کیا یہ بے وفائی ہے؟

عرفان سعید

محفلین
جی بلکل یہ بدترین خیانت ہے ۔شریک حیات کے اعتماد کو دھوکہ دینا ،اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچنا ،دل آزاری کرنا ہر طریقے سے غلط و نا جائز ہے ۔

سیدھی سیدھی بیوفائی ہے ۔۔چاہے مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے۔۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے صرف بے وفائی ہی نہیں بلکہ بے حیائی ہے
یہ تو ظاہر ہو رہا ہے مرد و زن کی تفریق کے بغیر اکثر لوگ اس فعل کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ اس پر ایک سوال اٹھتا ہے۔
فرض کیا میں شادی شدہ ہوں اور اب ایک اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس ِخواہش کا آغاز لازمی طور پر ایک دوسری عورت کی محبت میں گرفتار ہونے سے ہو گا۔ لیکن شادی شدہ ہوتے ہوئے یہ محبت سراسر غلط ہے۔ اگر ایسا ہے تو دوسری شادی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ اب اس گتھی کو کیسے سلجھایا جائے؟
یہ محض ایک طالب علمانہ سوال ہے، اس سوال سے میری نیت اور محرکات طے کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
ایک رشتۂ ازدواج میں ہوتے ہوئے اگر فریقین میں کسی اور صنفِ مخالف کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں تو کیا یہ بے وفائی ہے؟ دوسرے لفظوں میں شادی کے علاوہ اگر کسی افئیر کی نوعیت سر تا سر ایموشنل (جذباتی) ہے تو کیا یہ شادی کے رشتے میں دھوکے بازی ہے؟
ویسے تو زیادہ تر لوگ کہیں گے کہ یہ سراسر بے وفائی ہے۔ جبکہ ہمارے خیال میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے مزید کچھ سوالات زیر غور ہیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
انسان کے لیے کچھ چیزیں غیر اختیاری ہوتی ہیں۔ غیر اختیاری باتوں کے لیے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے ۔۔۔ جی جنس کی تفریق کے بغیر۔

گناہ کا عمل البتہ اختیاری ہے اور اسی پر جزا اور سزا کا دارومدار ہے۔ اگر بات جذبات کی حد تک ہے تو بے اختیاری ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔۔۔ فریقین کو مل کر۔ اس حد سے تجاوز نہ صرف بے وفائی بلکہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔

انسان مٹی کا بنا ہوا ہے اور مٹی میں بخل کی خاصیت ہوتی ہے جبکہ دین کہتا ہے کہ بخل اچھی عادت نہیں تو فطرت کو کیسے بدلیں؟ اسی لیے دین ہمیں سکھاتا ہے کہ بخل یعنی فطرت کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن غنی کے جذبے سے مغلوب کیا جاسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اور غلط خیالات یا نامناسب جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ان کو متبادل اچھے خیالات سے مغلوب کیجیے۔ ایک قصہ یاد آ گیا کوشش کرتا ہوں مختصر عرض کروں ۔۔۔

ایک بزرگ کسی مجلس میں بیٹھے تھے جہاں سب دین دار لوگ تھے۔ اچانک دوسری شادی کا موضوع چھڑ گیا۔ ہر دین دار بڑھ چڑھ کر چار شادیوں کے فوائد اور دینی ضرورت کے حوالے سے دلائل دینے لگا۔ کسی نے شیخ سے پوچھا حضرت آپ کا کیا خیال ہے اس موضوع پر؟ شیخ نے فرمایا کہ بات تو آپ کی درست ہے لیکن اگر سنت پر ہی عمل کرنا ہے تو پورا پورا عمل کیجیے۔ حاضرین نے پوچھا وہ کیسے۔ شیخ نے کہا کہ دیکھو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کنواری سے نکاح کیا تھا جو امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں باقی بیوہ تھیں یا مطلقہ۔ آپ چونکہ پہلا نکاح ایک کنواری سے کر چکے ہیں لہذا دوسرے نکاح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نکاح کی سنت پر عمل کیجیے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک اس وقت 25 اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 برس تھی اور وہ دو خاوندوں سے بیوہ تھیں۔ تو آپ بھی ایسی خاتون تلاش کیجیے جو کم از کم ایک خاوند سے بیوہ ہو اور آپ دونوں کی عمر میں تقریبا 15 برس کا فرق ہو۔ بس یہ سننا تھا کہ حاضرین کے چہرے سے رونق غائب۔ دوسرے دن احباب جب مجلس میں آئے تو کہنے لگے کہ شیخ جب سے یہ دوسری کی خواہش دل سے نکلی ہے تب سے پہلی ہی خوبصورت لگنے لگی ہے۔ مقصد شیخ کا یہ تھا کہ سنت کے لبادے میں نفس شرارت کرتا ہے اس سے ہشیار رہیں۔

ضمنا بات بیچ میں آ گئی۔ میاں بیوی جب یہ عہد کر لیں یہ رشتہ اللہ پاک نے بنایا ہے اور ہمیں اس رشتے کو اللہ کے لیے نبھانا ہے تو پھر کسی دوسرے کے لیے جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوں بھی تو ان کو مغلوب کرنا آسان ہوتا ہے۔
متفق
 

فے کاف

محفلین
یہ تو ظاہر ہو رہا ہے مرد و زن کی تفریق کے بغیر اکثر لوگ اس فعل کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ اس پر ایک سوال اٹھتا ہے۔
فرض کیا میں شادی شدہ ہوں اور اب ایک اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس ِخواہش کا آغاز لازمی طور پر ایک دوسری عورت کی محبت میں گرفتار ہونے سے ہو گا۔ لیکن شادی شدہ ہوتے ہوئے یہ محبت سراسر غلط ہے۔ اگر ایسا ہے تو دوسری شادی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ اب اس گٹھی کو کیسے سلجھایا جائے؟
یہ محض ایک طالب علمانہ سوال ہے، اس سوال سے میری نیت اور محرکات طے کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ملاؤں کا اپنی تسکین کے لیے بنایا ہوا ڈرامہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک رشتۂ ازدواج میں ہوتے ہوئے اگر فریقین میں کسی اور صنفِ مخالف کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہو جائیں تو کیا یہ بے وفائی ہے؟ دوسرے لفظوں میں شادی کے علاوہ اگر کسی افئیر کی نوعیت سر تا سر ایموشنل (جذباتی) ہے تو کیا یہ شادی کے رشتے میں دھوکے بازی ہے؟
ہمت ہے آپ کی ڈاکٹر صاحب!

یہ مَردوں کا معاشرہ ہے، یہاں ایک شادی شدہ مرد ہی ایسا سوال پوچھ سکتا ہے۔ کسی شادی شدہ خاتون کی کیا مجال کہ ایسا سوال کر بھی سکے! یہ ہم جیسے مرد ہی ہیں جو شادی کے بعد اپنی بیوی کو شادی سے پہلے کے اپنے جھوٹے سچے عشقیہ افسانے سنا سنا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کتنے تیس مار خان تھے اور کیسے لڑکیاں مکھیوں کی طرح ان کے جال پھنستی چلی جاتی تھیں، اور بیوی بیچاری کبھی بر سبیلِ تذکرہ بھی اپنے کسی چچا زاد یا ماموں زاد کا نام بھی لے لے تو ازلوں کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔

اس طرح کے ماحول میں آپ کس قسم کے جواب کی توقع رکھ سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب!
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
فرض کیا میں شادی شدہ ہوں اور اب ایک اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔
فرض کیوں کریں؟ آپ شادی شدہ ہی ہیں۔ "اب ایک اور شادی کرنا چاہتا ہوں" ۔ اس کے متعلق کسی سے پوچھنا پڑیگا۔
وہاں سے جواب آنے پر آپ فرض کرنے کا خیال بھی چھوڑ دیں گے۔
 
Top