کیفیت نامہ آپ کا تبصرہ ہمارا

نیرنگ خیال

لائبریرین
عبد الرحمن : اب کے سے جو ملے ہو تو جی بھر کے دیکھ لو۔۔۔!!! شاید کہ پھر ملیں تو یہ ذوقِ نظر نہ ہو۔۔۔!!!
یہ کیفیت نامہ اصل میں آنے والے وقت کے حالات بتا رہا ہے۔ عبدالرحمن بھائی جو نصابی قسم کے ناکام عشق کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ اس روز کی ملنے والی کو یہ جتا رہے ہیں کہ ہمارا کوئی پتا نہیں۔ ہم تو حالی کا مصرعہ ہیں کہ "ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں" ۔۔۔ سو اگر کل کلاں ہمارا ذوق بدلا پاؤ تو پھر شکوہ نہ کرنا۔بہت کم لوگ اپنے قصوں میں اتنی سچائی سے کام لیتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عبد الرحمن : اب کے سے جو ملے ہو تو جی بھر کے دیکھ لو۔۔۔!!! شاید کہ پھر ملیں تو یہ ذوقِ نظر نہ ہو۔۔۔!!!
یہ کیفیت نامہ اصل میں آنے والے وقت کے حالات بتا رہا ہے۔ عبدالرحمن بھائی جو نصابی قسم کے ناکام عشق کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ اس روز کی ملنے والی کو یہ جتا رہے ہیں کہ ہمارا کوئی پتا نہیں۔ ہم تو حالی کا مصرعہ ہیں کہ "ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں" ۔۔۔ سو اگر کل کلاں ہمارا ذوق بدلا پاؤ تو پھر شکوہ نہ کرنا۔بہت کم لوگ اپنے قصوں میں اتنی سچائی سے کام لیتے ہیں۔

:) :) :)

متفق :)

ویسے جہاں تک عبدالرحمٰن بھائی کی بات ہے تو ہماری خواہش ہے کہ ان کی کیفیات کے بجائے ان کی آئے روز بدلتی ڈی پی ز پر بھی کوئی سیر حاصل گفتگو کرے۔ :) :) :)
 

اکمل زیدی

محفلین
رائے افتخار يہ عشق کا روگ جاتا نہيں قسم سے افتخار گلے ميں ڈال کر سارے تعويذ ديکھے ہيں۔

۔

بھیا ...ایسے معاملے میں بنگالی بابا بڑے کام آتے ہیں آپ جنھیں دل کی اونچی مسند پر بٹھاتے ہیں یہ اسی کو آپ کے قدموں میں لا کر ڈال سکتے ہیں ...یا دوسرا مشورہ یہ ہے کے میر صاحب کے شعر میں تھوڑی ترمیم کے ساتھ

آپ ہوئے ہیں جس کے سبب سے بیمار . اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لے کر دیکھیں ..
............افاقہ ہوگا
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
:) :) :)

متفق :)

ویسے جہاں تک عبدالرحمٰن بھائی کی بات ہے تو ہماری خواہش ہے کہ ان کی کیفیات کے بجائے ان کی آئے روز بدلتی ڈی پی ز پر بھی کوئی سیر حاصل گفتگو کرے۔ :) :) :)
شکریہ اتفاق کے لیے۔۔۔ :p
کیا زبردست بات کر دی ہے۔۔۔۔ واقعی میں یہ نکتہ بہت غور طلب ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
مرشد:
اب اک تیر بھی ہو لیا ساتھ ورنہ ۔۔۔۔ پرندہ چلا تھا سفر پر اکیلے (غلام محمد قاصر)
تبصرہ و تشریح:
اس شعر میں شاعر نے پی پی جوائن کر لی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محمداحمد بھائی کی کیفیات بھی عجیب ہوتی ہیں۔۔۔۔ ان میں سوالات بہت ہوتے ہیں۔ جوابات بھی انہی سوالات میں ہی مضمر ہوتے ہیں۔ قصہ مختصریہ کہ کیفیت تو ہوتی ہے۔ مگر مکالماتی ہوتی ہے۔

ابھی دیکھیے۔۔۔ چند دن پہلے خود سے ہم کلام تھے۔۔۔ اپنے آپ کی ہی ڈانٹ ڈپٹ کر رہے تھے۔ یعنی بھابھی سے ڈانٹ کھانے کی پریکٹس تنہائی میں بھی جاری رہتی ہے۔

دل سے ملنے کی تمنا ہی نہیں جب دل میں
ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
ساتھ والے دفتر میں کوئی نئی حسینہ کیا وارد ہوئے۔ تمام احساساتِ محرومی روز روشن کی طرح سامنے آکھڑے ہوئے۔ ہم کیوں دیکھنے جائیں گے۔ ہم کون سا ملنا چاہتے ہیں۔ لہذا اپنے تئیں خود کو قبل از وقت سمجھا رہے ہیں کہ اس راہ کے پاس بھی نہیں پھٹکنا۔۔۔ ابھی تو بھابھی سے پرانی مار کے زخم تازہ ہیں۔


رنگ آنکھوں کے لئے، بو ہے دماغوں کے لئے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
لیکن کیا کریں کہ شاعرانہ حسن پرستی حاوی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بار بار کھڑکی کے پاس جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ موصوفہ ابھی گئی کہ نہیں گئی۔ شاید چلی گئی ہوگی۔ انہی سوچوں میں تھے کہ پھر سے پہلو میں درد اٹھا اور یاد آیا کہ یہ درد شاعرانہ نہیں شوہرانہ ہے۔ فورا سے پہلے نئے وقت کے تقاضوں کے مطابق "یوٹرن" لیا اور خود کو سمجھانے لگ پڑے، یعنی اپنی حسن پرستانہ حس کو قتل اور دفن کرنے کے لیے ہر طرح کی تاویلات گھڑنے لگے۔

بےسبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے
انہی تاویلات کو تراشنے کے درمیان یاد آیا کہ میں نے تو کچھ کیا بھی نہ تھا۔ بیگم نے بلاوجہ بیلنا اٹھا لیا۔ دل میں ارادہ پختہ کیا کہ اب تو سیدھے منہ بات نہ کروں گا اور گھر میں روٹھا رہوں گا۔ مگر پھر اگلے لمحے دھیان نے آگھیرا، کہ آج تو گھر سے بھی دوپہر کا کھانا نہیں ملا۔ سو سوچا کہ خود ہی جا کر سوری شوری کر لوں گا۔ بات ختم کرلوں گا۔ کیوں اپنی ڈانٹ کے ساتھ ساتھ مار کا دورانیہ بھی طویل نہیں کرنا چاہیے۔ کھانا کھانا ہے کہ نہیں۔ بس یہ سوچ آنی تھی کہ ذہن مطمئن اورشاداں ہوگیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی کی کیفیات بھی عجیب ہوتی ہیں۔۔۔۔ ان میں سوالات بہت ہوتے ہیں۔ جوابات بھی انہی سوالات میں ہی مضمر ہوتے ہیں۔ قصہ مختصریہ کہ کیفیت تو ہوتی ہے۔ مگر مکالماتی ہوتی ہے۔

ابھی دیکھیے۔۔۔ چند دن پہلے خود سے ہم کلام تھے۔۔۔ اپنے آپ کی ہی ڈانٹ ڈپٹ کر رہے تھے۔ یعنی بھابھی سے ڈانٹ کھانے کی پریکٹس تنہائی میں بھی جاری رہتی ہے۔

دل سے ملنے کی تمنا ہی نہیں جب دل میں
ہاتھ سے ہاتھ ملانے کی ضرورت کیا ہے
ساتھ والے دفتر میں کوئی نئی حسینہ کیا وارد ہوئے۔ تمام احساساتِ محرومی روز روشن کی طرح سامنے آکھڑے ہوئے۔ ہم کیوں دیکھنے جائیں گے۔ ہم کون سا ملنا چاہتے ہیں۔ لہذا اپنے تئیں خود کو قبل از وقت سمجھا رہے ہیں کہ اس راہ کے پاس بھی نہیں پھٹکنا۔۔۔ ابھی تو بھابھی سے پرانی مار کے زخم تازہ ہیں۔


رنگ آنکھوں کے لئے، بو ہے دماغوں کے لئے
پھول کو ہاتھ لگانے کی ضرورت کیا ہے
لیکن کیا کریں کہ شاعرانہ حسن پرستی حاوی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بار بار کھڑکی کے پاس جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ موصوفہ ابھی گئی کہ نہیں گئی۔ شاید چلی گئی ہوگی۔ انہی سوچوں میں تھے کہ پھر سے پہلو میں درد اٹھا اور یاد آیا کہ یہ درد شاعرانہ نہیں شوہرانہ ہے۔ فورا سے پہلے نئے وقت کے تقاضوں کے مطابق "یوٹرن" لیا اور خود کو سمجھانے لگ پڑے، یعنی اپنی حسن پرستانہ حس کو قتل اور دفن کرنے کے لیے ہر طرح کی تاویلات گھڑنے لگے۔

بےسبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ہم خفا کب تھے منانے کی ضرورت کیا ہے
انہی تاویلات کو تراشنے کے درمیان یاد آیا کہ میں نے تو کچھ کیا بھی نہ تھا۔ بیگم نے بلاوجہ بیلنا اٹھا لیا۔ دل میں ارادہ پختہ کیا کہ اب تو سیدھے منہ بات نہ کروں گا اور گھر میں روٹھا رہوں گا۔ مگر پھر اگلے لمحے دھیان نے آگھیرا، کہ آج تو گھر سے بھی دوپہر کا کھانا نہیں ملا۔ سو سوچا کہ خود ہی جا کر سوری شوری کر لوں گا۔ بات ختم کرلوں گا۔ کیوں اپنی ڈانٹ کے ساتھ ساتھ مار کا دورانیہ بھی طویل نہیں کرنا چاہیے۔ کھانا کھانا ہے کہ نہیں۔ بس یہ سوچ آنی تھی کہ ذہن مطمئن اورشاداں ہوگیا۔

شکر ہے حالات ابھی اتنے دگرگوں بھی نہیں ہیں۔ :)

نہ سہی عشق مرمت ہی سہی :ROFLMAO::LOL::p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جاسمن صاحبہ اپنے کیفیت نامہ پر فرماتی ہیں۔۔۔
وہ کبوتر جو تیری سمت گئے تھے جاناں
لوٹ تو آئے ہیں مگر آواز گنوا بیٹھے ہیں


پیغام رسانی کی تاریخ بہرحال ہجر سے زیادہ پرانی ہے کیوں کہ ہجر پیغام رسانی پر پابندی یا پھر جوابی غیرمناسب پیغام رسانی ہی بدولت وجود میں آیا۔ وگرنہ کس کو معلوم کہ قاصد" کیا" لایا ہے؟ اور اس کو" کیوں" روکنا چاہیے۔ تو یہاں یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ قاصد کی زباں بندی ہجر کی بنیاد اور شاعری کے فروغ کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ لہذا اول الذکر میں سہولیات دے کر موخر الذکر کے کرب اور دیرپا زہریلے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ روایت چلی آرہی ہے کہ قاصد کو مارا تو نہ جائے گا تاہم ایسا سلوک ضرور کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ آئندہ زندگی کسی بہتر پیشے کی تلاش میں صرف کر سکے۔ سو اسی سلوک کی شرح میں مذکورہ شعر کی آمد ہے۔ یوں تو بالا تمہیدی بیانیہ ہی کبوتروں کے ساتھ کیے گئے سلوک پر ایک مضموں ہے لیکن لمحہ بھر کو اگر سوچا۔ جائے تو یہاں محبوب کے حسن کی بجائے اس کی متشدد طبیعت کا بھرم کھلتا نظر آتا ہے۔
انسان جس نے ہمیشہ سے دو کاموں پر بہت توجہ دی ہے ، ایک کام کرنے کے لیے کوئی غیر انسانی وجود کا استعمال کتنا ممکن ہو سکتا ہے، دوم اس غیر انسانی چیز سے انسانی سلوک کس کس طرح ممکن ہے۔ سواسی روشنی میں کبوتر جو تاریخ بنی نوع انسان میں بطور قاصد انسان کی "آرٹیفشل انٹیلجنس" کے ضمن میں ایجاد کی پہلی زندہ مثال ہے۔ اس کا حشر ملاحظہ کیجیے۔ سنا ہے کہ کوچہ جاناں سے واپسی پر کچھ کبوتر بلند پروازی میں اس قدر اوج پر پہنچے کہ جہاں سے گزر گئے اور کچھ خوں خواری میں ایسے مجنوں ہوئے کہ خود جا کر بلی کے سامنے آنکھوں پر پٹی باندھ بیٹھ رہے۔شنید ہے کہ اس واقعہ کے بعد شاعر کے نئے مجموعہ کے جواب میں محبوب "جاناں کی پرندوں پر تحقیق" کے نام سے اپنی کتاب جلد شائع کروا رہا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تو یہاں یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ قاصد کی زباں بندی ہجر کی بنیاد اور شاعری کے فروغ کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ لہذا اول الذکر میں سہولیات دے کر موخر الذکر کے کرب اور دیرپا زہریلے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔

یہ پڑھ کر ہمارے ذہن میں فیس بک کے ایک شاعر کا نام گھوم کر رہ گیا۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن صاحبہ اپنے کیفیت نامہ پر فرماتی ہیں۔۔۔
وہ کبوتر جو تیری سمت گئے تھے جاناں

لوٹ تو آئے ہیں مگر آواز گنوا بیٹھے ہیں


پیغام رسانی کی تاریخ بہرحال ہجر سے زیادہ پرانی ہے کیوں کہ ہجر پیغام رسانی پر پابندی یا پھر جوابی غیرمناسب پیغام رسانی ہی بدولت وجود میں آیا۔ وگرنہ کس کو معلوم کہ قاصد" کیا" لایا ہے؟ اور اس کو" کیوں" روکنا چاہیے۔ تو یہاں یہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ قاصد کی زباں بندی ہجر کی بنیاد اور شاعری کے فروغ کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ لہذا اول الذکر میں سہولیات دے کر موخر الذکر کے کرب اور دیرپا زہریلے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ اب چونکہ روایت چلی آرہی ہے کہ قاصد کو مارا تو نہ جائے گا تاہم ایسا سلوک ضرور کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ آئندہ زندگی کسی بہتر پیشے کی تلاش میں صرف کر سکے۔ سو اسی سلوک کی شرح میں مذکورہ شعر کی آمد ہے۔ یوں تو بالا تمہیدی بیانیہ ہی کبوتروں کے ساتھ کیے گئے سلوک پر ایک مضموں ہے لیکن لمحہ بھر کو اگر سوچا۔ جائے تو یہاں محبوب کے حسن کی بجائے اس کی متشدد طبیعت کا بھرم کھلتا نظر آتا ہے۔
انسان جس نے ہمیشہ سے دو کاموں پر بہت توجہ دی ہے ، ایک کام کرنے کے لیے کوئی غیر انسانی وجود کا استعمال کتنا ممکن ہو سکتا ہے، دوم اس غیر انسانی چیز سے انسانی سلوک کس کس طرح ممکن ہے۔ سواسی روشنی میں کبوتر جو تاریخ بنی نوع انسان میں بطور قاصد انسان کی "آرٹیفشل انٹیلجنس" کے ضمن میں ایجاد کی پہلی زندہ مثال ہے۔ اس کا حشر ملاحظہ کیجیے۔ سنا ہے کہ کوچہ جاناں سے واپسی پر کچھ کبوتر بلند پروازی میں اس قدر اوج پر پہنچے کہ جہاں سے گزر گئے اور کچھ خوں خواری میں ایسے مجنوں ہوئے کہ خود جا کر بلی کے سامنے آنکھوں پر پٹی باندھ بیٹھ رہے۔شنید ہے کہ اس واقعہ کے بعد شاعر کے نئے مجموعہ کے جواب میں محبوب "جاناں کی پرندوں پر تحقیق" کے نام سے اپنی کتاب جلد شائع کروا رہا ہے۔
قاصد واقعی آواز گنوا بیٹھا جو مجھے پیغام نہ مل سکا۔۔۔۔
توبہ توبہ !!!۔۔
ہنسی نہیں رک رہی۔ نجانے کہاں کہاں سے خیالات ٹانک ٹانک کے کوئی نادر سا مضمون بنا دیتے ہیں۔
نیرنگ خیال! نام چُن کے رکھا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قاصد واقعی آواز گنوا بیٹھا جو مجھے پیغام نہ مل سکا۔۔۔۔
توبہ توبہ !!!۔۔
ہنسی نہیں رک رہی۔ نجانے کہاں کہاں سے خیالات ٹانک ٹانک کے کوئی نادر سا مضمون بنا دیتے ہیں۔
نیرنگ خیال! نام چُن کے رکھا ہے۔
آپ کا حسن ظن ہے جاسمن صاحبہ! میری تو بس یہی دعا ہے کہ اللہ آپ کی تمام دعائیں میرے حق میں قبول فرمائے۔ آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جاسمن صاحبہ اپنے کیفیت نامہ میں فرماتی ہیں۔

کہاں ہے آئینے کی راست گوئی
یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے

تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے بھی جب بھی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا ہے۔ آئینے کو جھوٹا اور پتا نہیں کیا کیا کہا ہے۔ کہ بھئی اماں تو ہماری ہمیں چاند کہے ہے، اور یہ آئینہ کیا بکواس کرے ہے۔ لو بھئی! اب آئینے بھی بکواس کرنے لگے۔ نہ ہوا فاروق! ورنہ کہتا! آئینے کی بکواس! یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔ خیر آئینے کی بکواس اور اماں کے چاند کہنے سے وہ ریاض مجید صاحب کا واقعہ بھی یاد آگیا کہ بیٹا اگر تمہاری ماں تمہیں چاند کہے تو مقابلہ حسن میں نہیں چلے جانا چاہیے۔

ہاں تو میں بات کر رہا تھا اس کیفیت نامے کی۔ جس میں شاعر نے راست گوئی کو کوئی مجسم چیز سمجھ لیا ہے اور اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ راست گوئی صرف عدالتوں میں مجسم ہوتی ہے جس پر ہاتھ رکھ کر آپ سچ کہنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن موصوف کا خیال ہے کہ شاید آئینے کے ساتھ پہلی دراز میں کہیں راست گوئی بھی دھری ہے۔ ایسی صورتحال کب ہوتی ہے کہ آپ اپنا آپ نہ پہچانیں۔

اول جب آپ حجام کی دکان پر شیو بنوا کر اپنا آپ دیکھیں۔ تمام بنی نوع انسان گواہ ہے کہ حجام کے آئینے جھوٹے ہوتے ہیں۔ ان میں چہرہ جتنا تروتازہ اور خوبصورت نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ خدا لگتی کہوں تو حجام کا آئینہ اصل میں فیس بک پروفائل پکچر کی عملی تصویر ہے۔ اور شاعر غالبا وہیں سے آکر جب گھر کے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اور یہ دکھ شعر بن کر زبان پر آگیا۔

دوم جب آپ بال بڑھا رہے ہوں یا بڑھا چکے ہوں اور اس کے بعد بیوی یا اماں (جس کو جو میسر ہے) کی ڈانٹ کھا کر بستر سے اٹھیں اور آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ادھ کھلی آنکھوں سے آپ کو اپنا آپ نظر آئے۔ اور آپ بےاختیار پکار اٹھیں! یہ کون جن ہے؟ ایسی ہی صورتحال میں بھی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ آئینہ ہی جھوٹا ہے۔

لیکن سب سے ابتر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ جب یار دوست کہہ دیں کہ آج تم بہت اچھے لگ رہے ہو! واہ کیا بات ہے! تجربات انسانی (خصوصا صنف کرخت) سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ہرگزا چھے نہیں لگ رہے ہوتے ۔ یہ غلط فہمی آپ اسی وقت آئینہ دیکھ کر دور کر سکتے ہیں اور احتیاط آئینے کی راست گوئی پر بھی الزام دھر سکتے ہیں۔ اور اپنے دل کو مزید توڑنے کا بندوبست انہی دوستوں سے اچھا لگنے کی تفصیل پوچھ کر بھی کر سکتے ہیں۔

اب جاسمن صاحبہ بھی آئینے کی راست گوئی پر نوحہ کناں ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کی کیا رمز ہے؟ ہم کچھ کہیں گے تو گستاخی نہ شمار ہوجائے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
جاسمن صاحبہ اپنے کیفیت نامہ میں فرماتی ہیں۔

کہاں ہے آئینے کی راست گوئی
یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے

تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے بھی جب بھی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا ہے۔ آئینے کو جھوٹا اور پتا نہیں کیا کیا کہا ہے۔ کہ بھئی اماں تو ہماری ہمیں چاند کہے ہے، اور یہ آئینہ کیا بکواس کرے ہے۔ لو بھئی! اب آئینے بھی بکواس کرنے لگے۔ نہ ہوا فاروق! ورنہ کہتا! آئینے کی بکواس! یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔ خیر آئینے کی بکواس اور اماں کے چاند کہنے سے وہ ریاض مجید صاحب کا واقعہ بھی یاد آگیا کہ بیٹا اگر تمہاری ماں تمہیں چاند کہے تو مقابلہ حسن میں نہیں چلے جانا چاہیے۔

ہاں تو میں بات کر رہا تھا اس کیفیت نامے کی۔ جس میں شاعر نے راست گوئی کو کوئی مجسم چیز سمجھ لیا ہے اور اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ راست گوئی صرف عدالتوں میں مجسم ہوتی ہے جس پر ہاتھ رکھ کر آپ سچ کہنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن موصوف کا خیال ہے کہ شاید آئینے کے ساتھ پہلی دراز میں کہیں راست گوئی بھی دھری ہے۔ ایسی صورتحال کب ہوتی ہے کہ آپ اپنا آپ نہ پہچانیں۔

اول جب آپ حجام کی دکان پر شیو بنوا کر اپنا آپ دیکھیں۔ تمام بنی نوع انسان گواہ ہے کہ حجام کے آئینے جھوٹے ہوتے ہیں۔ ان میں چہرہ جتنا تروتازہ اور خوبصورت نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ خدا لگتی کہوں تو حجام کا آئینہ اصل میں فیس بک پروفائل پکچر کی عملی تصویر ہے۔ اور شاعر غالبا وہیں سے آکر جب گھر کے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اور یہ دکھ شعر بن کر زبان پر آگیا۔

دوم جب آپ بال بڑھا رہے ہوں یا بڑھا چکے ہوں اور اس کے بعد بیوی یا اماں (جس کو جو میسر ہے) کی ڈانٹ کھا کر بستر سے اٹھیں اور آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ادھ کھلی آنکھوں سے آپ کو اپنا آپ نظر آئے۔ اور آپ بےاختیار پکار اٹھیں! یہ کون جن ہے؟ ایسی ہی صورتحال میں بھی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ آئینہ ہی جھوٹا ہے۔

لیکن سب سے ابتر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ جب یار دوست کہہ دیں کہ آج تم بہت اچھے لگ رہے ہو! واہ کیا بات ہے! تجربات انسانی (خصوصا صنف کرخت) سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ہرگزا چھے نہیں لگ رہے ہوتے ۔ یہ غلط فہمی آپ اسی وقت آئینہ دیکھ کر دور کر سکتے ہیں اور احتیاط آئینے کی راست گوئی پر بھی الزام دھر سکتے ہیں۔ اور اپنے دل کو مزید توڑنے کا بندوبست انہی دوستوں سے اچھا لگنے کی تفصیل پوچھ کر بھی کر سکتے ہیں۔

اب جاسمن صاحبہ بھی آئینے کی راست گوئی پر نوحہ کناں ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کی کیا رمز ہے؟ ہم کچھ کہیں گے تو گستاخی نہ شمار ہوجائے۔

واہ واہ واہ!

صبح صبح اتنی مزیدار تحریر پڑھ کر طبیعت باغ و بہار ہو گئی۔:):):)
 

محمداحمد

لائبریرین
جاسمن صاحبہ اپنے کیفیت نامہ میں فرماتی ہیں۔

کہاں ہے آئینے کی راست گوئی
یہ چہرہ تو ہمارا ہی نہیں ہے

تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے بھی جب بھی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا ہے۔ آئینے کو جھوٹا اور پتا نہیں کیا کیا کہا ہے۔ کہ بھئی اماں تو ہماری ہمیں چاند کہے ہے، اور یہ آئینہ کیا بکواس کرے ہے۔ لو بھئی! اب آئینے بھی بکواس کرنے لگے۔ نہ ہوا فاروق! ورنہ کہتا! آئینے کی بکواس! یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔ خیر آئینے کی بکواس اور اماں کے چاند کہنے سے وہ ریاض مجید صاحب کا واقعہ بھی یاد آگیا کہ بیٹا اگر تمہاری ماں تمہیں چاند کہے تو مقابلہ حسن میں نہیں چلے جانا چاہیے۔

ہاں تو میں بات کر رہا تھا اس کیفیت نامے کی۔ جس میں شاعر نے راست گوئی کو کوئی مجسم چیز سمجھ لیا ہے اور اب اسے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ جبکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ راست گوئی صرف عدالتوں میں مجسم ہوتی ہے جس پر ہاتھ رکھ کر آپ سچ کہنے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ لیکن موصوف کا خیال ہے کہ شاید آئینے کے ساتھ پہلی دراز میں کہیں راست گوئی بھی دھری ہے۔ ایسی صورتحال کب ہوتی ہے کہ آپ اپنا آپ نہ پہچانیں۔

اول جب آپ حجام کی دکان پر شیو بنوا کر اپنا آپ دیکھیں۔ تمام بنی نوع انسان گواہ ہے کہ حجام کے آئینے جھوٹے ہوتے ہیں۔ ان میں چہرہ جتنا تروتازہ اور خوبصورت نظر آتا ہے، حقیقت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ خدا لگتی کہوں تو حجام کا آئینہ اصل میں فیس بک پروفائل پکچر کی عملی تصویر ہے۔ اور شاعر غالبا وہیں سے آکر جب گھر کے آئینے میں اپنی شکل دیکھی تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اور یہ دکھ شعر بن کر زبان پر آگیا۔

دوم جب آپ بال بڑھا رہے ہوں یا بڑھا چکے ہوں اور اس کے بعد بیوی یا اماں (جس کو جو میسر ہے) کی ڈانٹ کھا کر بستر سے اٹھیں اور آئینے کے سامنے سے گزرتے ہوئے ادھ کھلی آنکھوں سے آپ کو اپنا آپ نظر آئے۔ اور آپ بےاختیار پکار اٹھیں! یہ کون جن ہے؟ ایسی ہی صورتحال میں بھی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ آئینہ ہی جھوٹا ہے۔

لیکن سب سے ابتر صورتحال یہ ہوتی ہے کہ جب یار دوست کہہ دیں کہ آج تم بہت اچھے لگ رہے ہو! واہ کیا بات ہے! تجربات انسانی (خصوصا صنف کرخت) سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ہرگزا چھے نہیں لگ رہے ہوتے ۔ یہ غلط فہمی آپ اسی وقت آئینہ دیکھ کر دور کر سکتے ہیں اور احتیاط آئینے کی راست گوئی پر بھی الزام دھر سکتے ہیں۔ اور اپنے دل کو مزید توڑنے کا بندوبست انہی دوستوں سے اچھا لگنے کی تفصیل پوچھ کر بھی کر سکتے ہیں۔

اب جاسمن صاحبہ بھی آئینے کی راست گوئی پر نوحہ کناں ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کی کیا رمز ہے؟ ہم کچھ کہیں گے تو گستاخی نہ شمار ہوجائے۔

ویسے اس آئنے نے ہمیں بھی بہت دُکھ دیے ہیں۔اتنے کہ ایک بار تو ہم نے اسے نشانے پر (یعنی ردیف میں) رکھ لیا تھا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ واہ واہ!

صبح صبح اتنی مزیدار تحریر پڑھ کر طبیعت باغ و بہار ہو گئی۔:):):)
شکریہ احمد بھائی۔۔۔ :angel3:
ہونی تو طبیعت آئینہ و آَئینی چاہیے تھی۔۔۔ :devil3:

ویسے اس آئنے نے ہمیں بھی بہت دُکھ دیے ہیں۔اتنے کہ ایک بار تو ہم نے اسے نشانے پر (یعنی ردیف میں) رکھ لیا تھا۔ :)
کہاں ہے وہ ردیف۔۔۔۔:eyerolling:
 
Top