حمیرا عدنان
محفلین
اساتذہ کی قدر کیا کرو، کیونکہ جو اساتذہ کی قدر نہیں کرتا وہ سڑکوں پر پوچھتا پھرتا ہے،
مجھ کیوں نکالا
آپ دونوں کے شتونگڑوں کے مقابلے بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔
پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں
کیا خوب ہوتا اگر اساتذہ کی قدر کے ساتھ ساتھ بڑوں کا احترام بھی سکھایا جاتا۔ مجھے تو یہ پرائمری سکول کم اور سیاسی اکھاڑا زیادہ لگ رہا ہے۔
اساتذہ کی قدر کیا کرو، کیونکہ جو اساتذہ کی قدر نہیں کرتا وہ سڑکوں پر پوچھتا پھرتا ہے،
مجھ کیوں نکالا
فیصلابادی جگتاں توں بغیر رہ نہیں سکدے۔
اساتذہ کی قدر کیا کرو، کیونکہ جو اساتذہ کی قدر نہیں کرتا وہ سڑکوں پر پوچھتا پھرتا ہے،
مجھ کیوں نکالا
استغفراللہ۔
اور اشتہار کا زمرہ "پبلک سروسز" کا ہے۔
استغفراللہ۔
یا اللہ!ہم پہ رحم فرما۔آمین!
خواتین کے ایک ادارہ میں کچھ عرصہ کے لئے جانا ہوا۔
وہاں کے واش رومز کے دروازوں اور کھڑکیوں پہ موبائل نمبرز کے ساتھ اس طرح کی بیہودہ باتیں لکھی تھیں۔ اور میں بے حد حیران اور پریشان ہوئی۔
یہ بہت دکھ اور پریشانی کی بات ہے کہ حالات روز بہ روز مزید خراب سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین!
عام طور پہ اخبارات اور ڈائجسٹ اشتہارات کے مواد کی کوئی بھی ذمہ داری خود پہ نہیں لیتے۔ بہت عرصہ تک سسپینس یا جاسوسی کے آخری صفحات پہ کوئی بابا جی براجمان رہے اپنےتعویذ گنڈوں سمیت۔ انہیں لکھے گئے خطوط بھی چھپتے تھے اور جوابات بھی۔ خطوط میں مسائل لکھنے سے پہلے اکثر پچھلے کامیاب کیسز کا ذکر بھی ہوتا تھا۔ خط بھیجنے والے نے اپنے بھیجے تحائف کے ذکر کے ساتھ بابا جی کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی ہوتی تھی۔اور اشتہار کا زمرہ "پبلک سروسز" کا ہے۔
روزنامہ جنگ کا سنڈے میگزین ہی دیکھ لیں تو آنکھیں کھل جائیں۔ ایسے ایسے اخلاق سوز اشتہارات پورے پورے صفحے پہ شائع ہوتے ہیں کہ بیان سے بھی باہر ہے۔عام طور پہ اخبارات اور ڈائجسٹ اشتہارات کے مواد کی کوئی بھی ذمہ داری خود پہ نہیں لیتے۔ بہت عرصہ تک سسپینس یا جاسوسی کے آخری صفحات پہ کوئی بابا جی براجمان رہے اپنےتعویذ گنڈوں سمیت۔ انہیں لکھے گئے خطوط بھی چھپتے تھے اور جوابات بھی۔ خطوط میں مسائل لکھنے سے پہلے اکثر پچھلے کامیاب کیسز کا ذکر بھی ہوتا تھا۔ خط بھیجنے والے نے اپنے بھیجے تحائف کے ذکر کے ساتھ بابا جی کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی ہوتی تھی۔
پھر کافی لوگوں نے فراڈ کی شکایات کیں تو ادارہ نے بتایا کہ یہ تو اشتہار تھا۔ یہ ہر ماہ شائع ہوتا تھا۔
کوئی ان سے پوچھے کہ اگر یہ اشتہار تھا تو اس کے اوپر لکھنا چاہیے تھا۔
کتنے ہی اشتہارات پڑھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کی یہ فراڈ ہیں یا اخلاق سوز ہیں تو اخبارات یا رسائل میں اخلاقیات پہ بڑے بڑے پیراگراف لکھنے والے خود تو پھر بے عمل ہوئے۔ وہ بھی پیسے لے کے ہر "لفظ" چھاپنے پہ تیار رہتے ہیں۔
جن بابا جی کے ہتھکنڈوں پہ کالم کے کالم اور تحقیقی آرٹیکلز سے اخبار و رسائل بھرے ہوتے ہیں ،ان کے بڑے بڑے اشتہار یہ خود چھاپتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو نور ہدایت عطا فرمائے۔آمین!
اب بھی آنکھیں نہ کھلیں تو کب کھلیں؟؟؟روزنامہ جنگ کا سنڈے میگزین ہی دیکھ لیں تو آنکھیں کھل جائیں۔ ایسے ایسے اخلاق سوز اشتہارات پورے پورے صفحے پہ شائع ہوتے ہیں کہ بیان سے بھی باہر ہے۔
یہ بورڈٖ پاکستان میں ہوتا تو کسی نے اس کے نیچے لکھ جانا تھا کہ "اتنے ہم ریاضی دان ہوتے تو ڈرائیور ہوتے!"
ان سے کوئی کہے بھائی تم بھی کھا کر ذرا انڈیا کو شکست دے دو بڑی مہربانی ہوگی!جس چکن سے اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو جاتا، اُس کی بریانی کھا کر شیر بن جاؤ!