کیا قصور چیف جسٹس کا ہے

نعمان

محفلین
میرے خیال میں کسی کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ بارہ مئی کو ایم کیو ایم نے جان بوجھ کر تصادم کی راہ اختیار کی، کھلے عام دہشت گردی کی اور چیف جسٹس کو بار سے خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔ بنیادی انسانی، جمہوری حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں، خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہ سب انتہائی شرمناک ہے اور امید ہے کہ عوام ووٹ کے ذریعے ایم کیو ایم سے بدلہ لیں گے۔

مگر شاید نہیں۔

ویسے تو میرے دل میں اب ایم کیو ایم کے لئے ہمدردی کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ مگر میں یہاں مہوش کی بات سے اتفاق کرے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں مباحث تعصب اور لسانیت کی سمت مڑ جاتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم سے متعلق مباحث ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کے لئے غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرا پاکستان غالبا آئیس لینڈ میں کہیں رہتے ہیں اور شاید کراچی کے رہنے والے بھی نہیں۔ تب بھی انہوں نے صفحے کے صفحے ایم کیو ایم کی بابت لکھیں ہیں۔ خود مہوش بھی غالبا جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا میں کہیں ہوتی ہیں۔ مگر وہ ایم کیو ایم کی وکالت سی کرتی نظر آتی ہیں۔ شاید اس فورم پر لوگوں کو پاکستان کی کسی اور سیاسی جماعت کے بارے میں اتنی معلومات نہ ہوں جتنی ایم کیو ایم کے بارے میں ہیں۔ ان کا تنظیمی ڈھانچا، اسلحہ، تاریخ، منصوبے وغیرہ وغیرہ۔ حد تو یہ ہے کہ لوگوں کو الطاف کے بیس سال پرانے مکالمے بھی یاد ہیں۔

شاید اس کا تعلق اس بات سے ہو کہ ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں یا دیگر زبانیں بولنے والوں کو یہ بات عجیب لگتی ہو کہ کراچی کے اردو بولنے والے ایم کیو ایم کو کیوں ووٹ دیتے ہیں۔

اب مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے۔

دراصل بارہ مئی کے بعد سے کراچی میں کچھ لوگ مہاجر پختون فساد کرانے کی سازش کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام سیکٹر آفسز اور یونٹ آفسز بند ہیں اور کارکن انڈر گراؤنڈ ہونے کی تیاری میں ہیں۔ کراچی کے نواحی علاقوں سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوانوں کو پیٹا جارہا ہے۔ کیماڑی میں مساجد کے باہر کچھ لوگ تقریریں کررہے ہیں کہ یہاں بہت مہاجر ہیں انہیں باہر نکالو۔ کچھ علاقوں میں اردو بولنے والوں کے مکان جلائے گئے ہیں۔ وغیرہ۔۔۔

اس کا براہ راست فائدہ ایم کیو ایم کو ہوگا۔ اور ان کا ووٹ بینک بڑھے گا۔

اس کے علاوہ اوپر موجود پوسٹس دیکھیں، یا اسی فورم پر ایم کیو ایم کی بابت پوسٹس دیکھیں۔ تو جو شدت ایم کیو ایم مخالفت میں یہاں صرف ہوئی ہے وہ اردو بولنے والوں کو کوئی اچھا تاثر نہیں دیتی۔ ملک بھر کے لوگوں کی ایسی زبان جیسے:

کراچی جل رہا تھا اور اسلام آباد میں بھنگڑے ڈالے جارہے تھے
کراچی ہمارا ہے
کراچی سب کا ہے
کراچی صرف مہاجروں کا نہیں
کراچی پٹھانوں کا ہے
کراچی کے لاڈلے
کراچی منی پاکستان ہے

یہ زبان یہ باتیں اردو بولنے والوں کو ان سیکور فیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ نتیجہ ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بینک۔ آپ ایم کیو ایم کو گندی نالی کا کیڑا کہتے ہیں تو لوگ اسے مس انٹرپریٹ کرسکتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ اعتزاز احسن ٹی وی پر آتے ہیں تو ایم کیو ایم کے بارے میں گفتگو کا آغاز ایسے کرتے ہیں کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین بڑے ٹیلینٹڈ تھے یہ شہر تو آج دبئی سے بھی آگے ہوتا۔ اردو بولنے والوں میں بہت خوبیاں ہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یعنی کہ انہوں نے مہاجرین کو ایم کیو ایم سے خود جوڑ دیا اب وہ جو کچھ کہیں گے مہاجر یہ سمجھیں کہ یہ ان کی جماعت کو کہا جارہا ہے۔

اس وقت کراچی لسانی جھگڑوں کے خطرے کے بیچ میں کھڑا ہے۔ کراچی میں پختون مہاجر کوآرڈینیشن جتنی بارہ مئی سے پہلے تھی اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ آپ میں سے ان کو جو کبھی کراچی نہیں آئے شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ کراچی میں مہاجر، پختون (افغان اور پاکستانی دونوں)، پنجابی سندھی ہندو مسلم کتنے قریب قریب رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ ایسے فسادات کا مطلب ہمارے کاسموپولیٹن کلچر پر کاری ضرب ہوگا اور یہ بات کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ بغیر اس کلچر کے ہمارا ملک اور ہمارا شہر ترقی نہیں کرسکتا۔

یقین مانئے ہم لسانیت کی حدوں کو پار کرہی چکے ہیں۔ اور ہم اس وقت شہر میں لسانی فسادات کی سازش کو ناکام بنارہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت چیلیجز ہیں۔ اگر ہم اس موڑ سے مزید خونریزی کرے آگے بڑھ آئے تو لسانیت کا کلچر کراچی میں ختم ہوجائیگا اور اگر ہم لڑ پڑے تو ہم دو عشرے پیچھے چلے جائیں گے۔ ہمارے پاس ایم کیو ایم سے بڑے مسائل ہیں۔ ہمیں ان پر کنسٹریٹ کرنا ہے۔ اور اگر ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے آپ تو پھر آپ کو اس میں ہمارا ہاتھ بٹانا ہے۔

نفرت کو مٹانا ہے، پیار کو بڑھانا ہے۔

اگر ایم کیو ایم نفرت پھیلاتی ہے تو پھر وہ خود ہی مٹ جائیگی۔
 

ابوشامل

محفلین
السلام وعلیکم برادران! کراچی میں حالات کی خرابی کے باعث گذشتہ چار پانچ دنوں سے غیر حاضر تھا، یہاں آج آیا ہوں تو بہت گرما گرم بحث دیکھی ہے۔ اس بحث کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کراچی میں رہائش پذیر افراد نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا جس سے وہاں کے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ انٹرنیٹ پر بھی متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
بہرحال میں 12 مئی کے لہو رنگ دن کے واقعات کا عینی شاہد تو نہیں البتہ میرا چھوٹا بھائی، ماموں اور میرے کئی دوست اس کے عینی شاہد اور وہ خوش قسمت افراد ہیں جو ایئرپورٹ کے قریب ہونے والی متحدہ کے دہشت گردوں کی فائرنگ میں بال بال بچے۔ وہ جسٹس افتخار چوہدری کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ جا رہے تھے کہ وائر لیس گیٹ کے سامنے ان پر اندھادھند فائر کھول دیا گیا۔ اس فائرنگ میں ان کے سامنے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ کئی افراد نے جھاڑیوں میں چھپ کر اور زمین پر لیٹ کر اپنی جانیں بچائیں۔ یہ پوری کاروائی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی اور مسلح دہشت گرد پہلے سے تیار ہو کر سڑک کے دونوں اطراف تاک میں بیٹھے تھے کہ جیسے ہی جلوس آئے اس پر فائر کھول دیں۔ اس واقعے کے تھوڑی ہی دیر بعد دیگر جلوسوں اور افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا اور صرف ملیرہالٹ سے ایئرپورٹ کے درمیان 20 سے 25 افراد شہید ہوئے۔ یہ 1994ء کے بعد پہلی بار ہوا کہ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ جاں بحق ہوئے۔
جو لوگ یہاں ڈھکے چھپے ہی سہی ایم کیو ایم کی حمایت کررہے ہیں کیا ان کی عقل ماؤف ہو گئی ہے؟ کیا وہ دیکھتے نہیں؟ سمجھتے نہیں؟ سنتے نہیں؟ سوچتے نہيں؟ یا شاید وہ دور بیٹھے ہیں اس لیے ٹھنڈے پیٹوں یہ سب برداشت ہو رہا ہے۔ اللہ نہ کرے کبھی ان ٹُنڈوں، کانوں، لنگڑوں، ٹی ٹیوں، چیمبروں، کمانڈوں، تیلیوں اور چوروں کا پیر اِن افراد کی دُموں پر آئے تو ان کی چیخیں سننے والی ہوں گی۔
ایم کیو ایم کے قیام کی بنا ہی دہشت گردی تھی اور اسے اسی مقصد کے لیے بنایا گیا اور یہی کام وہ آج تک کر رہی ہے۔ دور بیٹھے کراچی میں "روشنیوں" کا ذکر کرکے بانچھیں کھلانے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ان نام نہاد روشنیوں کے پیچھے یہ غنڈے کتنوں خاندانوں کے چراغ گل کررہے ہیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ انہیں نے تو کراچی کو سرخ روشنیوں کے تحفے دیے ہیں:
"جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے"
"ہم سے جو ٹکرائے گا وہ لال بتی جائے گا"
کے نعرے آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں اور ہم انہیں بھولے نہیں۔

اِس جماعت نے مہاجروں جیسے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کو آج جہالت کے جس گہرے گڑھے میں ڈالا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج مہاجر کا لفظ سنتے ہی ذہن میں پان اور گٹکا کھانے والے ایک منہنی سے نوجوان کا تصور ابھرتا ہے جبکہ ایم کیو ایم سے قبل ایک پڑھے لکھے اور نفیس آدمی کا تصور ذہن میں آتا تھا۔

یاد رکھیں کہ قومیت کے نام پر مسلمانوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے چاہے وہ قرون وسطیٰ کی عرب و ایرانی قومیت ہو، بیسویں صدی کی ترک و عرب قومیت ہو یا پاکستان میں حالیہ قومیت۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اگر اس میں اسلام نہ رہا تو جان لیجیے کہ پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ پاکستان کی بِناء اسلام ہے اور اس کی بقا بھی اسلام میں ہی ہے۔

یقین کیجیے مجھے یہ خدشہ ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بعد میں کراچی کے کسی "میلے" کے ہتھے نہ چڑھ جاؤں اور شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی سے لکھنے والے افراد "بھائی لوگوں" کے خلاف لکھنے سے کترا رہے ہیں۔
 
نعمان نے کہا:
میرے خیال میں کسی کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ بارہ مئی کو ایم کیو ایم نے جان بوجھ کر تصادم کی راہ اختیار کی، کھلے عام دہشت گردی کی اور چیف جسٹس کو بار سے خطاب نہیں کرنے دیا گیا۔ بنیادی انسانی، جمہوری حقوق کی دھجیاں اڑائی گئیں، خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہ سب انتہائی شرمناک ہے اور امید ہے کہ عوام ووٹ کے ذریعے ایم کیو ایم سے بدلہ لیں گے۔

مگر شاید نہیں۔

ویسے تو میرے دل میں اب ایم کیو ایم کے لئے ہمدردی کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ مگر میں یہاں مہوش کی بات سے اتفاق کرے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں مباحث تعصب اور لسانیت کی سمت مڑ جاتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم سے متعلق مباحث ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کے لئے غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر میرا پاکستان غالبا آئیس لینڈ میں کہیں رہتے ہیں اور شاید کراچی کے رہنے والے بھی نہیں۔ تب بھی انہوں نے صفحے کے صفحے ایم کیو ایم کی بابت لکھیں ہیں۔ خود مہوش بھی غالبا جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا میں کہیں ہوتی ہیں۔ مگر وہ ایم کیو ایم کی وکالت سی کرتی نظر آتی ہیں۔ شاید اس فورم پر لوگوں کو پاکستان کی کسی اور سیاسی جماعت کے بارے میں اتنی معلومات نہ ہوں جتنی ایم کیو ایم کے بارے میں ہیں۔ ان کا تنظیمی ڈھانچا، اسلحہ، تاریخ، منصوبے وغیرہ وغیرہ۔ حد تو یہ ہے کہ لوگوں کو الطاف کے بیس سال پرانے مکالمے بھی یاد ہیں۔

شاید اس کا تعلق اس بات سے ہو کہ ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں یا دیگر زبانیں بولنے والوں کو یہ بات عجیب لگتی ہو کہ کراچی کے اردو بولنے والے ایم کیو ایم کو کیوں ووٹ دیتے ہیں۔

اب مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہے۔

دراصل بارہ مئی کے بعد سے کراچی میں کچھ لوگ مہاجر پختون فساد کرانے کی سازش کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام سیکٹر آفسز اور یونٹ آفسز بند ہیں اور کارکن انڈر گراؤنڈ ہونے کی تیاری میں ہیں۔ کراچی کے نواحی علاقوں سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوانوں کو پیٹا جارہا ہے۔ کیماڑی میں مساجد کے باہر کچھ لوگ تقریریں کررہے ہیں کہ یہاں بہت مہاجر ہیں انہیں باہر نکالو۔ کچھ علاقوں میں اردو بولنے والوں کے مکان جلائے گئے ہیں۔ وغیرہ۔۔۔

اس کا براہ راست فائدہ ایم کیو ایم کو ہوگا۔ اور ان کا ووٹ بینک بڑھے گا۔

اس کے علاوہ اوپر موجود پوسٹس دیکھیں، یا اسی فورم پر ایم کیو ایم کی بابت پوسٹس دیکھیں۔ تو جو شدت ایم کیو ایم مخالفت میں یہاں صرف ہوئی ہے وہ اردو بولنے والوں کو کوئی اچھا تاثر نہیں دیتی۔ ملک بھر کے لوگوں کی ایسی زبان جیسے:

کراچی جل رہا تھا اور اسلام آباد میں بھنگڑے ڈالے جارہے تھے
کراچی ہمارا ہے
کراچی سب کا ہے
کراچی صرف مہاجروں کا نہیں
کراچی پٹھانوں کا ہے
کراچی کے لاڈلے
کراچی منی پاکستان ہے

یہ زبان یہ باتیں اردو بولنے والوں کو ان سیکور فیل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ نتیجہ ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بینک۔ آپ ایم کیو ایم کو گندی نالی کا کیڑا کہتے ہیں تو لوگ اسے مس انٹرپریٹ کرسکتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ اعتزاز احسن ٹی وی پر آتے ہیں تو ایم کیو ایم کے بارے میں گفتگو کا آغاز ایسے کرتے ہیں کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین بڑے ٹیلینٹڈ تھے یہ شہر تو آج دبئی سے بھی آگے ہوتا۔ اردو بولنے والوں میں بہت خوبیاں ہیں وہ اعلی تعلیم یافتہ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ یعنی کہ انہوں نے مہاجرین کو ایم کیو ایم سے خود جوڑ دیا اب وہ جو کچھ کہیں گے مہاجر یہ سمجھیں کہ یہ ان کی جماعت کو کہا جارہا ہے۔

اس وقت کراچی لسانی جھگڑوں کے خطرے کے بیچ میں کھڑا ہے۔ کراچی میں پختون مہاجر کوآرڈینیشن جتنی بارہ مئی سے پہلے تھی اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ آپ میں سے ان کو جو کبھی کراچی نہیں آئے شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ کراچی میں مہاجر، پختون (افغان اور پاکستانی دونوں)، پنجابی سندھی ہندو مسلم کتنے قریب قریب رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ ایسے فسادات کا مطلب ہمارے کاسموپولیٹن کلچر پر کاری ضرب ہوگا اور یہ بات کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ بغیر اس کلچر کے ہمارا ملک اور ہمارا شہر ترقی نہیں کرسکتا۔

یقین مانئے ہم لسانیت کی حدوں کو پار کرہی چکے ہیں۔ اور ہم اس وقت شہر میں لسانی فسادات کی سازش کو ناکام بنارہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت چیلیجز ہیں۔ اگر ہم اس موڑ سے مزید خونریزی کرے آگے بڑھ آئے تو لسانیت کا کلچر کراچی میں ختم ہوجائیگا اور اگر ہم لڑ پڑے تو ہم دو عشرے پیچھے چلے جائیں گے۔ ہمارے پاس ایم کیو ایم سے بڑے مسائل ہیں۔ ہمیں ان پر کنسٹریٹ کرنا ہے۔ اور اگر ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے آپ تو پھر آپ کو اس میں ہمارا ہاتھ بٹانا ہے۔

نفرت کو مٹانا ہے، پیار کو بڑھانا ہے۔

اگر ایم کیو ایم نفرت پھیلاتی ہے تو پھر وہ خود ہی مٹ جائیگی۔

نعمان آپ کی پوسٹ پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے اور یقین جانیں کہ آپ کی پوسٹس کا مجھے بے چینی سے انتظار تھا کیونکہ ایم کیو ایم کو بہت حد تک جانتے ہیں اور اس نظر سے بھی دیکھتے ہیں جس سے سب نہیں دیکھتے۔

انشاءللہ اس دفعہ لڑائی نہیں ہوگی اور نہ ہی لسانی فسادات ہوں گے بلکہ اصل مجرمین کو بے نقاب کرنے پر زور ہوگا اور محبت ، پیار و بھائی چارہ اور بڑھے گا۔
 
اور آپ لوگوں کو میں ایک بات بتاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :cry:
کل رات جب گھر پر میں نے امی کو بتایا نا کہ میں نے اردو محفل پر ایم۔کیو۔ایم کی مخالفت میں لکھا ہے تو۔۔۔۔۔ :cry: :cry: :cry:
امی نے بہت باتیں سنائیں مجھے۔۔۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ میں نے نیٹ پر گھر کا پتہ وغیرہ تو نہیں دیا ہوا؟ کوئی مجھ تک کسی طرح پہنچ تو نہیں سکتا؟؟؟ میں نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ فکر ناٹ۔۔۔ مگر وہ ماں ہیں نا۔۔۔ فکر کرنا ان کا کام ہے۔۔۔ یہ اتنا چھوٹا سا واقعہ بھی اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ کراچی کے لوگ (حتی کہ ہم مہاجر ہیں پھر بھی) ایم۔کیو۔ایم کی دہشت گردی کا کتنا خوف لئے دل میں بیٹھے ہیں۔۔۔
میں نے ہمیشہ لسانی تعصب سے بالاتر رہنے کی کوشش کی ہے اور ایم۔کیو۔ایم ہمیشہ لسانی تقسیم کی بات کرتی ہے۔ ہمارا پورا خاندان مہاجر ہونے کے باوجود ایم۔کیو۔ایم کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔۔۔ (شاید یہ بھائی لوگوں سے غداری ہے :wink: ۔۔۔ مگر میں نے “لال بتی“ نہیں جانا۔۔۔ :) )
 
سب کو سلام
میں‌اس محفل میں پسندیدہ نہیں اور شاید یہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ کردی جائے۔ مگر ایک بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ایم کیو ایم لاکھ دھشت گرد سہی مگر یہ تو اس دباؤ اور محرومی کا لازمی نتیجہ ہے جو مہاجروں کے حصے میں‌ائیں ہیں۔ میں‌جانتا ہوں کہ اپریشن 91 یا 92 میں ان کے نوجوانوں‌پر کیسا ظلم کیا (قطع نظر درست یا غلط) اور کتنے ماورائے عدالت قتل کراچی میں‌ہوئے جن میں سے کئی ایک کا میں‌خود شاہد ہوں۔ جب کسی گھر کا ایک بھی فرد مارا جائے تو وہ زندگی بھربدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے یہاں تو ایم کیو ایم اور انکے حمایتیوں کو بے رحمانہ قتل کیاگیا اور وہ بھی بغیر کسی عدالت کے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی حمایت میں‌اپریشن کے بعد بڑھ گئی۔
اللہ کرے کہ اب سب کو عقل اجائے۔ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ ایم کیو ایم کی نادان قیادت اپنی نادانی اور فوج کے ساتھ انمٹ رشتے کے بدولت سازش کا بھی شکار ہوئی ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
سراسر حکومتی آشیر باد پر ایم کیو ایم نے یہ ننگا ناچ ناچا۔ الطاف حسین ایک نفسیاتی مریض اور نیم پاگل شخص ہے جس نے کراچی کے حالات کا بارہا بیڑا غرق کیا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس کے پیچھے چلنے والے کون لوگ ہیں اور ان کی عقلیت کا کیا میعار ہے۔
 
راہبر نے کہا:
اور آپ لوگوں کو میں ایک بات بتاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :cry:
کل رات جب گھر پر میں نے امی کو بتایا نا کہ میں نے اردو محفل پر ایم۔کیو۔ایم کی مخالفت میں لکھا ہے تو۔۔۔۔۔ :cry: :cry: :cry:
امی نے بہت باتیں سنائیں مجھے۔۔۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ میں نے نیٹ پر گھر کا پتہ وغیرہ تو نہیں دیا ہوا؟ کوئی مجھ تک کسی طرح پہنچ تو نہیں سکتا؟؟؟ میں نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ فکر ناٹ۔۔۔ مگر وہ ماں ہیں نا۔۔۔ فکر کرنا ان کا کام ہے۔۔۔ یہ اتنا چھوٹا سا واقعہ بھی اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ کراچی کے لوگ (حتی کہ ہم مہاجر ہیں پھر بھی) ایم۔کیو۔ایم کی دہشت گردی کا کتنا خوف لئے دل میں بیٹھے ہیں۔۔۔
میں نے ہمیشہ لسانی تعصب سے بالاتر رہنے کی کوشش کی ہے اور ایم۔کیو۔ایم ہمیشہ لسانی تقسیم کی بات کرتی ہے۔ ہمارا پورا خاندان مہاجر ہونے کے باوجود ایم۔کیو۔ایم کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔۔۔ (شاید یہ بھائی لوگوں سے غداری ہے :wink: ۔۔۔ مگر میں نے “لال بتی“ نہیں جانا۔۔۔ :) )

ایسا ہی حال دور بیٹھ کر بھی ہے ، مجھ سے ایک دوست نے کہا کہ اسی بلڈنگ میں بھی ایم کیو ایم کے حمایتی ہیں اور میں یوں آفس میں بھی میل نہ کروں۔
 

شعیب صفدر

محفلین
ایم کیوں ایم (میں کیوں مروں)

اوپر کی زیادہ تر تمام بحث مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے لسانی ہی ہو!! کیوں؟ بات کسی جماعت یا گروں کہ خلاف نہیں ہو رہے بلکہ علاقائی تقسیم کے اعتبار سے پہچان پر ہو رہی ہے!!!
ویسے مجھے بھی کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ الطاف بھائی کوئی جنونی شخص ہے جسے شوق ہو کہ لوگ اُسے کوئی عظیم ہستی وغیرہ سمجھے!! پیر وغیرہ! آپ اُس کی بات کرنے کے انداز اور لوگوں کے سر پر ہاتھ پھیرتی تصاویر کو دیکھ لیں!
اسٹوڈنٹ لیول پر اِس پارٹی کی جماعت میں رکن کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اِس بات پر یقین رکھے کہ “قائد کی ہر بات درست ہے اُس سے اختلاف کی اجازت نہیں“ (یہ اُن پانچ معقولوں میں سے ایک ہے جو اِس تنظیم کے رکن یاد کرتے ہیں!!! اِس پارٹی میں جمہوریت کا کیا حال ہے اِس سے سمجھا جاتا ہے!! اور یاد رہے یہ کم عمر لڑکے ہی اِس پارٹی گلی کی سطح پر ایک طاقت ہیں!
12 مئی کو کراچی میں طاقت کی بانسری جس انداز میں بجائی گئی وہ صرف اور صرف ایم کیوں ایم کے لئے ہی تباہ کن ہی نہیں بلکہ خود مشرف کے ساکھ کےلئے بھی اچھی نہیں ہے!! دونوں ایک دوسرے کے لئے نادان دوست ثابت ہوئے ہیں!!
یہ کہنا کہ جو لوگ ٹی وی پر نظر آئے وہ ایم کیوں ایم کے نہیں بلکہ اُسے بدنام کرنے کے لئے اُس کے جھنڈے لئے کھڑے تھے!! ایک بھونڈا مذاق ہی ہو گا!! اگر حکومت میں رہتے ہوئے اُس کے حریف یا حلیف اُس کے خلاف ایسے سازش کر سکتے ہیں تو پھر اُسے حکومت کا کیا حق جو خود کو نہیں بچا سکی عوام کو کیا بچائے گی!!
کوئی بھی واقعی ہو جائے تو ملزمان کی تصاویر کا خاکا بنا کر اُن تک پہنچا جاسکتا ہے!! یہاں تو اُن کی تصاویر میڈیا میں آ چکی ہیں اگر انہیں نہیں پکڑا جاتا تو اسے کیا کہا جائے گا!!!
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ پارٹی اپنی مقبولیت کھو چکی ہے!! ایک دن میں اتنا بڑا نقصان کسی جماعت کا ہوتا میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے!! اندرون سندھ خاص کر اور پنجاب اور سرحد میں اسے اپنے دفاتر بند کرنے پڑے ہیں اور ایک اطلاع کے مطابق 200 سے زیادہ افراد نے اِس پارٹی کے عہدوں سے استعفے دے دیئے ہیں!! کراچی کے علاوہ پواے ملک سے!!
 

خاور بلال

محفلین
‌آپ چھپ کے ہم کو کرکے روبرو
خوب ہی رسوا کرایا یار نے

الطاف بھائی نے لفظ مہاجر کی عصمت پامال کردی۔ اسلام میں ہجرت کی کیا اہمیت ہے سب جانتے ہیں۔ لیکن ایک دن یہ بھی آنا تھا کہ یہ لفظ گالی بن گیا۔ خود لندن میں بیٹھ کر مہاجروں کو اس دہشت گردی کے نتائج بھگتنے کے لئے چھوڑ دیا۔ پنجاب اور سرحد نے اپنا تعلیمی معیار بلند کرلیا اور کراچی! اسکا یہ حال ہے کہ لانڈھی، کورنگی اور وہ علاقے جو متحدہ کا گڑھ مانے جاتے ہیں وہاں این ای ڈی اور جامعہ کراچی کا پوائنٹ داخل نہیں ہوتا۔ جب متحدہ کا سیکٹر انچارج میٹرک کا پرچہ پاس کرواسکتا ہے تو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔محرومی اور نسل پرستی کی بات کرنے والوں نے تعلیم سے دوری اختیار کرکےخود اپنی قوم کے ساتھ ظلم کیا۔ یاد رکھیں اسلام نیشنل ازم کی نفی ہے۔ نیشنلسٹ مفاد پرست ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے جلتاہے اور اپنی قوم سے باہر سسکتی انسانیت کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی قوم کے حق کے لئے ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو جائز سمجھتاہے جب کہ نبی (ص) نے فرمایا؛ جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں۔
تتلیوں کے موسم میں ۔۔۔
نوچنا گلابوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور جانے، کب سے ہے

دیکھ کر پرندوں کو
باندھنا نشانوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اورجانے کب سے ہے

تم ابھی نئے ہو نا
اس لئے پریشاں ہو
آسماں کی جانب
اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں
ٹوٹنا ستاروں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

شہر کے باشندے
نفرتوں کو بوکر
انتظار کرتے ہیں
فصل ہو محبت کی
چھوڑ کر حقیقت کو
ڈھونڈنا سرابوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

عالمی دہشت گرد امریکا کی مقامی ایجنٹ ایم کیو ایم نے وفاداری کا حق ادا کردیا۔ یہ سانپ کے پجاری اور لاشوں کے بیوپاری، امریکا کی یاری میں اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔ ایم کیو ایم کا جنگی پلان خود امریکا کیلئے باعث تقویت ہے، ورنہ وہ تو عراق میں بدامنی کے لئے ابھی تک بم دھماکوں کا سہارا لیتا رہا۔ پبلک کو گھیر کر سڑکوں پر مارنے کا آئیڈیا تو امریکا کے لئے بھی نیا ہے۔ میر صادق اور میر جعفر تو ان کے سامنے ننھے چوزے نظر آتے ہیں۔ گوانتا ناموبے کے قیدی تو سستے میں رہے کہ وہ ایم کیو ایم کے ہتھے نہیں چڑھے۔

اپنے اک ادنا تماشے کے لئے
ہم کو سولی پر چڑھایا یار نے

“جنرل مشرف اور ان کے نیلے پیلے اتحادی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان سیاست دان کی طرح ایکٹ کررہے ہیں اور وہ غلط نہیں کہتے مگر یہ منہ اور مسور کی دال؟؟
چیف جسٹس تو صرف سیاست دان کی طرح ایکٹ کررہے ہیں۔ مگر جنرل پرویز تو جنرل بھی ہیں سیاست دان بھی۔ صدر بھی ہیں۔ وزیر اعظم بھی۔ پارلیمنٹ بھی ہیں۔ کابینہ بھی۔ وزرائے اعلیٰ بھی ہیں اور صوبائی اسمبلیاں بھی۔ اس سے نیچے اتر کر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بات کی جائے تو وہ بینک بھی چلارہی ہے۔ مصالحے اور کھاد تیار کررہی ہے۔ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز تعمیر کررہی ہے۔ منرل واٹر بیچ رہی ہے۔ یعنی ہمارے جنریل بینکار بھی ہیں اور ماہر تعمیرات بھی۔ کون سا شعبہ ہے جو ان کی تجاوزات کی زد میں نہیں۔ مطلب یہ کہ جنرل تو پورا معاشرہ بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ ایسے لوگ چیف جسٹس کو سیاستدان کہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے اور جنرل پرویز کے اتحادی؟ ان میں سے کوئی دہشت گردی میں پی ایچ ڈی ہے۔ کوئی بھتہ خوری میں ڈی لٹ۔ کوئی لوٹا کریسی کا افلاطون ہے اور کوئی بے ضمیری کا ارسطو۔“ از شاہ نواز فاروقی

چلو اس شہر نا پرساں کی گلیوں میں
جہاں ہر گھر میں ماتم ہے ۔۔۔۔
اٹھائو اپنے سر پر، شفایابی کی تدبیریں
پرے پھینکو یہ تقریریں
چلو تاریک کوچوں میں۔۔۔
کہو ان سے!
کہ اب ہم آگئے ہیں، یہ دریدہ زخم سینے
تمہارے ساتھ مرنے، تمہارے ساتھ جینے
چلو اس شہر ناپرساں کی گلیوں میں
کریں جو ہوسکے ہم سے
کفن باندھے ہوئی سر سے


اور آخر میں

کیا جس نے گلہ
ملی اور سزا
کئی بار ہوا
یہاں خون وفا
 

نعمان

محفلین
یہ کہنا کہ لوگوں کو ایم کیو ایم کے خلاف لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے انتہائی احمقانہ بات ہے۔ لوگ ہمیشہ سے ایم کیو ایم کے خلاف لکھتے رہے ہیں۔ (اب آپ یہ کہیں گے کہ ان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا)۔ ابھی پچھلے ایک ہفتے ہی میں اتنا کچھ ایم کیو ایم مخالفت میں لکھا جاچکا ہے ہر طرف ان کی مخالفت میں ہی بات ہورہی ہے۔ تو آپ لوگوں کے خوف بے بنیاد ہیں۔

شعیب نے ٹھیک کہا ایک دن میں کسی سیاسی جماعت کا اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا ایم کیو ایم کو بارہ مئی پر ہوا ہے۔اور انہیں اس کا صلہ بھگتنا پڑے گا۔ خصوصا ان کا اردو ووٹ بینک بڑی شکست و ریخت کا شکار ہوگا (اگر لسانی فسادات سے بچے رہے تو)۔
 
ہمت علی نے کہا:
سب کو سلام
میں‌اس محفل میں پسندیدہ نہیں اور شاید یہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ کردی جائے۔ مگر ایک بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ایم کیو ایم لاکھ دھشت گرد سہی مگر یہ تو اس دباؤ اور محرومی کا لازمی نتیجہ ہے جو مہاجروں کے حصے میں‌ائیں ہیں۔ میں‌جانتا ہوں کہ اپریشن 91 یا 92 میں ان کے نوجوانوں‌پر کیسا ظلم کیا (قطع نظر درست یا غلط) اور کتنے ماورائے عدالت قتل کراچی میں‌ہوئے جن میں سے کئی ایک کا میں‌خود شاہد ہوں۔ جب کسی گھر کا ایک بھی فرد مارا جائے تو وہ زندگی بھربدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے یہاں تو ایم کیو ایم اور انکے حمایتیوں کو بے رحمانہ قتل کیاگیا اور وہ بھی بغیر کسی عدالت کے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی حمایت میں‌اپریشن کے بعد بڑھ گئی۔
اللہ کرے کہ اب سب کو عقل اجائے۔ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ ایم کیو ایم کی نادان قیادت اپنی نادانی اور فوج کے ساتھ انمٹ رشتے کے بدولت سازش کا بھی شکار ہوئی ہے۔

ہمت علی آپ کی پوسٹ برقرار ہے اور رہے گی اور آپ کو غلط فہمی ہے کہ آپ ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ آپ کی زیادہ تر باتیں صحیح سوائے اس کے کہ ایم کیو ایم سازش کا شکار ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہ سب کیا ہے اور اس کے وافر ثبوت موجود ہیں۔
 
مہوش علی نے کہا:
آصف نے کہا:
مجھے محب کی رائے سے مکمل اتفاق ہے۔ میرے حساب سے اس ساری صورتحال میں چیف جسٹس صاحب کو ذرہ برابر بھی دوش نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی ساری جدوجہد سے عام پاکستانی عوام کو ہی فائدہ ہو گا۔

آصف برادر،
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جنہوں نے ایل ایف او کے تحت حلف لیا تھا۔

اور جسٹس صاحب نے اس معاملے کو ڈیل کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے سیاسی رنگ دینے کے لیے سب سے پہلے اعتزاز احسن صاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ اور اُس وقت سے تمام سیاسی و مذھبی جماعتیں عدلیہ کے نام کے پیچھے حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں اور جسٹس صاحب اپنے نام کے پیچھے انہیں آڑ مہیا کر رہے ہیں۔

جسٹس صاحب کا ایک رنگ وکلاء بار سے خطاب کرتے ہوئے ہوتا ہے جب وہ بظاہر غیر سیاسی بیان دے رہے ہوتے ہیں، اور دوسرا روپ بار سے باہر ہوتا ہے جب وہ سیاسی قائد کی طرح گاڑی میں بیٹھ کر عوام یاترا کر رہے ہوتے ہیں اور اس آڑ میں اپوزیشن حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہوتی ہے۔

کیا یہ ضروری ہے کہ وہ بیس بیس گھنٹے کی سیاسی طرز کی عوام یاترا پر نکلیں؟ کیا کوئی ذی ہوش اس بات سے انکار کر سکے گا کہ اپوزیشن جو ماضی میں ہمیشہ حکومت کے خلاف عوام کو سڑک پر لانے میں ناکام رہی، وہ جسٹس صاحب کی آڑ میں کامیابی سے اپنے مقاصد نہیں پوری کر رہی؟

تو اب جب کہ فل بنچ تشکیل دیا جا چکا ہے تو پھر اس قانونی و آئینی مسئلے کو سڑک پر اچھالنے کا کیا مقصد؟

اور ایم کیو ایم کو صدر صاحب سے زیادہ یقینا اپنے مفاد عزیز ہیں، اور جب انہوں نے دیکھا کہ جسٹس صاحب کی آڑ میں سیاست ہے ، تو انہیں صرف اسی وجہ سے سامنے آنا پڑا۔ اگر اس پس پردہ سیاست کے علاوہ اگر آپکی نظر میں کوئی اور وجہ ہے تو بیان فرمائیے۔

اور ایم کیو ایم نے راستہ روکا تو میری نظر میں غلط کیا، مگر افسوس مجھے غیر جانبدار رویے کا ہوتا ہے کہ اس سے قبل اسی طرح کی طاقت کا استعمال یہ سیاسی وکلاء بھی کر چکے تھے جب بار کے وہ وکلاء جو صدر صاحب کے حامی تھے انہوں نے صدر صاحب کے حُ میں نعرے لگائے تھے تو یہی پڑھے لکھے وکلاء ان مخالف وکلاء پر ٹوٹ پڑے اور طاقت کے زور پر انہیں چپ کرا دیا۔

تو بتائیے کہ ایم کیو ایم اور ان پڑھے لکھے وکلاء کے طرز عمل میں کیا فرق تھا؟

تو جو فرق تھا وہ میں بتاتی ہوں۔

1۔ ان پڑھے لکھے وکلاء نے نہ صرف طاقت سے انہیں خاموش کر دیا بلکہ جھوٹا الزام لگایا کہ کچھ شرپسند کالے کوٹ پہن کر صدر صاحب کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ اور ہمارے میڈیا نے انکا یہ جھوٹا الزام خوب اچھالا۔

اس پر چوہدری صاحب ان صدر کے حمایتی وکلاء کے تمام کاغذات لیکر آ گئے۔

پر ہمارے میڈیا اور دانشوروں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو گئی اور ان سیاسی وکلاء کے جھوٹے الزام پر کوئی تنقید نہیں ہوئی اور توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہی رہا۔

اور اس میڈیا اور دانشوروں کو طاقت کے بل پر دبانے کا فتنہ صرف اس وقت نظر آیا جب کراچی میں ان کے ساتھ جیسے کو تیسا ہوا۔

آپ مانیں نہپ مانیں، مگر عدلیہ کے نام کے پیچھے یہ سیاسی جماعتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور جسٹس صاحب ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

ایم کیو ایم نے راستہ روکا تو میری نظر میں غلط کیا، مگر افسوس مجھے غیر جانبدار رویے کا ہوتا ہے کہ اس سے قبل اسی طرح کی طاقت کا استعمال یہ سیاسی وکلاء بھی کر چکے تھے جب بار کے وہ وکلاء جو صدر صاحب کے حامی تھے انہوں نے صدر صاحب کے حُ میں نعرے لگائے تھے تو یہی پڑھے لکھے وکلاء ان مخالف وکلاء پر ٹوٹ پڑے اور طاقت کے زور پر انہیں چپ کرا دیا۔

تو بتائیے کہ ایم کیو ایم اور ان پڑھے لکھے وکلاء کے طرز عمل میں کیا فرق تھا؟

تو جو فرق تھا وہ میں بتاتی ہوں۔

1۔ ان پڑھے لکھے وکلاء نے نہ صرف طاقت سے انہیں خاموش کر دیا بلکہ جھوٹا الزام لگایا کہ کچھ شرپسند کالے کوٹ پہن کر صدر صاحب کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ اور ہمارے میڈیا نے انکا یہ جھوٹا الزام خوب اچھالا۔

اس پر چوہدری صاحب ان صدر کے حمایتی وکلاء کے تمام کاغذات لیکر آ گئے۔

پر ہمارے میڈیا اور دانشوروں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو گئی اور ان سیاسی وکلاء کے جھوٹے الزام پر کوئی تنقید نہیں ہوئی اور توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہی رہا۔

اور اس میڈیا اور دانشوروں کو طاقت کے بل پر دبانے کا فتنہ صرف اس وقت نظر آیا جب کراچی میں ان کے ساتھ جیسے کو تیسا ہوا۔


مہوش آپ نے بات کی کہ چیف جسٹس کے حامی وکیلوں نے طاقت کے زور پر صدر مشرف کے حمایتی وکلا کو چپ کروا دیا اور اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ پھر آپ نے حیرت انگیز طور پر اس طاقت کے استعمال کو ١٢ مئی کے دن حکومتی طاقت کے استعمال کے ساتھ موازنہ کیا اور ان دونوں کو برابر قرار دیا جو کہ کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کہاں ایک دو وکلا کی پٹائی جس میں صرف زود و کوب کیا گیا اور واضح چوٹوں کے نشان بھی نہیں اور کہاں ٤٢ ہلاکتیں اور ٢٥٠ زخمی اور پورے شہر میں شدید خوف و ہراس اور بد امنی۔
کیا یہ دونوں صورتیں ایک جیسی ہو سکتی ہیں یا ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟

اب آتا ہوں ان وکیلوں کی طرف جو حکومت نے بھیجے تھے اور کالے کوٹ پہن کر آئے تھے۔ یہ ‘جعلی‘ وکیل تھے اور اس بارے میں اگر ویڈیو دیکھنا چاہیں تو یہاں دیکھ سکتی ہیں

http://www.bbc.co.uk/urdu/indepth/cluster/2007/03/070321_justice_nn.shtml

اس کے علاوہ ان جعلی وکیلوں کے کوائف پاک ٹریبون نے بھی شائع کیے ۔ ان کی رپورٹ مندرجہ ذیل ہے۔
There were some dramatic scenes during the protest demonstration. The lawyers of Islamabad Bar Association turned violent when some people wearing black coats chanted slogans in support of President Musharraf. The lawyers besieged a person and asked him to prove his identity. He altered his statement every time that put the lawyers in suspicion and started beating him with fists and sticks.
After interrogation it was known that the fake lawyer was Qari Iftikhar. He said some 20 to 25 people belonging to Punjab had come here to shout slogans in favour of President Musharraf. The lawyers snatched his identity card inscribed with his name Iftikharud Din s/o Muhammad Ibrahim, house number F-12 Muhala school stop Wahdat colony and ID card number 35202-4443008-5. He was a Qari in the Punjab Assembly. The Islamabad lawyers forced him to shout slogans against President Musharraf.
Another person named Muhammad Fayyaz s/o Ali Ahmad resident of Gujrat also faced the same fate. He later apologized before the lawyers. The police and district administration took him to some unidentified place.

امید ہے کہ حکومت کے حامی وکلا کو پہچان گئی ہوں گی آپ۔ اس وقت جو فقید المثال اتحاد وکلا برادری میں چیف جسٹس کی حمایت میں ہے اس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ تمام بار کونسلز ہر حکومتی وکیل کا لائنسس کینسل کر رہی ہیں ۔ چیف جسٹس سے بذریعہ پریشر استعفی لینے کی کوشش ، نو گھنٹے تک مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کی کوشش، استعفی نہ دینے پر مضحکہ خیز ریفرنس جو دو ماہ بعد بھی سامنے نہیں آسکا اور جس پر حکومت حد سے زیادہ رسوا ہو چکی ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی نظر بندی ، بنیادی انسانی حقوق کی معطلی ، بدسلوکی ، ان تمام عوامل نے نہ صرف وکلا کو متحد کر دیا ہے بلکہ چودہ سے زائد جج صاحبان مستعفی ہو چکے ہیں اور دو اٹارنی جنرل بھی۔

کیا اب بھی آپ کہیں گی کہ یہ جھوٹ ہے اور اسے میڈیا نے اچھالا ہے
 

ابوشامل

محفلین
مجھے تو ان لوگوں کی دماغی صحت پر شبہ ہوتا ہے جو الطاف حسین کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے ان افراد کو (مزید) شرمندہ کرنے کے لیے میری یہاں موجود افراد سے گذارش ہے کہ Youtube پر موجود الطاف حسین کی تقاریر کی وڈیوز یہاں بھیجیں، اس کا انداز گفتگو سے ہی اس کی ذہنیت کا عکاس ہے، حیرت ہوتی ہے کہ لوگ اس کے پیچھے اپنا دین ایمان حتی کہ دنیا بھی گنوا رہے ہیں۔ میں یہ وڈیوز اس لیے نہیں ارسال کر سکتا کیونکہ مجھے یو ٹیوب کی وڈیو یہاں رکھنے کا طریقہ معلوم نہیں۔
 
محب علوی نے کہا:
ہمت علی نے کہا:
سب کو سلام
میں‌اس محفل میں پسندیدہ نہیں اور شاید یہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ کردی جائے۔ مگر ایک بات کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔
ایم کیو ایم لاکھ دھشت گرد سہی مگر یہ تو اس دباؤ اور محرومی کا لازمی نتیجہ ہے جو مہاجروں کے حصے میں‌ائیں ہیں۔ میں‌جانتا ہوں کہ اپریشن 91 یا 92 میں ان کے نوجوانوں‌پر کیسا ظلم کیا (قطع نظر درست یا غلط) اور کتنے ماورائے عدالت قتل کراچی میں‌ہوئے جن میں سے کئی ایک کا میں‌خود شاہد ہوں۔ جب کسی گھر کا ایک بھی فرد مارا جائے تو وہ زندگی بھربدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے یہاں تو ایم کیو ایم اور انکے حمایتیوں کو بے رحمانہ قتل کیاگیا اور وہ بھی بغیر کسی عدالت کے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی حمایت میں‌اپریشن کے بعد بڑھ گئی۔
اللہ کرے کہ اب سب کو عقل اجائے۔ مجھے اب محسوس ہونے لگا ہے کہ ایم کیو ایم کی نادان قیادت اپنی نادانی اور فوج کے ساتھ انمٹ رشتے کے بدولت سازش کا بھی شکار ہوئی ہے۔

ہمت علی آپ کی پوسٹ برقرار ہے اور رہے گی اور آپ کو غلط فہمی ہے کہ آپ ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔ آپ کی زیادہ تر باتیں صحیح سوائے اس کے کہ ایم کیو ایم سازش کا شکار ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہ سب کیا ہے اور اس کے وافر ثبوت موجود ہیں۔
محب مجھے اپ کا پیغام پڑھ کر خوشی ہوئی۔
شاید اپ کو یاد ہو کہ کوئی سال بھر پہلے جب میں نے ایم کیو ایم کی خونخواریوں‌کا ذکر کرنا شروع کیا تھا تو بہت سے لوگوں کی تیور خراب ہوجاتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ نعمان جیسے حمایتی بھی اب تائب ہوگے ہیں۔ اللہ ہم سب کو راہ ھدایت پر رکھے امین۔
 

آصف

محفلین
بی بی سی اردو پر حسین عسکری نے اچھا لکھا ہے:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2007/05/070516_mqm_analysis_rza.shtml

یہاں ہمیں ایک اور بات بھی زیر بحث لانی چاہئیے اور وہ ہے حکومت بدلنے کی صورت میں ایم کیوایم پر تشدد کو روکنا۔ اگر کچھ عرصہ میں حکومت بدل جاتی ہے تو اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے ایم کیوایم نے اپنے خلاف اپریشن کا بندوبست خود ہی کر لیا ہے۔ الطاف حسین کا صدر مشرف کو وردی نہ اتارنے کا مشورہ دینے والا حالیہ بیان اسی خوف کی عکاسی ہے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند شہری ہونے کے ناتے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ایم کیو ایم کے خلاف ایسے کسی بھی ماورائے عدالت آپریشن کی شدت سے مخالفت کریں اور آنے والے دنوں میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو بھی مکمل عدالتی کاروائي کا استحقاق حاصل رہے۔
 

غازی عثمان

محفلین
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کا معاملہ بارہ مئی کو جو شکل اختیار کر گیا ہے اس نے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا کیے ہیں۔

نو مارچ کو صدر مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف ریفرینس کے بعد سے چیف جسٹس نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بار کونسلوں سے خطاب کیے اور وکلا اور سیاسی جماعتوں نے بھرپور لیکن تقریبا پر امن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخر چیف جسٹس کے کراچی کے دورے پر ہی صورتحال نے خوفناک حد تک پُرتشدد شکل کیوں اختیار کی۔ حکومت نے ان کو بار بار یہ مشورہ کیوں دیا کہ وہ کراچی نہ جائیں کیونکہ ان کے کراچی جانے سے شہر میں حالات خراب ہو سکتے ہیں۔

اِن سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیں گزشتہ بائیس برسوں کے دوران کراچی پر بلاشرکتِ غیرے راج کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔

انیس سو پچاسی میں بشریٰ زیدی نامی طالبہ کی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے عوامی احتجاج کو نسلی فسادات میں بدل دیا گیا۔ اُس عوامی احتجاج کے اندر ایک موثر تحریک بن کر اندرون سندھ اور آنے والے دنوں میں پورے ملک میں مارشل لا حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک سے جڑ جانے کی پوری صلاحیت موجود تھی۔

کراچی کے شہریوں کو یہ اچھی طرح یاد ہوگا کہ شہر میں کس طرح افواہیں پھیلائی گئیں کہ پٹھان مہاجر بستیوں پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ پٹھان علاقوں میں بھی اسی طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ کراچی یونیورسٹی میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن نامی تنظیم کے طلبہ و طالبات نے طے کیا کہ وہ پٹھانوں کے ایک علاقے بنارس جا کر وہاں لوگوں کو اِس سازش کے بارے میں سمجھائیں گے۔

لیکن نامعلوم افراد نے بنارس میں یہ افواہ پھیلا دی کہ مہاجر ایک بس میں بھر کر پٹھانوں پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس بس کے طلبہ پر تشدد ہوا، کچھ طلبہ زخمی ہوئے اور علاقے کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ لیکن شہر میں یہ افواہ پھیلا دی گئی کہ بس میں سوار مہاجر طالبات کو پٹھانوں نے اغوا کر لیا ہے۔ امن قائم کرنے کی کوئی کوشش امن خراب کرنے والوں کے ہاتھوں کامیاب نہ ہوسکی۔ شہر میں امن ریلیاں بھی نکلیں لیکن بے سود رہیں۔

اُن دنوں کے فسادات میں بڑے پیمانے پر پٹھانوں، پنجابیوں اور مہاجروں کے درمیان مسلح جھڑپوں میں سیکڑوں افراد ہلاک اور اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں اور شہر کی اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت نے ایم کیو ایم کے سائے تلے پناہ لے لی ۔

اس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کی قیادت میں فوجی ایسٹیبلشمنٹ نے اس طرح کئی فائدے حاصل کیے۔ جنرل ضیاالحق کے خلاف صوبہ سندھ میں تحریک برائے بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی ) کی تحریک کمزور ہوئی۔ پاکستان کی سب سے بڑی مڈل کلاس آبادی کو مرکزی دھارے کی سیاست سے کاٹ کر ملک کی جمہوری قوتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہچایا گیا۔ اس وقت سے آج تک کراچی ملک کے مرکزی دھارے کی سیاست سے کٹا ہوا ہے اور اِس شہر کی منتخب جماعت جمہوریت کے خلاف فوج کے ہاتھوں استعمال ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ تشدد کے نتیجے میں وجود میں آنے والی یہ جماعت آج تک تشدد کی سیاست سے باہر نہیں نکل سکی۔

فوج نے ایم کیو ایم کے لیے سیاست میں جو کردار متعین کیا ہوا ہے ایم کیو ایم نہ تو اس سے باہر آ سکی ہے نہ اسے ایسا کرنے دیا گیا ہے۔ انیس سو بانوے اور پھر انیس سو پچانوے میں کراچی میں دو ریاستی آپریشنوں کے ذریعے ایم کیو ایم کو یہ بات پوری طرح سمجھا دی گئی ہے کہ اُسے فوج کے بتائے ہوئے راستے پر ہی چلنا ہے۔ فوج کے لیے مرکزی دھارے سے کٹی ہوئی جماعت کو یہ سمجھانا آسان ہوتا ہے۔

ریاستی آپریشن کے دوران جب ایم کیو ایم کے رہنما چھپتے پھر رہے تھے اور کارکنوں کے جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل ہو رہے تھے تو یہ میڈیا ہی تھا جس نے اِس کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ بعد میں جماعت کے ایک اہم رہنما آفتاب شیخ نے کراچی پریس کلب کی ایک تقریب میں صحافیوں سے میڈیا کے ساتھ اپنے رویے کی کھلے عام معافی مانگی تھی۔

کراچی میں بارہ مئی کو ’آج‘ ٹی وی پر کئی گھنٹوں تک ہونے والی فائرنگ کی معافی کے لیے بھی شاید لوگوں کو کئی برس تک انتظار کرنا ہوگا۔

وہ انیس سو اٹھاسی اور انیس سو ترانوے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہوں یا انیس سو نوے اور ستانوے میں مسلم لیگ نواز کی حکومتیں، ایم کیو ایم کو اِن منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ایم کیو ایم نےان حکومتوں میں شامل ہوتے ہوئے بھی اِن ہی کے خلاف کام کیا اور ملک میں جمہوریت کے خلاف سازش میں اہم کردار ادا کیا۔

انیس سو ستانوے میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں تقریبا یقینی جیت کے باوجود عین وقت پر بائیکاٹ کرکے اس جماعت نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ ٹھیک دو دنوں کے بعد صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا اور بھرپور کامیابی حاصل کی اور ثابت کیا کہ شہر کی سب سے مقبول جماعت ہونے کے باوجود اس جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ نائن زیرو میں نہیں بلکہ کہیں اور کیا جاتا ہے۔

ایم کیو ایم نے لوگوں کی اِس امید کو بھی ختم کر دیا کہ متوسط طبقے کی نمائندگی کرنے والی جماعت ملکی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔ وکلا کی تحریک متوسط طبقے ہی کی تحریک ہے اور دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کو اس کا حصہ ہونا چاہیے تھا ۔

ایم کیو ایم کے اسی کردار کے تناظر میں اگر دیکھیں تو بارہ مئی کو چیف جسٹس کی کراچی آمد اور جبری واپسی کے موقع پر کراچی میں ہونے والا تشدد اور ایک ہی دن میں چونتیس افراد کی ہلاکت کا معاملہ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔

چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کے خلاف ملک بھر میں وکلا اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج اور چیف جسٹس کے ملک کی مختلف بار کونسلوں سے خطاب کے موقع پر ججوں کی اکثریت کا موجود ہونا، اس سارے معاملے کو نشر کرنے کے دوران میڈیا پر حکومتی دباؤ اور ٹی وی چینلوں پر حملوں کے باوجود میڈیا کی جانب سے اس دباؤ کا سامنا کرنا، یہ سب وہ عوامل ہیں جنھوں نے موجودہ حکومت اور اس کے فوجی سربراہ جنرل مشرف کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے اور ظاہر ہے فوج کو بھی ایک ادارے کی حیثیت سے ہر وہ تحریک پسند نہیں جس سے ملک میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا کوئی امکان پیدا ہو۔

اس موقع پر ایم کیو ایم ایک مرتبہ پھر فوج کے کام آئی ہے اور چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف چلنے والی پر امن تحریک میں تشدد کا عنصر کراچی کے ذریعے داخل کیا گیا ہے ۔

اسی دوران صدر مشرف اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے درمیان رابطوں اور ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ وہ صدر مشرف جو ظفراللہ جمالی جیسے بے ضرر وزیراعظم کو بھی برداشت نہیں کر سکے وہ بے نظیر سے بات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ فوج کے اندر بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ صدر مشرف اپنے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں جتنے کمزور آج ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔

اسی لیے موجودہ فوجی ایسٹیبلشمنٹ مجبوراً یہی چاہتی ہے کہ اب پیپلز پارٹی جیسی عوامی جماعت کو شریکِ اقتدار کر کے صدر مشرف کو مزید موقع دیا جائے۔ ادھر موجودہ حالات میں امریکہ کی طرف سے بھی یہ اشارے ہیں کہ ماشل لا یا ایمرجنسی فی الحال اُسے قبول نہیں۔ خاص طور پر وہ اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں کوئی جہادی جنرل اقتدار پر قابض نہ ہو جائے۔لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ صدر مشرف کی اقتدار پرگرفت کمزور ہورہی ہے اور بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اگر صدر مشرف نے جلد ہی پیلپز پارٹی کے ساتھ معاملات طے نہیں کیے تو نہ وہ وردی نہ ہی بغیر وردی کے صدر رہیں گے۔ان حالات میں امریکہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ صدر مشرف بے نظیر کے ساتھ مل کر حکومت کریں اور امریکی یہ بات صدر مشرف کو بھی سمجھا رہے ہیں۔

اسی تناظر میں اگر وکلا اور سیاسی جماعتوں کی موجودہ تحریک کے دباؤ میں آ کر فوج پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار کی شراکت پر مجبور ہو جاتی ہے تو اس شراکت میں اسے بہت سے اختیارات سے محروم ہونا پڑے گا اور اقتدار کا ایک بڑا حصہ سیاسی جماعتوں کو منتقل ہو جائےگا۔

ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی میں تشدد کروا کر یا جامعہ حفصہ کا معاملہ کھڑا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے نام پر چلنے والی اس تحریک کو جس حد تک ممکن ہو کمزور کر دیا جائے تاکہ اقتدار کی اس شراکت میں فوج اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصے کو یقینی بنا سکے۔
 
بہت عمدہ اور مفصل تجزیہ کیا ہے آپ نے محترم اور معلومات میں خاصہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ کا نام نہیں معلوم جس وجہ سے آپ کو نام سے مخاطب نہیں کر سکا۔
 

ابوشامل

محفلین
چلیں جی تھوڑی سی کوشش کے بعد یوٹیوب کی وڈیو اپ لوڈکرنے کا طریقہ آگیا۔ ذرا یہ وڈیو دیکھیے جو جیو نیوز پر ہونے والے حملے کے بعد الطاف حسین کا تبصرہ ہے، مجھے تو انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ لوگ اس کے پیچھے ہیں:
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=hVaQ8VzFQwE
[/youtube]
 

زیک

مسافر
آصف نے کہا:
یہاں ہمیں ایک اور بات بھی زیر بحث لانی چاہئیے اور وہ ہے حکومت بدلنے کی صورت میں ایم کیوایم پر تشدد کو روکنا۔ اگر کچھ عرصہ میں حکومت بدل جاتی ہے تو اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے ایم کیوایم نے اپنے خلاف اپریشن کا بندوبست خود ہی کر لیا ہے۔ الطاف حسین کا صدر مشرف کو وردی نہ اتارنے کا مشورہ دینے والا حالیہ بیان اسی خوف کی عکاسی ہے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند شہری ہونے کے ناتے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ایم کیو ایم کے خلاف ایسے کسی بھی ماورائے عدالت آپریشن کی شدت سے مخالفت کریں اور آنے والے دنوں میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو بھی مکمل عدالتی کاروائي کا استحقاق حاصل رہے۔

یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں rule of law قائم کریں۔
 
Top