کیا اسلامی جمیعت طلبا دہشت گرد تنظیم ہے؟

حسینی

محفلین
مجھے آپ کے استدلال سے اتفاق ہے.........لیکن اس دھاگے میں جس علمی شخصیت سید ابو الاعلٰی مودودی کا تذکرہ ہے، میرے علم کے مطابق تو وہ اسلامی ریاست میں کسی بھی خفیہ کارروائیوں کے خلاف تھے........اور کسی انسان کا قتل .........جیسا کہ خود کُش حملہ آور کرتے ہیں، میرے خیال میں تو اس کے کسی صورت حامی نہ تھے............
دوسری بات یہ ہے محترم غزنوی صاحب! کہ دین کا صحیح فہم رکھنے کے بے شمار دعویدار ہیں.........ان میں سے کوئی بھی خود کو غیرِحق ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہوتا۔ کیا صورت ہے کہ فی زمانہ مسلمان کسی minimum common groundپہ ہی اکٹھے ہو جائیں۔ اس کے لیے کچھ حوصلہ اور سننے کو تیار رہنا لازم ہے، میرے خیال میں...........
اہل سنت والجماعۃ مشاجرات صحابہ کے معاملہ میں دونوں طرف حق مانتے ہیں........اور یہ میرا پختہ عقیدہ ہے الحمدللہ............تو کیا یہ ممکن ہے کہ فی زمانہ بھی مخلص علماء کے افکار و آراء کے بارے میں یہی رویہ رکھا جائے...........جیسا کہ شریعت و طریقت کے بہت سے جید علماء و شیوخ کے بہت سے معاملات کی توجیہ بیان کی جاتی ہے...............:)

جماعت اسلامی اب وہ سید ابو الاعلی مودودی کے نظریات بلکہ خود حافظ حسین احمد کے بھی نظریات سے بھی بہت حد تک ہٹ چکی ہے۔۔
منور حسن صاحب ان دونوں کے مقابلے میں متشدد واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔

مشاجرات صحابہ ہو یا مشاجرات علماء اجتہاد وہاں جائز اور نافذ ہوتا ہے جہاں نص صریح نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ جس چیز کے بارے قرآن یا روایات متواترہ میں نص صریح موجود ہو وہاں اجتہاد کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔
 
مجھے آپ کے استدلال سے اتفاق ہے.........لیکن اس دھاگے میں جس علمی شخصیت سید ابو الاعلٰی مودودی کا تذکرہ ہے، میرے علم کے مطابق تو وہ اسلامی ریاست میں کسی بھی خفیہ کارروائیوں کے خلاف تھے........اور کسی انسان کا قتل .........جیسا کہ خود کُش حملہ آور کرتے ہیں، میرے خیال میں تو اس کے کسی صورت حامی نہ تھے............
دوسری بات یہ ہے محترم غزنوی صاحب! کہ دین کا صحیح فہم رکھنے کے بے شمار دعویدار ہیں.........ان میں سے کوئی بھی خود کو غیرِحق ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہوتا۔ کیا صورت ہے کہ فی زمانہ مسلمان کسی minimum common groundپہ ہی اکٹھے ہو جائیں۔ اس کے لیے کچھ حوصلہ اور سننے کو تیار رہنا لازم ہے، میرے خیال میں...........
اہل سنت والجماعۃ مشاجرات صحابہ کے معاملہ میں دونوں طرف حق مانتے ہیں........اور یہ میرا پختہ عقیدہ ہے الحمدللہ............تو کیا یہ ممکن ہے کہ فی زمانہ بھی مخلص علماء کے افکار و آراء کے بارے میں یہی رویہ رکھا جائے...........جیسا کہ شریعت و طریقت کے بہت سے جید علماء و شیوخ کے بہت سے معاملات کی توجیہ بیان کی جاتی ہے...............:)
آپ بہت general بات کر رہے ہیں۔۔عمومی طور پر ایسا ہی رویہ رکھنا چاہئیے جیسا آپ نے ذکر کیا، لیکن جب ہم کسی مسئلے کو ایڈریس کریں تو پھر اسے خصوصی اور کماحقہ توجہ دینا چاہئیے اور ہر شئے کو اسکے مناسب مقام پر رکھنا چاہئیے۔۔۔بقول اقبال؛
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ
یہاں مشاجرات ِ صحابہ پر تو گفتگو نہیں ہورہی، میری بات جمعیت والوں کی نظریاتی اساس کے تناظر میں تھی۔
 
آخری تدوین:

یوسف-2

محفلین
انتہائی محترم یوسف-2

پہلے تو ہمیں دہشت گرد وں اور مجاہدین میں فرق کرنا ہوگا ۔ جس کی بنیاد یقیناً اُن کا عمل ہوگا ۔ کہ اُن کا نشانہ کون بن رہے ہیں اور اُن کی اعانت کون کر رہا ہے ۔ کون خرقہ پوش ہیں اور کون خلعت کے خواہاں،مجاہدین اسلام کے لیے احترام ہم سب پر واجب ہے ۔

آپ کی بات درست سہی لیکن یہ نہ بھولئے کہ کہ مجاہدین کو ”دہشت گرد“ کس نے بنایا۔ آپ کی نظر صرف ”رد عمل“ ہے، اسی لئے تصویر کا مکمل رخ نظر نہیں آرہا۔ اب میں اپنی بات کو بار بار دہرانے سے تو رہا کہ جن مجاہدین کے ساتھ حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی سویت یونین کے خلاف جہاد کررہی تھی۔ ایک قادیانی آرمی جنرل اور فوجی حکمران کے آتے ہی انہیں مجاہدین کو ان کے اہل کانہ سمیت مار مار کر انہیں ”بدلہ کی جنگ“ میں کس نے دھکیلا۔۔۔

اب دیکھیں پاکستان میں جن حملوں اور دہشت گردی کو طالبان نے تسلیم کیا ہے اُن میں کون لوگ شہید ہوئے ۔ اِن کے نشانے اسلامی یونیورسٹی ، مساجد ، امامبارگاہیں خانقاہیں اور عبادت گاہیں ، بازار ، سکول ہی ہیں ۔ کیا اِن کو مجاہدین کا نام دے کر جذبہ جہاد ، اور مجاہدین کی توہین کے مرتکب نہیں ہورہے ۔ ؟ ان معصوموں اور بے قصور طالب علموں ، عبادت گزاروں کا کیا قصور تھا ؟ کیا یہی اُن کے دشمن تھے انہی کے خلاف جہاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ؟
اگر آپ طالبان کلے نام پر دہشت گردی کی کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی بات کررہے ہیں تو آپ ان نکات پر سنجیدگی سے غور کیجئے
  1. ایسی بیشتر ”قبولیت“ کا اعلان غیر ملکی نیوز ایجنسیز کی جاریکردہ ہوتی ہیں، جن کا مفاد نیٹو کے ساتھ ہے، جو افغانستان اور پاکستان کو تباہ و برباد کرنے آئی ہیں۔ پاکستانی سرزمین پر ہونے والے حادثات کی خبر پاکستانی میڈیا نہیں دے رہا (یا انہیں ایسا نہیں کرنے دیا جارہا)۔ ہم دشمن کی فراہم کردہ خبروں پر کیسے یقین کرلیں۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے گھر، عورتیں اور بچے پاکستانی سر زمین پر ہوتے ہیں، لیکن پاک میڈیا ان کی بھی صرف اسکور دیتا ہے، ویسی مساویانہ، حقیقت پسندانہ کوریج کیوں نہیں کرتا جیسی ”ردعمل والی کاروائیوں“ کی کرتا ہے۔ لہٰذا جن خبروں پر آپ تکیہ کرتے ہیں، ان کی ”حقیقت“ ہی سے نا آشنا ہیں۔
اب دیکھتے ہیں اسلامی جمیعت کا کردار :اسلامی جمیعت طلبا کے الشمس و البدر کے کردار کو اگر دیکھیں تو شائد یہ بات ناگوار گزرے اُس وقت اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی ۔ غاصبوں اور محکو موں کی جنگ تھی ۔ جس کے پس منظر میں مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومیاں تھیں ، ایسے میں الشمس و البدر کو وہاں کے مقامی باشندوں کا ساتھ دینا چا ہئیے تھا جنہوں نے بہار سے ہجرت پر اُن کی مدد کی تھی ۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج چالیس سال کے بعد بھی بہاری وہاں مہاجر کیمپ میں انتہائی نا گفتہ بہ حالت میں رہ رہے ہیں ۔
  1. بھارتی مکتی باہنی کے نام پر انڈین فوج جو مشرقی پاکستان کے مسلمانوں، محب وطن پاکستانیوں اور پاک آرمی کا قتل عام کررہی تھی، یہ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی؟۔
  2. البدر اور الشمش کو مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاک آرمی کا قتل عام کرنا چاہئے تھا ؟ جو سراسر اسلامی ہوتا کہ یہ غاصب پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف حقوق کی جنگ تھی، بہت خوب
  3. آپ کا ” قیمتی مشورہ“ اہل کراچی اور اہل بلوچستان نے ’نوٹ‘ کرلیا ہے۔ یہاں بھی ”حقوق کی جنگ“ جاری ہے۔ اور آپ کے مشوروں کے عین مطابق آزاد ریاست جناح پور کے قیام کی خاطر ”مہاجر آرمی“ کراچی میں موجود تمام ”غیر مہاجر غاصبوں“ کا قتل عام کرکے اپنا حق وصول کرلیں تو کل آپ یا آپ کے بچوں کی طرف سے کوئی ”شکایت“ نہیں آئے گی نا؟
  4. پھر تو بلوچستان میں بی ایل اے بھی ”پنجابی غاصبوں“ کا قتل عام ٹھیک ہی کر رہے ہوں گے، آپ کے فلسفہ کی روشنی میں۔
اللہ معاف کرے، ایسی دانشوری سے۔

اب ان کا کردار دیکھیں یونیورسٹیوں میں ماضی میں کراچی ، پنجاب اور پشاور یونیورسٹیوں میں انہوں نے کئی دفعہ غنڈہ گردی ، اساتذہ کی مار پیٹ ، اسلحہ ، کا ستعمال کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں زمین میں دفن کیے گے اسلحہ کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ آٹھ دس سال تو یونیورسٹی میں یہ مختلف کورسز کے بہانے اپنی لیڈری قائم کر لیتے ہیں ۔ لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کی غنڈہ گردی کی مثالیں تو ہماری عمر کے لوگوں کو عام یاد ہیں ۔ ۱۹۶۸ میں ایوب خان کے خلاف کوہاٹ کالج کے جلسوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے مولاناجاوید ابراہیم پراچہ آیا کرتے تھے ۔ اُس وقت وہ ایم اے کے طالب علم تھے ۔ ۱۹۷۸ میں یہی صاحب پشاور یونیورسٹی سے ایک ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ایل ایل بی کر رہے تھے اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے ۔ ان غریب بچوں کو تعلیم کا اتنا شوق ، روزگار اور والدین کا سہارا بننے کی کوئی فکر نہیں کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے ۔ آج یہی جاوید ابراہیم پراچہ پاکستان میں قید غیر ملکی دہشت گردوں کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان سے سودا بازی میں مصروف عمل ہیں ۔ یہ مولانا مفتی محمود کے ساتھ بھی رہے ، پھر الیکشن کے ٹکٹ کے لیے نواز شریف کے ساتھ مل گئے پھر جہاد افغانستان میں اسلحہ بھی خوب بیچا ۔ ان کا کوہاٹ میں ایک مدرسہ بھی ہے ، روئت ہلال سے لے پشاور یونیورسٹی میں ان کی دو نمبریوں سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ گواہ بھی ہوں ۔
ان الزامات کا جواب جمیعت اور جماعت والوں کے ذمہ ہے۔ میں ان کا کوئی وکیل نہیں۔ میں تو محض پاکستانی تاریخ اور صحافت کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں۔ اگر کہیں کوئی ”واقعاتی یا نظریاتی بددیانتی“ نظر آئے تو اس کا جواب دیتا ہوں، ایک مسلمان محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے۔ پاکستانی کی ہر سیاسی جماعت اور گروہ میں کم و بیش خامیاں ضرور ہوتی ہیں۔ لیکن جو جماعتیں ملک دشمنی میں کفار کی قوتوں کا ساتھ دیں، پاکستان کی اسلامی شناخت کو مٹانے کے درپے ہوں،ان کا موازنہ محب وطن جماعتوں کی ”مبینہ خامیوں“ سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح طالبات میں ایک غریب معمار کی بیٹی بارہ سال تک یونیورسٹی ہی میں زیر تعلیم رہی وہ بھی اتفاق سے جمیعت کی سرگرم رکن ، میری ماشااللہ پانچ بہنوں نے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی مگر جنہوں نے ایم فل کیا اُن کو زیادہ سے زیادہ چار سال لگے ۔ تعلیم اخراجات ، ہاسٹل کے اخراجات اور سفری اخراجت برداشت سے باہر ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے مردانہ اور زنانہ ہاسٹلز پر اِ ن کا بھر پور قبضہ ہوتا ہے ۔ انتظامیہ میں ان کا عمل دخل ہوتا ہے ۔ کیا یہ ایک انفرادی فعل کہا جاسکتا ہے ؟ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ کو جس دن اسلامی یونیورسٹی میں دھماکہ ہوا تھا ۔ جمیعت کے بیشتر طلبا و طالبات یونیورسٹی نہیں آئے تھے ۔ میری بیٹی کی دو سہیلیاں جو آپس میں بہنیں تھیں نہیں آئیں تھیں ، اسی طرح دیگر طلبا اور جماعت کے بعض دوست نہیں آئے تھے ۔ حادثہ کے بعد کئی دن تک جمیعت کے طلبا منظر عام پر نہیں آئے۔ اور کئی واقعات ہیں جو کبھی زندگی نے مہلت دی اور ملاقات ہوئی تو سناوں گا علاوہ ازیں اگر ہم ماضی کے کارنماے دیکھیں تو کیا مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق جماعت تھی اُس کی بد عنوانیاں اور غلاظت کو معاف کی جاسکتا ہے ۔

اس میں کوئی ایسی سنجیدہ بات نہیں جس کا تجزیہ کیا جائے

کیا نعوذ باللہ شیطان کو صرف اس لیے ملعون نہ کہیں کہ کبھی وہ بھی مقرب خاص تھا
آج کا شیطان اعظم امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔ جو عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا کر اب پاکستان کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے قادیانی اور گروہ منافقین ان کے ہمدرد و خیر خوہ ہیں، جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے افغانستان سے جانے کے بعد مسلم گروہ ایک دوسرے کا قتل عام کرتے رہیں۔ اسی لئے اس نے 19 ہزار ”مسنگ“ اسلحہ کنٹینرز کے ذریعہ اسلحہ پشاور سے کراچی تک ہر گروہ کو مفت فراہم کردیا ہے۔ مشرف اور زرداری ادوار کے بعد پہلی مرتبہ نواز حکومت نے امریکہ کی جنگ سے باہر نکلنے کے لئے آل پارٹیز کی ”حمایت“ بھی حاصل کی لیکن پاکستان دشن اندرونی و بیرونی طاقتوں کو یہ گوارا نہیں کہ امن کے لئے مذاکرات کئے جائیں۔ لہٰذا یہ قوتیں طالبان کے نام پر ایسی کاروائیاں کرتے رہیں گے اور ”جواباً“ پاک آرمی ان سے جنگ کر کرکے تباہ و برباد ہوتی رہے گی۔ یہی پاکستان دشمنوں کا خواب ہے۔

میری کسی بات کو پلیزمحسوس نہ کریں یہ میرا تجربہ تھا جو شئیر کیا اور مجھے محفلین سے جو نسبت ہوگئی ہے وہ ہمیشہ عزیز رہے گی
سر جی! میں اس محفل میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں، لہٰذا آپ کی کسی بات کو ”محسوس“ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی درخواست میری طرف سے بھی ہے۔ سدا خوش رہئے
 
آخری تدوین:

یوسف-2

محفلین
یوسف-2 صرف ایک سوال۔ کیا اللہ کا قانون ہمیں کسی بے گناہ کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
قیصرانی بھائی!
  1. اللہ کا قانون ہمیں کسی بے گناہ کی جان لینے کی اجازات ہرگز نہیں دیتا۔
  2. یہی بات پاکستان آرمی اور پاکستانی حکومت کو بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ ایک قادیانی مشرف کے ”ماتحت“ نہیں ہیں۔ اس عہد میں ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز کے ذریعہ پاکستان میں مقیم افغانیوں اور ان کے حامیوں کو بے گناہ اور بلاجواز شرعی عورتوں اور بچوں سمیت قتل کرتے رہے اور کفار کو مطلوب افراد کو بیچ کر ڈالر کماتے رہے۔ اب یہ غیر شرعی حرکت مکمل طور پر بند کردیں تاکہ ”جوابی کروائیوں“ کا کوئی ”جواز“ نہ رہے۔
  3. جب تک حکومت اور آرمی اپنی طرف سے آغاز کردہ ظلم عظیم کو بند نہیں کردیتی، یہ خانہ جنگی جاری رہے گی۔ اور خانہ جنگی کو ہوا دینے میں امریکی سی آئی اے، بھارتی راء، ایرانی و افغانی ایجنسیاں بھی ملوث ہیں۔ ان کے ایجنٹس پکڑے بھی گئے اور کاموشی سے چھوڑے بھی جاتے رہے۔ طالبان کے نام پر یہ لوگ بھی بلا واسطہ اور بالواسطہ ایسی کاروائیاں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ایک ریمنڈ دیوس گیا ہے، پیچھ اس کی وہ ”فوج“ باقی ہے، جو مشرف دور میں یہاں بلا روک ٹوک آئی تھی۔
  4. پاکستان آرمی اور حکومت یہ جنگ بند کرے اور اپنی ریاست میں مجمرمانہ کاروائیاں کرنے والوں کو پکڑ کر ان کا عدالتی ترائل کرے اور ثابت شدہ مجرموں کو پھانسی دے۔ پہلے خود بے گناہوں کا قتل عام بند کرے پھر ایسا کرنے والوں کو عدالتی سزا دلوائے، ریاستی ادارے ماورائے قانون اقدامات نہیں کیا کرتیں
 

فلک شیر

محفلین
جماعت اسلامی اب وہ سید ابو الاعلی مودودی کے نظریات بلکہ خود حافظ حسین احمد کے بھی نظریات سے بھی بہت حد تک ہٹ چکی ہے۔۔
منور حسن صاحب ان دونوں کے مقابلے میں متشدد واقع ہوئے ہیں۔۔۔ ۔

مشاجرات صحابہ ہو یا مشاجرات علماء اجتہاد وہاں جائز اور نافذ ہوتا ہے جہاں نص صریح نہ ہو۔۔۔ ۔۔۔ ۔ جس چیز کے بارے قرآن یا روایات متواترہ میں نص صریح موجود ہو وہاں اجتہاد کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔
حافظ حسین احمد سے جماعت کا کیا لینا دینا ہے محترم؟
مشاجرات صحابہ میں نص کا کیا مطلب ہے آپ کا؟
اور اس معاملہ میں سے نکلنے والا کچھ نہیں.........ایک گروہ کی روایات متواترہ دوسرے کے نزدیک جھوٹ کا پلندہ اور vice versa
بلکہ امت کے ایک بڑے حصے کے ہاں دوسرے گروہ کے کسی فرد کا حدیث کی سند میں موجود ہونا ہی اس حدیث و روایت کو مردود بنانے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے......:)
بحث برائے بحث کا میں قائل نہیں.........عرض یہ کر رہا تھا کہ طعن و تشنیع اور گالی پھکڑ سے پرہیز کرتے ہوئے مثبت علمی نقد و جرح کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے مگر تہذیب کے دائرے میں رہتےہوئے.......
 

یوسف-2

محفلین
p2_22.jpg
 
اگر آپ کو یاد ہو؟ کوئی چار برس پہلے اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں ایک ہی دن میں دو خودکش حملے ہوئے تھے‘ جن میں چھ طلبا و طالبات جاں بحق اور سینتیس زخمی ہوئے۔ پہلا دھماکا فیکلٹی آف شریعہ کے چیرمین کے دفتر کے باہر ہوا اور دوسرا دھماکا طالبات کی کینٹین کے دروازے پر اس وقت ہوا جب کینٹین میں پچاس کے لگ بھگ طالبات موجود تھیں۔ مگر ایک خاکروب خودکش حملہ آور سے لپٹ گیا اور اسے گرا لیا اور اسے کینٹین کے اندر جانے نہیں دیا اور خود امر ہو گیا۔ اگلے روز ایک بڑے ٹی وی چینل کی ٹیم ہمارے ہیرو کے گھر گئی۔ اس کے اہلِ خانہ کی افسردگی ریکارڈ کی اور اپنے مرکزی خبری بلیٹن میں رپورٹ نشر کی۔ اس رپورٹ کا آخری جملہ مجھے قبر تک یاد رہے گا۔

’’اگرچہ پرویز مسیح کا تعلق مسیحی برادری سے تھا مگر اس نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے جان کی قربانی دے کر اسلامک یونیورسٹی کی طالبات کو ایک بہت بڑے ممکنہ جانی نقصان سے بچا لیا۔‘‘

اس جملے میں لفظ ’’مگر‘‘ آج بھی دل میں تیر کی طرح پیوست ہے۔ مگر بیچاری بیس پچیس سال کی رپورٹر کا بھی کیا قصور۔ اسے تو گھر میں اور باہر شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد سے مسلسل یہی سننے کو ملا ہو گا نہ کہ صرف ایک مسلمان ہی سچا محبِ وطن ہو سکتا ہے۔ اقلیتیں تو صرف قومی جہیز میں ملی ہیں لہٰذا ان کی حیثیت بھی جہیز کے لوٹے کی سی ہے۔ وہ بھاری لوٹا جو کسی کام کا نہیں ہوتا اور کونے میں پڑا رہتا ہے۔

اور یہی وہ ذہنیت ہے جو بائیس ستمبر کو دیکھنے میں آئی۔ ایک چینل کے خبری بلیٹن میں یہ سرخی جھوم رہی تھی۔

’’ صفائی کرنے والوں کا صفایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا کیا کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔اب وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کا امیج بہتر ہو جائے گا جن کے دورِ حکومت میں سینٹری ورکرز کی خالی آسامیوں کے سرکاری اشتہار میں وضاحت کی گئی تھی کہ صرف غیر مسلم اپلائی کریں۔

حملہ آور جو بھی تھا جہاں سے بھی آیا تھا، یہ بات بے معنی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ فضا اور زمین جب ببول کی کاشت کے لیے سازگار ہو تو پھر اس بات پر کیا چیخنا کہ ببول میں کتنے کانٹے؟ اگر کوئی فرق ہے تو بس یہ کہ دو حملہ آوروں نے بارودی جیکٹ پہن رکھی تھی اور باقیوں کی جیکٹ میں نفرت، تعصب، مصلحت، خاموشی، منافقت اور بے حسی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ اگر کوئی عملاً نہیں تو زبان سے ساتھ دے رہا ہے۔ اگر کوئی زبان سے حمایت کرنا پسند نہیں کرتا تو خاموش حمایتی ہے۔ اگر کوئی خاموش حمایتی نہیں تو اس کو اپنے سوا کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ ہم میں سے جو جو بھی ان کیٹگریز میں نہیں آتے وہ پلیز اپنا ہاتھ بلند کریں تاکہ نظر آئیں۔

شائد آپ کو دو ہزار تین کی جنگِ عراق یاد ہو۔ اس جنگ کو رکوانے کے لیے صرف ایک دن میں سان فرانسسکو سے سڈنی تک ڈیڑھ کروڑ انسان سڑک پر نعرے لگا رہے تھے کہ عراق پر ممکنہ حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لندن میں پندرہ لاکھ افراد کا جلوس نکلا تھا۔ جس میں ہر تیسرے مرد، عورت اور بچے کے ہاتھ میں بش اور ٹونی بلئیر کے خلاف پلے کارڈز تھے۔ میں نے جلوس میں شامل ایک ماں سے پوچھا تھا کہ تم کیوں اپنے چار پانچ سال کے بچے کو فروری کی سردی میں سڑک پر کارڈ تھما کر پیدل چلوا رہی ہو۔ کہنے لگی جب یہ بچہ نہیں رہے گا تب اسے آج کا دن کچھ ذمے داریاں یاد دلائے گا۔ میں نے پوچھا مگر عراقی تو مسلمان ہیں۔ کہنے لگی انسان بھی تو ہیں…

اچھی بات ہے کہ جب سنی مرتے ہیں تو بس سنی نوجوان جلوس نکالتے اور ٹائر جلاتے ہیں۔ جب شیعہ مرتے ہیں تو بس شیعہ لوگ سڑکوں پر احتجاجی دھرنا دیتے ہیں۔ جب ہزارہ مرتے ہیں تو ایک ہفتہ نقطہِ انجماد میں ہزارہ ہی لاشوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب احمدی مرتے ہیں تو تدفین کے وقت وہی ایک دوسرے کے گلے لگ کے روتے ہیں۔ جب کرسچن مرتے ہیں تو محض مشن اسکول تین دن کے سوگ میں بند ہوتے ہیں۔ باقی محض سائیکلو اسٹائل تعزیتی بیانات کے ذریعے مرنے والے سنیوں، شیعوں، احمدیوں اور عیسائیوں کے دکھ میں ’’برابر‘‘ کے شریک ہوتے ہیں اور پھر ’’ہور سناؤ کی حال چال اے۔ بچے کیسے نیں‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔

کتنے عجیب ہیں ہم سب۔ جو فلسطینیوں کے المیے پر پی ایل او سے زیادہ حساس ہیں۔ جو برما کے مسلمانوں کے غم میں ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔ جو شام کے المیے پر سینے میں پھانس سی محسوس کرتے ہیں۔ جو قاہرہ کے قتلِ عام پر سکتے میں آجاتے ہیں۔ جنھیں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں۔ جنھیں بھارتی مسلمانوں کی زبوں حالی بے کل رکھتی ہے۔ جنھیں چیچنیا کا حال تڑپا تڑپا دیتا ہے۔ جہاں آج بھی مساجد میں اریٹیریا کی آزادی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں (حالانکہ اریٹیریا کو آزاد ہوئے اب برسوں ہو چکے ہیں)۔ مگر کتنوں کو یہ پوچھنا یاد ہے کہ گوجرہ کی عیسائی بستی پر اگست دو ہزار نو میں جو گذری اس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی۔ مئی دو ہزار دس میں لاہور میں دو احمدی عبادت گاہوں میں چوارنوے افراد کو مارنے والے اب کس جیل میں ہیں؟ کوئٹہ کے ہزاروں کا شکار کرنے والے کہاں سے آتے اور کہاں جاتے ہیں؟ شاہراہ قراقرم پر بسوں سے اتار کر شیعہ مسافروں کو لٹا کر مار دینے والے کن پہاڑوں میں چھپ گئے۔ دیامیر کے پہاڑوں میں دس غیرملکی کوہ پیماؤں کو ہلاک کرنے والے کتنے پکڑ لیے گئے؟

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوہاٹی گیٹ پر حملے میں کتنے زندہ بچ گئے۔ ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ خوجہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔

کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔

کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹس رہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔

کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟ اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔ اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔ جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تو احمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ اس خالص نصاب نے ان لوگوں کو پیدا کیا جن لوگوں نے ان لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جن کے غم میں ہم ہر دوسرے تیسرے روز ’’برابر‘‘ کے شریک ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آئینِ پاکستان میں سب برابر کے شہری ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ و تعالی عنہہ سے یہ قول منسوب ہے کہ جب تم ایک انگلی دوسرے کی طرف اٹھاتے ہو تو اسی ہاتھ کی تین انگلیاں تمہاری جانب اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا طالبان اور ان کے ہم نواؤں پر انگلی اٹھاتے ہوئے اپنی تین انگلیاں بھی دیکھ لیجیے گا۔ بہت مہربانی۔۔۔۔۔۔۔
http://www.express.pk/story/178437/
 

ظفری

لائبریرین
یہاں اتنی باتیں ہوگئیں اور مجھے معلوم بھی نہ ہوا ۔۔۔۔ خیر سوال یہ ہے کہ " اسلامی جمعیت طلباء دہشت گرد ہے ۔ ؟ "
تو میرا جواب ہے کہ "ہاں ۔۔۔۔ اس سےپہلےکوئی بھی طلباء کی جمعیت تاریخ میں اتنی دہشت گرد ثابت نہیں ہوئی ۔ "
انہوں نے خود اپنے امیر مولانا موددی کے نظریات کوسبوتاژ کیا ۔ اب قائداعظم کے نظریات کو سبوتاژ کرنے میں مصروف ہیں ۔
فی الوقت اتنا ہی ۔۔۔ تفصیل بعد ۔
 

دوست

محفلین
جہاد کے فرنچائز دستیاب ہیں۔ آج ہی فرنچائز خریدیں اور فساد فی سبیل اللہ پھیلانے کا کام شروع کریں۔ "ماہرین" ہر ملک سے دستیاب ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی!
  1. اللہ کا قانون ہمیں کسی بے گناہ کی جان لینے کی اجازات ہرگز نہیں دیتا۔
  2. یہی بات پاکستان آرمی اور پاکستانی حکومت کو بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ اب وہ ایک قادیانی مشرف کے ”ماتحت“ نہیں ہیں۔ اس عہد میں ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز کے ذریعہ پاکستان میں مقیم افغانیوں اور ان کے حامیوں کو بے گناہ اور بلاجواز شرعی عورتوں اور بچوں سمیت قتل کرتے رہے اور کفار کو مطلوب افراد کو بیچ کر ڈالر کماتے رہے۔ اب یہ غیر شرعی حرکت مکمل طور پر بند کردیں تاکہ ”جوابی کروائیوں“ کا کوئی ”جواز“ نہ رہے۔
  3. جب تک حکومت اور آرمی اپنی طرف سے آغاز کردہ ظلم عظیم کو بند نہیں کردیتی، یہ خانہ جنگی جاری رہے گی۔ اور خانہ جنگی کو ہوا دینے میں امریکی سی آئی اے، بھارتی راء، ایرانی و افغانی ایجنسیاں بھی ملوث ہیں۔ ان کے ایجنٹس پکڑے بھی گئے اور کاموشی سے چھوڑے بھی جاتے رہے۔ طالبان کے نام پر یہ لوگ بھی بلا واسطہ اور بالواسطہ ایسی کاروائیاں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ایک ریمنڈ دیوس گیا ہے، پیچھ اس کی وہ ”فوج“ باقی ہے، جو مشرف دور میں یہاں بلا روک ٹوک آئی تھی۔
  4. پاکستان آرمی اور حکومت یہ جنگ بند کرے اور اپنی ریاست میں مجمرمانہ کاروائیاں کرنے والوں کو پکڑ کر ان کا عدالتی ترائل کرے اور ثابت شدہ مجرموں کو پھانسی دے۔ پہلے خود بے گناہوں کا قتل عام بند کرے پھر ایسا کرنے والوں کو عدالتی سزا دلوائے، ریاستی ادارے ماورائے قانون اقدامات نہیں کیا کرتیں
ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو
چونکہ آپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان آرمی کی طرف سے اگر کسی کو مارا جاتا ہے اور اس بندے کے لواحقین یا دیگر افراد کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ بدلے میں بے گناہ شہریوں کو مار سکیں۔ اس لئے میں یہاں السلام علیکم کہہ کر رخصت ہوتا ہوں۔ بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا
 

سید زبیر

محفلین
برادرم یوسف-2 ، بھائی بات ایسی ہے کہ میرے ذہن میں اسلامی یونیورسٹی والا سانحہ چپک کر رہ گیا اور میں ہر واقعہ اُسی تناظر میں دیکھتا ہوں شائد مجبوری بن گیا
بہر حال دعا یہ کہ اللہ کریم امریکہ اور اُس کے پالتو دہشت گردوں سے وطن عزیز کو بچائے ، ہمیں اپنے دوست دشمن کی تمیز کر نے کی بصیرت عطا فرمائے ۔ اور دشمنان دین و اسلام کے نصیب میں اگر ہدائت نہیں ہے تو انہیں نیست و نابود کردے ۔ (آمین)
 
ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو
چونکہ آپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان آرمی کی طرف سے اگر کسی کو مارا جاتا ہے اور اس بندے کے لواحقین یا دیگر افراد کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ وہ بدلے میں بے گناہ شہریوں کو مار سکیں۔ اس لئے میں یہاں السلام علیکم کہہ کر رخصت ہوتا ہوں۔ بہت شکریہ کہ آپ نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا
یہ انہوں نے آج نہیں کہا، کافی عرصہ قبل بھی یہ حکمت کے موتی سننے پڑھنے کو ملے تھے جب موصوف قصاص کی آیات کو خارجیوں اور تکفیری دہشت گردوں کے دفاع میں استعمال کر رہے تھے یہ کہہ کے کہ اسلام ان لوگوں کو اجازت دیتا ہے قصاص لینے کی اور ریاست کے باغیوں اور مفسدوں کو اسلام کی رو سے اس بات کا حق حاصل ہے۔۔۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
جس طرح سے رینڈملی یہ افراد گرفتار ہو رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ حساس اداروں کی معلومات پر عمل درآمد جاری ہے :)
 

سید زبیر

محفلین
جس طرح سے رینڈملی یہ افراد گرفتار ہو رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ حساس اداروں کی معلومات پر عمل درآمد جاری ہے :)
بے شک یہ گرفتار ہو رہے ہیں مگر جلد ہی رہا بھی کردئیے جائینگے ، جزا سزا نہیں ہے
پاکستان میں طالبان اور امریکی حکومت دونوں ہی اسلام اور پاکستان دشمن ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ طالبان امریکی حکومت کی بی ٹیم ہے جو اسی کے ایجنڈے پر ، اسی کی ایما پر کام کر رہی ہے اگر یہ دونوں واقعی ایک دوسرے کی ضد ہوتے تو طالبان کا ہدف امریکی تنصیبات ، مفادات ہوتے نہ کہ درسگاہیں ، عبادت گاہیں۔ امریکی گماشتے جو سینکڑوں کی تعداد میں وطن عزیز میں ہیں اسی مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں مقصد قوم کو تقسیم کرنا ، انتشار بد امنی ، بے اعتمادی ، لا قانونیت کو فروغ دے کر قوم کے اعصاب ناتواں کرنا ہے ۔طالبان اور ان کے خلاف نبرد آزما کی مثال اس ریچھ اور کتے کی سی ہے جو ایک ہی مالک کے طویل پر بندھے ہوئے ہوتے ہیں مگر پیسے کمانے کے لئے مداری کے اشارے پر عوام کے سامنے اایک دوسرے سے لڑ لڑ کر لہو لہان ہو جاتے ہیں اور تماشا ختم ہونے کے بعد مداری ان کو ساتھ لے جا کر پھر ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیتا ہے ۔یہ دونوں اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں جب تک ان کا پالتو طبقہ اقتدار میں ہے یہ ریچھ کتے کی لڑائی جاری رہے گی اور ہمارے تعلیمی ،مذہبی مقامات و شخصیات نشانہ بنتے رہیں گے۔ ابھی تک تو ہم نے اُن کے خلاف جنگ ہی نہیں کی ، کہیں امریکی اور پاکستانی دہشت گرد ٹولے کی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے نہیں ہوئے ۔ کسی نے مطالبہ نہیں کیا کہ جو ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد پکڑے گئے ہیں انہیں جلد از جلد پھانسی دو ۔ اِ کی ملک سے بے دخلی اور سزائے موت ہی میں قومی بقا ہے ہم تو امریکیوں ہی کے ساتھ ملکر انٹیلی جنس شئیرنگ کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں ہمارے دشمن بتاتے ہیں جن کو ہم اپنا دشمن سمجھتے ہیں اُن کے خلاف نہ کوئی کار وائی کی نہ احتجاج ۔ دونوں طرف امریکی مفاد کے محافظ ہیں ، ایک دوسرے کے مفادات کا مکمل احترام کرتے ہیں ۔ گیارہ سال میں ہمیں نہ اپنے دشمن سے آگاہی ہوئی اور نہ ہی ہم اُن کی سپلائی لائن کاٹ سکے ۔ وجہ صرف یہ کہ ہم دشمن کا تعین اپنی نظر سے نہیں غیر کی نظر سے کررہے ہیں
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
دین اسلام تو آیا ہی سلامتی اور امن کی راہ دکھانے کے لیے، اس دین میں تو غیروں کے لیے بھی امن ہے یہ تو قائم رہے گا مگر وہ خوش نصیب قوم ، وہ افراد کون سے ہونگے جن سے امت مسلمہ کو عروج حاصل ہوگا
اللہ کریم ہمیں بصیرت ،قوت عمل کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اپنے حصے کا کردار اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے ادا کرسکیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بے شک یہ گرفتار ہو رہے ہیں مگر جلد ہی رہا بھی کردئیے جائینگے ، جزا سزا نہیں ہے
پاکستان میں طالبان اور امریکی حکومت دونوں ہی اسلام اور پاکستان دشمن ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ طالبان امریکی حکومت کی بی ٹیم ہے جو اسی کے ایجنڈے پر ، اسی کی ایما پر کام کر رہی ہے اگر یہ دونوں واقعی ایک دوسرے کی ضد ہوتے تو طالبان کا ہدف امریکی تنصیبات ، مفادات ہوتے نہ کہ درسگاہیں ، عبادت گاہیں۔ امریکی گماشتے جو سینکڑوں کی تعداد میں وطن عزیز میں ہیں اسی مشن کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں مقصد قوم کو تقسیم کرنا ، انتشار بد امنی ، بے اعتمادی ، لا قانونیت کو فروغ دے کر قوم کے اعصاب ناتواں کرنا ہے ۔طالبان اور ان کے خلاف نبرد آزما کی مثال اس ریچھ اور کتے کی سی ہے جو ایک ہی مالک کے طویل پر بندھے ہوئے ہوتے ہیں مگر پیسے کمانے کے لئے مداری کے اشارے پر عوام کے سامنے اایک دوسرے سے لڑ لڑ کر لہو لہان ہو جاتے ہیں اور تماشا ختم ہونے کے بعد مداری ان کو ساتھ لے جا کر پھر ایک ہی کھونٹے سے باندھ دیتا ہے ۔یہ دونوں اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں جب تک ان کا پالتو طبقہ اقتدار میں ہے یہ ریچھ کتے کی لڑائی جاری رہے گی اور ہمارے تعلیمی ،مذہبی مقامات و شخصیات نشانہ بنتے رہیں گے۔ ابھی تک تو ہم نے اُن کے خلاف جنگ ہی نہیں کی ، کہیں امریکی اور پاکستانی دہشت گرد ٹولے کی دہشت گردی کے خلاف مظاہرے نہیں ہوئے ۔ کسی نے مطالبہ نہیں کیا کہ جو ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد پکڑے گئے ہیں انہیں جلد از جلد پھانسی دو ۔ اِ کی ملک سے بے دخلی اور سزائے موت ہی میں قومی بقا ہے ہم تو امریکیوں ہی کے ساتھ ملکر انٹیلی جنس شئیرنگ کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں ہمارے دشمن بتاتے ہیں جن کو ہم اپنا دشمن سمجھتے ہیں اُن کے خلاف نہ کوئی کار وائی کی نہ احتجاج ۔ دونوں طرف امریکی مفاد کے محافظ ہیں ، ایک دوسرے کے مفادات کا مکمل احترام کرتے ہیں ۔ گیارہ سال میں ہمیں نہ اپنے دشمن سے آگاہی ہوئی اور نہ ہی ہم اُن کی سپلائی لائن کاٹ سکے ۔ وجہ صرف یہ کہ ہم دشمن کا تعین اپنی نظر سے نہیں غیر کی نظر سے کررہے ہیں
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
دین اسلام تو آیا ہی سلامتی اور امن کی راہ دکھانے کے لیے، اس دین میں تو غیروں کے لیے بھی امن ہے یہ تو قائم رہے گا مگر وہ خوش نصیب قوم ، وہ افراد کون سے ہونگے جن سے امت مسلمہ کو عروج حاصل ہوگا
اللہ کریم ہمیں بصیرت ،قوت عمل کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی اپنے حصے کا کردار اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے ادا کرسکیں۔
آپ منظر کو اس طرح سے دیکھیں۔ ہمار ے ہاں پاور پلے ہوتا ہے۔ فوج سب سے طاقتور، پھر حکومت ہوتی تھی جس کی جگہ اب عدلیہ نے لے لی ہے۔ حکومت کو اس پاور گیم میں تیسری پوزیشن ملی ہوئی ہے۔ فوج کے سربراہ اور عدلیہ کے سربراہ کی تبدیلی کا ناگزیر وقت آن پہنچا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان سربراہوں کے ہٹتے ہی جو نئے سربراہان آئیں گے، وہ ابھی سے اپنے حق میں رائے ہموار کر رہے ہیں اور موجودہ گرفتار کرو اور رہا کرو کی پالیسی سے ہٹ جائیں گے اور ہٹ اینڈ رن والی پرانی پالیسی بھی گم ہو جائے گی۔اس کے علاوہ جو منظر بن رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب عدلیہ اور فوج ایک طرف ہو رہے ہیں اور سیاسی حکومت ایک طرف۔ دیکھیئے کیا کھچڑی پکتی ہے :)
گرفتار شدہ ان تمام مشکوک افراد کو نئے پلے گراؤنڈ میں "کالے پانی" بھیج دیا جائے گا۔ مشکوک سے مراد طالبان ٹائپ افراد ہیں۔ سیاسی دہشت گرد تو محض کرائے کے قاتل ہیں۔ وہ مارو یا مر جاؤ کی عملی تفسیر ہیں
 

سید زبیر

محفلین
کسی سیاستدان میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ سچ بتائیں کہ ہمارے دشمن امریکہ ، یو ایس ایڈ کے گماشتے اور ملکی و غیر ملکی دہشت گرد ہیں انہیں اپنا انجام شہنشاہ ایران ، قذافی ، حسنی مبارک کی شکل میں نظر +تا ہے ۔ امریکہ کے حواری نیٹو افواج کسی صورت میں پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی ، اور امریکہ آج تک تنہا نہیں لڑا ۔ اُس کو نہتے افغان مجاہدین نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ یہاں سے نکلنے کی کر رہا ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کسی سیاستدان میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ سچ بتائیں کہ ہمارے دشمن امریکہ ، یو ایس ایڈ کے گماشتے اور ملکی و غیر ملکی دہشت گرد ہیں انہیں اپنا انجام شہنشاہ ایران ، قذافی ، حسنی مبارک کی شکل میں نظر +تا ہے ۔ امریکہ کے حواری نیٹو افواج کسی صورت میں پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی ، اور امریکہ آج تک تنہا نہیں لڑا ۔ اُس کو نہتے افغان مجاہدین نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ یہاں سے نکلنے کی کر رہا ہے ۔
سید بادشاہ، آپ سے اختلاف کرنے کی جرات کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ ناگوار نہیں گذرے گی
افغانیوں کو اسی امریکہ نے تربیت، اسلحہ اور ہیروئن بنانے کی فیکٹریاں اور اسے بیچنے کی مارکیٹ مہیا کی تھیں۔ افغان تب تک نہتے تھے اور جہاد کرتے رہے جب تک روس کے مقابل امریکہ اپنے ڈالر، سعودی عرب اپنے ریال اور "ناپسندیدہ" افراد اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات بشمول ٹریننگ گراؤنڈ اور مذہبی جماعتیں، شامل نہیں ہوئے۔ اس کے بعد یہ محض بین الاقوامی سیاست اور بدلے کی جنگ بن کر رہ گئی جس میں امریکہ نے ویت نام کا بدلہ چکایا، سعودی عرب نے اپنے تشدد پسند افراد کو ملک سے نکالا، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور پاکستان نے دونوں ہاتھوں سے پیسہ، اسلحہ اور دیگر مفادات کمانا شروع کئے
 

قیصرانی

لائبریرین
اور ساڈے وڈے ٹھیکے دار کہتے ہیں کہ افغانستان میں جہاد ہوتا رہا ہے۔ ہاہاہاہا لودسو :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
یہی تو باریک سا نکتہ ہے کہ اس وقت جہاد ہو رہا تھا جب انہوں نے اپنے فائدے کے لئے اسے کیش کرانا چاہا۔ بعد میں کیش ہی کیش بچ گیا۔ جہاد گیا کہیں اور
 
Top