پچھلے کئی سو سالوں سے دنیا بھر میں یہی سودی نظام رائج ہے جب سے قومی کرنسیوں کا اجرا شروع ہوا ہے۔ اس سودی نظام کو ختم کرنا ہے تو لین دین کیلئے قومی کرنسیوں کی جگہ کوئی اور چیز لے آئیں جو افراط زر سے آزاد ہو۔ اور یوں ہمیشہ اپنی قدر برقرار رکھ سکے۔ ماضی میں تجارت کیلئے قومی کرنسیوں کی جگہ سونے اور چاندی کے سکے، اشرفیاں استعمال ہوتی تھی۔ مگر یہ بھی افراط زر سے محفوظ نہیں تھی۔ آپ امام مہدی کے ظہور تک گھر میں قید ہو کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے قومی کرنسیوں کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ دنیا بھر کی اقوام میں سے وہ لوگ جو اس قومی کرنسیوں یعنی سودی نظام کے خلاف ہیں اب کرپٹوکرنسی پر مبنی نظام پر ٹرانسفر ہو رہے ہیں۔ آپ بھی ان کے ساتھ مل کر اس ضمن میں کام کریں۔
کرپٹوکرنسی کیا سودی نہیں؟ اسٹیٹ بینکس صرف کاغذ سے برقی کرنسی پر منتقل ہوئے۔ اس میں کیا بنیادی تبدیلی ہوئی؟
دنیا میں سود کا نتیجہ ببلز کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اور اس میں سب سے خوفناک آبادی کا ببل ہے۔ یہ اب پھٹنے کے قریب ہے۔ کیا کسی میں بھی اتنا دم ہے کہ ساری کی ساری زراعت اور صنعت جو سود پر چل رہی اور آکاس بیل کی طرح پھیلی ہوئی ہے اسے گلاب کے خوشبو دیتے پھولوں میں تبدیل کر دے؟
مجھے تو افراط زر سے پاک کرنسی ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں جبکہ یہ بات ہی غیر فطری ہے۔ آپ بینکر کے سودی ذہن سے لکھی ہوئی تحریروں کے اثر میں ایسا کہہ رہے ہیں۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ کاروبار تو نام ہی اتار وچڑھاو کا ہے۔ موسم، حالات اور جنگ و امن کی وجہ سے انسانی تاریخ میں تجارتی اشیاء کے نرخ اوپر اور نیچے جاتے ہی رہے ہیں۔ اسی لیے تاجر خوب سوچ کر پیسہ لگاتا تھا۔ دنیا اسقدر سود کی زد پر ہے کہ اسکا دوبارہ کاروباری بننا ایک عظیم حادثے سے قبل ممکن نہیں۔
پھر میری بے عملی کی دلیل خود رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی احادیث ہیں۔ یہ دور دجل کا دور ہے اور دجال کے ظہور کے بعد ختم ہو گا۔