معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو کے نمائندے ہر گھر سے کان لگائے موجود ہوتے ہوں گے کیونکہ جب ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کرنے والوں کو اس قدر جتن کرنے پڑتے تھے تو ریڈیو نمائندگان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ ٹی وی لائسنس فیس کی وصولی پہلے پہل پی ٹی وی کے اہلکار کیا کرتے تھے، (ففٹی ففٹی شو کا ایک اِسکٹ الگ سے یاد آ گیا) بعدازاں انہوں نے ایک کمپنی ہائر کی، اور لائسنس فیس ادا کرنے والوں کے لیے قرعہ اندازی کا سلسلہ شروع کیا، اور بعد ازاں، ایک عبقری انہیں میسر آ گیا، جس نے لائسنس فیس بجلی کے بل میں ہی ڈال دی اور یوں پی ٹی وی اب قریب قریب ہر صارف سے بیٹھے بٹھائے لائسنس وصول کر لیتا ہے۔ تاہم، ریڈیو پاکستان کے مقدر میں تو شاید محرومیاں ہی رہیں۔
سرتاج عزیز صاحب نے 90 کی دہائی کے کسی بجٹ میں اس سے مستقل چھٹکارہ دلایا تھا۔ریڈیو پاکستان کے مقدر میں تو شاید محرومیاں ہی رہیں۔
یہ تو بظاہر ایک رسمی سا فیصلہ تھا اور یہ ہو کر ہی رہنا تھا تاہم اتنا ضرور ہے کہ جہاں پی ٹی وی کو بجلی کے بل میں سے 35 روپے دیے جاتے ہیں؛ اس میں سے کم از کم 5 روپے ریڈیو والوں کو دے دیے جاتے تو بہت بہتر ہوتا۔ پی ٹی وی تو دیگر ذرائع سے بھی کما سکتا ہے تاہم ریڈیو پاکستان کو یہ رقم مل جاتی تو شاید کسی قدر معیاری پروگرامز سننے کو مل جاتے۔ کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان پر بہترین رائٹرز اسکرپٹ لکھا کرتے تھے تاہم معاوضوں میں کمی کے باعث انہوں نے اس طرف رُخ کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب ریڈیو کی ویسی افادیت نہ رہی ہے تاہم اس کے باوجود ریاستی سطح پر کسی حد تک امداد کی جانی چاہیے۔ بیرون ملک یہ ہو رہا ہے کہ ریڈیو بھی چل رہا ہے اور پروگرامز کی ویڈیوز کو متواتر نیٹ پر بھی چڑھایا جا رہا ہے، یعنی کہ انوویشن کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ملکوں، بالخصوص چین وغیرہ میں یہ کام عام طور پر ریاستیں ہی کر رہی ہیں!سرتاج عزیز صاحب نے 90 کی دہائی کے کسی بجٹ میں اس سے مستقل چھٹکارہ دلایا تھا۔
درست کہا۔ ناروے کی حکومت نے پرانا FMریڈیو بند کر کے اس کی جگہ ڈیجیٹل ریڈیو DAB کھول دیا ہے جس میں کئی سو چینل ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ اور آواز کی کوالٹی بہت عمدہ ہوتی ہے۔بیرون ملک یہ ہو رہا ہے کہ ریڈیو بھی چل رہا ہے اور پروگرامز کی ویڈیوز کو متواتر نیٹ پر بھی چڑھایا جا رہا ہے، یعنی کہ انوویشن کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ملکوں، بالخصوص چین وغیرہ میں یہ کام عام طور پر ریاستیں ہی کر رہی ہیں!
دو کشتیوں کے مسافر۔ناروے کی حکومت
پاکستان میں وہ وقت بھی تھا جب سڑک پر گاڑیاں روک کر ڈرائیونگ لائسنس اور کار رجسٹریشن کی بجائے ریڈیو لائسنس چیک کیا کرتے تھے
90 کی دہائی میں ہمارے ہاں ٹی وی لائسنس چیک کرنے والے پورے گھر کی تلاشی لے کر گئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے گھر ٹی وی نہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو کے نمائندے ہر گھر سے کان لگائے موجود ہوتے ہوں گے کیونکہ جب ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کرنے والوں کو اس قدر جتن کرنے پڑتے تھے تو ریڈیو نمائندگان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ ٹی وی لائسنس فیس کی وصولی پہلے پہل پی ٹی وی کے اہلکار کیا کرتے تھے، (ففٹی ففٹی شو کا ایک اِسکٹ الگ سے یاد آ گیا) بعدازاں انہوں نے ایک کمپنی ہائر کی، اور لائسنس فیس ادا کرنے والوں کے لیے قرعہ اندازی کا سلسلہ شروع کیا، اور بعد ازاں، ایک عبقری انہیں میسر آ گیا، جس نے لائسنس فیس بجلی کے بل میں ہی ڈال دی اور یوں پی ٹی وی اب قریب قریب ہر صارف سے بیٹھے بٹھائے لائسنس وصول کر لیتا ہے۔ تاہم، ریڈیو پاکستان کے مقدر میں تو شاید محرومیاں ہی رہیں۔
اوپر بھی پڑھیں۔
تبدیلی آ نہیں رہی ،اوپر بھی پڑھیں۔
پنجاب پولیس کا "دورے" جدید کا سلوگن
پولیس کے حالات ایسے ہی رہے تو پنجاب میں واقعی تبدیلی سرکار کا خاتمہ ہو جائے گاتبدیلی آ نہیں رہی ،
تبدیلی آ چکی ہے ۔
آج معلوم ہوا کہ میرا وزن کم کیوں ہے