محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
آپ خود کو چھپا رستم ثابت کرنا چارہے تھے شاید۔لڑی ہم نے بنائی اور جملہ حقوق آپ کے پاس۔۔۔
آپ خود کو چھپا رستم ثابت کرنا چارہے تھے شاید۔لڑی ہم نے بنائی اور جملہ حقوق آپ کے پاس۔۔۔
دس ہزاری ہونے سے عقلیں بٹنے لگتی ہیں کیا؟؟؟ہائے اوئے۔
دس ہزاری ہوگئے مگر آج تک بدھو ہی ہیں آپ بھیا۔
آپ نے جو سفر نامہ کی تبصرہ والی لڑی میں فرمایا تھا، اس کی بنیاد پر آپ کی شروع کردہ تمام لڑیوں کے حقوق انھوں نے ضبط کر لیے ہیں۔لڑی ہم نے بنائی اور جملہ حقوق آپ کے پاس۔۔۔
اے کی کہانی اے، مدیر لوگو؟؟؟
ہمارے کام ہمیشہ انوکھے تو ہوتے ہیں ۔وہ تو اوپر لانے کا کہا تھا۔۔۔
انہوں نے اوپر ہی اوپر سے کام دکھادیا!!!
وہ کیسے؟؟؟آپ خود کو چھپا رستم ثابت کرنا چارہے تھے شاید۔
بھیا کے ساتھ ساتھ آپ بھی بہت ذہین ہوتی جارہی ہیں۔۔۔میں نے بوجھ لیا تھا کہ یہ جناب سید عاطف علی ہی ہو سکتے ہیں کہ جن کا ذکرخوف معذرت ذکر خیر ہو رہا ہے۔
بہرحال حسب معمول بہت اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ۔
اتنا ہی کہوں گا کہ اردو کو اچھے لکھاری سے محروم نہ کیجیے، لکھتے رہا کیجیے۔کہتی ہےتجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟
لڑکپن میں بہت سے مضامین لکھنے کو دیئے جاتے کہ گائے پر مضمون لکھو ، اونٹ پر مضمون لکھو گدھے پر مضمون لکھو وغیرہ اور خدا بخشے بخاری صاحب کو کتے تک پر مضمون رقم فرماگئے ہیں۔ سو آج ہمیں ہم پر مضمون پڑھ کر جی بہت بوقلموں اور گوں نگوں کیفیات کی کھچڑی سے دوچار ہوا ۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے وہ تو درکنار کہ الزام تو وزراء و صدور پر بھی لگتے رہے ہیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ خیر کچھ ملاحظات سپرد قلم کرنا مناسب معلوم ہوا۔
جس وقت یہ مراسلہ دیکھا تو عجب حال ہوا تھا کہ کہیں کوئی مددگار کروبی نمودار ہو اور فی الفور آئینہ دکھا دے کہ سر پر کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے اور یہ سربستہ سرِّ اعظم افشا ہو کہ ایسا رعب و طنطنہ عزیز از انٹرنیٹ محفلی بھائیوں بہنوں کے معصوم دلوں پر کیوں کر طاری ہوا ؟ وقت بھی ایسا تھا کہ فرائض منصبی کی کرسی پر براجمان تھا ہر سو صاحبان کمپنی اور عاملان ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے پردہ ء سیمیں پر نظریں گاڑے کام میں ایسے مشغول تھے کہ گویا کسی خزانہ ء الماس و مروارید کے خفیہ نقشے سے طول و عرض اپنی یادداشتوں میں محفوظ کر رہے ہوں ۔ٹیلیکوم کمپنی کے نیٹورک آپریشن کا ماحول اتنا ہی مہیب ہوتا ہے ۔لیکن مجھے تو خیال اسی مذکورہ رعب اور دبدے کے سبب کا تھا ۔
سو ایسے میں ایک خیال آیا کہ آج کی اس تکنیکی و سائنسی زندگی کی چکا چوند مصروفیتوں میں ہر ایک کی جیب میں جدید دور کا ایک ایسا طلسمی و سیمیائی شاہکار موجود ہے جو جام جمشید کی انفرادیت اور افادیت کو للکارتا اور شکست دیتا ہے ۔ یہ نہ صرف دنیا و مافیہا ،شرق و غرب ، اور خشک و تر کے مناظر چند لمحوں میں مٹھی بھر کے مالک سا منے لا حاضر کرتا ہے بلکہ بوقت ضرورت آئینہ اور عکاس بن کر سامنے کے مناظر بھی دقت نظر اور بے پایاں گہرائی کے ساتھ محفوط کرسکتا ہے۔ جیب سے نکال کر اس کے پردے پر اپنا آپ دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لایا کہ سب خیریت ہے لیکن حیرت دو چند ہوگئی کہ اگر ظاہری سراپا بھی ٹھیک ہے تو پھر آخر اس کا سبب و باعث کیا ہوا ؟ اسی فکر میں سربگریباں ناچار اپنے قلم کو تکنے لگا کہ اس میں یہ صمصام بے نیام اور نوک خنجر کے تیور آخر کہاں سے در آئے ؟ شاید یہ خدشات اس نوک اور تیز دھاری کا کرشمہ ہوں کہ محفلین کے گمان کو بوجھل کیا ۔
جب اس پر بھی غور کیا تو یہ شک زائل ہوا کہ قلم میں بھی ایسی کوئی ایسا جوہر نہیں کہ سطوت و جلال کا نقش بٹھا سکے ۔ اب تو استعجاب اس درجے بڑھا کہ استغراق کی منزل تک پہنچا اور گویا گم ہو گیا ۔ اسی کیفیت میں توسن ہاے فکر تکان کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگے سو آن کی آن میں یہ خیال آسمانی بجلی کی طرح کونداکہ اے زیبائش گیتی کی بے ثباتی کے شکار! یہ سب کذب و مکر کےفریب کا سحر ہے ، نفس امارہ کا تعمیر کردہ محل ہے جسے ثبات نہیں ۔کبر و عُجب انسان کو شایاں نہیں یہ سراسر دھوکا ہے ،لمحے بھر کا مزہ اور عمر بھر کی شرمساری ہے ۔ کبریائی کی ردا اسی ذات بے ہمتا کو سزاوار ہے ۔ انسان کو وہی انکسار زیبا ہے جو ذات کبریا کی بارگاہ جلال سے خلعتِ تواضع کو اختیار کر کے مخلوق خداوند کی تعظیم و خدمت کے میدان میں زندگی کو پھیرنے سے حاصل ہو سو تو بھی محفلین کے سامنے خاکساری کا سچا سلام پیش کر اور عجز و تواضع سے خمیدہ کمر کے ساتھ کورنش بجا لا اور اس تکبر کے پیکر کو توڑ جو دو دن کی زندگی میں گھاٹے کا سودا کر بیٹھے اور پونجی لٹا کر کف افسوس مل کر پچھتاتا رہے ۔
بہر کیف شکر گزاری کا ہدیہ محفلین کی خدمت میں پیش ہے جو محبت اور عزت افزائی کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے لیکن خلوص دل کے بیش بہا جذبات کا حامل ہے۔خیر اب اجازت آتش لکھنوی صاحب کے ان سنہرے کلمات کے ساتھ ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ۔
خیر اندیش۔
کہتی ہےتجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟
لڑکپن میں بہت سے مضامین لکھنے کو دیئے جاتے کہ گائے پر مضمون لکھو ، اونٹ پر مضمون لکھو گدھے پر مضمون لکھو وغیرہ اور خدا بخشے بخاری صاحب کو کتے تک پر مضمون رقم فرماگئے ہیں۔ سو آج ہمیں ہم پر مضمون پڑھ کر جی بہت بوقلموں اور گوں نگوں کیفیات کی کھچڑی سے دوچار ہوا ۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے وہ تو درکنار کہ الزام تو وزراء و صدور پر بھی لگتے رہے ہیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ خیر کچھ ملاحظات سپرد قلم کرنا مناسب معلوم ہوا۔
جس وقت یہ مراسلہ دیکھا تو عجب حال ہوا تھا کہ کہیں کوئی مددگار کروبی نمودار ہو اور فی الفور آئینہ دکھا دے کہ سر پر کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے اور یہ سربستہ سرِّ اعظم افشا ہو کہ ایسا رعب و طنطنہ عزیز از انٹرنیٹ محفلی بھائیوں بہنوں کے معصوم دلوں پر کیوں کر طاری ہوا ؟ وقت بھی ایسا تھا کہ فرائض منصبی کی کرسی پر براجمان تھا ہر سو صاحبان کمپنی اور عاملان ڈیپارٹمنٹ اپنے اپنے پردہ ء سیمیں پر نظریں گاڑے کام میں ایسے مشغول تھے کہ گویا کسی خزانہ ء الماس و مروارید کے خفیہ نقشے سے طول و عرض اپنی یادداشتوں میں محفوظ کر رہے ہوں ۔ٹیلیکوم کمپنی کے نیٹورک آپریشن کا ماحول اتنا ہی مہیب ہوتا ہے ۔لیکن مجھے تو خیال اسی مذکورہ رعب اور دبدے کے سبب کا تھا ۔
سو ایسے میں ایک خیال آیا کہ آج کی اس تکنیکی و سائنسی زندگی کی چکا چوند مصروفیتوں میں ہر ایک کی جیب میں جدید دور کا ایک ایسا طلسمی و سیمیائی شاہکار موجود ہے جو جام جمشید کی انفرادیت اور افادیت کو للکارتا اور شکست دیتا ہے ۔ یہ نہ صرف دنیا و مافیہا ،شرق و غرب ، اور خشک و تر کے مناظر چند لمحوں میں مٹھی بھر کے مالک سا منے لا حاضر کرتا ہے بلکہ بوقت ضرورت آئینہ اور عکاس بن کر سامنے کے مناظر بھی دقت نظر اور بے پایاں گہرائی کے ساتھ محفوط کرسکتا ہے۔ جیب سے نکال کر اس کے پردے پر اپنا آپ دیکھا تو خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجا لایا کہ سب خیریت ہے لیکن حیرت دو چند ہوگئی کہ اگر ظاہری سراپا بھی ٹھیک ہے تو پھر آخر اس کا سبب و باعث کیا ہوا ؟ اسی فکر میں سربگریباں ناچار اپنے قلم کو تکنے لگا کہ اس میں یہ صمصام بے نیام اور نوک خنجر کے تیور آخر کہاں سے در آئے ؟ شاید یہ خدشات اس نوک اور تیز دھاری کا کرشمہ ہوں کہ محفلین کے گمان کو بوجھل کیا ۔
جب اس پر بھی غور کیا تو یہ شک زائل ہوا کہ قلم میں بھی ایسی کوئی ایسا جوہر نہیں کہ سطوت و جلال کا نقش بٹھا سکے ۔ اب تو استعجاب اس درجے بڑھا کہ استغراق کی منزل تک پہنچا اور گویا گم ہو گیا ۔ اسی کیفیت میں توسن ہاے فکر تکان کے مارے آگے بڑھنے سے انکار کرنے لگے سو آن کی آن میں یہ خیال آسمانی بجلی کی طرح کونداکہ اے زیبائش گیتی کی بے ثباتی کے شکار! یہ سب کذب و مکر کےفریب کا سحر ہے ، نفس امارہ کا تعمیر کردہ محل ہے جسے ثبات نہیں ۔کبر و عُجب انسان کو شایاں نہیں یہ سراسر دھوکا ہے ،لمحے بھر کا مزہ اور عمر بھر کی شرمساری ہے ۔ کبریائی کی ردا اسی ذات بے ہمتا کو سزاوار ہے ۔ انسان کو وہی انکسار زیبا ہے جو ذات کبریا کی بارگاہ جلال سے خلعتِ تواضع کو اختیار کر کے مخلوق خداوند کی تعظیم و خدمت کے میدان میں زندگی کو پھیرنے سے حاصل ہو سو تو بھی محفلین کے سامنے خاکساری کا سچا سلام پیش کر اور عجز و تواضع سے خمیدہ کمر کے ساتھ کورنش بجا لا اور اس تکبر کے پیکر کو توڑ جو دو دن کی زندگی میں گھاٹے کا سودا کر بیٹھے اور پونجی لٹا کر کف افسوس مل کر پچھتاتا رہے ۔
بہر کیف شکر گزاری کا ہدیہ محفلین کی خدمت میں پیش ہے جو محبت اور عزت افزائی کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے لیکن خلوص دل کے بیش بہا جذبات کا حامل ہے۔خیر اب اجازت آتش لکھنوی صاحب کے ان سنہرے کلمات کے ساتھ ۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ۔
خیر اندیش۔
مابدولت فی الفور اس حالت غش سے بخیر وعافیت نکلنے کے لئے نبرد آزما ہیں جو مراسلہ مرقوم بالا المرسل عزیزی سید عمران ساکنہ اردو محفل کو ملاحظہ کرنے پر مابدولت پر طاری ہوا ہے ! (تفنن برطرف ) زبردست۔اس مراسلہ ہوش ربا کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوش و حواس جو ذرا بحال ہوئے تو وجودِ خود کو بے خود پایا۔ بغور معائنہ قلبی و دماغی کرنے کے باوجود سببِ سلبِ حواس دریافت نہ ہوسکا۔ اس عالم حیرت و تعجب میں بے سدھ دنیائے عقل و خرد سے بے گانہ پڑے تھے کہ پاس موجود رفیقِ دیرینہ نے حالتِ زار کو کائنات سے بے زار دیکھ کر جھٹ تلوے سہلائے، لخلخہ سنگھایا اور خمیرہ چٹایا۔
ان تدابیر آزمودہ کے آزمائے جانے کے بعد جب اوسان ذرا بحال ہوئے اور سانس میں سانس آیا تو مراسلہ ہٰذا کو دائرۂ عقل و فہم میں لانے کے لیے از سرِ نو بغور دیکھنا شروع کیا۔ مریض کو مرض کی طرف دوبارہ کمربستہ جاتے دیکھ کر رفیقِ دیرینہ نے جھٹ برقی پردۂ سیمیں کا بجلی سے رابطہ منقطع کردیا۔ بقول اس کے گر ہے جان و دل عزیز تو مطالعۂ مراسلہ ہذا سے احتیاط احوط ہے۔
سو بلا مطالعہ ثانی بدستِ لاغر یہ مراسلہ تحریر کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔ امید ہے راقم تحریر کی حالتِ ضعف و ناتوانی پر نگاہِ ترس ڈالی جاوے گی اور قابل گرفت الفاظ کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر درگزر سے کام لیا جاوے گا۔
فقط
والسلام!!!
درست کہا آپ نے ہم میں اور ہمارے [B] بھیا[/B] میں بہت سی باتیں مشترک ہیں آخر کیوں نا ہو ہمارے بھیا ۔۔۔اردو کی غلطیاں کو درست کرنے کے لئے جناب آپ جیسے گراں قدر اردو داں محفل موجود ہیں تو ہم دونوں بہن بھائی کو کیا فکر ہو ۔۔۔۔۔پر آپ کا شمار محفل کے اُن نورتن میں ہوتا ہے ، جنکی عزت ہم دل سے اُس وقت سے کرتے ہیں جب آپ کا دیدار بھی نہ ہوا تھا ۔۔۔اب تو خیر سے آپ کا دیدار بھی ہوچکا ہے تاریخی ناشتہ پر آپکی میزبانی میں 22اگست 2021 ۔۔۔ ۔۔۔۔قارئین کرام، اگر آپ کو ہماری اس جلی کٹی تحریر سے کسی قسم کی جلن حسد کی بو آتی ہے تو یقین جانیئے آپ کی ناک بالکل صحیح کام کررہی ہے۔ غضب خدا کا جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ مراسلے۔ ہے کوئی تُک۔ پھر کیوں نہ ہو جلن حسد۔ اب کوئی وعظ و نصحیت کے پل باندھنے نہ بیٹھ جائے، ہمیں سمجھنے سمجھانے نہ بیٹھ جائے کہ
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
مجھ کو تو گردش دوراں نے دیا ہے لہجہلیکن ہمارا مقصد کسی کو زیر و زبر کرنا نہیں ہے فقط تعارف کا زیر و بم پیش کرنا ہے۔ ایک اہم بات کی طرف توجہ، یہ ’’زیر‘‘ ’’و‘‘ ’’بم‘‘ ہے۔ ‘‘زیرو بم‘‘ نہیں، کل کلاں کو ہمیں دہشت گردی کے کسی زُمرے میں نہ پھنسوادیں۔
🤓🤓🤓🤓🤓🤓دونوں ہی کو ہر طرح کی خبریں کاپی پیسٹ کرنے کا شوق ہے جو مراسلہ نگاری سے ان کی محبت کا بیّن ثبوت ہے۔ یہاں لفظ بیّن پر ’’تشدد‘‘ ہے