کیا یورپ کی ترقی مذہب کو ترک کرنے کی مرہون منت ہے؟

سید رافع

محفلین
ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب یورپ کا عروج یورپ میں مذہب اور سائنس کی کشمکش اور اسکے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کا خلاصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان تبدیلیوں کو ترقی کہتے ہیں جو بحث طلب ہے۔ یہاں کتاب کا حاصل ہم نے اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ انسانوں کے نفع کا سبب بنے۔

یورپ کیوں تبدیل ہوا؟
اگر آپ کسی بھی نظریے سے جڑے ہوں اور اسکے زیر اثر افراد کم ہوتے جائیں تو آپکے پاس دو راستے ہوں گے۔ یا آپ لوگوں کو اپنے قدیم نظریے کا قائل کریں یا اس شہر سے فرار ہو جائیں۔ یہی حال سولہویں صدی عیسوی میں پوپ کا ہوا۔ سولہویں صدی سے قبل پوپ اصلاح پسندوں کو توہین مذہب کے نام پر زندہ جلا دیتا۔ پوپ کے نزدیک یہ لوگ ایک جنگلی سور ہیں جو لارڈ کے باغ میں گھس آئے ہیں۔ اعلیٰ حکام بادشاہ کے بجائے پوپ کے وفادار ہوتے۔ مذہبی ٹیکس پوپ اور اسکے منتخب عہدے داروں تک پہنچتا۔ اگر کوئی مجرم چرچ میں پناہ لے لے تو اسے ریاست کچھ نہ کہہ پاتی۔ ایسے میں یورپ کے حکمران چاہتے تھے کہ کسی طرح طاقتور پوپ کے اختیار کو ختم کیا جائے یا کم کر دیا جائے۔

یورپ کو کس نے تبدیل کیا؟
یورپ کے شہروں میں تاجروں کا ایک طبقہ پیدا ہوا جس نے سود کو حلال کیا۔ قوی امید ہے کہ یہ ان اصلاح پسندوں اور سائنسدانوں کی اولادیں ہوں گی جو چرچ سے بغاوت کے الزام میں قید کیے گئے یا موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ یہ تاجر ان بنیادوں پر چرچ کے زیر عتاب رہتے تھے۔ اس وقت کا یورپ سخت مذہبی تھا۔ مذہبی تہواروں کی کثرت تھی۔ لوگ ہاتھ میں تسبیح لیے گھومتے۔ جو مصور، موسیقار، سنگ تراش، شعراء اور ادیب مذہب کو اپنا موضوع بناتے انکو عزت ملتی۔ چونکہ تاجروں کا یہ نیا گروہ ان مذہبی رسومات سے دور تھا اس لیے اسکو معاشرے میں وہ سیاسی مقام و عزت حاصل نہ تھی جو پوپ اور اسکے چنے ہوئے مذہبی رہنماؤں کو تھی۔

پوپ کی حکمرانی کا طریقہ کار
پوپ ابتداء میں اولیاء اللہ کی تبرکات کا مخالف تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ اسکی وجہ سے لوگ چرچ آتے ہیں تو پوپ نے ہر علاقے کے چرچ کو اولیاء اللہ کے تبرکات رکھنے کا حکم دیا۔ لوگ جوق در جوق ان تبرکات کو دیکھنے آتے اور اسے اپنے لیے ذریعہ سعادت سمجھتے۔ ان تبرکات میں سینٹ پال کے کان، سینٹ جارج کا بازو اور حضرت مریم کی فرشتوں کی بنائی ہوئی تصویر بھی شامل تھیں۔

چرچ کی غلط کاریاں
پوپ نے اعترافات کی ایک رسم شروع کی۔ اس کے تحت لوگوں کو سال میں ایک دفعہ پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا پڑتا۔ رفتہ رفتہ پادری لوگوں سے انکے لڑکیوں کو شہوت سے دیکھنے، ناجائز جنسی تعلق قائم کرنے کے بارے تک میں پوچھنے لگے۔ اس رسم سے پادری لوگوں کو بلیک میل کرتے۔ چرچ میں رہنے والے مراعات یافتہ طبقہ شمار ہوتے اور وہ ٹیکس اور قانون سے بالاتر تھے۔ پادری بڑی تعداد میں خواتین کو اپنے دام میں لاتے اور جنسی تعلق قائم کرتے۔ دفن کے وقت پادری لوگوں سے کثیر معاوضہ طلب کرتے۔ پوپ چرچ کے عہدے جاگیرداروں اور تاجروں کو فروخت کر کے اپنے محلات کے اخراجات پورے کرتا۔ پادری یہ کہہ کر مذہبی معافی نامے فروخت کرتے کہ لوگوں کے بچے اور دیگر اقرباء برزح میں اپنے گناہوں میں تڑپ رہے ہیں۔

پوپ کی حکمرانی کیسے ختم ہوئی؟
پوپ، چرچ اور پادریوں کی غلط کاریوں سے لوگ پہلے ہی واقف تھے۔ جرمنی میں لوتھر نے اپنا 95 نکاتی انقلابی اعلان چرچوں پر کیلوں سے ٹھونک دیا۔ اس کے تحت جس نے بھی بتسمہ کیا وہ پادری ہے۔ نجات کے لیے کسی خانقاہ کی ضرورت نہیں۔ غریب رہنا یا عصمت سے بلا شادی رہنا غیر فطری ہیں۔ عوام چرچ سے عاجز تھے جبکہ جرمن حکمران اپنے ٹیکس روم نہیں بھیجنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے بھی لوتھر کا ساتھ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خانقاہوں سے ننوں کو نکال کر ان سے شادی کی۔ لوتھر کی ترجمہ کردہ بائبل لوگ خود پڑھنے اور سمجھنے لگے۔ لوتھر کی تحریروں کا دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہونے لگا اور یہ انقلابی تحریک پورے زور و شور سے پورے یورپ میں پھیل گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پوپ کی حکمرانی کیسے ختم ہوئی؟
پوپ، چرچ اور پادریوں کی غلط کاریوں سے لوگ پہلے ہی واقف تھے۔ جرمنی میں لوتھر نے اپنا 95 نکاتی انقلابی اعلان چرچوں پر کیلوں سے ٹھونک دیا۔ اس کے تحت جس نے بھی بتسمہ کیا وہ پادری ہے۔ نجات کے لیے کسی خانقاہ کی ضرورت نہیں۔ غریب رہنا یا عصمت سے بلا شادی رہنا غیر فطری ہیں۔ عوام چرچ سے عاجز تھے جبکہ جرمن حکمران اپنے ٹیکس روم نہیں بھیجنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے بھی لوتھر کا ساتھ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے خانقاہوں سے ننوں کو نکال کر ان سے شادی کی۔ لوتھر کی ترجمہ کردہ بائبل لوگ خود پڑھنے اور سمجھنے لگے۔ لوتھر کی تحریروں کا دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہونے لگا اور یہ انقلابی تحریک پورے زور و شور سے پورے یورپ میں پھیل گئی۔
بالکل صحیح لکھا ہے۔ یورپی اقوام نے ترقی سے قبل مسیحی پاپائیت کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی۔ مسلم اقوام کو بھی ترقی کیلئے اسلامی مولویت سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔
 

سید رافع

محفلین
عظیم ناانصافی اورقیامت کا انتظار
یہ آج کی کہانی نہیں کہ جب لوگوں کو غیر منصفانہ تحریکوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ قیامت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو ہوش کے ناخون لینے چاہیں جو کسی قسم کی ڈھکوسلے کی انصاف کی تحریک سے وابستہ ہوں۔ ان تحریکوں میں شامل ہونے سے یا انکے اثر سے لوگوں کی روحانیت مانند پڑ جاتی ہے اور پھر وہ ناامید ہو کر قیامت کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ لوتھر کی اصلاح کی تحریک جب تک پوپ کے خلاف رہی تو ٹھیک تھا۔ لیکن جونہی ٹامس نے کسانوں کے ساتھ مل کر معاشی مساوات کی تحریک شروع کی تو لوتھر حکمرانوں اور جاگیرداروں کے ساتھ مل گیا۔ وہی لوتھر جو کل تک چرچ کے ظلم کے خلاف ڈٹا ہوا تھا اب خود ظالم بن گیا۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے پوپ کی حکمرانی ختم کرنے میں لوتھر کی مدد کی تھی۔ لوتھر نے حکمرانوں سے کہا کہ ان باغی کسانوں کو قتل کرو چاہے یہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں۔ لوتھر کی اس عظیم ناانصافی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ چرچ اور لوتھر دونوں ہی سے ناامید ہو کر قیامت کا انتظار کرنے لگے۔

اگلی لہر:عظیم ناانصافی کرنے والوں کا قتل
کسان، مزدور اور غریب لوگوں نے جرمنی میں ایک اور تحریک کا ساتھ دیا جس نے بتسمہ اور ثلثیت کا انکار کیا۔ کرنسی کے بجائے بارٹر سسٹم کا اجرا کیا۔ - چرچ عہدے داروں اور اصلاح پسندوں کو چن چن کر قتل کیا۔ چرچ کی جائدادیں ضبط کر لیں۔ یہ لوگ امراء، جاگیرداروں، چرچ کے عہدے داروں اور حکمرانوں کے خلاف تھے۔ کیونکہ یہ چرچ اور حکومت کے خلاف تھے اس لیے ان کو جلد ہی سخت سزائیں دے کر کچل دیا گیا۔

اگلی لہر: سودی سرمایہ داری کی عزت افزائی
اسی دوران کیل ون نے ایک اور مساوات کی تحریک اٹھائی۔ اس نے لوتھر اور چرچ کے برعکس سود کو حلال کر دیا۔ سود خوروں کو معاشرہ کے لیے اچھوت نہیں بلکہ مفید کہا کہ ان سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ اس کی مذہبی تعلیمات کو توڑنے مروڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ متوسط طبقے کے لوگ ہر ہر انقلاب اور جنگ کو خدا کا کام سمجھ کر کرنے لگے۔ لیکن کیلون ازم میں مذہبی جنونیت اس حد تک تھی کہ جو ان سے اختلاف کرتا ہے اس کو شہر چھوڑ جانے کا حکم ہوا۔ شادی سے پہلے مرد کو جنسی بیماری کے لیے دیکھا جاتا۔ سرائے فحاشی کی وجہ سے بند کر دیے گئے۔ چنانچہ اسی مذہبی جنون کی وجہ سے یہ تحریک جلد دم توڑ گئی۔

اگلی لہر: یورپ آزاد ریاستوں کا مجموعہ
یورپ اصلاح مذہب کی تحریکوں کی وجہ سے چرچ سے آزاد ہو چکا تھا۔ ہر ریاست کا حکمران اپنے اپنے وسائل کا استعمال کرتا، سودی قرضہ تضارت کی بنیاد بن رہا تھا لیکن ایک عام آدمی ایمان داری اور محنت سے منافع کماتا۔ عورتوں کو اب بھی یورپ میں مردوں کے طابع سمجھا جاتا۔ کیتھولک تو عورتوں کو گناہ کی جڑ سمجھتے تھے۔ عورتوں کو جائداد سنبھالنے اور تجارت کرنے کا حق نہ تھا۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
بالکل صحیح لکھا ہے۔ یورپی اقوام نے ترقی سے قبل مسیحی پاپائیت کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی۔ مسلم اقوام کو بھی ترقی کیلئے اسلامی مولویت سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔

آپ دور کی کوڑی لائے۔

مولوی چاہے کسی اسلامی ملک کے ہوں، مراعت یافتہ خوشحال طبقے سے نہیں۔ نہ ہی مولویوں میں پوپ کا وجود ہے۔ مولوی گاوں گوٹھوں سے ہیں جو پچھلی لکھی ہوئی کتابوں کو دھراتے ہیں۔ ٨ ہزار روپے سے ١۵ ہزار ماہانہ کماتے ہیں۔ معافی نامے نہیں لکھواتے۔ سو یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے۔ موجودہ ترقی کل کی کل سودی صنعتوں سے ہے۔ اور مسلمان سود سے گھن کھاتے ہیں۔

پاکستان کی ہی کرپشن دیکھ لیں ایوب سے مشرف تک اور بھٹو سے نواز تک سب ہی سائنسی اداروں سے تعلیم یافتہ کرپٹ ہیں۔

غلط تجزیے سے سمت بھی غلط۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ دور کی کوڑی لائے۔

مولوی چاہے کسی اسلامی ملک کے ہوں، مراعت یافتہ خوشحال طبقے سے نہیں۔ نہ ہی مولویوں میں پوپ کا وجود ہے۔ مولوی گاوں گوٹھوں سے ہیں جو پچھلی لکھی ہوئی کتابوں کو دھراتے ہیں۔ ٨ ہزار روپے سے ١۵ ہزار ماہانہ کماتے ہیں۔ معافی نامے نہیں لکھواتے۔ سو یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے۔ موجودہ ترقی کل کی کل سودی صنعتوں سے ہے۔ اور مسلمان سود سے گھن کھاتے ہیں۔

پاکستان کی ہی کرپشن دیکھ لیں ایوب سے مشرف تک اور بھٹو سے نواز تک سب ہی سائنسی اداروں سے تعلیم یافتہ کرپٹ ہیں۔

غلط تجزیے سے سمت بھی غلط۔
آپ عجیب لوگ ہیں۔ ایک طرف خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یورپ نے مسیحی مولویت یعنی پاپائیت کو ختم کرکے ترقی حاصل کی۔ پادری کی مذہبی غلامی کی بجائے بائبل کا ترجمہ کرکے خود اللہ کا کلام پڑھنا، سمجھنا شروع کیا۔ اور یوں ایک آزاد خیال معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ جو رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے جدید یورپی تہذیب میں بدل گئی۔
لیکن جب ترقی کا یہی راستہ مسلمانوں کو اپنانے کو کہا گیا تو اسلامی مولویت کا دفاع شروع کر دیا۔ اگر مسیحی مولویت نے یورپ کو ترقی کرنے سے کئی سو سال روکے رکھا تو یہی کام اسلامی مولوی کیوں نہیں کر رہے؟ کون لوگ او تسی؟
پرانے وقتوں میں مسیحی مولوی یورپی معاشروں کی سیاست، تعلیم، معیشت ہر چیز پر اپنا اثر رسوخ رکھتا تھا۔ جب یورپین نے یہ سلسلہ بند کیا تو ان کا معاشرہ اپنے آپ ترقی کر گیا۔ اسلامی مولویوں کی موجودگی میں مسلم معاشرے بھی ترقی نہیں کر سکتے۔
 

سید رافع

محفلین
آپ عجیب لوگ ہیں۔ ایک طرف خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یورپ نے مسیحی مولویت یعنی پاپائیت کو ختم کرکے ترقی حاصل کی۔ پادری کی مذہبی غلامی کی بجائے بائبل کا ترجمہ کرکے خود اللہ کا کلام پڑھنا، سمجھنا شروع کیا۔ اور یوں ایک آزاد خیال معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ جو رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے جدید یورپی تہذیب میں بدل گئی۔
لیکن جب ترقی کا یہی راستہ مسلمانوں کو اپنانے کو کہا گیا تو اسلامی مولویت کا دفاع شروع کر دیا۔ اگر مسیحی مولویت نے یورپ کو ترقی کرنے سے کئی سو سال روکے رکھا تو یہی کام اسلامی مولوی کیوں نہیں کر رہے؟ کون لوگ او تسی؟
پرانے وقتوں میں مسیحی مولوی یورپی معاشروں کی سیاست، تعلیم، معیشت ہر چیز پر اپنا اثر رسوخ رکھتا تھا۔ جب یورپین نے یہ سلسلہ بند کیا تو ان کا معاشرہ اپنے آپ ترقی کر گیا۔ اسلامی مولویوں کی موجودگی میں مسلم معاشرے بھی ترقی نہیں کر سکتے۔

آپ دو چیزوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ مولوی اور ترقی۔

پاپائیت اور اسلامی مولویت میں فرق ہے۔ اوپر دوبارہ غور سے پڑھیں کہ کیا فرق ہے۔

پاپائیت کے بعد نام نہاد ترقی کل ابراہیمی مذاہب میں منع شدہ سودی تجارت اور سودی نفع ہے۔

کیونکہ عام مسلمان بھی سود سے گھن کھاتے ہیں سو مولوی کو نہیں چھوڑتے۔ اب آپ اسکو دفاع کہہ لیں یا زمینی حقائق سمجھ کر مانیں۔
 

سید رافع

محفلین
جب آپ یورپ کی ترقی کو ترقی مانتے ہی نہیں تو اس پر تاریخ کیوں پڑھ رہے ہیں کہ یورپی تہذیب نے ترقی کیسے کی؟

پچھلے سال میں برلن جرمنی میں سافٹ وئیر آرکیٹیکٹ کی جاب پر تھا. اس سے قبل سن ٢٠٠٠ میں بوسٹن امریکہ میں جاب پر تھا۔ مجھے وہاں زندگی گزارنا آسان لگا۔ تنہائی صرف ایک مسئلہ لگا ورنہ امریکی و یورپی عموما لاوبالی خوش باش اپنے اپنے کاموں میں مصروف لوگ لگے۔

البتہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نرمی سے مذہب پر عمل کیا ہے؟ کیا یہ کہ علماء کی راہ سے آزاد ہوجایا جائے؟ پھر پتہ چلا کہ منتظر امام مہدی ع کی کیفیت دل میں ہو تو ہزارہا غیر ضروری بحثوں سے انسان دور ہو جاتا ہے۔ اب مذید نرمی کے لیے مختلف نقطہ نظر کی کتب عطاری رہتے ہوئے پڑھتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ یورپ میں واپس نوکری پر میونخ جرمنی یا ملائشیا جاوں لیکن ایمان ضایع ہونے سے بھی محفوظ رہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ جمع ضدین معلوم ہوتا ہے۔ پچھلے سال سے اب تک مجھے سنگاپور، تھائی لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈ اور ڈریسڈن جرمنی کی جاب آفر ہوئیں لیکن میں نہیں گیا۔ اس کشمکش کا مرکز بچوں کی تربیت، ایمان ضایع ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ تمام باتیں اس کتاب پڑھنے کا سبب بنیں۔ لیکن میں نے کتاب کچھ سیکھنے کی غرض سے نہیں پڑھی بلکہ پہلے ہی ذہن بنا ہوا ہے کہ یورپ کی ترقی سود سے ہے جو کہ حرام ہے۔ اس کی تصدیق کتاب نے کیلون ازم کی تحریک سے کر دی۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
پاکستان کا بینکاری نظام کیا سودی نہیں؟ یہاں تو ترقی نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں بینکاری نظام سودی ہے لیکن یہاں قرضے سے بچ سکتے ہیں۔ مثلا تعلیم کے لیے قرضہ نہ لیں۔ گھر کرائے پر لیں۔ یا کچھ عرصے بیرون ملک نوکری کر لیں اور چھوٹا فلیٹ کر لیں۔ انشورنس نہ کرائیں۔ جہاں تک ترقی نظر نہیں آتی کا سوال ہے تو پاکستان میں ترقی عدل و انصاف کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اب یہ بحث طلب ہے کہ عدل ملاء کی وجہ سے نہیں ہے یا کسی اور وجہ سے۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستان سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر دبئی میں جرائم کم ہیں جبکہ وہاں ٢٠٠ ملکوں کے لوگ ہیں؟ ملاء وہاں بھی ہیں۔ مساجد وہاں بھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ وہاں کرپشن اور قانون توڑنے پر سخت سزا ہے یہاں نہیں۔ حد یہ ہے کہ کراچی کے ہر علاقے میں کریڈٹ کارڈ جاری نہیں ہوتا۔ نہ ہی ملیر لانڈھی جیسے علاقوں کے مکینوں کو قرضہ دیا جاتا ہے۔ لوگ نہیں، علاقے کے علاقے بلیک لسٹ ہیں۔

لیکن میں اس سے آگے کی بات کر رہا ہوں۔ میں نےکل رقم بینک سے نکال کر ایک زمانے میں سونے میں تبدیل کرا لی۔ حرام مال میں کوئی روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔ اور وہ بھی سود جیسی صریح حرام۔ اگر بینک کا نوٹ جیب میں ہے تب بھی روحانی ترقی ممکن نہیں چہ جائیکہ بینک اکاونٹ ہو۔ پھر اگر آپ نے رقم سونے سے تبدیل کر بھی لی تب بھی آپ کسی وقت اسکو سودی ادارے کے نوٹ میں تبدیل کرائیں گے۔ یہاں آپ نے جس قدر روحانی ترقی کی وہ زمیں بوس ہو جائے گی۔ بلکہ اس خیال سے سونا رکھنے میں بھی آپکا قلب کمزور ہی رہے گا۔ اگر بفرض محال کوئی سونے کے عوض آپکو دودھ دہی مہینے کا سودا دے بھی دے تب بھی وہ مال جس فیکٹری میں بنا، جن مزدوروں نے اسے پیک کیا، جس نے اسے بیچا، جس گاڑی میں وہ آیا سب کے سب سودی نوٹ استعمال کر رہے ہیں۔ جو کہ توحانی ترقی میں مانع ہے۔ پھر آپ جس جگہ ملازمت کریں گے وہ لازما بینک اکاونٹ کھولنے کو کہے گا۔ جس گھر میں آپ رہ رہے ہیں اس کے در و دیوار یہاں تک کہ پنکھا، اے سی، دروازوں اور دیواروں پر کیا گیا پینٹ، وہاں کے پانی کے پائپ سب کے سب سودی ادارے کے نوٹ کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ گاڑی اور اسکے تمام پارٹس اور اس میں ڈلنے والا پیٹرول سب کا سب سودی قرضے سے چلنے والی صنعتیں بنا رہیں ہیں۔

الغرض قصہ مختصر سود پھیل چکا ہے۔ روحانی ترقی اس ماحول میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ مشائخ اس کا واحد حل پہاڑ کے غار پر بکریاں لے کر چلے جانا کہتے ہیں۔ یا پھر کہیں دور دریا کنارے مٹی کی جھونپڑی بنا کر بکریوں کے دودھ پر گزار کرنا ہے۔ اس لحاظ سے شہروں میں رائج اسلام ایک حد تک ڈھکوسلا اور پروپگینڈہ ہوا۔ جو کہ دیگر پروپگینڈوں کے جواب میں ہے۔ اب بحیثیت مسلم آپ زیادہ سے زیادہ جو کر سکتے ہیں ان پروپگینڈوں میں اپنی آواز ملا کر زندگی گزار دیں۔ سچ جو اللہ کی بارگاہ میں اوپر چڑھتا ہے بہت سی وجوہ کی بناء پر معدوم ہے۔ کیونکہ اس زمانے کی خبر رسول ﷺ دے چکے ہیں تو آپکا ایمان ان حالات میں بڑھنا چاہیے۔

بہرحال یہ اس دور کی باتیں ہیں جب براہ راست قرآن پر عمل کی کوشش کی۔ اب جب سے سلسلہ عطاریہ میں شامل ہوا ہوں تو کچھ نہ کچھ قانون قاعدے کے تحت موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے شریعت مطہرہ پر عمل کی کوشش ہے۔
 

سید رافع

محفلین
اسے ٹھیک سے سمجھ نہیں سکا۔
کچھ وضاحت فرمائیں گے۔

مجھے غلبہ اسلام کی تحریکوں نے بلاوجہ بہت تھکایا۔

اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ مثال کے طور پراگر کوئی شخص یہ مان لے کہ میں ڈاکٹر ہوں تو ظاہر ہے وہ لوگوں کا علاج کرنا شروع کر دے گا۔ کچھ لوگ اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سے صحت مند ہو جائیں گے لیکن اکثریت موت کے منہ میں جائے گی۔ جلد یا بدیر ایسا جعلی ڈاکٹر حکومت کی گرفت میں آئے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس وقت ہو گا جب کوئی فردیا جماعت اس کام کو اپنے ذمے لے لیں کہ جو کام نبی یا آل نبی ﷺ کے کرنے کا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نبی ﷺ جیسا سمجھیں گے اور یہیں سے مغالطہ لگے گا کہ جو نبی ﷺکر سکتے ہیں وہ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ جماعتیں بنائی جائیں گی لوگوں کو منظم کیا جائے گا اور پھر جو جو نہ کیا جائے وہ کم ہو گا۔

مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ ان میں اس علم کو عام کرنے کی ضرورت تھی کہ امت محمدیہ ﷺ کے آخری حصے کی اصلاح اسی طور پر ہو گی کہ جس طور پر پہلے حصے کی ہوئی تھی۔ مسلمانوں میں امام مہدی ؑ ظاہر ہوں گے جو اس امت کی اصلاح فرمائیں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ اس علم کو عام کرنے کا فائدہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں صبر آتا اور وہ حالات کی ناگواری دیکھ کرمولانا سید مودودی، سید قطب و دیگر کے دجل میں نہ آتے اور غلبہ اسلام کی تحریکوں کا وجود ہی نہ ہوتا۔ غلبہ اسلام کی تحریکیں سرے سے غلط ہیں۔ ان سے جو بھی ظاہر ہو کم ہے۔ غلبے کی تحریکیں فراڈ نہ کریں بلکہ اس بات پر زور دیں کہ حرم پر ایسے مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جو امام مہدی ؑکے ظہور تک دہشت گردی کے بجائے صبر اور حصول علم اور فروغ علم کو ترجیح دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوچتا ہوں کہ یورپ میں واپس نوکری پر میونخ جرمنی یا ملائشیا جاوں لیکن ایمان ضایع ہونے سے بھی محفوظ رہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ جمع ضدین معلوم ہوتا ہے۔ پچھلے سال سے اب تک مجھے سنگاپور، تھائی لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈ اور ڈریسڈن جرمنی کی جاب آفر ہوئیں لیکن میں نہیں گیا۔ اس کشمکش کا مرکز بچوں کی تربیت، ایمان ضایع ہونے کا خدشہ ہے۔
حضرت اگر آپ اور آپکے بچوں کا اسلام پر ایمان اتنا کمزور ہے کہ مغرب میں تعلیم اور کام کاج کے دوران ضائع ہو سکتا ہے۔ تو بہتر یہی ہے کہ آپ لوگ کوئی اور مضبوط دین و مذہب اختیار کر لیں۔ جو رہائش تبدیل کرنے پر بھی ضائع نہ ہو سکے
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تمام باتیں اس کتاب پڑھنے کا سبب بنیں۔ لیکن میں نے کتاب کچھ سیکھنے کی غرض سے نہیں پڑھی بلکہ پہلے ہی ذہن بنا ہوا ہے کہ یورپ کی ترقی سود سے ہے جو کہ حرام ہے
یعنی آپ یہ کتاب کچھ نیا سیکھنے کیلئے نہیں پڑھ رہے بلکہ پہلے سے جو ذہن میں یورپ کا غلط نقشہ قائم کر رکھا ہے اسے مزید تقویت دینے کیلئے جانبداری کے ساتھ مطالعہ کر رہے ہیں۔ مطلب کتاب بینی میں بھی بدنیتی اور تعصب سے کام لیا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
کیا وجہ ہے کہ پاکستان سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر دبئی میں جرائم کم ہیں جبکہ وہاں ٢٠٠ ملکوں کے لوگ ہیں؟ ملاء وہاں بھی ہیں۔ مساجد وہاں بھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ وہاں کرپشن اور قانون توڑنے پر سخت سزا ہے یہاں نہیں۔
کیونکہ دبئی تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہر مقامی شہری اور خارجی کو وہاں کام کاج کے مواقع میسر ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں سو رہا، بہت کم لوگوں کو معاشی مسائل ہیں۔ اور اسی وجہ سے کراچی کے مقابلہ میں وہاں جرائم کی شرح کم ہے۔
آپ کراچی والوں کو بھی دبئی جیسی سہولیات دے کر دیکھیں تو وہاں بھی جرائم کا ریٹ اپنے آپ نیچے آجائے گا۔ قانون کا نفاذ ایک حد تک ہی معاشرتی مسائل حل کر سکتا ہے۔ جب تک لوگ بھوکے سو رہے ہوں گے، قانون جتنا مرضی طاقتور کر لیں، جرائم کم نہیں ہوں گے
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن میں اس سے آگے کی بات کر رہا ہوں۔ میں نےکل رقم بینک سے نکال کر ایک زمانے میں سونے میں تبدیل کرا لی۔ حرام مال میں کوئی روحانی ترقی ممکن ہی نہیں۔ اور وہ بھی سود جیسی صریح حرام۔ اگر بینک کا نوٹ جیب میں ہے تب بھی روحانی ترقی ممکن نہیں چہ جائیکہ بینک اکاونٹ ہو۔ پھر اگر آپ نے رقم سونے سے تبدیل کر بھی لی تب بھی آپ کسی وقت اسکو سودی ادارے کے نوٹ میں تبدیل کرائیں گے۔ یہاں آپ نے جس قدر روحانی ترقی کی وہ زمیں بوس ہو جائے گی۔ بلکہ اس خیال سے سونا رکھنے میں بھی آپکا قلب کمزور ہی رہے گا۔ اگر بفرض محال کوئی سونے کے عوض آپکو دودھ دہی مہینے کا سودا دے بھی دے تب بھی وہ مال جس فیکٹری میں بنا، جن مزدوروں نے اسے پیک کیا، جس نے اسے بیچا، جس گاڑی میں وہ آیا سب کے سب سودی نوٹ استعمال کر رہے ہیں۔ جو کہ توحانی ترقی میں مانع ہے۔ پھر آپ جس جگہ ملازمت کریں گے وہ لازما بینک اکاونٹ کھولنے کو کہے گا۔ جس گھر میں آپ رہ رہے ہیں اس کے در و دیوار یہاں تک کہ پنکھا، اے سی، دروازوں اور دیواروں پر کیا گیا پینٹ، وہاں کے پانی کے پائپ سب کے سب سودی ادارے کے نوٹ کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ گاڑی اور اسکے تمام پارٹس اور اس میں ڈلنے والا پیٹرول سب کا سب سودی قرضے سے چلنے والی صنعتیں بنا رہیں ہیں۔
اگر آپ کے نزدیک سود کی اسلامی تعریف یہی ہے تو پھر آپ شہر میں رہ کر اپنا ایمان کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ فورا سے پہلے کسی جنگل، بیابان میں رہائش اختیار کریں
 

جاسم محمد

محفلین
الغرض قصہ مختصر سود پھیل چکا ہے۔ روحانی ترقی اس ماحول میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ مشائخ اس کا واحد حل پہاڑ کے غار پر بکریاں لے کر چلے جانا کہتے ہیں۔ یا پھر کہیں دور دریا کنارے مٹی کی جھونپڑی بنا کر بکریوں کے دودھ پر گزار کرنا ہے۔ اس لحاظ سے شہروں میں رائج اسلام ایک حد تک ڈھکوسلا اور پروپگینڈہ ہوا۔ جو کہ دیگر پروپگینڈوں کے جواب میں ہے۔ اب بحیثیت مسلم آپ زیادہ سے زیادہ جو کر سکتے ہیں ان پروپگینڈوں میں اپنی آواز ملا کر زندگی گزار دیں۔ سچ جو اللہ کی بارگاہ میں اوپر چڑھتا ہے بہت سی وجوہ کی بناء پر معدوم ہے۔ کیونکہ اس زمانے کی خبر رسول ﷺ دے چکے ہیں تو آپکا ایمان ان حالات میں بڑھنا چاہیے۔
جن مشائخ نے آپ کو سود کی یہ مضحکہ خیز اسلامی تشریح کرکے دی ہے اس کا حل بالآخر یہی نکلنا تھا کہ اپنا ایمان بچانے کیلئے دور حاضر کی جدید دنیا سے دور کسی غار میں رہائش اختیار کر لی جائے
 

جاسم محمد

محفلین
مسلمانوں میں امام مہدی ؑ ظاہر ہوں گے جو اس امت کی اصلاح فرمائیں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔
مسلمانوں میں جو امام مہدی ظاہر ہوں گے کیا ان کو دو ارب مسلمان اپنا امام تسلیم کر لیں گے؟ بے شمار اسلامی فرقوں نے جو امام مہدی کے ظہور کی اپنی اپنی تشریحات کر رکھی ہیں اس کے تحت تو آنے والا امام مہدی کسی ایک فرقہ کے عقائد پر بھی ۱۰۰ فیصد پورا اتر نہیں سکتا۔
فقہ حنفی کے اہل سنت میں جو امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں سو سال قبل آیا۔ اسے اور اسکی جماعت کو تو تمام اسلامی فرقوں نے مل کر بد ترین کافر، زندیق اور پتا نہیں کیا کیا قرار دے رکھا ہے
 
Top