مانتے ہیں........اور یہ میرا پختہ عقیدہ ہے الحمدللہ............تو کیا یہ ممکن ہے کہ فی زمانہ بھی مخلص علماء کے افکار و آراء کے بارے میں یہی رویہ رکھا جائے...........جیسا کہ شریعت و طریقت کے بہت سے جید علماء و شیوخ کے بہت سے معاملات کی توجیہ بیان کی جاتی ہے...............:)
 
Top