’امتحان میں کامیابی‘ سے ایک ’شریف‘ قسم کے ٹھگ کی یاد آئی تو سوچا ان کا قصہ لکھ دیتا ہوں۔
آج سے کوئی 22، 25 برس قبل گوجر خان کے علاقے میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جو تعلیمی بورڈ راولپنڈی میں ملازم تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر کسی طالب علم کا کوئی پرچہ (عموماً میٹرک) صحیح نہیں ہوا اور فیل ہونے کا خدشہ ہے تو ان سے رابطہ کرے۔ فی پرچہ 2 ہزار روپیہ وصول کرتے تھے اور وعدہ کرتے تھے کہ اگر نا پاس کرا سکا تو پوری رقم رزلٹ آنے سے پہلے ہی واپس لوٹا دوں گا۔
میرے ایک کولیگ نے اپنی ایک عزیزہ کے دو پرچوں کے لیے انھیں چار ہزار روپیہ ادا کیا۔ ایک پرچہ کلئیر ہو گیا اور ایک رہ گیا، انھوں نے حسب وعدہ 2 ہزار روپیہ رزلٹ آنے سے پہلے ہی واپس کر دیا۔
اتنے شریف اور کام کے آدمی سے ملنے کا دل کر گیا ۔ کولیگ سے کہا کہ مجھے ان صاحب سے ملوائے کہ بورڈ وغیرہ میں کام نکلتا رہتا ہے تو ذرا ان سے واقفیت ہو جائے۔ ایک روز ہم دونوں گوجر خان جا پہنچے۔ کچھ دیر گپ شپ لگائی اور پھر ان سے پوچھا کہ آپ کی ایسی کیا اپروچ ہے جو آپ پاس کروا دیتے ہیں ؟ پہلے پہل تو آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کرتے رہے، جب ایک اور حربہ استعمال کیا تو بول پڑے ۔۔۔۔ میں ملازم ضرور ہوں پر میری کوئی اپروچ نہیں۔ کافی سال پہلے کوئی امتحان گزیدہ آیا اور اس نے بورڈ کے حوالے سے مجھ سے مدد کی درخواست کی تو میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا اور اب تک اس پر ہی عمل پیرا ہوں۔
لوگ آتے ہیں پرچے کا بتاتے ہیں، پیسے دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ میں ان کے رولنمبر نوٹ کر لیتا ہوں۔ جب رزلٹ بن رہا ہوتا ہے تو دفتر میں ہونے کی وجہ سے ان کا مطوبہ رزلٹ پہلے ہی چیک کر لیتا ہوں اگر وہ پاس ہوں تو 2 ہزار رکھ لیا اور اگر فیل ہوں تو آٹھ دس دن پہلے ہی بلا کر رقم واپس کر دیتا ہوں کہ معذرت، آپ کا کام نہیں ہو سکا۔
کیا وقت تھا کہ ایسی اچھی شہرت والے ٹھگ معاشرے میں موجود تھے اب تو لوگ جائز پیمینٹ کرنے کے لیے بھی ’
بے نظیر انکم سپورٹ ‘ والے میسج کا وعدہ کرتے ہیں، اور بھیجتے وہ بھی نہیں