محب علوی
مدیر
اسلام آباد میں’ کروڑوں جانثاروں‘ کے سامنے صدر پرویز مشرف کی اس بات سے میں سو فیصد متفق ہوں کہ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ تھا۔
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔
نو مارچ تک اچھی خاصی حکومت چل رہی تھی، ترقیاتی کام پوری رفتار سے جاری تھے، نجکاری بہترین انداز میں ہو رہی تھی، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشتگردی کا موثر طریقے سے قلع قمع ہو رہا تھا اور میڈیا اعتدال پسندی اور سرکاری روشن خیالی کے گیت گا رہا تھا۔ یہ جسٹس چودھری ہی ہیں جنہوں نے رنگ کو بھنگ کر دیا۔ کیا ملا انہیں اپنے بال کھنچوا کر اور ملک کی بدنامی کروا کے۔
ایسے ہی الیکشن بھی ہوں گے
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائےگی۔
چیف جسٹس اور ان کے ساتھی قانون داں یہ سمجھنے لگے کہ پانچ مقامات پر پرامن خطاب کر کے اور اسلام آباد سے لاہور تک کا ساڑھے چار گھنٹے کا راستہ پچیس گھنٹے میں طے کر کے گویا انہوں نے ملک فتح کر لیا ہے اور کراچی جانا بھی گویا پکنک کی طرح ہوگا۔
لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ حکومت بہرحال حکومت ہوتی ہے۔ آپ اس کی رٹ چاہے طاقت سے چیلنج کریں یا پرامن طریقے سے بات ایک ہی ہے۔
لیکن اگر میں صدر مشرف کی یہ بات مان رہا ہوں کہ کراچی میں سنیچر کو جو کچھ ہوا جسٹس چودھری کی ضد کے سبب ہوا تو پھر مجھے یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایئرپورٹ سے سندھ ہائی کورٹ کے پچیس کلومیٹر کے راستے کو جس طرح جگہ جگہ کنٹینروں، ٹرالرز اور بسوں کو آڑا ترچھا کر کے بند کیا گیا وہ بھی ایک رات پہلے چیف جسٹس کے حامیوں نے کیا اور ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ انہی کے مسلح حامیوں نے ہائی کورٹ کی عمارت کو گھیرے میں لیا اور باہر سے کراچی آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی تاکہ وکلاء اور سول سوسائٹی والے یہ سمجھیں کہ یہ سب حکومت کرا رہی ہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہی بار روم کے لیڈیز ونگ کو بھی آگ لگادی اور اپنے ہی ہم پیشہ لوگوں کو مارا پیٹا۔
’اگر جسٹس مان جاتے‘
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔
اور پھر آج ٹی وی چینل کی عمارت کو بھی چھ گھنٹے گھیرے میں لے کر جدید ہتھیاروں سے نہ صرف گولیاں برسائیں بلکہ کمپاؤنڈ میں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ یہ چینل چیف جسٹس کے مسلح حامیوں کے کرتوتوں کی مسلسل کوریج کر رہا تھا۔
یہ بات قطعاً درست نہیں کہ حکومت نے کسی کو بھی ریلی یا جلسے سے روکا۔ چیف جسٹس کے حامی دراصل ریلی نکالنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اگر کوئی سرکاری رکاوٹ ہوتی تو بھلا ایم کیو ایم کیسے ریلی نکال سکتی۔
حکومت نے تو اتنی احتیاط برتی کہ پندرہ ہزار پولیس والے تعینات کرنے کے باوجود اس نے لوگوں کو ہلاک کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے والے چیف جسٹس کے کسی ایک مسلح حامی کو بھی حراست میں نہیں لیا مبادا توہینِ عدالت ہو جائے۔
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائے گی۔
بحوالہ: بی بی سی اردو از وسعت اللہ خان
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔
نو مارچ تک اچھی خاصی حکومت چل رہی تھی، ترقیاتی کام پوری رفتار سے جاری تھے، نجکاری بہترین انداز میں ہو رہی تھی، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشتگردی کا موثر طریقے سے قلع قمع ہو رہا تھا اور میڈیا اعتدال پسندی اور سرکاری روشن خیالی کے گیت گا رہا تھا۔ یہ جسٹس چودھری ہی ہیں جنہوں نے رنگ کو بھنگ کر دیا۔ کیا ملا انہیں اپنے بال کھنچوا کر اور ملک کی بدنامی کروا کے۔
ایسے ہی الیکشن بھی ہوں گے
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائےگی۔
چیف جسٹس اور ان کے ساتھی قانون داں یہ سمجھنے لگے کہ پانچ مقامات پر پرامن خطاب کر کے اور اسلام آباد سے لاہور تک کا ساڑھے چار گھنٹے کا راستہ پچیس گھنٹے میں طے کر کے گویا انہوں نے ملک فتح کر لیا ہے اور کراچی جانا بھی گویا پکنک کی طرح ہوگا۔
لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ حکومت بہرحال حکومت ہوتی ہے۔ آپ اس کی رٹ چاہے طاقت سے چیلنج کریں یا پرامن طریقے سے بات ایک ہی ہے۔
لیکن اگر میں صدر مشرف کی یہ بات مان رہا ہوں کہ کراچی میں سنیچر کو جو کچھ ہوا جسٹس چودھری کی ضد کے سبب ہوا تو پھر مجھے یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایئرپورٹ سے سندھ ہائی کورٹ کے پچیس کلومیٹر کے راستے کو جس طرح جگہ جگہ کنٹینروں، ٹرالرز اور بسوں کو آڑا ترچھا کر کے بند کیا گیا وہ بھی ایک رات پہلے چیف جسٹس کے حامیوں نے کیا اور ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ انہی کے مسلح حامیوں نے ہائی کورٹ کی عمارت کو گھیرے میں لیا اور باہر سے کراچی آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی تاکہ وکلاء اور سول سوسائٹی والے یہ سمجھیں کہ یہ سب حکومت کرا رہی ہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہی بار روم کے لیڈیز ونگ کو بھی آگ لگادی اور اپنے ہی ہم پیشہ لوگوں کو مارا پیٹا۔
’اگر جسٹس مان جاتے‘
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کراچی جانے کی ضد نہ کرتے تو پینتیس لاشیں نہ گرتیں۔ بلکہ اب تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر جسٹس چودھری نو مارچ کو جنرلوں کے روبرو بات مان کر خاموشی سے گھر چلے جاتے تو بکھیڑا پیدا ہی نہ ہوتا۔
اور پھر آج ٹی وی چینل کی عمارت کو بھی چھ گھنٹے گھیرے میں لے کر جدید ہتھیاروں سے نہ صرف گولیاں برسائیں بلکہ کمپاؤنڈ میں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ یہ چینل چیف جسٹس کے مسلح حامیوں کے کرتوتوں کی مسلسل کوریج کر رہا تھا۔
یہ بات قطعاً درست نہیں کہ حکومت نے کسی کو بھی ریلی یا جلسے سے روکا۔ چیف جسٹس کے حامی دراصل ریلی نکالنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اگر کوئی سرکاری رکاوٹ ہوتی تو بھلا ایم کیو ایم کیسے ریلی نکال سکتی۔
حکومت نے تو اتنی احتیاط برتی کہ پندرہ ہزار پولیس والے تعینات کرنے کے باوجود اس نے لوگوں کو ہلاک کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے والے چیف جسٹس کے کسی ایک مسلح حامی کو بھی حراست میں نہیں لیا مبادا توہینِ عدالت ہو جائے۔
اب مجھے یقین ہوچلا ہے کہ حکومت نے سنیچر کو کراچی میں جس نظم و ضبط و صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اسی نظم و ضبط اور صبر وتحمل کے ساتھ وہ شفاف عام انتخابات بھی منعقد کرائے گی۔
بحوالہ: بی بی سی اردو از وسعت اللہ خان