کیا یہ بے وفائی ہے؟

سیاسی بیان بازی کر گئے آپ!
آپ اپنے مراسلوں پر غور کریں۔
ایک رشتۂ ازدواج میں ہوتے ہوئے اگر فریقین میں کسی اور صنفِ مخالف کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں تو کیا یہ بے وفائی ہے؟ دوسرے لفظوں میں شادی کے علاوہ اگر کسی افئیر کی نوعیت سر تا سر ایموشنل (جذباتی) ہے تو کیا یہ شادی کے رشتے میں دھوکے بازی ہے؟
مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر؟
 
اس سوال پر بیوی کا صرف یہ جواب ہے تو غنیمت سمجھیے۔
جواب کے بعد کی کاروائی محفل کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے حذف کی گئی ہے ۔
مگر پھر بھی محفلین کی تسلی کے لیے کچھ اشارے حاضر ہیں ۔
سن کے بیوی نے سر پر
جوتی اک ٹھکائی ہے
 

فلسفی

محفلین
ایک رشتۂ ازدواج میں ہوتے ہوئے اگر فریقین میں کسی اور صنفِ مخالف کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں تو کیا یہ بے وفائی ہے؟ دوسرے لفظوں میں شادی کے علاوہ اگر کسی افئیر کی نوعیت سر تا سر ایموشنل (جذباتی) ہے تو کیا یہ شادی کے رشتے میں دھوکے بازی ہے؟
انسان کے لیے کچھ چیزیں غیر اختیاری ہوتی ہیں۔ غیر اختیاری باتوں کے لیے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے ۔۔۔ جی جنس کی تفریق کے بغیر۔

گناہ کا عمل البتہ اختیاری ہے اور اسی پر جزا اور سزا کا دارومدار ہے۔ اگر بات جذبات کی حد تک ہے تو بے اختیاری ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔۔۔ فریقین کو مل کر۔ اس حد سے تجاوز نہ صرف بے وفائی بلکہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔

انسان مٹی کا بنا ہوا ہے اور مٹی میں بخل کی خاصیت ہوتی ہے جبکہ دین کہتا ہے کہ بخل اچھی عادت نہیں تو فطرت کو کیسے بدلیں؟ اسی لیے دین ہمیں سکھاتا ہے کہ بخل یعنی فطرت کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن غنی کے جذبے سے مغلوب کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اور غلط خیالات یا نامناسب جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ان کو متبادل اچھے خیالات سے مغلوب کیجیے۔ ایک قصہ یاد آ گیا کوشش کرتا ہوں مختصر عرض کروں ۔۔۔

ایک بزرگ کسی مجلس میں بیٹھے تھے جہاں سب دین دار لوگ تھے۔ اچانک دوسری شادی کا موضوع چھڑ گیا۔ ہر دین دار بڑھ چڑھ کر چار شادیوں کے فوائد اور دینی ضرورت کے حوالے سے دلائل دینے لگا۔ کسی نے شیخ سے پوچھا حضرت آپ کا کیا خیال ہے اس موضوع پر؟ شیخ نے فرمایا کہ بات تو آپ کی درست ہے لیکن اگر سنت پر ہی عمل کرنا ہے تو پورا پورا عمل کیجیے۔ حاضرین نے پوچھا وہ کیسے۔ شیخ نے کہا کہ دیکھو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کنواری سے نکاح کیا تھا جو امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں باقی بیوہ تھیں یا مطلقہ۔ آپ چونکہ پہلا نکاح ایک کنواری سے کر چکے ہیں لہذا دوسرے نکاح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نکاح کی سنت پر عمل کیجیے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت 25 اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 برس تھی اور وہ دو خاوندوں سے بیوہ تھیں۔ تو آپ بھی ایسی خاتون تلاش کیجیے جو کم از کم ایک خاوند سے بیوہ ہو اور آپ دونوں کی عمر میں تقریبا 15 برس کا فرق ہو۔ بس یہ سننا تھا کہ حاضرین کے چہرے سے رونق غائب۔ دوسرے دن احباب جب مجلس میں آئے تو کہنے لگے کہ شیخ جب سے یہ دوسری کی خواہش دل سے نکلی ہے تب سے پہلی ہی خوبصورت لگنے لگی ہے۔ مقصد شیخ کا یہ تھا کہ سنت کے لبادے میں نفس شرارت کرتا ہے اس سے ہشیار رہیں۔

ضمنا بات بیچ میں آ گئی۔ میاں بیوی جب یہ عہد کر لیں یہ رشتہ اللہ پاک نے بنایا ہے اور ہمیں اس رشتے کو اللہ کے لیے نبھانا ہے تو پھر کسی دوسرے کے لیے جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو ان کو مغلوب کرنا آسان ہوتا ہے۔
 
Top