ہمت ہے آپ کی ڈاکٹر صاحب!
یہ مَردوں کا معاشرہ ہے، یہاں ایک شادی شدہ مرد ہی ایسا سوال پوچھ سکتا ہے۔ کسی شادی شدہ خاتون کی کیا مجال کہ ایسا سوال کر بھی سکے! یہ ہم جیسے مرد ہی ہیں جو شادی کے بعد اپنی بیوی کو شادی سے پہلے کے اپنے جھوٹے سچے عشقیہ افسانے سنا سنا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کتنے تیس مار خان تھے اور کیسے لڑکیاں مکھیوں کی طرح ان کے جال پھنستی چلی جاتی تھیں، اور بیوی بیچاری کبھی بر سبیلِ تذکرہ بھی اپنے کسی چچا زاد یا ماموں زاد کا نام بھی لے لے تو ازلوں کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔
اس طرح کے ماحول میں آپ کس قسم کے جواب کی توقع رکھ سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب!
ہمارے معاشرے کے جس افسوس ناک پہلو کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اس سے ایک بات ذہن میں آگئی جس کا ذکر نجی محفلوں میں بھی کرتا رہتا ہوں۔
ایک عالمِ دین سے یہ واقعہ سنا تھا اور حوالہ مستحضر نہیں ہے۔
دور نبویﷺ میں عرب کا معاشرہ انتہائی سادہ تھا۔ وہاں کے خواتین و حضرات بعض دفعہ اپنے ازدواجی معاملات بھی آپﷺ سے ذکر کرتے اور آپﷺ کی رائے لیتے۔ دینی نوعیت کی مشاورت سے الگ، اس گفتگو کا مقصد آپﷺ کی رائے اور مشورہ لینا ہوتا تھا۔ ایک خاتون آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ
میں شادی کرنا چاہتی ہوں اور میری نظر میں یہ دو مرد ہیں۔ آپﷺ بتائیں کہ ان میں سے کون بہتر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک کے پاس کھلانے کو کچھ نہیں اور ایک نے کندھے پر لاٹھی رکھی ہے، اب کس سے شادی کرنے کا مشورہ دوں؟
چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن خاتون کے الفاظ پر غور کریں "
میں شادی کرنا چاہتی ہوں اور میری نظر میں یہ دو مرد ہیں۔ "
یہی الفاظ ہماری معاشرت میں کسی خاتون کی زبان سے ادا ہوئے ہوتے تو بقول آپ کے "ازلوں کی سوئی ہوئی غیرت جاگ اٹھتی "