نیرنگ خیال
لائبریرین
کل محفلین پریشان ہوگئےکہ محمداحمد بھائی کو کیا ہوگیا ہے۔ کہاں مہینوں کیفیت نامہ نہیں ہوتا۔ کہاں ایک ہی دن میں چھے چھے کیفیت نامے۔ سبب کیا ہے۔ اس پر مجبورا بات کی تہہ تک پہنچنے کو ہمیں حرکت میں آنا پڑا۔ اس پر جو راز منکشف ہوئے تو ایک بار تو ہم بھی پریشان ہوگئے۔ پھر سوچا چلو آدھی باتیں بتا دیتے ہیں۔ آدھی احباب خود گھڑ لیں گے۔۔۔۔
تو قصہ مختصر بات کچھ یوں ہے کہ احمد بھائی رسم رہ دنیا کے مطابق تعلق نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ چلو سلام دعا سے تو آدمی نہ جائے۔ لیکن کچھ پرانے یار مل گئے۔ انہوں نے طعنہ زنی میں اغیار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ احمد بھائی لاکھ کہتے رہے کہ بات زن کی ضرور سہی لیکن کیا ضروری ہے کہ طعنہ بھی ساتھ چلا آئے۔ لیکن ہمدردوں نے نہ سننی تھی سو نہ سنی۔ اس پر جناب غصے میں آگئے۔ اور سیدھے جا کر شکوہ کیا کہ
" تم سے ہمارا واسطہ اتنا ہی رہ گیا ہے کیا ۔۔۔ ہم نے سلام کر لیا، تم نے جواب دے دیا "
اب جو موصوفہ نے گھورا کہ یہ کیا حرکت ہے۔ کیا تم گئے تو گیا ضبط کا سلیقہ بھی کی مثال بنے ہو۔ تو سخت پشیماں ہوئے۔ کہ یہ کیا حرکت کر بیٹھا ہوں۔ فورا جون کا کاندھا ڈھونڈا۔ جو کسی ایسے موقعے کے لیے پاس ہی دھرا تھا۔ اور کہا کہ تم ہماری آمد سے انجان تھی۔۔۔ سو چلا آیا۔۔۔۔
"شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام ۔۔۔ اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا"
تو اس پر وہ کافرہ جو خود بھی اسیر جون تھی۔۔۔ ہنس دی اور فرمانے لگی کہ
" کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ ۔۔۔ اب تو بس آوارگی کی جائے گی"
اور اسی پر قناعت نہ کیا۔ بلکہ احمد بھائی کے شاعر ہونے کا مذاق اڑانے کو بھی جون کا کندھا ہی استعمال کیا۔ جو کہ اب احمد کی طرف سے اس طرف منتقل ہوچکا تھا۔۔۔
"تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے ۔۔۔ تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو"
احمد بھائی ان جوابات سے سخت بدمزہ ہوئے۔ اور واپس چلے آئے۔ بعد میں اس نے خطوط لکھے کہ وہ سب تو ازراہ تفنن و تففن تھا۔ لیکن آپ تو تیقن ہی توڑ چلے۔۔۔۔ لیکن احمد بھائی جن کا دل ان دنیاوی تعلقات سے اوب چلا تھا۔۔۔ جون ہی کی زبان میں جواب دے چلے کہ
"جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں ۔۔۔ جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی"
اور پھر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہ اب تو رسم رہ دنیا بھی اٹھی جاتی ہے۔۔ اب کوئی یار دوست نہیں رہا ہے۔ اب تو سب سے خطرہ ہے۔ اغیار ہیں تو طعنہ زن۔۔۔ احباب تو طعنہ زن۔۔۔ اور ایک جس پر تکیہ تھا۔۔۔ وہ بھی نکلا جون زن۔۔۔ اب کرے تو آدمی کیا کرے۔۔۔ اسی مایوسی کے سبب پھر خود سے گویا ہوئے کہ
" اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔۔۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے"
اس کافر ادا نے منانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن انا آڑے آگئی۔ احمد کا نہ ماننا تھا نہ مانے۔۔۔ اور اس کو کہا کہ کیا سمجھتی ہو۔ صرف تم نے جون کو پڑھ رکھا ہے۔ ہم کیا پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔۔۔ یہ پکڑو شعر اور نکلو یہاں سے
"اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی ۔۔۔ ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں"
اس کے بعد سے خاموشی سی ہے۔ اب جیسے ہی احمد بھائی کی دنیا بیزار طبیعت کچھ کہے گی تو ہم دوبارہ حاضر ہوں گے۔
والسلام
تو قصہ مختصر بات کچھ یوں ہے کہ احمد بھائی رسم رہ دنیا کے مطابق تعلق نبھاتے چلے جا رہے تھے کہ چلو سلام دعا سے تو آدمی نہ جائے۔ لیکن کچھ پرانے یار مل گئے۔ انہوں نے طعنہ زنی میں اغیار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ احمد بھائی لاکھ کہتے رہے کہ بات زن کی ضرور سہی لیکن کیا ضروری ہے کہ طعنہ بھی ساتھ چلا آئے۔ لیکن ہمدردوں نے نہ سننی تھی سو نہ سنی۔ اس پر جناب غصے میں آگئے۔ اور سیدھے جا کر شکوہ کیا کہ
" تم سے ہمارا واسطہ اتنا ہی رہ گیا ہے کیا ۔۔۔ ہم نے سلام کر لیا، تم نے جواب دے دیا "
اب جو موصوفہ نے گھورا کہ یہ کیا حرکت ہے۔ کیا تم گئے تو گیا ضبط کا سلیقہ بھی کی مثال بنے ہو۔ تو سخت پشیماں ہوئے۔ کہ یہ کیا حرکت کر بیٹھا ہوں۔ فورا جون کا کاندھا ڈھونڈا۔ جو کسی ایسے موقعے کے لیے پاس ہی دھرا تھا۔ اور کہا کہ تم ہماری آمد سے انجان تھی۔۔۔ سو چلا آیا۔۔۔۔
"شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام ۔۔۔ اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا"
تو اس پر وہ کافرہ جو خود بھی اسیر جون تھی۔۔۔ ہنس دی اور فرمانے لگی کہ
" کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ ۔۔۔ اب تو بس آوارگی کی جائے گی"
اور اسی پر قناعت نہ کیا۔ بلکہ احمد بھائی کے شاعر ہونے کا مذاق اڑانے کو بھی جون کا کندھا ہی استعمال کیا۔ جو کہ اب احمد کی طرف سے اس طرف منتقل ہوچکا تھا۔۔۔
"تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے ۔۔۔ تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو"
احمد بھائی ان جوابات سے سخت بدمزہ ہوئے۔ اور واپس چلے آئے۔ بعد میں اس نے خطوط لکھے کہ وہ سب تو ازراہ تفنن و تففن تھا۔ لیکن آپ تو تیقن ہی توڑ چلے۔۔۔۔ لیکن احمد بھائی جن کا دل ان دنیاوی تعلقات سے اوب چلا تھا۔۔۔ جون ہی کی زبان میں جواب دے چلے کہ
"جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں ۔۔۔ جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی"
اور پھر مزید اضافہ کرتے ہوئے کہ اب تو رسم رہ دنیا بھی اٹھی جاتی ہے۔۔ اب کوئی یار دوست نہیں رہا ہے۔ اب تو سب سے خطرہ ہے۔ اغیار ہیں تو طعنہ زن۔۔۔ احباب تو طعنہ زن۔۔۔ اور ایک جس پر تکیہ تھا۔۔۔ وہ بھی نکلا جون زن۔۔۔ اب کرے تو آدمی کیا کرے۔۔۔ اسی مایوسی کے سبب پھر خود سے گویا ہوئے کہ
" اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔۔۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے"
اس کافر ادا نے منانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن انا آڑے آگئی۔ احمد کا نہ ماننا تھا نہ مانے۔۔۔ اور اس کو کہا کہ کیا سمجھتی ہو۔ صرف تم نے جون کو پڑھ رکھا ہے۔ ہم کیا پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔۔۔ یہ پکڑو شعر اور نکلو یہاں سے
"اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی ۔۔۔ ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں"
اس کے بعد سے خاموشی سی ہے۔ اب جیسے ہی احمد بھائی کی دنیا بیزار طبیعت کچھ کہے گی تو ہم دوبارہ حاضر ہوں گے۔
والسلام