میری ملاقات سدرہ سے مقامی اخبار کے دفتر میں ہوئی تھی، میں اپنے صحافی دوست سے ملنے گیا تھا، اور سدرہ وہاں اپنی ایک رپورٹ کی اشاعت کے سلسلے میں آئی تھی، دونوں میں کافی زوردار بحث ہو رہی تھی، میرا دوست بضد تھا کہ سدرہ اس آرٹیکل کی اشاعت سے باز رہے، اور سدرہ بضد تھی کہ اسے شائع کیا جائے، مسئلہ کچھ ایسی نوعیت کا تھا کہ جب میں نے اس آرٹیکل کو پڑھا تو یہ اندازہ لگانا میرے لئے بھی مشکل نہیں رہا کہ یہ آرٹیکل سدرہ کے لئے کافی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سدرہ کو سمجھایا کیسے جائے وہ ایک اصولی بات کر رہی تھی اور میں اس کے جذبہ حب الوطنی سے متاثر بھی تھا، اس کی شخصیت کی خاص بات اسکی وہ معصومیت تھی جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھی اس کا انداز گفتگو، اور جنون کی حد تک وطن پرستی نے مجھے خاصا متاثر کیا تو میں نے اپنی بات کا آغاز اسکو "بیٹا" کہہ کر کیا۔ ۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا کہ کیسا عجیب بندہ ہے جو عورت کو سب سے خوبصورت روپ میں مخاطب کر رہا ہے، بہرحال میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ۔ "میری عمر کی طرف نہ دیکھو تم ایک ایسی لڑکی ہو جو اپنے اندر ایک بھرپور اخلاقی جرات رکھتی ہے۔ اور میںتم جیسی لڑکی کو "بیٹا" کہنا بھی فخر سمجھتا ہوں، اگر تم مجھے اس قابل سمجھو تو میں اس سلسلے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، اس نے جب رضامندی کا اظہار کیا تو میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "تم ایک اچھی سوچ کی مالک اور عملی لڑکی ہو مگر تھوڑی سی عقل سے پیدل ہو"۔ ۔ اور میرا یہ اندھا تیر نشانے پر لگا ۔ کیونکہ اب اسکی آنکھوں میں تھوڑی سے دلچسپی تھی۔ کیونکہ میں یہ پہلے ہی محسوس کر چکا تھا کہ مجھے اسکو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ ۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تم کیا سمجھتی ہو جو تم نے لکھا ہے وہ تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ہے، یہ معاشرہ اندھا ہے، پاگل ہے، یا کچھ اور ہے ؟ اس نے کہا آپ کا مطلب کیا ہے۔ ۔ میں نے تھوڑا سا اور بے تکلف ہوتے ہوئے کہا " نا لائق لڑکی تم اچھی خاصی پاگل بھی ہو، کبھی تمہاری والدہ نے تم کو بتایا کہ تم کچھ کچھ کریک بھی ہو"۔ ۔ اس مرتبہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بڑی واضح تھی، اور یہ وہ موقع تھا جب میں اسکو اچھی طرح سمجھا سکتا تھا۔ ۔ ۔ میں نے ایک دم پینترا بدلا اور نہایت سنجیدگی سے اسکو سمجھانا شروع کیا۔ ۔
"دیکھو گڑیا رانی یہ جو تم نے ایک عدد سینئر ایس پی صاحب کو اپنا نشانہ بنایا ہے تم اسے کیا سمجھتی ہو؟ وہ کوئی شریف انسان ہے، اور کیا اسکا کسی ایسے محکمے سے تعلق ہے جہاں انصاف سب کے لئے برابر ہے۔ یا عدالت اسے سزا دیگی ۔ تم کیا سمجھتی ہو یہ انڈین فلمز کیا ہیں؟ یہ سب ہمارے معاشرے کی کہانیاں پیش کرتی ہیں، جو کچھ اس میں دکھایا جاتا ہو وہ انڈیا میں کم اور ہمارے ملک میں زیادہ ہوتا ہے۔ سارے کردار ہمارے معاشرے کے ہوتے ہیں، یہ سارے افسران ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک کلرک سے جج تک، اور اسکول ٹیچر سے ایک صحافی تک۔ ۔ یہ سب کے سب لوگ اپنی اپنی قیمتوں پر بکتے ہیں۔ ۔ تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم غلط جگہ پر، غلط وقت پر، ایک حساس موضوع پر بحث کر رہی ہو، میری نظر میں تمہارا درجہ بلند ہے کیونکہ تم ایک اچھی لڑکی ہو، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم یہ کام بند کر دو بلکہ تمہاری بےوقوفی یہ ہے کہ تم غلط وقت پر، غلط جگہ پر صحیح کام کرنا چاہتی ہو، تمہارا یہ آرٹیکل اپنی جگہ صحیح ہے مگر ذرا یہ تو سوچو کہ اسکو کیسے لوگوں کہ توجہ دلائی جائے"۔ ۔
تو یہ میری پہلی ملاقات تھی ایک پیاری دختر پاکستان سے۔ ۔جس کا وہ آرٹیکل تو شائع نا ہوا مگر اس آرٹیکل سے وہ جو کام لینا چاہتی تھی وہ میرے مشورے سے ہو گیا، اس دن وہ بڑی خوش تھی اور مجھ پر اسکا اعتماد اتنا زیادہ بڑھا کہ اس نے ڈرتے ڈرتے مجبے کال کیا۔ "سر ایک بات کرنی ہے آپ سے"۔ ۔ میں نے کہا "ہاں تو کہو نا کیا بات ہے، کیا کوئی رشتہ وغیرہ ڈھونڈ لیا ہے تم نے میرے لئے؟ "۔ ۔ اس پر وہ بہت ہنسی اور کہا کہ "اگر آپ کل فارغ ہیں تو ہمارے ساتھ ڈنر کرینگے ہمارے گھر پر۔ "۔ ۔ ۔ میں بڑی زور سے ہنسا اورکہا کہ تم کیا پورے محلے سے میری ملاقات کروانا چاہتی ہو نالائق"۔ ۔ خیر اس معمولی نوک جھونک کے بعد میں نے فون رکھ دیا اور اپنے سارے پروگرام ملتوی کرکے اگلے دن سدرہ سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ۔ خیر جب میں اسکے گھر بعد مغرب پہنچا تو وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر جب وہ واپس آتی تو ساتھ میں اس کی والدہ تھیں۔ ۔ میری حس مزاح ایکدم جاگی اور میں نے کہا "اوئے لڑکی تمہاری امی تو تمہاری سینئر ڈپلیکیٹ لگتی ہیں۔ اس بات پر دونوں خوب ہنسیں۔ ۔ بہرحال اسکی والدہ سے بات چیت پر پتہ چلا کہ وہ بھی خاصی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ۔ یوں رفتہ رفتہ مجھے ایک چھوٹی سے فیملی مل گئی۔ ۔ ایک سمجھدار ماں اور پیاری سے بہن۔ ۔ اور میں اس فیملی میں کچھ ایسے گھل مل گیا جیسے میرا جنم جنم کا ان سے ناطہ ہو۔ ۔ ۔
تو یہ ایک تفصیلی احوال تھا ایک ایسی لڑکی سے ملاقات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو عملی جدوجہد سے ختم کرنا چاہتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیتی ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کےساتھ ملکر ایک سروے کیا ہے، اور ایک ایسی تبدیلی پر اس نے بڑی محنت سے مواد جمع کیا ہےجس پر شاید ابھی کسی نے نہیں سوچا میں اس سلسلے میں ان تمام طالبعلموں کا مشکور ہوں جنہوں نے یہ کام کیا ہے خصوصا کراچی اور لاہور کے طلبہ اور طالبات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی ان تندیلیوں کو سنجیدگی سے محسوس کر رہے ہیں اور عملی اقدامات کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ شامل بھی کررہے ہیں، گو یہ کام وہ لوگ اپنے آپ کو چھپا کر رہے ہیں مگر اس کو میں وقت کا تقاضہ سمجھتا ہوں، بہرحال وہ رپورٹ احاطہ کرتی ہے ہماری نوجوان نسل میں بڑہتی ہوئی بے راہ روی کا اور ان تمام عوامل کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو ان تمام چیزوں کی خاص وجوہات ہیں۔ ۔
"کبھی آپ لوگوں نے سوچا کہ ہم جو آج ترقی کر رہے ہیں وہ کس حد تک مثبت ہے اور کس حد تک منفی ہے، ترقی کے نام پر جو زہر ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی رگوں میں داخل کر رہے ہیں وہ ہمیں اور ہماری پروان چڑہتی ہوئی نسل کو کس حد تک تباہ و برباد کر رہا ہے اس پر شاید ابھی ہم میں سے کوئی غور نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی رنگینی کچھ ایسی ہے کہ اس نے ہمارے سب مقدس رنگوں کو اپنے اندر مدغم کر لیا ہے، آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آج ہمارے بچے بچے کے پاس موبائل ہے، جس میں ہر منٹ کے حساب سے پیسہ ڈلتا ہے، اور کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ہماری آمدنی میں تو کوئ اضافہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برسوں میں خصوصا دور مشرفی میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ تقریبا چار سو فیصد کی حد سے تجاوز کر گئی ہے، اور بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ انڈسٹری تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے اور کاروبار کی حالت سب کے سامنے ہے کہ آج ایک ارب پتی بھی ماہانہ بجٹ بنانے پر مجبور ہے ۔ تو یہ غریب لوگ کیسے گزارا کر رہے ہونگے۔ ۔ ہمارا پیارا پاکستان جہاں غریب آبادی کا تناسب ۲۰۰۷ کے اختتام پر ۸۱ فیصد تک ہو چکا ہے۔ وہ لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو کیسے کھینچ رہے ہیں یہ وہی جانتے ہونگے۔ ۔ مگر اس غربت کے باوجود ترقی کرنے کی حوس، انڈین چینلز کی بھرمار، گلیمر، اور ان تمام چیزوں کے ساتھ قدم قدم سے ملا کر چلنے کی کوشش میں ہم گناہوں کی کیسی دلدل میں گر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو شاید آگے پڑہنے سے ہو جائے فالحال میں سرف شہر کراچی سے کلیکٹ کئے ہوئے اعداد و شمار آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور جو رپورٹ میں لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد کی دیکھ رہا ہوں وہ کراچی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ۔
کراچی کی آبادی ۔ تقریبا ایک کروڑ انیس لاکھ (غیر سرکاری)
مالدار طبقہ ۔ تقریبا دس فیصد
متوسط طبقہ ۔ تقریبا اٹھارہ فیصد
غریب طبقہ ۔ تقریبا باسٹھ فیصد ( جس میں انتہائی غریب طبقہ اسی فیصد ہے)
گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فروخت ہوئے! اوسطا فی موبائل کی قیمت تین ہزار روپے رہی !
گزشتہ پانچ سال میں مختلف موبائل کنکشنز دو کروڑ اسی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ مطلب یہ کہ کراچی میں فروخت ہونے والے سم کارڈز کی تعداد دو کروڑ اسی لاکھ ہے، جس میں سے ایکٹیو کنکشنز پچاسی فیصد ہیں، مطلب تقریبا تمام سم کارڈز وقتافوقتا استعمال ہوتے ہیں، شرط صرف بیلنس کی ہوتی ہے۔ جس سم میں بیلنس ہے وہ زیر استعمال ہے۔
چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔
ان اعداد و شمار پر ذرا غور فرمائیے کہ یہ جو روزانہ پیسہ بیلنس کی مد میں استعمال ہو رہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ بے روزگاری حد سے تجاوز کر چکی ہے، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،
آیئے آگے بڑہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سو فیصد حقائق پر مبنی ایک اور رپورٹ دیکھیں)
مانع حمل گولیاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایبٹ کمپنی کے کچھ سیلز ایجنٹس اور مختلف میڈیسن کمپنیز کے کچھ اعلی عہدے داروں نے ایک سروے رپورٹ پیش کی جس کے تحت کراچی شہر میں ان گولیوں کی فروخت کا تناسب شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ افراد میں چار سو فیصد ہے، مطلب یہ ہے کہ فرض کریں کہ کراچی میں روزانہ میں سو شادی شدہ جوڑے ہیں اور وہ تمام بغیر کسی ناغے کے ان گولیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان تمام جوڑوں کی ضرورت ڈیڑہ سو گولیاں ہیں، اب اگر اسی شہر میں یہ گولیاں آٹھ سو کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہوں اور ان کے خریدار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو اسکا کیا مطلب ہوا ؟ ؟ ؟ ؟
لیباریٹری رپورٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی معتبر لیباریٹریز سے جب پیشاب کی تجزیاتی رپورٹ پر ٹیکنیشنز سے معلومات اکٹھی کی گئیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ لڑکیوں کے ہر دس سمپلز میں سے چار کے رزلٹس پازیٹیو ہوتے ہیں جب کہ ان کی عمر چودہ سے بائیس سال ہوتی ہیں، اور تمام ہی غیر شادی شدہ ظاہر کی جاتی ہیں۔ ۔ ۔
بیوٹی آئٹمز کی فروخت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کراچی میں ہی نہیں پاکستان کے تمام شہروں میں یہ چیز دیکھی جا سکتی ہے کہ یہ آئٹمز زیادہ فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ وہ واحد بزنس ہے کہ جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور اس میں روزانہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، ایک ایک آئٹم کی قیمت کا اندازہ آپ سب لوگوں کو اچھی طرح ہے، اس سے آگے کیا کہا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔
ایک لیڈی ڈاکٹر جو ایک پوش علاقے میں اپنا کلینک چلاتی ہیں اور کافی سینئر ہیں جب میں نے طب سے متعلق ان حقائق کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر رضا میں انتہائ افسوس کے ساتھ تمہیں بتاتی ہوں کہ اب ہم رسوائ کی ایک ایسی راہ پر چل پڑےہیں جہاں سے واپسی بھی رسوائ کے ساتھ ہوگی جو اعداد و شمار ان طلبہ نے اکٹھا کئے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں حقیقت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے، میرے پاس اوسطا پندرہ کیسز روزانہ صرف اسی مقصد سے آتے ہیں کہ حمل ضایع کرانا ہے یا میں ابھی ماں نہیں بننا چاہتی ہوں، جب ان سے کہو کہ اپنے شوہر کو ساتھ لاؤ تو بجائے شوہر کے لڑکی کی ماں آجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ، ۔۔۔۔ بقول ڈاکٹر صاحبہ کہ وہ اب ذہنی طور پر خاصی ڈسٹرب رہتی ہیں، کیونکہ وہ ایک مشرقی عورت کی حیثیت سے جو محسوس کرتی ہیں وہ خاصا تکلیف دہ ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کے لئے پریشان ہیں۔ ۔ ۔ ۔
یہ تو ہوا لڑکیوں کا قصہ۔ ۔ ۔ اب آجائیے نوجوانوں کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی آج ایک ایسا شہر ہے جہاں زندگی انتہائی غیر محفوظ ہے، میں اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیوں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، روزانہ موبائل چھیننے کی وارداتیں ایک ایسا معمول ہیںکہ اب لوگ ایف آتی آر درج کراتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اب لوگ ایک دوسرے کو یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو اگر کوئی موبائل یا نقدی مانگے تو حیل و حجت نا کرنا۔ بلکہ اپنی جان کی فکر کرنا۔ ۔ ۔
جی تو اہل وطن یہی وہ نو جوان ہیں جو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں اور بعد میں کچھ سیاسی جماعتیں ان کو استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ان بچوں کو موبائل بیلنس کے، ہوشربا ملبوسات کیلئے، اور اپنی ساتھیوں کو بیلنس شئیر کرانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف جرائم اور عصمت فروشی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
آج ہم یہ باتیں تو شئیر کر رہے ہیں مگر سوچنا یہ کہ ہمارے یہ بچے کس کی وجہ سے اس راہ پر جا رہے ہیں، اس میں ہمارا قصور کتنا ہے، ان والدین کا قصور کتنا ہے، جب بچی انیتہائ بھڑکیلا میک اپ کرکےگھر سے ٹیوشن سنٹرکا کہ کر نکلتی ہے تو اس پر یہ چیک کیوں نہیں لگتا کہ سنٹر کا ٹائم کیا ہے اور دورانیہ کتنا ہے۔ ۔ ۔ یا لڑکا جب رات کو بارہ بجے گھر میں داخل ہو رہا ہے تو باپ کیوں نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آرہے ہو،
بہرحال یہ وہ دلخراش حقائق ہیں جو ہم کو قبول کرنے ہونگے اور اس کے سدباب کے لئے محض سرکار کی طرف نہیں انفرادی طور پر سوچنا اور کوشش کرنا ہوگی۔ افسوس یہ ہے کہ جب میں پوسٹ محفل میں انٹر کرونگا تو بعض لوگ یہی کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہوتا محض الزامات ہیں اور غیر مصدقہ رپورٹ ہے، اس میں ایسے تمام خواتین و حضرات کو یہ پیشگی اطلاع دے دوں کہ اگر آپ اس قسم کی صورتحال کا اگر شکار نہیں ہیں تو پلیز یہ نا سمجھیں کہ پورا معاشرہ ہی ایسے چل رہا ہے، بلکہ یہ سوچیں کہ کہیں ہمارے ارد گرد بے خبری میں تو کیہں ایسا کچھ نہیں چل رہا ہے۔ ۔ ۔
میں اتنا کہونگا کہ زیادہ بے خبری اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ یونس رضا
"دیکھو گڑیا رانی یہ جو تم نے ایک عدد سینئر ایس پی صاحب کو اپنا نشانہ بنایا ہے تم اسے کیا سمجھتی ہو؟ وہ کوئی شریف انسان ہے، اور کیا اسکا کسی ایسے محکمے سے تعلق ہے جہاں انصاف سب کے لئے برابر ہے۔ یا عدالت اسے سزا دیگی ۔ تم کیا سمجھتی ہو یہ انڈین فلمز کیا ہیں؟ یہ سب ہمارے معاشرے کی کہانیاں پیش کرتی ہیں، جو کچھ اس میں دکھایا جاتا ہو وہ انڈیا میں کم اور ہمارے ملک میں زیادہ ہوتا ہے۔ سارے کردار ہمارے معاشرے کے ہوتے ہیں، یہ سارے افسران ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک کلرک سے جج تک، اور اسکول ٹیچر سے ایک صحافی تک۔ ۔ یہ سب کے سب لوگ اپنی اپنی قیمتوں پر بکتے ہیں۔ ۔ تمہاری غلطی یہ ہے کہ تم غلط جگہ پر، غلط وقت پر، ایک حساس موضوع پر بحث کر رہی ہو، میری نظر میں تمہارا درجہ بلند ہے کیونکہ تم ایک اچھی لڑکی ہو، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم یہ کام بند کر دو بلکہ تمہاری بےوقوفی یہ ہے کہ تم غلط وقت پر، غلط جگہ پر صحیح کام کرنا چاہتی ہو، تمہارا یہ آرٹیکل اپنی جگہ صحیح ہے مگر ذرا یہ تو سوچو کہ اسکو کیسے لوگوں کہ توجہ دلائی جائے"۔ ۔
تو یہ میری پہلی ملاقات تھی ایک پیاری دختر پاکستان سے۔ ۔جس کا وہ آرٹیکل تو شائع نا ہوا مگر اس آرٹیکل سے وہ جو کام لینا چاہتی تھی وہ میرے مشورے سے ہو گیا، اس دن وہ بڑی خوش تھی اور مجھ پر اسکا اعتماد اتنا زیادہ بڑھا کہ اس نے ڈرتے ڈرتے مجبے کال کیا۔ "سر ایک بات کرنی ہے آپ سے"۔ ۔ میں نے کہا "ہاں تو کہو نا کیا بات ہے، کیا کوئی رشتہ وغیرہ ڈھونڈ لیا ہے تم نے میرے لئے؟ "۔ ۔ اس پر وہ بہت ہنسی اور کہا کہ "اگر آپ کل فارغ ہیں تو ہمارے ساتھ ڈنر کرینگے ہمارے گھر پر۔ "۔ ۔ ۔ میں بڑی زور سے ہنسا اورکہا کہ تم کیا پورے محلے سے میری ملاقات کروانا چاہتی ہو نالائق"۔ ۔ خیر اس معمولی نوک جھونک کے بعد میں نے فون رکھ دیا اور اپنے سارے پروگرام ملتوی کرکے اگلے دن سدرہ سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ۔ خیر جب میں اسکے گھر بعد مغرب پہنچا تو وہ میرا انتظار کر رہی تھی۔ ۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر جب وہ واپس آتی تو ساتھ میں اس کی والدہ تھیں۔ ۔ میری حس مزاح ایکدم جاگی اور میں نے کہا "اوئے لڑکی تمہاری امی تو تمہاری سینئر ڈپلیکیٹ لگتی ہیں۔ اس بات پر دونوں خوب ہنسیں۔ ۔ بہرحال اسکی والدہ سے بات چیت پر پتہ چلا کہ وہ بھی خاصی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ۔ یوں رفتہ رفتہ مجھے ایک چھوٹی سے فیملی مل گئی۔ ۔ ایک سمجھدار ماں اور پیاری سے بہن۔ ۔ اور میں اس فیملی میں کچھ ایسے گھل مل گیا جیسے میرا جنم جنم کا ان سے ناطہ ہو۔ ۔ ۔
تو یہ ایک تفصیلی احوال تھا ایک ایسی لڑکی سے ملاقات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والی خرابیوں کو عملی جدوجہد سے ختم کرنا چاہتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کر لیتی ہے۔ حال ہی میں اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کےساتھ ملکر ایک سروے کیا ہے، اور ایک ایسی تبدیلی پر اس نے بڑی محنت سے مواد جمع کیا ہےجس پر شاید ابھی کسی نے نہیں سوچا میں اس سلسلے میں ان تمام طالبعلموں کا مشکور ہوں جنہوں نے یہ کام کیا ہے خصوصا کراچی اور لاہور کے طلبہ اور طالبات کا جو اپنے معاشرے میں ہونے والی ان تندیلیوں کو سنجیدگی سے محسوس کر رہے ہیں اور عملی اقدامات کے لئے دوسروں کو اپنے ساتھ شامل بھی کررہے ہیں، گو یہ کام وہ لوگ اپنے آپ کو چھپا کر رہے ہیں مگر اس کو میں وقت کا تقاضہ سمجھتا ہوں، بہرحال وہ رپورٹ احاطہ کرتی ہے ہماری نوجوان نسل میں بڑہتی ہوئی بے راہ روی کا اور ان تمام عوامل کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو ان تمام چیزوں کی خاص وجوہات ہیں۔ ۔
"کبھی آپ لوگوں نے سوچا کہ ہم جو آج ترقی کر رہے ہیں وہ کس حد تک مثبت ہے اور کس حد تک منفی ہے، ترقی کے نام پر جو زہر ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی رگوں میں داخل کر رہے ہیں وہ ہمیں اور ہماری پروان چڑہتی ہوئی نسل کو کس حد تک تباہ و برباد کر رہا ہے اس پر شاید ابھی ہم میں سے کوئی غور نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی رنگینی کچھ ایسی ہے کہ اس نے ہمارے سب مقدس رنگوں کو اپنے اندر مدغم کر لیا ہے، آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے کہ آج ہمارے بچے بچے کے پاس موبائل ہے، جس میں ہر منٹ کے حساب سے پیسہ ڈلتا ہے، اور کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ہماری آمدنی میں تو کوئ اضافہ نہیں ہوا بلکہ گزشتہ برسوں میں خصوصا دور مشرفی میں جو مہنگائی ہوئی ہے وہ تقریبا چار سو فیصد کی حد سے تجاوز کر گئی ہے، اور بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ انڈسٹری تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے اور کاروبار کی حالت سب کے سامنے ہے کہ آج ایک ارب پتی بھی ماہانہ بجٹ بنانے پر مجبور ہے ۔ تو یہ غریب لوگ کیسے گزارا کر رہے ہونگے۔ ۔ ہمارا پیارا پاکستان جہاں غریب آبادی کا تناسب ۲۰۰۷ کے اختتام پر ۸۱ فیصد تک ہو چکا ہے۔ وہ لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو کیسے کھینچ رہے ہیں یہ وہی جانتے ہونگے۔ ۔ مگر اس غربت کے باوجود ترقی کرنے کی حوس، انڈین چینلز کی بھرمار، گلیمر، اور ان تمام چیزوں کے ساتھ قدم قدم سے ملا کر چلنے کی کوشش میں ہم گناہوں کی کیسی دلدل میں گر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو شاید آگے پڑہنے سے ہو جائے فالحال میں سرف شہر کراچی سے کلیکٹ کئے ہوئے اعداد و شمار آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور جو رپورٹ میں لاہور، فیصل آباد اور حیدرآباد کی دیکھ رہا ہوں وہ کراچی سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ۔
کراچی کی آبادی ۔ تقریبا ایک کروڑ انیس لاکھ (غیر سرکاری)
مالدار طبقہ ۔ تقریبا دس فیصد
متوسط طبقہ ۔ تقریبا اٹھارہ فیصد
غریب طبقہ ۔ تقریبا باسٹھ فیصد ( جس میں انتہائی غریب طبقہ اسی فیصد ہے)
گزشتہ پانچ سال میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فروخت ہوئے! اوسطا فی موبائل کی قیمت تین ہزار روپے رہی !
گزشتہ پانچ سال میں مختلف موبائل کنکشنز دو کروڑ اسی لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئے۔ مطلب یہ کہ کراچی میں فروخت ہونے والے سم کارڈز کی تعداد دو کروڑ اسی لاکھ ہے، جس میں سے ایکٹیو کنکشنز پچاسی فیصد ہیں، مطلب تقریبا تمام سم کارڈز وقتافوقتا استعمال ہوتے ہیں، شرط صرف بیلنس کی ہوتی ہے۔ جس سم میں بیلنس ہے وہ زیر استعمال ہے۔
چودہ سال سے اوپر کی تمام لڑکیاں اور لڑکے ۔ موبائل ہولڈرز (تقریبا پچاسی فیصد ۔ تمام طبقات سے تعلق ہے)
فی موبائل ہولڈر کنکشن کی تعداد تقریبا ۔ تین سم کارڈز
فی سم کارڈ حاضر بیلنس اسی روپے (ہر وقت)
صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزانہ پچیس کروڑ روپے کا بیلنس استعمال کرتے ہیں جس میں کارڈز اور ایزی لوڈ دونوں شامل ہیں۔
سنیچر کے دن تک روزانہ پچیس کروڑ اور صرف اتوار کو بائیس کروڑ تک کا بزنس ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائ حقیقی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ تمام کمپنیز اپنی آمدنی کو سرکاری افسران کی سرپرستی میں چھپا کر رکھتی ہیں تاکہ ٹیکس کی مد میں چھوٹ حاصل رہے۔
ان اعداد و شمار پر ذرا غور فرمائیے کہ یہ جو روزانہ پیسہ بیلنس کی مد میں استعمال ہو رہا ہے وہ کہاں سے آرہا ہے؟ بے روزگاری حد سے تجاوز کر چکی ہے، مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، ان حالات میں تو انسان ایک وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا یہ موبائل کی عیاشی کے لئے ان بچوں کو پیسہ کہاں سے مل رہا ہے،
آیئے آگے بڑہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سو فیصد حقائق پر مبنی ایک اور رپورٹ دیکھیں)
مانع حمل گولیاں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایبٹ کمپنی کے کچھ سیلز ایجنٹس اور مختلف میڈیسن کمپنیز کے کچھ اعلی عہدے داروں نے ایک سروے رپورٹ پیش کی جس کے تحت کراچی شہر میں ان گولیوں کی فروخت کا تناسب شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ افراد میں چار سو فیصد ہے، مطلب یہ ہے کہ فرض کریں کہ کراچی میں روزانہ میں سو شادی شدہ جوڑے ہیں اور وہ تمام بغیر کسی ناغے کے ان گولیوں کا استعمال کرتے ہیں اور ان تمام جوڑوں کی ضرورت ڈیڑہ سو گولیاں ہیں، اب اگر اسی شہر میں یہ گولیاں آٹھ سو کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہوں اور ان کے خریدار نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوں تو اسکا کیا مطلب ہوا ؟ ؟ ؟ ؟
لیباریٹری رپورٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی معتبر لیباریٹریز سے جب پیشاب کی تجزیاتی رپورٹ پر ٹیکنیشنز سے معلومات اکٹھی کی گئیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ لڑکیوں کے ہر دس سمپلز میں سے چار کے رزلٹس پازیٹیو ہوتے ہیں جب کہ ان کی عمر چودہ سے بائیس سال ہوتی ہیں، اور تمام ہی غیر شادی شدہ ظاہر کی جاتی ہیں۔ ۔ ۔
بیوٹی آئٹمز کی فروخت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کراچی میں ہی نہیں پاکستان کے تمام شہروں میں یہ چیز دیکھی جا سکتی ہے کہ یہ آئٹمز زیادہ فروخت ہو رہے ہیں۔ یہ وہ واحد بزنس ہے کہ جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور اس میں روزانہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، ایک ایک آئٹم کی قیمت کا اندازہ آپ سب لوگوں کو اچھی طرح ہے، اس سے آگے کیا کہا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔
ایک لیڈی ڈاکٹر جو ایک پوش علاقے میں اپنا کلینک چلاتی ہیں اور کافی سینئر ہیں جب میں نے طب سے متعلق ان حقائق کا تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر رضا میں انتہائ افسوس کے ساتھ تمہیں بتاتی ہوں کہ اب ہم رسوائ کی ایک ایسی راہ پر چل پڑےہیں جہاں سے واپسی بھی رسوائ کے ساتھ ہوگی جو اعداد و شمار ان طلبہ نے اکٹھا کئے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں حقیقت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے، میرے پاس اوسطا پندرہ کیسز روزانہ صرف اسی مقصد سے آتے ہیں کہ حمل ضایع کرانا ہے یا میں ابھی ماں نہیں بننا چاہتی ہوں، جب ان سے کہو کہ اپنے شوہر کو ساتھ لاؤ تو بجائے شوہر کے لڑکی کی ماں آجاتی ہے، وغیرہ وغیرہ، ۔۔۔۔ بقول ڈاکٹر صاحبہ کہ وہ اب ذہنی طور پر خاصی ڈسٹرب رہتی ہیں، کیونکہ وہ ایک مشرقی عورت کی حیثیت سے جو محسوس کرتی ہیں وہ خاصا تکلیف دہ ہے اور وہ اپنی بیٹیوں کے لئے پریشان ہیں۔ ۔ ۔ ۔
یہ تو ہوا لڑکیوں کا قصہ۔ ۔ ۔ اب آجائیے نوجوانوں کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی آج ایک ایسا شہر ہے جہاں زندگی انتہائی غیر محفوظ ہے، میں اسٹریٹ کرائمز اور ڈکیتیوں کے حوالے سے بات کر رہا ہوں، روزانہ موبائل چھیننے کی وارداتیں ایک ایسا معمول ہیںکہ اب لوگ ایف آتی آر درج کراتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اب لوگ ایک دوسرے کو یہ نصیحت کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو اگر کوئی موبائل یا نقدی مانگے تو حیل و حجت نا کرنا۔ بلکہ اپنی جان کی فکر کرنا۔ ۔ ۔
جی تو اہل وطن یہی وہ نو جوان ہیں جو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں اور بعد میں کچھ سیاسی جماعتیں ان کو استعمال کرتی ہیں، کیونکہ ان بچوں کو موبائل بیلنس کے، ہوشربا ملبوسات کیلئے، اور اپنی ساتھیوں کو بیلنس شئیر کرانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف جرائم اور عصمت فروشی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔
آج ہم یہ باتیں تو شئیر کر رہے ہیں مگر سوچنا یہ کہ ہمارے یہ بچے کس کی وجہ سے اس راہ پر جا رہے ہیں، اس میں ہمارا قصور کتنا ہے، ان والدین کا قصور کتنا ہے، جب بچی انیتہائ بھڑکیلا میک اپ کرکےگھر سے ٹیوشن سنٹرکا کہ کر نکلتی ہے تو اس پر یہ چیک کیوں نہیں لگتا کہ سنٹر کا ٹائم کیا ہے اور دورانیہ کتنا ہے۔ ۔ ۔ یا لڑکا جب رات کو بارہ بجے گھر میں داخل ہو رہا ہے تو باپ کیوں نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آرہے ہو،
بہرحال یہ وہ دلخراش حقائق ہیں جو ہم کو قبول کرنے ہونگے اور اس کے سدباب کے لئے محض سرکار کی طرف نہیں انفرادی طور پر سوچنا اور کوشش کرنا ہوگی۔ افسوس یہ ہے کہ جب میں پوسٹ محفل میں انٹر کرونگا تو بعض لوگ یہی کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہوتا محض الزامات ہیں اور غیر مصدقہ رپورٹ ہے، اس میں ایسے تمام خواتین و حضرات کو یہ پیشگی اطلاع دے دوں کہ اگر آپ اس قسم کی صورتحال کا اگر شکار نہیں ہیں تو پلیز یہ نا سمجھیں کہ پورا معاشرہ ہی ایسے چل رہا ہے، بلکہ یہ سوچیں کہ کہیں ہمارے ارد گرد بے خبری میں تو کیہں ایسا کچھ نہیں چل رہا ہے۔ ۔ ۔
میں اتنا کہونگا کہ زیادہ بے خبری اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ یونس رضا