اگر آپ کو یاد ہو؟ کوئی چار برس پہلے اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں ایک ہی دن میں دو خودکش حملے ہوئے تھے‘ جن میں چھ طلبا و طالبات جاں بحق اور سینتیس زخمی ہوئے۔ پہلا دھماکا فیکلٹی آف شریعہ کے چیرمین کے دفتر کے باہر ہوا اور دوسرا دھماکا طالبات کی کینٹین کے دروازے پر اس وقت ہوا جب کینٹین میں پچاس کے لگ بھگ طالبات موجود تھیں۔ مگر ایک خاکروب خودکش حملہ آور سے لپٹ گیا اور اسے گرا لیا اور اسے کینٹین کے اندر جانے نہیں دیا اور خود امر ہو گیا۔ اگلے روز ایک بڑے ٹی وی چینل کی ٹیم ہمارے ہیرو کے گھر گئی۔ اس کے اہلِ خانہ کی افسردگی ریکارڈ کی اور اپنے مرکزی خبری بلیٹن میں رپورٹ نشر کی۔ اس رپورٹ کا آخری جملہ مجھے قبر تک یاد رہے گا۔
’’اگرچہ پرویز مسیح کا تعلق مسیحی برادری سے تھا مگر اس نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے جان کی قربانی دے کر اسلامک یونیورسٹی کی طالبات کو ایک بہت بڑے ممکنہ جانی نقصان سے بچا لیا۔‘‘
اس جملے میں لفظ ’’مگر‘‘ آج بھی دل میں تیر کی طرح پیوست ہے۔ مگر بیچاری بیس پچیس سال کی رپورٹر کا بھی کیا قصور۔ اسے تو گھر میں اور باہر شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد سے مسلسل یہی سننے کو ملا ہو گا نہ کہ صرف ایک مسلمان ہی سچا محبِ وطن ہو سکتا ہے۔ اقلیتیں تو صرف قومی جہیز میں ملی ہیں لہٰذا ان کی حیثیت بھی جہیز کے لوٹے کی سی ہے۔ وہ بھاری لوٹا جو کسی کام کا نہیں ہوتا اور کونے میں پڑا رہتا ہے۔
اور یہی وہ ذہنیت ہے جو بائیس ستمبر کو دیکھنے میں آئی۔ ایک چینل کے خبری بلیٹن میں یہ سرخی جھوم رہی تھی۔
’’ صفائی کرنے والوں کا صفایا‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا کیا کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔اب وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کا امیج بہتر ہو جائے گا جن کے دورِ حکومت میں سینٹری ورکرز کی خالی آسامیوں کے سرکاری اشتہار میں وضاحت کی گئی تھی کہ صرف غیر مسلم اپلائی کریں۔
حملہ آور جو بھی تھا جہاں سے بھی آیا تھا، یہ بات بے معنی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ فضا اور زمین جب ببول کی کاشت کے لیے سازگار ہو تو پھر اس بات پر کیا چیخنا کہ ببول میں کتنے کانٹے؟ اگر کوئی فرق ہے تو بس یہ کہ دو حملہ آوروں نے بارودی جیکٹ پہن رکھی تھی اور باقیوں کی جیکٹ میں نفرت، تعصب، مصلحت، خاموشی، منافقت اور بے حسی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ اگر کوئی عملاً نہیں تو زبان سے ساتھ دے رہا ہے۔ اگر کوئی زبان سے حمایت کرنا پسند نہیں کرتا تو خاموش حمایتی ہے۔ اگر کوئی خاموش حمایتی نہیں تو اس کو اپنے سوا کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ ہم میں سے جو جو بھی ان کیٹگریز میں نہیں آتے وہ پلیز اپنا ہاتھ بلند کریں تاکہ نظر آئیں۔
شائد آپ کو دو ہزار تین کی جنگِ عراق یاد ہو۔ اس جنگ کو رکوانے کے لیے صرف ایک دن میں سان فرانسسکو سے سڈنی تک ڈیڑھ کروڑ انسان سڑک پر نعرے لگا رہے تھے کہ عراق پر ممکنہ حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لندن میں پندرہ لاکھ افراد کا جلوس نکلا تھا۔ جس میں ہر تیسرے مرد، عورت اور بچے کے ہاتھ میں بش اور ٹونی بلئیر کے خلاف پلے کارڈز تھے۔ میں نے جلوس میں شامل ایک ماں سے پوچھا تھا کہ تم کیوں اپنے چار پانچ سال کے بچے کو فروری کی سردی میں سڑک پر کارڈ تھما کر پیدل چلوا رہی ہو۔ کہنے لگی جب یہ بچہ نہیں رہے گا تب اسے آج کا دن کچھ ذمے داریاں یاد دلائے گا۔ میں نے پوچھا مگر عراقی تو مسلمان ہیں۔ کہنے لگی انسان بھی تو ہیں…
اچھی بات ہے کہ جب سنی مرتے ہیں تو بس سنی نوجوان جلوس نکالتے اور ٹائر جلاتے ہیں۔ جب شیعہ مرتے ہیں تو بس شیعہ لوگ سڑکوں پر احتجاجی دھرنا دیتے ہیں۔ جب ہزارہ مرتے ہیں تو ایک ہفتہ نقطہِ انجماد میں ہزارہ ہی لاشوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب احمدی مرتے ہیں تو تدفین کے وقت وہی ایک دوسرے کے گلے لگ کے روتے ہیں۔ جب کرسچن مرتے ہیں تو محض مشن اسکول تین دن کے سوگ میں بند ہوتے ہیں۔ باقی محض سائیکلو اسٹائل تعزیتی بیانات کے ذریعے مرنے والے سنیوں، شیعوں، احمدیوں اور عیسائیوں کے دکھ میں ’’برابر‘‘ کے شریک ہوتے ہیں اور پھر ’’ہور سناؤ کی حال چال اے۔ بچے کیسے نیں‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔
کتنے عجیب ہیں ہم سب۔ جو فلسطینیوں کے المیے پر پی ایل او سے زیادہ حساس ہیں۔ جو برما کے مسلمانوں کے غم میں ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔ جو شام کے المیے پر سینے میں پھانس سی محسوس کرتے ہیں۔ جو قاہرہ کے قتلِ عام پر سکتے میں آجاتے ہیں۔ جنھیں کشمیری مسلمانوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں۔ جنھیں بھارتی مسلمانوں کی زبوں حالی بے کل رکھتی ہے۔ جنھیں چیچنیا کا حال تڑپا تڑپا دیتا ہے۔ جہاں آج بھی مساجد میں اریٹیریا کی آزادی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں (حالانکہ اریٹیریا کو آزاد ہوئے اب برسوں ہو چکے ہیں)۔ مگر کتنوں کو یہ پوچھنا یاد ہے کہ گوجرہ کی عیسائی بستی پر اگست دو ہزار نو میں جو گذری اس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی۔ مئی دو ہزار دس میں لاہور میں دو احمدی عبادت گاہوں میں چوارنوے افراد کو مارنے والے اب کس جیل میں ہیں؟ کوئٹہ کے ہزاروں کا شکار کرنے والے کہاں سے آتے اور کہاں جاتے ہیں؟ شاہراہ قراقرم پر بسوں سے اتار کر شیعہ مسافروں کو لٹا کر مار دینے والے کن پہاڑوں میں چھپ گئے۔ دیامیر کے پہاڑوں میں دس غیرملکی کوہ پیماؤں کو ہلاک کرنے والے کتنے پکڑ لیے گئے؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوہاٹی گیٹ پر حملے میں کتنے زندہ بچ گئے۔ ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ خوجہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔
کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹس رہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔
کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟ اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔ اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔ جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تو احمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ اس خالص نصاب نے ان لوگوں کو پیدا کیا جن لوگوں نے ان لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جن کے غم میں ہم ہر دوسرے تیسرے روز ’’برابر‘‘ کے شریک ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آئینِ پاکستان میں سب برابر کے شہری ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ و تعالی عنہہ سے یہ قول منسوب ہے کہ جب تم ایک انگلی دوسرے کی طرف اٹھاتے ہو تو اسی ہاتھ کی تین انگلیاں تمہاری جانب اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا طالبان اور ان کے ہم نواؤں پر انگلی اٹھاتے ہوئے اپنی تین انگلیاں بھی دیکھ لیجیے گا۔ بہت مہربانی۔۔۔۔۔۔۔
http://www.express.pk/story/178437/