پروف ریڈ اول گذشتہ لکھنؤ

شعیب گناترا

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۲۰۱ کتابی صفحہ ۱۹۹

برابر ٹکّروں پر ٹکّریں ہوتی رہتی ہیں جن کی آواز بڑی دور تک جاتی ہے۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے مُنہ ملا کے اور دانتوں کو اڑا کے ایک دوسرے کو ریلنا اور ڈھکیلنا شروع کرتے ہیں، جس میں اُن کے جسم کے پیچ و تاب کھانے سے انداز ہوتا ہے کہ کیسا زور لگا رہے ہیں۔ فیل بان، آنکس مار مار کے زور لگانے پر انہیں اور زیادہ ابھارتے رہتے ہیں۔ آخر دونوں میں سے ایک ہاتھی کم زور پڑتا اور ریلے کی تاب نہ لا کے زمین پر گرتا ہے۔ غالب ہاتھی اُس وقت اکثر دانت سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالتا اور کام تمام کر دیتا ہے۔ لیکن اکثر ہاتھیوں کا معمول ہے کہ کم زور پڑتے ہی دانت چھڑا کے بھاگتے ہیں اور غالب آنے والا تعاقب کرتا ہے۔ پاگیا تو ٹکّریں مار کر گراتا اور اکثر دانتوں سے پیٹ پھاڑ کے مار ڈالتا ہے۔ اور اگر وہ نکل گیا تو جان بچ جاتی ہے۔

لکھنؤ میں ہاتھیوں سے اکثر گینڈے بھی لڑائے جاتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ دونوں جانور باہم لڑتے ہی نہ تھے اور اگر کبھی لڑ گئے تو بےشک سخت لڑائی ہوتی۔ اگر کبھی ہاتھی نے گینڈے کو ڈھکیل کے اُلٹ دیا تو اس کے دانت پیٹ میں پیوست ہو کے اس کا کام تمام کر دیتے۔ اور اگر گینڈے نے موقع پا کے اپنا بالائی سینگ ہاتھی کے پیٹ میں اتار دیا تو کھال دور تک پھٹ جاتی۔ مگر ہاتھی سونڈ کی مدد سے گینڈے کے سینگ کو اپنے جسم میں زیادہ دور تک نہ گھسنے دیتا اور کاری زخم سے بچ جاتا۔

۵: اونٹ
یوں تو دنیامیں ہر ذی روح لڑسکتا ہے لیکن اونٹ سے زیادہ غیر موزوں لڑائی کے لیے کوئی جانور نہیں ہو سکتا۔ مگر لکھنؤ میں اونٹ بھی مست اور پُر جوش


ریختہ صفحہ ۲۰۲ کتابی صفحہ ۲۰۰

بنا کے لڑائے جاتے۔ اونٹ کی پکڑ مشہور ہے، اور اس کا بے طریقے گرنا اُس کے حق میں نہایت ہی خطرناک ہے۔ اونٹوں کا جوش، کف نکالنے اور جھاگ اُڑانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کف اڑاتے ہوئے دوڑتے ہیں اور گالیاں دینے اور ایک دوسرے کے منہ پر تھوکنے یعنی بلبلانے اور جھاگ اڑانے سے لڑائی شروع ہوتی ہے۔ جسے موقع مل گیا، حریف کا لٹکتا ہوا ہونٹھ دانتوں سے پکڑ لیتا ہے اور کھینچنا شروع کرتا ہے۔ جس اونٹ کا ہونٹھ حریف کے دانتوں میں آگیا، وہ اکثر گر پڑتا ہے اور ہارتا ہے، اور اِسی پر لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔

۶: گینڈا
گینڈے سے زیادہ مضبوط جانور کوئی نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ وہ قد و قامت میں شیر اور ہاتھی سے چھوٹا ہے مگر ایسا روئیں تن پیدا کیا گیا ہے کہ نہ اس پر ہاتھی کے دانت کار گر ہوتے ہیں، نہ شیر کے پنجے اور ناخن- صرف پیٹ کی کھال نرم ہوتی ہے۔ اگر کوئی جانور اس پر حربہ کر سکا تو مار لیتا ہے، ورنہ ہر جانور اپنا زور صرف کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور آخر میں گینڈا اپنا بانسے پر کا زبردست سینگ اُس کے پیٹ میں بھونک بھونک کر مار ڈالتا ہے۔

لکھنؤ میں گینڈے، ہاتھیوں سے، شیروں سے، تیندوؤں سے اور خود گینڈوں سے لڑائے جاتے تھے۔ غازی الدین حیدر بادشاہ کے زمانے میں لڑانے کے علاوہ بعضے گینڈے اس خوبی سے سدھائے گئے تھے کہ گاڑی میں جوتے جاتے اور ہاتھی کی طرح اُن کی پیٹھ پر ہودا کس کے سواری لی جاتی۔ گینڈا بالطبع لڑنے والا جانور نہیں ہے بلک جہاں تک ممکن ہوتا ہے لڑائی کو طرح دیتا ہے۔ لیکن ہاں اگر اسے چھیڑا جائے تو مقابلے کے لیے تیار ہو کے نہایت ہی موذی بن جاتا ہے۔ نصیرالدین حیدر کے زمانے میں لڑائی


ریختہ صفحہ ۲۰۳ کتابی صفحہ ۲۰۱

کے پندرہ بیس گینڈے موجود تھے جو چاند گنج میں رہا کرتے۔ جب سوار انہیں رگید کے ایک دوسرے کے مقابل کر دیتے تو وہ سر جھکا کے ایک دوسرے کی طرف دوڑتے اور ٹکّریں ہونے لگتیں۔ دونوں کی یہ کوشش ہوتی کہ حریف کے پیٹ کو اپنے سینگ سے پھاڑ ڈالیں۔ اور اسی کوشش میں وہ دیر تک ایک دوسرے کو ریلتے پیلتے اور ڈھکیلتے رہتے۔ بڑے زور زور سے غرّاتے، سینگ کو سینگ سے ٹکراتے اور آخر میں لڑتے لڑتے سر جوڑ کے گتھ جاتے اور حریف کو ڈھکیلتے رہتے۔ یہاں تک کہ جو حریف کمزور پڑتا ہے، وہ آہستہ آہستہ ہٹنے اور جگہ چھوڑنے لگتا ہے۔ اور اس پر بھی جان نہیں چھوٹتی تو بھاگتا ہے۔ مگر غالب رگید رگید کے مارتا ہے۔ کمزور اپنا سینگ الگ کر کے مقابلے سے منہ موڑتا اور بڑے زور سے بھاگتا ہے۔ اگر محصور میدان ہوا تو غالب حریف بھاگتے میں اس پر حملہ کر کر کے اُسے گراتا اور پیٹ میں سینگ بھونک کے کام تمام کر دیتا ہے اور اگر وسیع کھلا میدان ہو اور شکست خوردہ گینڈا بھاگ سکا تو بھاگ کے اپنی جان بچا لیتا ہے۔ اُس وقت سوار رگید رگید کے اور گرم سلاخوں سے مار مار کے غالب کو مغلوب کے تعاقب سے روکتے اور ہٹا لے جاتے ہیں۔ گینڈوں کی لڑائی کا سارا دارومدار اس پر ہے کہ وہ سر جھکائے اور اپنے پیٹ کو بچائے رہیں۔ اگر دھوکے میں بھی کسی کا سر اٹھ گیا تو مقابل حریف اپنا کام کر گزرتا ہے۔ چنانچہ ایک گینڈا غالب آگیا اور اُس کا حریف بھاگنے لگا۔ اُسے بھاگتے دیکھ کے غالب نے سر اونچا کردیا اور ساتھ ہی اُسی شکست خورده گینڈے نے بجلی کی طرح دوڑ کے اس کے پیٹ میں سر ڈال دیا اور پیٹ پھاڑ ڈالا۔

۷: بارہ سنگھا
یہ چھوٹا نازک اور خوب صورت جانور ہے اور شاید لکھنؤ کے سوا اور کسی جگہ

ریختہ صفحہ ۲۰۴ کتابی صفحہ ۲۰۲

يہ تفنّنِ طبع کے طور پر نہ لڑایا گیا ہوگا۔ مگر اس کی لڑائی بڑی خوب صورت ہوتی ہے۔ ہرن، شعرا کے معشوق کا ہم شکل ہے، اِس لیے اس کی لڑائی میں بھی معشوقانہ ادائیں ظاہر ہوتی ہیں۔ مقابلے کے وقت پہلے بڑی خوب صورتی کے ساتھ دونوں حریف پینترے بدلتے رہتے ہیں اور آخر ٹکّریں ہونے لگتی ہیں جن میں سینگوں سے وہ تلوار کا بھی کام لیتے ہیں اور سپر کا بھی۔ آخر دیر تک کی ٹکّروں کے بعد دونوں کے سینگ آپس میں اس طرح اُلجھ جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قفلی پڑ گئی۔ اب ایک دوسرے کو ریلتے اور ڈھکیلتے رہتے ہیں۔ ایک ریلا پیلی میں ایک کم زور پڑجاتا ہے اور اُس پر مغلوبی کی ایسی ہیبت طاری ہو جاتی ہے کہ نازک پانو تھرتھرانے لگتے ہیں اور سارے تن بدن میں رعشہ پڑجاتا ہے۔ مگر حریف ترس کھانے کے عوض زور میں آ کر اور ڈھکیلتا ہوا میدان کے خاتمے یعنی ٹھاٹھر تک پہنچا دیتا ہے، اب مغلوب کو بالکل نا امیدی ہوتی ہے، آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اور سینگوں سے خون کے قطرے ٹپکنے لگتے ہیں اور وہ سینگ چھڑا کے لڑائی سے منہ پھیر لیتا ہے۔ اُس وقت حریف سینگوں سے اس کے جسم کو زخمی کرنا شروع کرتا ہے اور مغلوب بارہ سنگھا زور سے بھاگتا ہے، جس پُھرتی سے وہ بھاگتا ہے اسی تیزی سے غالب حریف اس کا تعاقب کرتا ہے۔ یہ دوڑ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ دونوں ہوا سے باتیں کرنے لگتے ہیں اور ان پر نگاہ نہیں ٹھہرتی ہے مگر بے رحم دشمن مغلوب کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جہاں پاتا ہے، زخمی کرتا ہے۔ آخر زخموں سے چور کرتے کرتے مار ڈالتا ہے اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو اپنے سینگوں سے جھنجھوڑ کے ہٹتا اور اپنی فتح پر نازاں ہوتا ہے۔*

--------------------------------
*مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شروانی نے بتایا اور ہمیں بھی بعد کو تاریخوں میں نظر آیا کہ درندے اور ہاتھی دہلی میں بھی لڑائے جاتے تھے۔

ریختہ صفحہ ۲۰۵ کتابی صفحہ ۲۰۳

۸: مینڈھا
یہ نہایت ہی غریب اور بے آزار جانور ہے مگر اس کی ٹکّر بڑی زبردست ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دو پہاڑ لڑ گئے۔ چنانچہ انہیں ٹکّروں کا تماشا دیکھنے کے لیے لوگ انہیں لڑاتے ہیں اور آج ہی نہیں قدیم الایّام سے ان کی لڑائی دیکھی جاتی رہی۔ ان کے لڑانے کا آغاز ہندوستان میں بلوچی لوگوں سے ہوا اور انہیں سے دوسرے مقاموں میں شوق پیدا ہوا۔ مگر لڑائی کے لیے ان کے پالنے اور تیار کرنے کا کام اکثر قصائیوں اور ادنا طبقے کے لوگوں سے متعلق رہا۔ امرا اور شرفا انہیں سامنے بلوا کے لڑائی کا تماشا دیکھ لیا کرتے تھے۔ سنا جاتا ہے کہ نواب آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ غازی الدین حیدر اورنصیر الدین حیدر کے سامنے بھی اکثر مینڈھے لڑائے گئے۔ واجد علی شیر کو کلکتّے کے قیام میں بھی کسی حد تک شوق تھا۔ منشی السلطان بہادر اُن کی دلچسپی کے لیے اکثر قصائیوں کے زیرِ اہتمام بہت سی جوڑیں تیّار رکھتے تھے۔ اور میں نے کئی بار دیکھا کہ کسی زبردست مینڈھے کی ایسی ٹکّر پڑی کہ دوسرے حریف کا سر پھٹ گیا۔ مینڈھا جب ہارتا ہے اور مقابل حریف کی ٹکّر کی تاب نہیں لا سکتا تو اس کی ٹکّر خالی دے کے، بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار بادشاہ کا رمنا دیکھنے کے لیے مقررہ سالانہ تاریخ کو کلکتّے کے صدہا انگریز جمع تھے۔ بادشاہ سلامت اپنی وضع کے خلاف، بوچے پر سوار نکل آئے اور ان مہمانوں کے خوش کرنے کے لیے حکم دیا کہ مینڈھے لا کے لڑائے جائیں۔ چنانچہ اُن کی ٹکّروں کا ہنگامہ بلند ہوا اور اس سے زیادہ شور یورپین لوگوں نے ”ہُرّے“ اور خوشی کے نعرے بلند کر کے مچایا اور عجیب جوش و خروش کا عالم نظر آتا تھا۔ لکھنؤ میں انتراعِ سلطنت کے بعد بھی نوّاب محسن الدولہ بہادر کو مینڈھوں کی لڑائی دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اب شرفا


ریختہ صفحہ ۲۰۶ کتابی صفحہ ۲۰۴

اور امرا سے یہ مشغلہ چھوٹ گیا ہے، ادنا لوگوں میں معمولی حد تک باقی ہے۔

(۱۹)

درندوں کی لڑائی لکھنؤ میں صرف سلطنت اور امرائے دربار تک محدود تھی۔ اس لیے کہ اُن کی داشت، تیّاریو، لڑائی کے وقت ان کو سنبھالنا اور تماشائیوں کو اُن کی مضرّت سے بچانا، ایسی چیزیں ہیں جو عُربا درکنار، بڑے بڑے امیروں کے امکان سے بھی باہر ہیں۔ اور اسی لیے درندوں کی لڑائی سوادِ لکھنؤ میں اسی وقت تک دیکھی گئی جب تک اگلا دربار قائم تھا۔ اُدھر دربار برخاست ہوا اور اِدھر وحشت ناک دنگل بھی اجڑ گئے۔

لیکن طیور کی لڑائی ایسی نہ تھی۔ اس کا شوق ہر امیر و غریب کر سکتا تھا سور ہر شوقین محنت کر کے لڑائی کے قابل مرغ یا بٹیر تیّار کر سکتا تھا۔ جو طیور لکھنؤ میں شوق اور دل چسپی کے ساتھ لڑائے گئے، حسبِ ذیل ہیں (۱)مرغ (۲)بٹیر (۳)تیتر (۴)لَوے (۵)گُل دُم (۶)لال (۷) کبوتر (۸)توتے۔ ان میں سے ہر ایک کھیل کے جُدا جُدا بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

لکھنؤ کی کبوتر بازی اور بٹیر بازی عام طور پر مشہور ہے، جس پر آج کل کے تعلیم یافتہ اور موجودہ تہذیب کے دل داده اکثر تمسخر کیا کرتے ہیں۔ وہ اس سے واقف نہیں کہ ان شوقوں اور کھیلوں میں سے ہر ایک کو اُن لوگوں نے کس درجۂ کمال پر پہنچا کے، ایک مستقل فن بنا دیا تھا۔ لیکن جب وہ یورپ میں جا کے وہاں بھی اسی قسم کے لغو شوق دیکھیں گے تو کم از کم انہیں اپنے اِن الفاظ پر ندامت ضرور ہوگی۔ جو اپنے وطن کے اُن شوقینوں کی نسبت اکثر بے ساختہ کہہ بیٹھتے ہیں۔

ریختہ صفحہ ۲۰۷ کتابی صفحہ ۲۰۵

۱: مرغ بازی

لڑتے اگرچہ ہر قسم اور ہر قوم کے مرغ ہیں، مگر لڑائی کے لیے مخصوص اصیل مرغ ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ دنیا میں اصیل مرغ سے زیادہ بہادر اور کوئی جانور نہیں ہے۔ مرغ کی سی بہادری درحقیقت شیر میں بھی نہیں ہے۔ وہ مر جاتا ہے، مگر لڑائی سے منہ نہیں موڑتا۔ اصیل مرغ کی نسبت یہاں کے محقّقین کا خیال ہے کہ ان کی نسل عرب سے لائی گئی ہے، اور یہ قرینِ قیاس بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فی زماننا اصیل کی جس قدر زیادہ اور اعلا نسلیں حیدرآباد دکن میں موجود ہیں، کہیں نہیں ہیں۔ اور ہندوستان میں وہی ایک شہر ہے جہاں اہلِ عرب سب جگہوں سے زیادہ آباد اور مقیم ہیں۔ بلندیِ ہند میں مرغوں کی نسلیں ایران ہوتی ہوئی آئیں۔ لکھنؤ کے نامی مرغ بازوں میں سے ایک صاحب کا بیان تھا کہ بازی میں ان کا مرغ اتفاقاً ہار گیا تھا، دل شکستہ ہو کے وہ ارضِ عراق میں چلے گئے۔ نجفِ اشرف میں کئی مہینے تک مصروفِ عبادت رہے اور شب و روز دعا کرتے کہ خداوندا! اپنے ائمّۂ معصومین کاصدقہ، مجھے ایسا مرغ دلوا جو لڑائی میں کسی سے نہ ہارے۔ ایک رات کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ”جنگل میں جاؤ۔“ صبح آنکھ کھلتے ہی انہوں نے کوہ و بیاباں کا راستہ لیا اور ایک مرغی ساتھ لیتے گئے۔ یکایک درۂ کوہ سے ککڑوں کوں کی آواز آئی۔ اُنہوں نے فوراً قریب جا کے مرغی چھوڑی، جس کی آواز سنتے ہی مرغ نکل آیا۔ اور یہ فوراً کسی حکمت سے اُسے پکڑ لائے۔ اُس کی نسل ایسی تھی کہ پھر کبھی پالی میں اُنہیں شرمندہ نہ ہونا پڑا۔

مرغوں کی لڑائی کا شوق یہاں نوّاب شجاع الدولہ کے عہد سے آخر تک


ریختہ صفحہ ۲۰۸ کتابی صفحہ ۲۰۶

برابر رہا۔ نواب آصف الدولہ کو بے انتہا شوق تھا۔ نوّاب سعادت علی خاں باوجود بیدار مغزی کے، مرغ بازی کے دل دادہ تھے۔ ان کے شوق نے سوسائٹی پر ایسا اثر ڈالا کہ لکھنؤ کے امراے دربار درکنار، اُس زمانے میں جو اہلِ یورپ یہاں موجود تھے انہیں بھی یہی شوق ہو گیا تھا۔ چناں چہ جنرل مارٹن، جن کی کوٹھی لکھنؤ کی ایک قابلِ دید عمارت اور یوروپین بچّوں کی درس گاہ ہے، اوّل درجے کے مرغ باز تھے، اور نوّاب سعادت علی خاں اُن سے بازی بدکے مرغ لڑایا کرتے۔

لکھنؤ میں مرغوں کی لڑائی کا یہ طریقہ تھا کہ مرغ کے کانٹے باندھ دیے جاتے تاکہ اُن سے ضرر نہ پہنچا سکے۔ چونچ چاقو سے چھیل کے تیز اور نُکیلی کی جاتی اور جوڑ کے دونوں مرغ پالی میں چھوڑ دیے جاتے۔ مرغ باز اّن کے پیچھے پیچھے رہتے۔ مرغ کو دوسرے مرغ کے مقابلے میں چھوڑنا بھی ایک فن تھا جس میں یہ کوشش رہتی کہ ہمارا ہی مرغ پہلے چوٹ کرنے کا موقع پائے۔ اب دونوں مرغ چونچوں اور لاتوں سے لڑنا شروع کرتے۔ مرغ باز اپنے اپنے مرغ کو ابھارتے اور اشتعال دیتے اور چِلّا چِلّا کے کہتے۔ ”ہاں بیٹا! شاباش ہے!“، ”ہاں بیٹا، کاٹ!“، ”پھر یہیں پر!“۔ مرغ اُن کی للکاروں اور بڑھاووں پر اس طرح بڑھ بڑھ کے لاتیں اور چونچیں مارتے کہ معلوم ہوتا جیسے سمجھتے اور اُن کے کہنے پر عمل کر تے ہیں۔ جب لڑتے لڑتے زخمی اور چور ہوجاتے، تو باتّفاق فریقین تھوڑی دیر کے لیے اُٹھا لیے جاتے۔ یہ اٹھا لینا، مرغ بازی کی اصطلاح میں ”پانی“ کہلاتا ہے۔ اُس وقت مرغ باز ان کے زخمی سروں کو پونچھتے، اُن پر پانی کی پُھہاریں دیتے، زخموں کو اپنے منہ سے چوستے اور ایسی ایسی تدبیریں کرتے کہ چند منٹ کے اندر مرغوں میں پھر نیا جوش پیدا ہو جاتا اور تازہ دم ہو کے دوبارہ پالی میں چھوڑے جاتے۔ اسی طرح برابر ”پانی“ ہوتے رہتے۔ اور لڑائی کا خاتمہ چار پانچ روز بعد اور کبھی آٹھ نو روز بعد ہوتا۔ جب ایک مرغ اندھا ہو جاتا یا ایسی چوٹ کھا جاتا کہ اُٹھنے کے قابل نہ رہے،


ریختہ صفحہ ۲۰۹ کتابی صفحہ ۲۰۷

یا اور کسی وجہ سے لڑنے کے قابل نہ رہتا، تو سمجھا جاتا کہ وہ ہار گیا۔ بار ہا یہ ہوتا کہ مرغ کی چونچ ٹوٹ جاتی۔ اس صورت میں بھی جہاں تک بنتا، مرغ بار چونچ باندھ کے لڑاتے۔

حیدرآباد کا کھیل یہاں کے خلاف بہت سخت ہے۔ وہاں کانٹے نہیں باندھے جاتے۔ بلکہ بہ عوض باندھنے کے، چاقو سے چھیل کے برچھی کی اَنی بنا دیے جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائی کا فیصلہ گھنٹا ہی ڈیڑھ گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ لکھنؤ میں خاروں کے باندھنے کا طریقہ غالباً اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ لڑائی طول کھینچے اور زیادہ زمانے تک لطف اٹھایا جا سکے۔

لڑائی کے لیے مرغوں کی تیّاری میں مرغ باز کے کمالات، غذا اور داشت کے علاوہ اعضا کی مالش، پھوئی یعنی پانی کی پُھہار دینے، چونچ اور خار بنانے یا خار کے باندھنے اور کوفت کے مٹانے میں نظر آتے ہیں۔ اِس اندیشے سے کے زمین پر دانہ چگنے میں چونچ کو نقصان نہ پہنچ جائے، اکثر انہیں دانہ ہاتھ پر کھلایا جاتا ہے۔

یہ شوق واجد علی شاہ کے زمانے تک زوروں پر تھا۔ مٹیا برج میں نوّاب علی نقی خاں کی کوٹھی میں مرغوں کی پالی ہوتی تھی اور کلکتّے سے بعض انگریز اپنے مرغ لڑانے کو لایا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے علاوہ اور بہت سے رئیسوں کو بھی مرغ بازی کا شوق تھا۔ مرزا حیدر، بہو بیگم صاحبہ کے بھائی نوّاب سالار جنگ حیدر بیگ خاں، میجر سوارس، جو نصیر الدین حیدر کے زمانے میں تھے، اور خود بادشاہ سے مرغ لڑاتے تھے۔ آغا برہان الدین حیدر بھی مرغ بازی کے شائق تھے۔ آخر الذکر رئیس کے وہاں آخر زمانے تک دو اڑھائی سو مرغ رہتے۔ نہایت ہی صفائی اور نفاست سے رکھے جاتے۔ دس بارہ آدمی ان کی داشت

ریختہ صفحہ ۲۱۰ کتابی صفحہ ۲۰۸

پر مامور تھے۔ میاں داراب علی خاں کو بڑا شوق تھا۔ نوّاب گھسیٹا نے بھی اس شوق کو آخر نباہا۔ ملیح آباد کے معزّز پٹھانوں کو بھی بہت شوق تھا اور اُن کے پاس اصیل مرغ کی بہت اچھی نسلیں محفوظ تھیں۔ یہاں مشہور مرغ باز جو اپنے فن میں استادِ یگانہ مانے جاتے، بہت سے تھے: میر امداد علی، شیخ گھسیٹا، منوّر علی، جن کو یہ کمال حاصل تھا کہ مرغ کی آواز سن کے بتا دیتے کہ یہ بازی لے جائے گا۔ صفدرعلی۔ اور ایک اوّل درجے کے وثیقے دار سید میرن صاحب بھی مشہور تھے۔ اِس آخری زمانے میں مندرجہ ذیل لوگوں کا نام مشہور ہوا: فضل علی جمعدار۔ قادر جیون خاں۔ حسین علی۔ نوروز علی۔ نوّاب محمد تقی خاں، جو یہاں کے ایک عالی مرتبہ رئیس تھے۔ میاں جان۔ دل چھنگا۔ حسین علی بیگ۔ احمد حسین۔ اِن میں سے اب کوئی زنده موجود نہیں ہے۔

یہی لوگ ہیں جنھوں نے مرغ بازی کو یہاں انتہائی کمال کے درجے پر پہنچا کے دکھا دیا۔ مگر میرا خیال ہے کہ فی الحال مرغ بازی کا شوق حیدرآباد دکن میں بڑھا ہوا ہے۔ وہاں کے بہت سے امیروں، جاگیر داروں اور منصب داروں کو شوق ہے، اور ان کے پاس مرغوں کی نسلیں بھی بے مثل ہیں، جن کی وہ بہت حفاظت کرتے ہیں۔

۲: بٹیر بازی

بٹیر بازی کا شوق لکھنؤ میں پنجاب سے آیا۔ پنجاب کے بعض کنچن لوگ، جن کی عورتیں عصمت فروشی کا پیشہ کرتی ہیں، نوّاب سعادت علی خاں کے عہد میں واردِ لکھنؤ ہوئے اور گھاگس بٹیر اپنے ساتھ لائے، جن کو وہ لڑاتے تھے۔ آج کل کی بعض نام ور رنڈیاں انھی لوگوں کی نسل سے ہیں۔ بٹیروں کی دوقسمیں ہوتی ہیں: ایک گھاگس اور دوسری چننگ۔ پنجاب میں صرف گھاگس بٹیر ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 251

میں کمال رکھنے والے ایک مشہور شاعر تھے۔ اپنی اندر سبھا تصنیف کی جس میں ہندوؤں کی دیومالا میں مسلمانوں کے فارسی مذاق کی آمیزش کا پہلا نمونہ نظر آیا۔

یہ اندر شبھا جیسے ہی شہر میں دکھائی گئی، ہر شخص والہ و شیدا ہو گیا۔ یکایک بیسیوں سبھائیں شہر میں قائم ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا اس قدر رواج ہوا کہ گویوں اور ناچنے والی رنڈیوں کا بازار چند روز کےلیے سرد پڑ گیا۔ اب امانتؔ کے سوا اور بہت سے لوگوں نے نئی سبھا میں بنانا شروع کیں، جن میں اردو شاعری چاہے بگڑتی ہو، مگر زبان منجتی اور پورب کی دیہاتی اور ہندو اہل حرفہ کی آبادی میں سرایت کرتی جاتی تھی۔ اس مذاق نے ڈراما اور تھیٹر کی مضطوط بنیاد ڈال دی تھی اور اگر چند روز اور شاہی کا دور رہتا تو بہت اچھے اُصول پر خالص ہندوستانی ناٹک ایک خاص صورت پیدا کر لیتا جو بالکل اچھوتی اور ہندوستانی مذاق میں ڈوبی ہوتی۔

مگر یکایک مہذب سوسائٹی کو جس میں پرانی موسیقی گھر کر چکی تھی، ان کھیلوں میں ابتذال نظر آیا۔فنِ موسیقی کے شوق نے شرفا کو پھر گویوں اور مجرا کرنے والے طائفوں کی طرف متوجہ کر دیا اور یہ چیزیں جو ناٹک کی شان رکھتی تھیں، عوام الناس اور بازاری لوگوں ہی تک محدود رہ گئیں۔ مگر اگلے ذوق نے سہر میں اس مذاق کو عمہ صورت میں دکھانے والا ایک خاص گروہ پیدا کر دیا جن کو آج کل کی اصطلاح میں ایکٹر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ہمارے یہ ایکٹر پہلے تو مہذب سوسائٹی کی قدردانی سے زبانِ اردو میں ترقی کرتے جاتے تھے۔ مگر چونکہ ان کا شمار ادنا درجے کے بازاری لوگوں میں رہ گیا ہے، اس لیے وہ مہذب زبان چھوٹ گئی۔ بازاری زبان میں آج کل بھی یہ لوگ بیسیوں طرح کے پرفارمنس دکھاتے ہیں۔

ہمارے ان ایکڑوں کے مبتذل ہو جاے کا سب سے بڑا سبب یہ ہوا کہ بمبئی کے پارسیوں نے انگریزی مذاق کے بھیٹر کھڑے کیے۔ جن میں سچ یہ ہے کہ نہ فن موسیقی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 252

ہی تھا اور نہ صحیح ایکٹ۔ مگر اُن کی صفائی، ترتیب، طلسم نمائی اور ان کے زرق برق پردوں نے ہمارے قومی ڈراما کا جو ایک بچے کی طرح ہنوز گہوارے میں تھا، گلا گھونٹ دیا۔ اعلا سوسائٹی کے لوگ ناٹکوں کی شانداری پر فریفتہ ہو کے صحیح مذاق بھول گئے۔

سچ یہ ہے کہ بمبئی کے تھیٹروں نے ہندوستان کو بہ لحاظ فنون رقص و سرود کے بے حد نقصان پہنچا دیا۔ سب سے پہلے موسیقی کو تباہ کیا اور ایسی وضع کے بے اصول نغموں کو اختیار کر کے بازاروں میں پھیلا دیا، جن سے زیادہ مہمل کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد اس نے ہمارے رقص کو جو بہت ہی اعلا درجے کا فن تھا، مٹانا چاہا، اور اپنے اسٹیج پر ناچ کے نام سے یورپ کے "ڈرل" کو رواج دیا، جس میں چند لڑکے اپنی ترتیب اور وضع بدل کے دلچسپی پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ لیکن رہس والوں کا موسیقی اور ایکٹ اگرچہ دونوں ناقص ہیں، مگر وطنی رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور قومی مذاق رکھتے ہیں۔ ان کے چھوڑنے کی نہیں، بلکہ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

(26)

موسیقی ہی کے سلسلے میں سوزخوانی کے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس نئے مذہبی فن کو گانے بجانے کے خلاف شرع فنون میں داخل کرنا، بے ادبی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ سوزخوانی ایک خاص قسم کی موسیقی ہی ہے۔ محرم میں شہادت سبطِ اصغر علیہ السلام کی یاد تازہ کرنا ہندوستان میں خاص شیعوں سے شروع ہوا۔ خصوصاً اُس وقت سے جب کہ مذہب اٹنا عشری ایران کا قومی مذہب بنا اور وہاں کے لوگ آ آ کے ہندوستنی دربار میں رسوخ حاصل کرنے لگے۔ تاہم دہلی میں چوں کہ تاج داروں اور شاہی خاندان کا مذہب سنت و جماعت تھا، اس لیے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 253

وہ خاص چیزیں جو شیعوں کی مذہبی معاشرت کے ساتھ مخصوص تھیں، وہاں نشو و نما نہ پا سکیں۔ اس لیے اُن فنون کی پرورش کا گہوارہ شہر لکھنؤ اور اس کا اگلا شیعہ دربار قرار پا گیا۔

جس طرح مذہبی سرگرمی نے شاعری میں مرثیہ گوئی اور تحت اللفظ خوانی کو پیدا کیا، اُسی طرح موسیقی میں سوز خوانی پیدا کر دی۔ پھر اُن دونوں فنون کو یہاں تک ترقی دی کہ مستقل فن بن گئے۔ اور ایسے فن جو ابتدا سے انتہا تک لکھنؤ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ تحت اللفظ خوانی، مرثیوں کا متانت اور بے تکلفی کے ستھ اس طرح پڑھنا اور بتا بتا کے سنانا ہے، جس طرح شاعر مشاعرے میں اپنی غزل سناتا ہے۔ اور سُوزخوانی، اُن کو پُرسوز و گداز نغمے کے ساتھ سُنانا ہے۔

اصلی اور پُرانی مرثیہ خوانی، سُوزخوانی ہی تھی، یعنی مرثیے مجلسوں میں ہمیشہ نغمے کے ساتھ سُنائے جاتے تھے، اور ان کا رواج دہلی ہی نہیں ہندوستان کے ان تمام شہروں میں تھا جن میں شیعہ حضرات آباد تھے۔ مدراس اور دکن تک میں زور و شور سے اس قسم کی مرثیہ خوانی ہوتی تھی اور ڈیڑھ دو سو برس کے تصنیف کیے ہوئے نوحے آج تک موجود ہیں۔ مرثیوں کو شاعروں کی شعرخوانی کے لہجے میں ادا کرنا خاص لکھنؤ کی ایجاد ہے اور اس میں میر انیس اور مرزا دبیر وغیرہ نے جو کمالات دکھائے، اُن کا ذکر ہم شاعری کے سلسلے میں کر چکے ہیں۔

سوزخوانی اگرچہ پہلے سے تھے اور ہر جگہ تھی مگر اس میں بھی لکھنؤ کے سوزخوانوں نے ایسے ایسے کمال دکھائے کہ اس فن کو بھی اپنے ساتھ مخصوص کر لیا۔ سارے ہندوستان کی اگلی سوزخوانی کا اندازہ اس مثل سے ہو سکتا ہے کہ "بگڑا گویا، مرثیہ خواں" لکھنؤ نے سوزخوانی کا پایہ اس قدر بلند کر دیا کہ صاحب کمال گویوں کا بازار بھی سوزخوانوں کے آگے سرد پڑ گیا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 254

لکھنؤ میں سوزخواں دیگر اہل فن کی طرح نواب شجاع الدولہ کے ساتھ یا اُن کے عہد میں آئے۔ تاریخ فیض آباد میں لکھا ہے کہ شجاع الدولہ کی بیوی بہو بیگم صاحبہ کے محل میں مجلسیں ہوتیں اور جواہر علی خاں خواجہ سرا جو ان کی ڈیوڑھی اور سارے علاقے کا مختار تھا، مرثیہ خوانوں کی نوحہ خوانی سنا کرتا۔ مگر اُس وقت تک یہاں کی سوزخوانی وہی تھی جو ہر جگہ عام تھی۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ خواجہ حسن مودودی سے یہ فن شروع ہوا۔ وہ مصنف نغمات الآصفیہ کے استاد تھے، اور باوجود عطائی ہونےکے، فن موسیقی میں ایسا کمال (1) رکھتے تھے کہ دور دور تک کہیں ان کا جواب نہ تھا۔ اگرچہ سنی المذہب تھے، مگر انہوں نے موسیقی کی خاص خاص دُھنیں سوزوں میں قائم کر کے اپنے شاگردوں کو بتائیں اور اس فن کے باضابطہ و باقاعدہ بننے کی بنیاد پڑ گئی۔ اس کے بعد جب شڑے حیدری خاں کا زمانہ آیا تو ان کا معمول تھا کہ محرم میں اپنے مذاق کی مناسب دُھنوں میں نوحہ خوانی کیا کرتے۔ چونکہ وہ بہت بڑی صاحب کمال گویے تھے اور دربار قدردان تھا، اس کوشش میں ان کو نمایاں کام یابی حاصل ہوئی۔ اور پتا لگ گیا کہ اگر ترقی دی جائے تو یہ فن جُداگانہ طور پر ایک خاص اور ممتاز شان پیدا کر سکتا ہے۔ موسیقی کی ہزارہا دُھنوں میں سے وہ دُھنیں منتخب کی گئیں، جو اظہارِ حُزن و ملال اور بین کے
--------------------------------------------------------------------------------------------------

موسیقی میں ان کے کمال کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مرہٹوں کی دست بُرد کے زمانے میں وہ میانے میں سوار لکھنؤ سے اٹاوے کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں کسی گاؤں میں گزر ہوا اور سنا گیا کہ اس گاؤں پر مرہٹے تاخت کرنے والے ہیں۔ کہاروں نے جو بہت دور سے انہیں لیے چلے آتے تھے، یکایک میانہ رکھ دیا اور کہا ہم میں اب آگے چلنے کی طاقت نہیں ہے۔ ہزار کہا گیا کہ یہ مقام خطرناک ہے، مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ خواضہ صاحب نے زندگی سے مایوس ہو کے وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی اور بیٹھے بیٹھے کچھ الاپنا شروع کیا اور اس کا کہاروں پر اس قدر اثر پڑا کہ تازہ دم ہو گئے اور امن کی جگہ پہنچا دیا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 255

لیے مناسب ہوں، اور وہ صدہا سوزوں میں قائم کی گئیں۔ آخر میں حیدری خاں نے اپنی سوزخوانی سید میر علی صاحب کو سکھا دی، جو ایک شریف النسل سیدزادے تھے۔ اور انہوں نے مذہبی جوش میں اس فن کو بہت زیادہ ترقی دی۔ اور اپنے زمانے میں اتنے بڑے صاحب کمال مشہور ہئے کہ نواب سعادت علی خاں کے عہد میں انہوں نے کسی بات پر برہم ہو کے لکھنؤ سے چلے جانے کا ارادہ کیا تو انشاء اللہ خاں نے اپنے موثر شاعرانہ انداز و تمسخر کی شان سے سفارش کی اور نواب نے دل دہی و قدردانی کے ساتھ انہیں روکا۔

اس کے بعد تان سین کے خاندان کا ایک گویا ناصر خاں لکھنؤ میں آیا اور چمکا۔ یہاں سوزخوانی کی طرف لوگوں کا تو غل دیکھا تو اس نے بھی اپنے موسیقی کے کمال کو نوحہ خوانی میں صرف کر کے مقبولیت و شہرت حاصل کی۔ اور اپنے پڑوس کی ایک مفلس و بیوہ سیدانی پر ترس کھا کے، ان کے دو بچوں میر علی حسن اور میر بندہ حسن کو سوزخوانی کی تعلیم دی۔ ان دونوں کا کمال تمام ماسبق استادوں سے بڑھ گیا، اور سوز خوانی میں بے عدیل ن نظیر ثابت ہوئے۔ انہوں نے سوزخوانی کو اعلا درجے کا راگ بنا دیا ہے۔ یہاں تک کہ موسیقی کے اصلی راگوں کے بول تو اکثر گویوں تک کو یاد نہیں، مگر ایسے سوز اکثر سوز خوانوں کو یاد ہیں جو راگوں کے بول ہیں، جن کو سُن کے حقیقی راگ اور سچی دُھنیں متمائز طور پر سمجھ لی جا سکتی ہیں۔

انہی بزرگوں کی وجہ سے لکھنؤ میں سوزخوانی کا فن گویوں سے نکل کے شرفا میں آ گیا۔ اور کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہو نے لگے جو ڈوم ڈھاڑی نہیں، شریف و وضیع ہیں، مگر سوزخوانی میں ایسا کمال رکھتے ہیں کہ گویوں کا بازار اُن کے سامنے سرد پڑ گیا ہے۔

فی الحال منجھو صاحب اور دو ایک اور بزرگ سوزخوانی میں ایسا کمال

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 256

اور ایسی شہرت رکھتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں ہر جگہ ان کے استقبال میں شوق کی آنکھیں بچھائی جاتی ہیں۔ اور دیگر بلاد کے لوگوں کی قدردانی، ماہ محرم اور عزاداری کے خاص ایام میں ہمیشہ انہیں شائقین لکھنؤ کے ہاتھ سے چھین لیا کرتی ہے۔

سب سے زیادہ اثر اس مذاق نے لکھنؤ کی عورتوں پر ڈالا۔ سوزوں کی موثر اور دل کو پاش پاش کر دینے والی دُھنیں میر علی حسن اور میر بندہ حسن کے گلے سے نکلتے ہی صدہا شریف مردوں کے گلے میں اتریں اور ان کے ذریعے سے ہزارہا شریف شیعہ خاندانوں کی عورتوں کے نور کے گلوں میں اتر گئیں۔ عورتوں کو فطرۃً گانے بجانے کا زیادہ شوق ہوتا ہے اور ان کے گلے، نغموں کے لیے عموماً زیادہ موزوں ہوا کرتے ہیں، یہ بااصول اور باقاعدہ نوحہ خوانی عورتوں میں پہنچی تو اُس میں قیامت کی دل کشی پیدا ہو گئی۔ اور چند روز میں شیعہ ہی نہیں، ادنا طبقے کے سنیوں کی عورتوں میں بھی نوحہ خوانی کا شوق پیدا ہو گیا۔ اور یہ حالت ہو گئی کہ محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پُرسوز و گداز تانوں اور دل کش نغموں کی عجیب حیرت انگیز صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اور کوئی مقام نہیں ہوتا جہاں یہ سماں نہ بندھا ہو۔ آپ جس گلی میں کھڑے ہو کے سننے لگیے، ایسی دل کش آوازیں اور ایسا مست و بے خود کرنے والا نغمہ سننے میں آ جائے گا کہ آپ زندگی بھر نہیں بھول سکتے۔ ہندوؤں اور بعض خاص سنیوں کے مکانوں میں تو خاموشی ہوتی ہے، باقی جدھر کان لگائیے، نوحہ خوانی کے قیامت خیز نغموں ہی کی آوازیں آتی ہوتی ہیں۔

تعزیہ داری چوں کہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے، اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی۔ اور سُنی مسلمان ہی نہیں، ہزارہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے۔ جس سے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 257

معلوم ہو سکتا ہے کہ لکھنؤ میں تعزیہ داری کے بہت زیادہ بڑھنے اور فروغ پانے کا زبردست باعث، نوحہ خوانی ہے۔

لکھنؤ میں بعض شریف، شایستہ اور تعلیم یافتہ عورتیں ایسی اچھی سوزخواں ہیں کہ اگر پردے کی روک نہ ہوتی تو مرد سوزخواں اُن کے مقابلے میں ہرگز فروغ نہ پا سکتے۔ اس کو بہت مدت ہوئی کہ ایک سال چہلم کے موقع پر چند احباب کے ساتھ میں تال کٹورا کی کربلا میں گیا تھا اور وہیں ایک خیمے میں شب باش ہوا تھا۔ دو بجے رات کو یکایک آنکھ کھلی تو ایک ایسے دل کش نغمے کی آواز کان میں آئی، جس نے سب دوستوں کو جگا کے بے تاب کر دیا۔ ہم سب اس آواز کے شوق میں خیمے سے نکلے اور دیکھا کہ آخر شب کا سناٹا ہے، چاندنی کھیت کیے ہوئے ہے، اور اس میں عورتوں کا ایک غول تعزیہ لیے ہوئے آ رہا ہے۔ سب بال کھولے اور سر برہنہ ہیں۔ بیچ میں ایک عورت شمع ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کی روشنی میں ایک حسین، سروقد نازنین، چند اوراق میں سے پڑھ پڑھ کے نوحہ خوانی کر رہی ہے اور کئی اور عورتیں اس کے ساتھ گلے بازی کر رہی ہیں۔ اس سناٹے، اس وقت، اس چاندنی، ان برہنہ سر حسینوں اور اس پُرسوز و گداز نغمے نے جو سماں پیدا کر رکھا تھا، اس کو میں بیان نہیں کر سکتا۔ نازک اداؤں کا یہ مجمع جیسے ہی کربلا کے پھاٹک میں داخل ہوا، اس سروقامت نازنین نے پرچ کی دُھن میں یہ نوحہ شروع کیا :

جب کار روان شہر مدینہ لُٹا ہوا
پہنچا قریب شام کے قیدی بنا ہوا

نیزے پر سر حُسین ؑ کا آگے دھرا ہوا
اور پیچھے پیچھے بیبیوں کا سر کُھلا ہوا

اس مناسب حالت مرثیے نے یکایک ایسا سماں باندھ دیا کہ شبہ ہوتا تھا کہ ان اشعار کے ذریعے سے وہ خاتون واقعہ کربلا کی تصویر کھینچ رہی ہے یا خود اپنے اس ماتمی جلوس اور اپنے داخلۂ کربلا کی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 258

اصل یہ ہے کہ لکھنؤ کی عورتوں اور ان کے ساتھ مردوں پر بھی سوزخوانی و عزاداری نے جو نمایاں اثر ڈالا ہے، اور کسی چیز نے نہیں ڈالا۔اس کی پہلی برکت تو یہ ہے کہ تمام عورتٰن بہت اچھی گلے باز ہو گئیں اور موسیقی کے سچے اصول کے ساتھ نوحہ خوانی کرنے لگیں۔ دوسری برکت یہ ہے کہ سارے اہل شہر کو، عام اس سے کہ مرد ہوں یا عورت، موسیقی کے ساتھ مناسبت ہو گئی۔ یہ جو لکھنؤ کے گلی کوچوں میں دیکھا جاتا ہے کہ ادنا درجے کے لڑکے اور بازاری لوگ اکثر چلتے چلتے گانے لگتے اور گانے میں ایسی گلے بازی کرتے اور مشکل سے مشکل دُھنوں کو اس آسانی سے اُڑا لیتے ہیں کہ باہر کے لوگوں کو حیرت ہو جاتی ہے، اس کا اصلی باعث یہ نوحہ خوانی و سوزخوانی کا مذاق ہے۔ اور تعریف کی بات یہ ہے کہ سوزخوانی کا نشو و نُما باوجود عوامُ الناس اور ادنا درجے کے جُہلا میں پھیلنے کے، صحیح اصول پر رہا اور موسیقی کے صحیح مذاق سے باہر نہیں ہونے پایا۔ بہ خلاف اور چیزوں کے، جو عوام میں پہنچتے ہی بے قاعدہ اور خراب ہو جایا کرتی رہیں۔

سوزخوانی کو گو کہ عوام شیعہ موجب ثواب تصور کرتے ہیں، مگر علماے شیعہ نے اس وقت تک اُس کے جواز کا فتوا نہیں دیا ہے۔ وہ پابندی شرع میں متشدد ہیں۔ اب تک مجتہدین اور ثقہ لوگوں کی مجلسوں میں صرف حدیث خوانی یا تحت اللفظ خوانی ہوتی ہے۔ اور عوام کی جن مجالس میں علماے شریعت شریک ہوتے ہیں، اُن میں بھی اُن کے سامنے سوزخوانی نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سوزخوانی نے اپنی عام مقبولیت کی وجہ سے علما کے فتوؤں پر پوری فتح پا لی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اہل سنت کے علماے حدیث اور مشائخِ صوفیہ کے نزدیک تو غنا کے جواز کی بہت گنجایش ہے، مگر شاید فقہِ اثنا عشری میں اتنی گنجایش نہیں۔ ورنہ اس فن نے اب تک سندِ جواز حاصل کر لی ہوتی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 259

(27)

ارباب نشاط اور فن موسیقی اور اس سے نکلے ہوئے فنون کے متعلق ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں، لیکن اسی سلسلے میں بازاری باجوں کا حال بیان کرنا باقی ہے۔ لہذا آج ہم یہ بتاتے ہیں کہ ان باجوں پر لکھنؤ کا کیا اثر پڑا۔ اور اسی پر ہم موسیقی کے بحث ختم کر دیں گے۔ باجوں کے جوڑ جو شادی وغیرہ کے جلوسوں کے ساتھ جاتے ہیں، چھلے طرح کے ہیں : (1) ڈھول تاشے (2) روشن چوکی (3) نوبت (4) ترھئی اور قرنا (5) ڈنکے اور بگل (6) انگریزی باجا جو ارگن باجا کہلاتا ہے اور روز بروز زیادہ رواج پاتا جاتا ہے۔

پہلا یعنی ڈھول تاشا، ہندوستان کا قدیم نیشنل باجا ہے، جس کا انگریز "انڈین ٹام ٹام" نام رکھ کے، اپنی عدم واقفیت اور جہالت سے مضحکہ اڑاتے ہیں۔ 1896ء میں جب انگلستان کی نمایش گاہ "آرلس کورٹ" میں ہندوستانی معاشرت اور یہاں کے فنون و مشاغل کے صدہا نمونے دکھائے گئے تھے تو وہاں اس باجے کا نمونہ میں نے خود اپنی آنکھ سے یہ دیکھا کہ ایک نہایت ہی سیاہ فام شخص جس کے پنڈے پر سوا ایک میلے لنگوٹے کے کچھ نہ تھا، عام مجمع میں برہنہ آ کے کھڑا ہو جاتا ، اس کے گلے میں ایک ڈھول ہوتی، اور وہ نہایت ہی وحشیانہ طریقے سے بغیر کسی لے اور ترتیب کے، مجنونوں کی طرح سر ہلا ہلا کے زور زور سے ڈھول کو لکڑی سے پیٹنے لگتا۔ اور کہا جاتا کہ یہی ہندوستان کا باجا "ٹام ٹام" ہے۔ مگر یہ ان لوگوں کی جہالت اور بے عقلی ہے۔ یہ بہت ہی مکمل باجا ہے اور اس کا بجانا ایک باقاعدہ فن ہے، جس میں نہایت اعلا درجے کی لے رکھی گئی ہے۔

اس میں لکھنؤ میں عموماً دو اور کبھی تین تین چار چار بڑے ڈھول ہوتے ہیں۔ اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 260

کم سے کم ایک ورنہ دو تین تاشے والے ہوتے ہیں، اور کم سے کم ایک جھانجھ والا ہوتا ہے۔ جھانجھ کا پتا ایران وغیرہ میں بھی چلتا ہے۔ اور تاشے، مصر وغیرہ میں بھی مروج ہیں۔ مگر ڈھول خالص ہندوستان کی چیز ہے۔ لکھنؤ میں یہ باجا فوجوں اور خوش باشوں کے ساتھ دہلی سے آیا۔ مگر دہلی میں اس کے جوڑ میں صرف ڈھول اور جھانجھیں تھیں۔ تاشے لکھنؤ میں بڑھائے گئے۔ اور رواج پاتے ہی اس قدر ضروری اور اہم نظر آئے کہ معلومہوا جیسے ان سے اس باجے میں جان پڑ گئی۔ اگرچہ اکثر شہروں میں صرف ڈھول اورجھانجھیں ہی ہوتی ہیں، مگر لکھنؤ میں تاشے جزو لازمی ہو گئے ہیں۔ اور بغیر ان کے ڈھولیں کہیں بجتی ہی نہیں ہیں، مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس باجے میں سب سے زیادہ کمال وہی شخص دکھاتا ہے جو تاشا بجاتا ہے۔ وہی لَے قائم کرتا ہے۔ اور لَے میں اُس کی پیروی ڈھول والے کرتے ہیں۔ تاشا بجانے کی یہ صفت ہے کہ اتنی جلدی جلدی ضربیں پڑیں کہ ایک قرعے کا دوسرے سے امتیاز نہ ہو سکے۔ اور ان متواتر و مسلسل قرعوں سے نشیب و فراز یا زیر و بم سے لَے اور گت پیدا ہو۔ لکھنؤ میں اس باجے کے بجانے والے ایسے ایسے استاد تھے کہ انہوں نے اس معمولی باجے کو، جو سب جگہ بے اصول تھا، بہت ہی باقاعدہ بنا دیا۔ اور اب بھی یہاں ایسے چابک دست بجانے والے پڑے ہیں کہ اُن کے سامنے، کسی شہر کے ڈھول بجانے والے، نہیں بجا سکتے۔

لکھنؤ میں چہلم کے بعد ایک تعزیہ اٹھتا ہے جو بخشو کا تعزیہ کہلاتا ہے۔ اب تو اس کے جلوس نے شیعوں، سنیوں کے جھگڑے کی وجہ سے دوسری صورت اختیار کر لی ہے، مگر دس بارہ برس پہلے اس کی شان یہ تھی کہ چونکہ شاہی کے ایک پرانے محبِ اہل بیت کی یادگار تھا، اور اب اُس کے اٹھانے والے غریب و بے سر و سامان لوگ تھے، اس لیے ہر قسم کے باجوں کے بے نظیر و بے بدل استاد
 

محمد عمر

لائبریرین
186

شیخ زادوں نے اختیار کر لیا۔ غلام رسول خان کا بٹیا گوری پٹے باز لکھنؤ میں اِس فن کا سب سے بڑا باکمال مانا جاتا تھا جس کے صد ہا واقعات عوام میں مشہور تھے مگر افسوس اب یہ افسانے بھی موجودہ نسل کو بھولتے جاتے ہیں۔

میر رستم علی کے سیفے میں دونوں طرف باڑھ ہوتی اور اُسے ہلاتے ہوئے سیکڑوں حریفوں کو چیر کے نکل جاتے۔ اسیون کے ایک شیخ زادے شیخ محمد حسین دونوں ہاتھوں سے پٹا ہلاتے۔ چنانچہ غازی الدّین حیدر کے زمانے میں ایک دن صاحب رزیڈنٹ بہادر اور بعض یورپین مہمانوں نے اس فن کے کسی صاحب کمال کا کمال دیکھنا چاہا۔ شیخ حسین آ موجود ہوئے۔ چوں کہ اس وقت پٹا اُن کے پاس نہ تھا، شاہی اسلحہ خانے سے ایک پُر تکلّف و مکلل پٹا دیا گیا جسے لے کے انہوں نے ایسے ایسے کمالات دکھائے کہ ہر طرف سے تحسین کے نعرے بلند ہوئے اور وہ اسی تحسين و مرحبا کے جوش میں پٹا ہلاتے ہوئے مجمع سے نکل کے چلے گئے اور اپنے گھر پہنچنے۔ اہل فن میں مشہور تھا کہ جو شخص پٹا ہلانا جانتا ہے، وہ دس تلوار والوں کو بھی پاس نہ پہنچنے دے گا۔

اِسی فن کے ایک صاحبِ کمال لکھنؤ میں میر ولایت علی ڈنڈا توڑ تھے۔ اُن کی نسبت شہرت تھی کہ حریف کے ہاتھ میں کتنا ہی زبردست ڈنڈا ہو، اسے توڑ ڈالتے۔

(۳) بانک

فنونِ جنگ میں یہ بہت ہی اہم اور نہایت بکار آمد فن تھا اور اصولاً دوسرے فنون پر فوقیت رکھتا تھا اور شریف زادے خاص کوشش اور خاص شوق سے اِس فن کو سیکھتے۔ اصلی غرض اس فن کی، چھُریوں والوں سے حریف کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ فن قدیم الایّام سے ہندوؤں میں بھی تھا اور عربوں میں بھی، مگر چھُریاں دونوں کی جُداگانہ ہوتی تھیں۔

187

ہندوؤں کی چھُری سیدھی ہوتی جس پر دونوں طرف باڑھ ہوتی۔ اور عربوں کی چھُری خم دار خنجر نما ہوتی جس پر ایک ہی طرف باڑھ ہوتی، مگر عربوں کی آخری چھُری جنبیہ ہے، جس کی نوک سے کچھ دُور تک چاروں طرف چار باڑھیں ہوتی ہیں اور اُس سے ایسا چوپھانکا زخم پڑتا ہے کہ کہتے ہیں کہ اس میں ٹانکا لگانا مشکل ہوتا ہے۔ غرض اس حربے سے لڑنے کے فن کا نام بانک ہے۔ اِس کی تعلیم یوں ہوتی ہے کہ استاد شاگرد دونوں آمنے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں۔ مگر ہندوؤں والی سیدھی چھُری کی تعلیم میں قاعدہ تھا کہ دونوں مقابل دو زانو بیٹھنے کے ساتھ ایک گھٹنا کھڑا رکھتے اور عربوں والی چھُری کی تعلیم میں بالکل دو زانو بیٹھتے تھے، اور چوٹوں کے ساتھ بڑے زبردست پیچ ہوتے جن کے آگے کُشتی کے پیچوں کی حقیقت نہ تھی۔ یہ فرق بھی بتایا جاتا ہے کہ عربوں کے فن میں اصلی سات چوٹیں تھیں اور ہندوؤں کے فن میں نو۔ عربوں کی بانک میں پیچ پورا بندھ جاتا تو حریف کو زندہ چھوڑنا باندھنے والے کے اختیار سے باہر ہو جاتا۔ اور ہندوستان والوں کے فن میں آخر تک اختیار میں رہتا کہ جب چاہیں پیچ کھول کے حریف کو بچا دیں۔

اِس فن میں صرف چوٹیں ہی نہیں ہیں، بلکہ بڑے بڑے زبردست پیچ ہیں جِن میں دونوں حریف گھنٹوں گھتے رہتے اور پَے در پَے پیچ کر کے ایک دوسرے کو باندھ کے زخمی کر دینے کی کوشش کرتے۔ اِس فن کے پیچ اِس قدر سچّے اور حُکمی اور اُصول کے ساتھ تھے کہ کہا جاتا، کُشتی اور لکڑی کے تمام پیچ بانک ہی سے نکلے ہیں بانک کے اُستادوں میں مشہور تھا کہ بانک لیٹ کے پوری ہوتی ہے، بیٹھ کے آدھی رہتی اور کھڑے ہو کے صرف چوتھائی رہ جاتی ہے۔ یہ نہ سمجھنا چاہے کہ بنکیت کا کام صرف یہ ہے کہ حریف کو چھُری سے زخمی کر دے، نہیں، اُس کا اصلی کام یہ ہے کہ حریف کو زندہ باندھ لے اور بے بس کر کے گرفتار کر لائے۔

188

ایک یہ خاص بات بھی تھی کہ بانک والا اپنے فن کو حتّی الامکان مخفی رکھتا۔ اُس کی وضع قطع اور طور طریق کِسی بات سے نہ پہچانا جاتا کہ وہ سپہ گر ہے۔ بنکیت، عام ثقہ شریفوں کی وضع رکھتے، کفشين پہنتے، کوئی ہتھیار نہ باندھتے حتّیٰ کہ اُن میں لوہے کے قلم تراش یا سوئی تک کے پاس رکھنے کی قسم تھی۔ صرف ایک رومال رکھتے اور اُس کے ایک کونے میں ایک لوہے کا چنا بندھا رہتا بس یہی حربہ ضرورت کے وقت انہیں کام دے جاتا۔ یا اس سے بھی زیادہ تہذیب برتتے تو ہاتھ میں تسبیح رکھتے اور اس میں لوہے کا بھدّا سا قبلہ نُما لگا ہوتا۔ بس یہی حربہ اُن کے لیے کافی تھا۔

ہندوؤں میں قدیم الّایام سے یہ فن خاص برہمنوں میں تھا ،راجپوت نہیں جانتے تھے۔ نہ برہمن انہیں سکھاتے، اور نہ وہ اپنی وضع کے خلاف تصوّر کر کے اُس کے سیکھنے کی کوشش کرتے۔ جس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ ملکیت ہونے کے لیے ثقاہت شرط تھی، اور راجپوت کھلے سپاہی تھے۔ برمن بنکیت، قبلہ نُما لوہے کے چنے کے عوض ایک کنجی رکھتے جو جنیو میں بندھی رہتی اور اُس سے کام لے کے، نہایت ہی تہذیب و متانت کے ساتھ دشمن کا کام تمام کر دیتے۔ شاہ زادہ مرزا ہمایوں قدر بہادر فرماتے ہیں کہ لکھنؤ میں یہ فن شاہ عالم کے زمانے میں اُس وقت آیا جب مرزا خرّم بخت بہادر بنارس آئے اور اس فن کے دو ایک باکمال اپنے ساتھ لائے۔ لیکن ہمیں معتبر ذریعے سے اور تاریخ فیض آباد کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اِس فن کے باکمال منصور علی خاں بنکیت، شجاع الدّولہ کے زمانے میں فیض آباد میں آ گئے تھے۔

نواب آصف الدّولہ کے عہد میں بانک کے استاد لکھنؤ میں شیخ نجم الدّین تھے۔ اُسی قریب زمانے میں بانک کے ایک دوسرے استاد لکھنؤ میں موجود تھے جو میر بہادر علی کے نام سے مشہور تھے۔ ان کو دعویٰ تھا کہ پلنگ کے نیچے جنگلی کبوتر چھوڑ دیجیے اور تماشا دیکھیے، کسی طرف سے نِکل کے اُڑ جائے تو جانیے کہ میں بنکیت نہیں۔ اُنہی پر

189

منحصر نہیں، بانک کی یہی تعریف ہے اور ہر استاد اس کا دعویٰ کر سکتا تھا۔ لکھنؤ میں ایک تیسرے استاد ولی محمد خاں تھے۔ نصیر الدّین حیدر کے زمانے میں شیخ نجم الدّین کے شاگرد کے شاگرد میر عباس کا نام مشہور تھا۔ اور اُن کے چار شاگرد نامور ہوئے۔ جن میں سے ایک تو ڈاکو تھا۔ باقی تین مہذّب شرفا تھے۔ اِس فن کے آخری اُستاد جعفر علی تھے جو لکھنؤ کی تباہی کے بعد واجد علی شاہ کے ساتھ مٹیا برج میں پہنچے۔ انہیں میں نے دیکھا تھا اور بچپن میں خود اُن کا شاگرد ہوا تھا۔ مگر وہ دو ایک مہینے سیکھ کے چھوڑ دیا اور جو کچھ سیکھا تھا خواب و خیال سا رہ گیا۔ اب نہیں جانتا کہ کوئی جاننے والا بھی باقی ہے یا نہیں۔

(۴)بنوٹ

اس فن کی اصلی غرض یہ ہے کہ حریف کے ہاتھ سے تلوار، لٹھ یا کوئی حربہ ہو، گرا دے۔ اور ایک رومال سے جس میں پیسا بندھا ہوا کرتا ہے یا اپنے ہاتھ ہی سے حریف کو ایسا صدمہ پہنچائے کہ اُس کا کام تمام ہو جائے۔ اس فن کی نسبت لکھنؤ میں ابتدا سے مشہور تھا کہ اس کے بڑے بڑے زبردست اُستاد حیدر آباد دکن میں ہیں۔ اور وہاں جانے اور دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ واقعی وہاں اب تک یہ فن ایک حد تک زندہ ہے۔ واقف کار لوگوں کا بیان ہے کہ کھڑے ہو کے مقابلے کرنے والا صاحبِ فن اگر نہتا ہے تو کُشتی ہے۔ اُس کے ہاتھ میں چھُری ہے تو بانک ہے۔ اور اگر کوئی دو گز کا لمبا سونٹا یا رومال اس کے ہاتھ میں ہے، تو بنوٹ ہے۔ بنوٹ والے بھی اپنے فن کو مخفی رکھتے ہیں اور باہمی عہد ہے کہ صرف شریف کو سکھائیں گے اور اس سے عہد لے لیتے ہیں کہ کبھی زیر دست یا بے آزار آدمی پر حربہ نہ کریں گے۔ بنوٹ والوں کے پینترے ہیں جنہیں وہ پاولے کہتے ہیں، بہت ہی اعلیٰ درجے کے پھرتیلے پن

190

اور بے انتہا صفائی چاہتے ہیں، جو زیادہ عُمر والوں کو نہیں حاصل ہو سکتے۔ اس کے علاوہ بنوٹ والوں کو جسمِ اِنسانی کے تمام رگ پٹھّوں کا پورا علم ہوتا ہے اور خوب واقف ہوتے ہیں کہ کِس مقام پر اُنگلی سے دبا دینا ایک معمولی چوٹ انسان کو بے تاب و بے دم کر دے گی۔ اگرچہ اس فن کے لیے حیدر آباد مشہور تھا مگر لکھنؤ میں بھی اس کے بہت سے باکمال موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سے ہم پہلے محمد ابراہیم خاں، رام پور سے لائے تھے۔ طالب شیر خاں یہاں ایک بڑے زبردست بانکے تھے اور تلوار کی دھنی، انہوں نے جو ابراہیم خان کا دعرویٰ سنا تو تلوار لے کے مقابلے کو تیّار ہو گئے۔ محمد ابراہیم خان نے بھی مقابلہ منظور کر لیا۔ طالب خاں نے جیسے ہی تلوار ماری، محمد ابراہم خاں نے اپنا رومال جس کے کونے میں پیسہ بندھا ہوا تھا، کچھ ایسی خوبی سے مارا کہ طالب خاں کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر جھن سے دور جا گری منہ دیکھ کے رہ گئے اور سب نے محمد ابراہیم خاں کی اُستادی کا اعتراف کیا۔

اس کے بعد لکھنؤ میں آخر تک یہ فن رہا۔ یہاں تک کہ مٹیار بُرج میری بھی محمد مہدی نام ایک شخص جو نواب معشوق محل کے وہاں کے داروغہ تھے، بٹوٹ کے باکمال اُستاد مانے جاتے تھے۔

(۵) کُشتی

فن خاص خاص آریوں کا تھا، ہندوستان میں بھی اور ایران میں بھی۔ عرب اور ترک اس سے بالکل نا آشنا تھے۔ ہندوستان کے قدیم باشندوں میں، جو آریا لوگوں سے پہلے تھے، اس فن کا پتا نہیں چلتا۔ لکھنؤ میں پیچوں اور حریف کے زیر کرنے کے طریقوں کا بہت نشوونما ہوا۔ مگر کُشتی کا اصلی دارومدار جسمانی قوّت پر ہے اور قوّت میں، لکھنؤ والے لاکھ کوشش کریں، مشرقی ممالک، خاصتہً

191

پنجاب کے لوگوں کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لکھنؤ کی آب و ہوا کو قدرت نے یہ صلاحیت ہی نہیں دی ہے کہ اُس کی خاک سے غلام وغیرہ کے ایسے پیل تن پہلوان پیدا ہوں۔ اس لیے لکھنؤ کا کُشتی کا فن صرف پچیتی کا کمال دکھانا تھا جس میں زیادہ سے زیادہ اپنے سے دونے پر غلبہ حاصل ہو جاتا۔ مگر اِس سے زیادہ طاقت والے کو زیر کرنا غیر ممکن تھا۔ لکھنؤ کے اکھاڑوں اور اگلے پہلوانوں کے قصّے بہت مشہور ہیں۔ مگر سب پچیتی کے لحاظ سے منہ زور آوری کے اعتبار سے۔ ایک بار میں نے یہاں کے ایک مشہور پہلوان سیّد کی لڑائی ایک دونے قد کے پنجابی پہلوان سے دیکھی۔ اس میں شک نہیں کہ سیّد کی لڑائی ابتدا سے نہایت خوب صورت تھی۔ اس کی چلت پھرت اور اس کا پھُرتیلا پن قابلِ تعریف تھا۔ مگر انجام یہ ہوا کہ گھنٹا بھ مریں سیّد پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ طاقت جواب دے چکی تھی اور دم پھُول گیا تھا۔ اور پنجابی پہلوان پر، جو اُسے کھلا رہا تھا، کچھ اثر نہ ہوا تھا۔ آخر سیّد خود ہی میدان چھوڑ کے بھاگ گیا اور بے لڑے ہار مان لی۔

(۶) برچھا

جنگ جوئی کا یہ پُرانا فن ہے جو آریوں، ترکوں اور عربوں، سب میں تھا۔ عربوں کا برچھا لمبا ہوتا اور اُس کا پھل تِکُنّا۔ ترکوں کا برچھا چھوٹا ہوتا اور پھل گول نوک دار یعنی مخروطی۔ اور ہندوستان کے آریوں کا برچھتا لمبا ہوتا مگر اس کا پھل پتلا، باڑھ دار، پان کی قطع کا۔ اور تعجّب یہ ہے کہ تینوں طرح کے نیزے لکھنؤ میں موجود تھے۔ بڑے برچھے پانچ گز کے لمبے ہوتے اور چھوٹے برچھے تین گز کے۔ بڑے برچھے کی تعریف یہ تھی کہ خوب لچکے، یہاں تک کہ دُہرا ہو جائے۔ اور چھوٹے کی یہ تعريف تھی کہ اُس میں نام کو بھی لچک نہ ہو۔ اور اسی مناسبت سے دونوں کے چَلانے کے فن جدا جدا تھے۔ لکھنؤ کے مشہور اور اصلی برچھیت میر کلّو تھے جن کا نام برہان الملک کے زمانے ہی میں چمک گیا تھا۔ اُن کے بعد میر اکبر علی برچھیت مشہور ہوئے۔ پھر بریلی اور

192

رام پور سے اکثر برچھیت آنا شروع ہو گئے۔ غازی الدّین حیدر کے زمانے میں بادشاہ کو ہاتھیوں کے شکار کا شوق ہوا تو برچھے کا فن جاننے والوں کی بڑی قدر ہوئی اور لڑائیوں میں یہ حربہ زیادہ کام دینے لگا۔ افسوس، یہ قدیم حربہ جس سے بڑی بڑی پُرانی قوموں کے نام وری پیدا کی تھی، لکھنؤ میں اصلی نقلی طور پر آج بھی کثرت سے باقی ہے، مگر صرف براتوں کے جلوس کا کام دیتا ہے۔

(۷) بانا

یہ فن بھی ادنیٰ درجے کے لوگوں میں تھا اور کسی حد تک آج بھی باقی ہے۔ لٹھ کی لڑائی کے ہاتھ اور زدیں اسی سے نکلی ہیں۔ غرض و غایت بانے کی بھی یہ ہے کہ بانا یا لٹھ چلاتا ہوا انسان دشمنوں کے نرغے میں سے نکل جائے۔ بانا ایک لمبی لکڑی کا نام تھا جس کے ایک طرف لٹّو ہوتا۔ اور بعض دونوں طرف لٹّو رکھتے اور اس طرح ہلاتے کہ کوئی قریب نہ آ سکتا۔ بعض لوگ لٹوؤں میں کپڑا باندھ کے اور تیل میں ڈبو کے انہیں روشن کرتے اور اس طرح ہلاتے کہ اپنے اوپر آگ کا مطلق اثر نہ ہو اور دشمن آگ کی وجہ سے دُور ہی دُور رہے۔

(۸) تیر اندازی

یہ دنیا کی تمام جنگجو قوموں کا پرانا حربہ اور عہدِ قدیم کی بندوق ہے جس میں بڑے بڑے کمالات دکھائے جاتے اور شریف و رزیل سب اس کی تعلیم لازمی سمجھتے۔ یہی حربہ ہے جس سے راجہ رام چندر جی اور ان کے بھائی لچھمن نے راون اور اس کے ایسے کوہ پیکر حریفوں کو مار کے گِرا دیا۔ اگرچہ بندوق کی ایجاد نے اُس کا زور کم کر دیا تھا، مگر پھر بھی سپہ گری کا اعلیٰ جوہر تیر اندازی سمجھی جاتی۔ کمانیں اتنی کڑی رکھی جاتی تھیں کہ اُن کا چلّا کھینچنا ہر ایک کے لیے آسان نہ تھا۔ بلکہ جس کی کمان جتنی

193

زیادہ کڑی ہوتی، اُسی قدر زیادہ اُس کا تیر دُور جاتا اور کاری ہوتا۔ عربوں نے اپنی فتوحات کے زمانے میں تیر اندازی کے ایسے ایسے کمالات دکھائے ہیں جو حیرت انگیز ہیں۔ اُمِّ ابان نام دس پانچ ہی روز کی بیاہی ہوئی ایک عربیہ دلہن نے فتح دمشق کے موقع پر اپنے شہید دولہا کے انتقام میں ایسے زبردست تیر برسائے کہ پہلے نہ دشمنوں کے علم بردار کو مار کے گرا دیا اور دوسرا دشمنوں کے بہادر سردار ٹامس کی آنکھ میں اس طرح پیوست ہو گیا کہ کسی کے نکالنے سے نہ نکل سکا اور آخر گانسی کاٹ کے آنکھ ہی میں چھوڑ دی گئی۔

اودھ کے پاسی اور بھر اس فن کو پہلے سے بخوبی جانتے تھے۔ پھر نئے نئے استاد دہلی سے آئے اور آصف الدّولہ کے عہد میں استاد فیض بخش نے بادشاہ کے اشارے سے مرزا حیدر کے والد کو جو ہاتھی پر سوار آ رہے تھے، ایسی پھرتی سے تیر مارا کہ نہ کسی نے اُن کو نشانہ بازی کرتے دیکھا اور نہ انہیں خبر ہوئی۔ حالانکہ کہ تیر پٹکے کو توڑ کے نکل گیا تھا۔ وہ آخر تک بے خبر رہے۔ گھر پہنچ کے پٹکا کھولا تو وہ خون آلود تھا اور ساتھ ہی زخم سے خون کا فوّارہ چھوٹا اور دم بھر میں مر گئے۔

اس کی تعلیم کا طریقہ بھی مشکل تھا۔ مگر اب یہ فن دنیا کی تمام متمدّن قوموں میں فنا ہو گیا۔ اس لیے کہ موجودہ آتش بار اسلحہ نے اسے بالکل بے کار کر دیا ہے۔ مگر ہندوستان کی وحشی قوموں میں آج تک باقی ہے جو شکار اور درندوں کے مارنے میں عموماً اور کبھی باہمی جنگ و پیکار میں بھی تیروں سے کام لیا کرتی ہیں۔

(۹) کٹار

یہ پرانا خاص آریا قوم کا حربہ تھا اور آخر میں اُس سے زیادہ تر چور اور قزّاق کام لیتے۔ اِس سے حریف پر ٹوک کے حملہ نہ کیا جاتا بلکہ اُسے غافل رکھ کے حملہ کیا جاتا۔ اسی

194

وجہ سے غالباً دہلی میں بھی اور خاصّتہً لکھنؤ میں شرفا نے اُس سے کام لینا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ کٹار سب باندھتے مگر اِس سے لڑنا اور حربہ کرنا کوئی نہ جانتا تھا۔ اس سے حربہ کرنے کی تعریف یہ تھی کہ جب چاہیں تو حربہ کریں مگر دشمن کے جسم میں کہیں خراش بھی نہ آئے اور جب چاہیں تو قبضے تک پار ہو جائے۔ اِس سے چور اکثر راتوں کو غافل اور سوتے حریف پر حملہ کرتے اور چھپ کے اس کا کام تمام کر آتے۔

(۱۰) جل بانک

یہ وہی بانک کا مذکورہ فن تھا جو پیراکی اور شناوری سے وابستہ کر دیا گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ گہرے پانی میں دشمن پر قابو حاصل کریں اور اُسے باندھ لائیں۔ ہا پانی ہی میں اس کا کام تمام کر دیں۔ تاریخ میں اور کسی جگہ اس کا تذکرہ نہیں۔ مگر لکھنؤ میں پیرنے کے ایک استاد میرک جان نے اسے ایجاد کیا۔ اور سینکڑوں شاگردوں کو سکھایا۔ بادی النّظر میں اس کی ایجاد لکھنؤ ہی میں ہوئی اور آج بھی پیراکی بعض یہیہں کے استاد جانتے ہیں اور کہیں اس فن کا نام و نشان بھی نہیں۔

پرائیوں میں لکھنؤ نے جو ترقّی کی، اس کا تذکرہ ہم آیندہ کریں گے۔

(۱۸)

اردو میں مثل مشہور ہے کہ ”بڑھاپے میں انسان کی قوّت شہوانی، زبان میں آ جایا کرتی ہے۔“ ویسے ہی بہادروں اور جاں بازوں کی قوّت و شجاعت کی نسبت اکثر تجربہ ہوا ہے کہ جب کم زوری آتی ہے یا ہاتھ پیروں کی طاقت جواب دیتی ہے تو ساری بہادری اور شجاعت دست و بازو سے نکل کے زبان اور آنکھوں میں جمع ہو جاتی ہے۔ اب وہ اپنی گذشتہ شجاعت و نام وری کے افسانے بیان کرتے اور شجاعت کے

195

کارنامے اپنی ذات سے نہیں دکھاتے بلکہ اُن کا تماشا لڑنے والے جانوروں کے ذریعے سے دیکھتے اور دوسروں کو دکھا دکھا کے داد طلب ہوتے ہیں۔

یہی حال لکھنؤ کا ہوا، جب لوگوں کو ملک گیری وصف آرائی سے فرصت ملی اور میدانِ جنگ میں کھڑے ہونے کا حوصلہ نہ رہا تو جنگ جوئی کے جذبات نے جانوروں کو لڑا لڑا کے جاں بازی اور خوں ریزی کا تماشا دیکھنے کا مشغلہ پیدا کیا۔ یہ شوق یوں تو تھوڑا بہت سب جگہ ہے، مگر اِس میں حبس قدر انہماک اہلِ لکھنؤ کو ہوا اور اِن بے نتیجہ بلکہ سنگ دلی کی دلچسپیوں کو ان لوگوں نے جس درجہ کمال کو پہنچا دیا، اور مقامات کے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہ گزرا تھا۔ اور اگر غور سے دیکھیے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اِس شوق اور اِن مشاغل کے جیسے کرشمے اور دل کشن تماشے سوادِ لکھنؤ میں دیکھے گئے، دہلی یا ہندوستان کا کوئی دربار درکنار، غالباً ساری دنیا کے کسی شہر میں نہ دیکھے گئے ہوں گے۔

لکھنؤ میں غیر کی شجاعت سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا یہ شوق تین طریقوں سے پورا کیا گیا۔ (الف) درندوں اور چوپایوں کو لڑا کے (ب) طيور کو لڑا کے (ج) تُکلیں اور کنکوڑے لڑا کے یعنی پتنگ بازی کے ذریعے سے۔ ان تینوں قسموں کو ہم بہ قدر اپنی جستجو اور معلومات کے جُدا جُدا تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیں۔

قسم اوّل یعنی درندوں اور چوپایوں کی لڑائی کا تماشا یہاں مندرجہ ذیل جانوروں کو لڑا کے دیکھا گیا، (۱) شیر، (۲) چیتے (۳) تیندوے (۴)ہاتھی (۵) اونٹ (۶) گینڈے (۷) بارہ سنگھے (۸) مینڈھے۔

درندوں سے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سُنا گیا تھا۔ یہ اصلی مذاق پُرانے رومیوں کا تھا، جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ

196

مذاق چھوٹ گیا تھا۔ مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالکِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں غازی الدّین حیدر بادشاہ کو غالباً اُن کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا۔ بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے اور چند ہی روز میں شاہی دلچسپی اِن خوفناک اور وحشیانہ لڑائیوں میں ایسی بڑھی کہ کوئی امکانی کوشش نہیں اُٹھا رکھی گئی۔ موتی محل میں عین لبِ دریا دو نئی کوٹھیاں، مبارک منزل اور شاہ منزل تعمیر کی گئیں۔ ان کے مقابل دریا پار کوسوں تک ایک فرحت بخش سبزہ زار چلا گیا تھا جس میں آہنی کٹہرے سے گھیر کے ایک وسیع رمنا بنایا گیا تھا۔ اس میں قسم قسم کے ہزار ہا جانور لا کے چھوڑے گئے تھے اور درندے کٹہروں میں بند کر کے رکھّے گئے تھے۔ اسی رمنے کے سلسلے میں دریا کنارے ہی وحشی جانوروں کے لڑانے کے لیے بڑے بڑے میدان بانس کے ٹھاٹھروں یا آہنی حصار سے محفوظ کیے جاتے، جو شاہ منزل کے عین محاذی دریا کے اُس پار ہوتے۔ دریا کا پاٹ وہاں بہت کم ہے۔ بادشاہ اور اُن کے مہمان و مصاحبین شاہ منزل کے بالائی صحن پر گنگا جمنی شامیانوں کے سائے میں بیٹھ کے اطمینان اور آرام سے سیر دیکھتے اور پار کے محصور میدان میں درندوں کی قیامت خیز لڑائی کا محشر بپا ہوتا۔ درندوں اور مست ہاتھیوں کا لڑانا تو آسان ہے، مگر اُس کی سنبھال نہایت ہی مشکل ہے۔ ایک مست ہاتھی یا شیر کٹہرے سے چھوٹ جاتا ہے تو شہروں میں بھگدڑ پڑ جاتی ہے اور بہت سی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ مگر یہاں لوگ اس خوف ناک کام میں اس قدر ہوشیار ہو گئے تھے کہ اس وقت جو یورپین سیاح دربار میں موجود تھے خود اپنی تحریروں میں اقرار کرتے ہیں کہ وحشی جانوروں کے پالنے، سدھانے اور اُن کی داشت اور سنبھال کرنے والے آدمی لکھنؤ سے بہتر دنیا بھر میں کہیں نہیں ہیں۔ یہی لوگ ہاتھیوں اور درندوں کو لا کے چھوڑتے، ان کو اپنے بس میں رکھتے، اُن کے ہارتے وقت

197

غالب و مغلوب دونوں درندوں کو اپنے قابو میں کرتے۔ اس کام کے لیے سینکڑوں سانٹے مار اور بلّم بردار مقّرر تھے جو انہیں مارتے اور اپنے آپ کو اُن کے حملوں سے بچاتے۔ لوہے کی دہکتی ہوئی سلاخوں اور آتش بازیوں سے ان کو جدھر چاہتے موڑتے اور جہاں چاہتے ہنکا لے جاتے۔ شیروں اور تیندوؤں کو کٹہروں میں بند کرتے۔ غرض اُن لوگوں کی پھُرتی، چالاکی، اور چلت پھرت اور ہوشیاری خود جانوروں کی لڑائی سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز تھی۔ اِن باتوں کو دیکھ کر دم بھر میں نظر آ جاتا کہ اِن بڑے بڑے دیو ہیکل جانوروں اور مہیب وحشی درندوں پر انسان دنیا میں کن اسباب سے غالب آیا ہے۔ اب ان جانوروں میں سے ہر ایک کی لڑائی کا جداگانہ حال سنیے، جو غالباً لطف سے خالی نہ ہو گا۔

۱: شیر

بادشاہ نے بہت سے شیر جمع کر رکھے تھے۔ جو نیپال کی ترائی سے پکڑ پکڑ کے لائے جاتے۔ ان میں سے بعض بہت بڑے تھے۔ بعض مختلف لڑائیوں میں غالب آ کے، بادشاہ کو بہت عزیز ہو گئے تھے۔ لڑائی کے لیے اُن کے کٹہرے میدان کے حصار کے پاس لا کے کھول دیے جاتے۔ دونوں حریف چھوٹتے ہی غرّا کے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے اور دانتوں اور پنجوں سے ایک دوسرے کو زخمی کرتے، باہم گتھ جاتے۔ کبھی یہ اس کو گرا کے اوپر چڑھ بیٹھتا۔ کبھی وہ اس کو زیر کرتا۔ دیر تک ایک نہایت ہولناک لڑائی ہوتی رہتی، جس میں کبھی تو ایک حريف جان سے مارا جاتا، اور کبھی سخت زخمی ہو کے ہمّت ہارتا۔ کثرت سے خون نکل جانے کے باعث کمزور ہو کے بھاگتا اور حریف غصّے سے اُس کا تعاقب کرتا۔ اس وقت ان دونوں کے سنبھالنے اور قابو میں لانے کے لیے لڑانے والوں کا کمال اور ان کی دوڑ دھوپ اور کارستانیاں

198

دیکھنے کے قابل ہوتیں۔

شیر اکثر تيندوؤں سے لڑائے جاتے۔ مگر یہاں ایسے ایسے زبردست تیندوے تھے جن سے شیر بہت ہی کم جیت سکتا۔ ان کی لڑائی کی شان بھی وہی ہوتی جو شیروں کے باہم لڑنے کی ہے۔ کبھی کبھی شیر اور ہاتھی بھی لڑا دیے جاتے۔ مگر ان کی لڑائی جوڑ کی نہ ہوتی اور اس کے نتیجے بھی خلافِ اُمید مختلف قسم کے ہوتے۔ اگر ہاتھی خوب جیالا ہو تو شیر بہت کم اس سے پیش پا سکتا تھا۔ سب سے زیادہ پُر لطف لڑائی شہر اور گینڈے کی ہوتی۔ گینڈا سِوا پیٹ کے حصّۂ زیریں کے، روئیں تن واقع ہوا ہے۔ اس پر نہ شیر کے دانت اثر کرتے نہ پنجے۔ اسی قدر مضبوطی کے زعم میں وہ کسی زبردست سے زبردست حریف کی پروا نہیں کرتا۔ اور خود جب سر جھکا کے حریف کے پیٹ کے نیچے گھُستا ہے تو اپنے بانسے کے اوپر والا ہوں ناک سینگ پیٹ میں اس طرح پیوست کر دیتا ہے کہ آنتیں باہر نِکل پڑتی ہیں اور حریف کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا کہ شیر نے گینڈے کو چاروں شانے چِت کر کے اسے ناخنوں اور دانتوں سے اُس کا پیٹ پھاڑ ڈالا ہو۔ ورنہ اکثر یہی ہوتا کہ گینڈا اپنا سینگ بھونک کے شیر کو مار ڈالتا۔

مگر سب سے زیادہ حیرت ناک چیز یہ ہے کہ نصیر الدّین حیدر بادشاہ کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک گھوڑے کے مقابلے میں شیروں کو بڑی زِک اُٹھانا پڑی۔ یہ عجیب و غریب گھوڑا تھا جو مردم آزاری میں درندوں سے بھی بڑھ گیا تھا۔ مجال نہ تھی کہ کوئی آدمی اُس کے پاس جائے۔ دانہ دُور سے اُس طرف بڑھا دیا جاتا۔ اور جب چھوٹ جاتا، بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر ڈالتا۔ جو سامنے آتا، اُسے مار کے ہڈیاں پسلیاں چبا ڈالتا اور لاش ایسی بگاڑ دیتا کہ پہچانی نہ جاتی۔ مجبوراً تجویز ہوئی کہ اِس پر چھوڑ دیے جائیں۔ چناںچہ بھوریا نام شیر جو بادشاہ کو عزیز تھا، اور اکثر بازیاں لے چکا تھا، اُس پر چھوڑا گیا۔ گھوڑا بجائے اس کے شیر سے خوف کھائے، لڑنے کو تیّار ہو گیا۔ اور جیسے ہی شیر جست کر کے اُس پر

199

آیا، اُس نے اِس طرح اگلا جسم جھُکایا کہ شیر پُشت پر گرا اور اس کے پٹھوں میں ناخنوں کے خنجر پیوست کر دیے۔ ساتھ ہی گھوڑے نے اِس زور سے پشتک ماری کہ شیر قلابازیاں کھاتا ہوا دُور جا گِرا۔ مگر پھر سنبھلا اور چند منٹ اِدھر اُدھر تاوے کے پھر جست کر کے گھوڑے پر جا رہا۔ گھوڑے نے پھر وہی حرکت کی کہ اگلا جسم جھکا دیا۔ شیر پٹھّوں پر جا پڑا۔ اور اِرادہ کیا کہ اسے پنجوں سے گرا کے مار ڈالے۔ مگر گھوڑے نے اب کی اس زور سے دولتّی جھاڑی کہ شیر کے جبڑے ٹوٹ گئے اور چاروں شانے چت دُور جا گِرا۔ لیکن اس چوٹ سے شیر نے ایسی ہمّت ہار دی تھی کہ گھوڑے کی طرف پیٹھ پھیر کے بھاگنے لگا، اور تماشائی حیران رہ گئے۔ تب دوسرا اُس سے بڑا شیر چھوڑا گیا۔ اس نے رُخ ہی نہ کیا۔ مجبوراً وہ شیر بھی ہٹا لیا گیا۔ اور تین ارنے بھینسے چھوڑے گئے۔ وہ بھی گھوڑے سے نہ بولے اور گھوڑے نے بڑھ کے، بے چھیڑ، ایک بھینسے پر اس زور سے دولتّی جھاڑی کہ وہ بھینسا تیورا گیا۔ اور اس کے دونوں ساتھی اس طرح سر ہلانے لگے گویا داد دے رہے ہیں کہ ہاں! یہ ہوئی! آخر گھوڑے کی جان بخشی کی گئی اور نصیر الدّين حیدر نے کہا: ”میں اس کے واسطے ایک آہنی کٹہرا بنوا دوں گا اور اس کی پرورش کا بھی سامان کر دوں گا۔ ابّا جانی کے سر کی قسم، یہ بڑا بہادر ہے۔“

۲: چیتا

سب ہی درندے لڑائی کے لیے دو ایک دن پیشتر سے بھوکے رکھے جاتے ہیں، مگر چیتے کے بارے میں اِس کا خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اِس لیے کہ چیتا جس قدر زیادہ ظالم و خوں خوار ہے، اُسی قدر بعض وقت بُزدل بھی ثابت ہوتا ہے۔ على العموم بگڑے امیر زادوں کی طرح وہ خوشامد طلب خیال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ میدان میں جب اِس کا جی چاہے، لڑتا ہے اور جب نہ جی چاہے، لاکھ جتن کرو، نہیں لڑتا۔ لڑائی میں

200

وہ کتراتا اور کنیاتا ہوا حریف پر جانا ہے، پہلے جست کر کے ایک دوسرے کو زخمی کرنا چاہتا ہے، ایسی دو ایک جستوں کے بعد دونوں پچھے پاؤں پر کھڑے ہو کے پنجوں سے لڑنے لگتے ہیں۔ یہ بڑی خُون ریز لڑائی ہوتی ہے جس میں دونوں غرّاتے جاتے ہیں اور حریف پر پنجے مارتے جاتے ہیں۔ آخر زبردست کم زور کو گِرا کے، مار مار کے، حریف کا کام تمام کر دیتا ہے۔ مگر خود بھی سر سے پاؤں تک زخمی ہو جاتا ہے۔

۳: تیندوا

تیندوا چھوٹے پیمانے کا شیر ہوتا ہے، مگر کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ میں شیروں سے اکثر لڑنے والے تیندوے تھے، جو قیامت کی لڑائی لڑتے اور اکژر شیروں پر غالب آ جاتے۔ تیندوے کی لڑائی بالکل شیروں کی سی ہوتی ہے۔ لڑتے لڑتے دونوں حریف سخت زخمی ہو جاتے ہیں۔ اور مغلوب حریف کبھی تو وہیں میدان میں گِر کے مر جاتا ہے اور کبھی دشمن سے ہار کے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔

۴: ہاتھی

لکھنؤ میں ہاتھیوں کی لڑائی بہت پسند کی جاتی تھی اور نہایت دلچسپ سمجھی جاتی۔ اور یہ شوق اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ نصیر الدّین حیدر بادشاہ کے زمانے میں ڈیڑھ سو لڑائی کے ہاتھی تھے جن کو سواری سے تعلق نہ تھا۔ ہاتھیوں کی لڑائی کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ مست ہو گئے ہوں۔ اس لیے کہ ہاتھی جب تک مست نہ ہوں، نہیں لڑتے۔ اور لڑیں بھی تو اُن میں فتحیابی اور حریف پر غالب آنے کا سچا جوش اور غصّہ نہیں ہوتا۔

لڑائی کے وقت اُن کی گردن سے دُم تک ایک رسّا بندھا ہوتا ہے۔ حریف کا سامنا ہوتے ہی دونوں حریف سونڈیں اور دُمیں اُٹھا کے زور سے چنگھاڑتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں، اور بڑی زبردست ٹکّر ہوتی ہے۔ اِس کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 271

اور غذاؤں کی قیمت میں صرف ہوتی تھی۔ دوسرے، سرکاری چھوٹے باورچی خانے سے جس کے مہتم پہلے تو مرزا حسن علی مہتمم توشہ خانہ تھے، لیکن بعد ازاں وہ عنبر علی خاں خواجہ سرا کے سپرد ہو گیا تھا۔ اس میں تین سو روپے روز یعنی ایک لاکھ آٹھ ہزار روہے ہر سال کھانوں کی تیاری میں صرف ہوتے۔ تیسرے، خود بہو بیگم صاحبہ کے محل کے اندر کا باورچی خانہ، جس کا مہتم بہار علی خاں خواجہ سرا تھا، چوتھے، نواب بیگم صاحبہ یعنی شجاع الدولہ کی والدہ محترمہ کے باورچی خانے سے۔ بانچویں، مرزا علی خاں کے باورچی خانے سے اور چھٹے، نواب سالار جنگ کے باورچی خنے سے۔ آخر الذکر دونوں رئیس، بہو بیگم صاحبہ کے بھائی اور شجاع الدولہ بہادر کے سالے تھے۔

اُس عہد کے یہ چھے باورچی خانے، شاہی باورچی خانے کےہم پلہ تھے۔ اور جن میں روز پُرتکلف اور لذیذ کھانے، فرماں رواے وقت کے خاصے کے لیے تیار کیے جاتے۔ ایک دن کسی کھانے میں، جو بڑے سرکاری باورچی خانے سے آیا تھا، خاص نواب صاحب کے سامنے ایک مکھی نکل آئی۔ نواب نے برہم ہو کے دریافت کیا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے؟ دھنیا نے خیال کیا کہ اگر سرکاری باورچی خانے کا نام لیتی ہوں تو مولانا بھائی کی قضا آ جائے گی، بولی : حضور! یہ کھانا نواب سالار جنگ بہادر کےیہاں سے آیا ہے۔

نواب شجاع الدولہ کے بعد دربار، فیض آباد سے لکھنؤ میں منتقل ہو آیا اور نواب آصف الدولہ نے مرزا حسن رضا خاں کو سرفراز الدولہ خطاب دے کے، خلعتِ وزارت سے سرفراز کیا تو داروغگی باورچی خانہ کو اپنی شان کے خلاف خیال کر کے، انہوں نے مولوی فضل عظیم صاحب کو مستقل مہتم باورچی خانہ سرکاری مقرر کرا دیا۔ مگر مولوی فضل عظیم صاحب پہلے جس طرح خاصے کے خوان لے کے بہو بیگم صاحبہ کی ڈیوڑھی پر حاضر ہوا کرتے تھے، اُسی طرح اب لکھنؤ میں نواب آصف الدولہ بہادر کی ڈیوڑھی پر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 272

حاٖضر ہونے لگے اور اپنے دیگر اعزہ کو بھی بلا کے اپنے کام میں شریک کر لیا۔ جن میں ان کے سگے بھائی مولوی فائز علی اور چچازاد بھائی غلام عظیم اور غلام مخدوم زیادہ پیش تھے۔ اور باری باری چاروں بھائی ڈیوڑھی پر خاصہ لے جایا کرتے۔

آصف الدولہ بہادر کے بعد وزیر علی خاں کے چند روزہ عہد میں تفضل حسین خاں وزیر ہوئے تو اُنہوں نے ان برادران صفی پور کو ہٹا کے، ایک اپنے آوردے غلام محمد عرف بڑے مرزا کو مہتم باورچی خانہ مقرر کر دیا۔

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ کو اپنے ابتدائی عہد ہی میں ایسے بڑے بڑے زبردست اور شوقینی کے باورچی خانے نصیب ہو گئے جن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ نہایت ہی اعلا درجے کے باورچی تیار ہوں، غذاؤں کی تیاری میں تکلفات بڑھیں، جدت طرازیاں ہوں، اور جو صاحب کمال باورچی دہلی اور دیگر مقامات سے آئے ہوں، وہ یہاں کی خراد پر چڑھ کے، اپنے ہُنر میں خاص قسم کا کمال اور اپنے تیار کیے ہوئے کھانوں میں نئی طرح کی نفاست اور خاص قسم کی لذت پیدا کریں۔

یہ معمول ہے کہ جو کام جس شخص کے ذریعے سے ہوتا ہے، وہ اس میں کچھ نہ کچھ ترقی ضرور کرتا ہے اور اُس کا شوقین بن جاتا ہے۔ چنانہ لکھنؤ میں کھانے کے ابتدائی شوقین بھی وہی رؤسا تسلیم کیے جاتے ہیں جن کے باورچی خانوں کا اوپر ذکر آ چکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ خود حسن رضا خاں سرفراز الدولہ کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ کھانا کھلانے کے وہ نہایت ہی شائق تھے۔ اور جب ان کی یہ مذاق دیکھ کے، اعلا ترین سرکاری باورچی خانہ ان کے سپرد ہو گیا، تو انہیں اپنے شوق کے فن میں ایجاد و اختراع کا کہاں تک موقع نہ ملا ہو گا؟

اور اسی کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ یوں تو اس سرزمین میں کھانے کے شوقین صدہا رئیس پیدا ہو گئے، مگر نواب سالار جنگ کے خاندان کو آخر تک الوانِ نعمت کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 273

ایجاد و ترقی میں خاص شہرت ہوئی۔

معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خود نواب سالار جنگ کا باورچی، جو صرف ان کےلیے کھانا تیار کیا کرتا تھا، بارہ سو 1200 روپے ماہ وار تنخواہ پاتا تھا۔ جو تنخواہ آج بھی کسی بڑے سے بڑے ہندوستانی دربار میں کسی باورچی کو نہیں ملتی۔ خاص ان کے لیے وہ ایسا بھاری پُلاؤ پکاتا کہ سوا ان کے اور کوئی اُسے ہضم نہ کر سکتا۔ یہاں تک کہ ایک دن نواب شجاع الدولہ نے ان سے کہا: تم نے کبھی ہمیں وہ پُلاؤ نہ کھلایا، جو خاص اپنے لیےپکوایا کرتے ہو؟ عرض کیا : بہت ہے آج حاضر کروں گا۔ باورچی سے کہا : جتنا پُلاو روز پکاتے ہو، آج اس کا دُونا پکانا۔ اُس نے کہا : میں تو صرف آپ کے خاصے کے لیے نوکر ہوں، کسی اور کے لیے نہیں پکا سکتا: کہا : اے، نواب صاحب نے فرمایش کی ہے، ممکن ہے کہ میں ان کے لیے نہ لے جاؤں؟ اس نے کہا : کوئی ہو، میں تو اور کسی کے لیے نہیں پکا سکتا۔جب سالار جنگ نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا : بہتر، مگر شرط یہ ہے کہ حضور خود لے جا کے اپنے سامنے کھلائیں اور چند لقموں سے زیادہ نہ کھانے دیں۔ اور احتیاطً آب دار خانے کا انتظام بھی کر کے اپنے ساتھ لے جائیں۔

سالار جنگ نے یہ شرطیں قبول کیں، آخر باورچی نے پُلاؤ تیار کیا اور سالار جنگ خود لے کے پہنچے اور دسترخوان پر پیش کیا۔ شجاع الدولہ نے کھاتے ہی بہت تعریف کی اور رغبت کے ساتھ کھانے لگے۔ مگر دو ہی چار لقمے کھائے تھے کہ سالار جنگ نے بڑھ کر ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : بس، اس سے زیادہ نہ کھائیے۔ شجاع الدولہ نے حیرت سے ان کی صورت دیکھی اور کہا : ان چار لقموں میں کیا ہوتا ہے؟ اور یہ کہہ کے، زبردستی دو ایک لقمے اور کھا ہی لیے۔ اب پیاس کی شدت ہوئی۔ سالار جنگ نے اپنے آب دار خانے سے، جو ساتھ گیا تھا، پانی منگوا منگوا کے پلانا شروع کیا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 274

بڑی دیرکے بعد خدا خدا کر کے تشنگی موقوف ہوئی اور سالار جنگ اپنے گھر آئے۔

آج کل کے مذاق میں یہ غذا کی کوئی خوبی نہیں سمجھی جا سکتی۔ مگر اس زمانے میں اور پرانے مذاق کے کھانے والوں کے نزدیک اب بھی غذا کی خوبی کا اصلی معیار یہی ہے کہ غذائیں بہ ظاہر نفیس و لطیف ہوں مگر اصل میں اس قدر قوی اور معدے پر گراںہوں کہ ہر معدہ برداشت نہ کر سکے۔

دوسرا کمال یہ تھا کہ کسی ایک چیز کو مختلف صورتوں میں دکھا کے ایسا بنا دیا جائے کہ دسترخوان پر ظاہر میں یہ نظر آئے کہ بیسیوں قسم کے الوانِ نعمت موجود ہیں، مگر چکھیے اور غور کیجیے تو وہ سب ایک ہی چیز ہیں۔ مثلاً معتبر ذرائع سے سنا جاتا ہے کہ دہلی کے شاہزادوں میں سے مرزا آسمان قدر، فرزندِ مرزا خرم بخت، جو لکھنؤ میں آ کے شیعہ ہوئے اور چند روز یہاں ٹھہرنے کے بعد بنارس میں جا کے قیام پذیر ہو گئے۔ قیام لکھنؤ کے زمانے میں واجد علی شاہ نے ان کی دعوت کی تو دسترخوان پر ایک مُربہ لا کے رکھا گیا، جو صورت میں نہایت ہی نفیس و لطیف اور مرغوب معلوم ہوتا تھا۔ مرزا آسمان قدر نے اُس کا لقمہ کھایا تو چکرائے۔ اس لیے کہ وہ مُربہ نہ تھا، بلکہ گوشت کا نمکین قورمہ تھا۔ جس کی صورت رکاب دار نے بعینہ مربے کی سی بنا دی تھی۔ یوں دھوکہ کھا جانے پر اُنہیں ندامت ہوئی اور واجد علی شاہ خوش ہوئے کہ دہلی کے ایک معزز شاہزادے کو دھوکہ دے دیا۔

دو چار روز بع مرزا آسمان قدر نے واجد علی شاہ کی دعوت کی۔ اور واجد علی شاہ یہ خیال کر کے آئے تھے کہ مجھے ضرور دھوکہ دیا جائے گا، مگر اس ہوشیاری پر بھی دھوکہ کھا گئے۔ اس لیے کہ آسمان قدر کے باورچی شیخ حسین علی نے یہ کمال کیا تھا کہ گو دسترخوان پر صدہا الوانِ نعمت اور قسم قسم کے کھانے چُنے ہوئے تھے، پلاؤ تھا، زردہ تھا، بریانی تھی، قورمہ تھا، کباب تھے، ترکاریاں تھیں، چٹنیاں تھیں، اچار تھے،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 275

روٹیاں تھیں، پراٹھے تھے، شیرمالیں تھیں، غرض کہ ہمہ نعمت موجود تھی، مگر جس چیز کو چکھا، شکر کی بنی ہوئی تھی۔ سالن تھا تو شکر کا، چاول تھے تو شکر کے، اچر تھا تو شکر کا اور روٹیاں تھیں تو شکر کی۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں تمام برتن، دسترخوان اور سلفچی، آفتابہ تک شکر کے تھے۔ واجد علی شاہ گھبرا گھبرا کے ایک ایک چیز پر ہاتھ ڈالے تھے اور دھوکے پر دھوکہ کھاتے تھے۔

ہم بیان کر آئے ہیں کہ نواب شجاع الدولہ بہادر کے خاصے پر چھ (6) مقاموں سے کھانے کے خوان آیا کرتے تھے۔ مگر یہ انہی تک منحصر نہ تھا۔ ان کے بعد بھی یہ طریقہ جاری رہا کہ اکثر معزز اُمرا خصوصاً اعزاے شاہی کو یہ عزت دی جاتی کہ وہ خاصے کے لیے خاص خاص قسم کے کھانے بلا ناغہ بھیجا کرتے۔

چنانچہ ہمارے دوست نواب محمد شفیع خاں صاحب بہادر نیشا پوری کا بیان ہے کہ اُن کے نانا، نواب آغا علی حسن خاں صاحب کے گھر سے، جو نیشاپوریوں میں سب سے زیادہ نام ور اور ممتاز تھے، بادشاہ کے لیے روغنی روٹی اور میٹھا گھی جایا کرتا۔ روغنی روٹیاں اس قدر باریک اور نفاست سے پائی جاتیں کہ موٹے کاغذ سے زیادہ گُندہ نہ ہوتیں۔ اور پھر یہ ممکن نہ تھا کہ چٹیاں پڑیں اور نہ یہ مجال تھی کہ کسی جگہ پر کچی رہ جائیں۔ میٹھا گھی بھی ایک خاص چیز تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کرایا جاتا۔

دہلی میں بریانی کا زیادہ رواج ہے اور تھا۔ مگر لکھنؤ کی نفاست نے پلاؤ کو اس پر ترجیح دی۔ عوام کی نظر میں دونوں قریب قریب بلکہ ایک ہی ہیں۔ مگر بریانی میں مسالے کی زیادتی سے، سالن ملے ہوئے چاولوں کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور پلاؤ میں اتنی لطافت، نفاست اور صفائی ضروری سمجھی جاتی ہے کہ بریانی اُس کے سامنے ملغوبہ سی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ معمولی قسم کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 276

پلاؤ سے بریانی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ وہ پُلاؤ، خشکہ معلوم ہوتا ہے، جو عیب بریانی میں نہیں ہوتا۔ مگر اعلا درجے کے پُلاؤ کے مقابل بریانی، نفاست پسند لوگوں کی نظر میں بہت ہی لدھڑ اور بدنما غذا ہے۔ بس یہی فرق تھا جس نے لکھنؤ میں پلاؤ کو زیادہ مروج بنا دیا۔

پلاؤ، یہاں کہنے کو تو سات مشہور ہیں، ان میں سے بھی صرف گلزار پلاؤ،نور پلاؤ، کوکو پلاؤ، موتی پلاؤ اور چنبیلی پلاؤ کے نام ہمیں اس وقت یاد ہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ یہاں کے اعلا درجے کے دسترخوان پر بیسیوں طرح کے پلاؤ ہوا کرتے تھے۔ محمد علی شاہ کے بیٹے مرزا عظیم الشان نے ایک شادی کے موقع پر سمدھی ملاپ کی دعوت کی تھی، جس میں خود فرماں رواے وقت واجد علی شاہ بھی شریک تھے، اس دعوت میں دسترخوان پر نمکن اور میٹھے کل ستر قسم کے چاول تھے۔

غازی الدین حیدر بادشاہ کے عہد میں نواب سالار جنگ کے خاندان سے ایک رئیس تھے۔ نواب حسین علی خاں، انہیں کھانے کا بڑا شوق تھا۔ خصوصاً پلاؤ کا۔ ان کے دسترخوان پر بیسیوں طرح کے پلاؤ ہوا کرتے اور وہ ایسی نفاست اور لطف کے ساتھ تیار کیے جاتے کہ شہر بھر میں ان کی شہرت ہو گئی۔ یہاں تک کہ رؤسا و عمائد میں سے کوئی ان کے مقابلے کی جرأت نہ کر سکتا۔ خود بادشاہ کو ان پر رشک تھا۔ا ور کھانے کے شوقینوں میں وہ "چاول والے" مشہور ہو گئے تھے۔

نصیر الدین حیدر کے عہد میں باہر کا ایک باورچی آیا، جو پستے اور بادام کی کھچڑی پکاتا۔ بادام کے سڈول اور صاف سُتھرے چاول بناتا، پستے کی دال تیار کرتھا اور اس نفاست سے پکاتا کہ معلوم ہوتا نہایت عمدہ، نفیس اور پھریری ماش کی کھچڑی ہے۔ مگر کھائیے تو اور ہی لذت تھی۔ اور ایسا ذائقہ جس کا مزہ زبان کو زندگی بھر نہ بھولتا۔

نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں ایک صاحب کمال باورچی صرف

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 277

چاولوں کی گُلتھی پکاتا، مگر ایسی گُلتھی جو شاہی دسترخوان کی رونق۔ فرماں روائے وقت کو نہایت ہی مرغوب تھی۔ اور شہر کے تمام رئیسوں کو اس کا ایک لقمہ مل جانے کی تمنا تھی۔

مشہور ہے کہ نواب آصف الدولہ کے سامنے ایک نیا باورچی پیش ہوا۔ پوچھا گیا : کیا پکاتے ہو؟ کہا : صرف ماش کی دال پکاتا ہوں۔ پوچھا : تنخواہ کا لو گے؟ کہا : پان سو 500 روپے۔ نواب نے نوکر رکھ لیا۔ مگر اس نے کہا : میں چند شرطوں پر نوکری کروں گا۔ پوچھا : وہ شرطیں کیا ہیں؟ کہا: جب حضور کو میرے ہاتھ کی دال کا شوق ہو، ایک روز پہلے سے حکم ہو جائے اور جب اطلاع دوں کہ تیار ہے، تو حضور اُسی وقت تناول فرما لیں۔ نواب نے یہ شرطیں بھی منظور کر لیں۔ چند ماہ کے بعد اُسے دال پکانے کا حکم ہوا۔ اُس نے تیار کی اور نواب کو خبر کی۔ انہوں نے کہا : اچھا دسترخوان بچھاؤ، میں آتا ہوں۔ دسترخوان بچھا، مگر نواب صاحب باتوں میں لگے رہے۔ اس نے جا کے پھر اطلاع دی کہ خاصہ تیار ہے۔ نواب کو پھر آنے میں دیر ہوئی۔ اس نے سہ بارہ خبر کی اور اس پر بھی نواب صاحب نہ آئے، تو اس نے دال کی ہانڈی اٹھا کے ایک سوکھے پیڑ کی جڑ میں اُنڈیل دی اور استعفا دے کے چلا گیا۔ نواب کو افسوس ہوا۔ ڈھونڈھوایا مگر اس کا پتا نہ لگا۔ مگر چند روز بعد دیکھا تو جس درخت کے نیچے دال پھینکی گئی تھی، وہ سرسبز ہو گیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس واقعے میں مبالغہ ہے، جس نے اسے خلافِ قیاس ہونے کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ مگر اس سے اتنا اندازہ البتہ ہو جاتا ہے کہ دربار میں باورچیوں کی کس درجہ قدر ہوتی تھی اور کوئی صاحب کمال باورچی آ جاتا تو کس فیاضی سے روک لیا جاتا۔

امروں کا یہ ذوق و شوق دیکھ کے باورچیوں نے بھی طرح طرح کی جدت طرازیاں شروع کر دیں۔ کسی نے پلاؤ اناردانہ ایجاد کیا، اس میں ہر چاول آدھا یاقوت کی طرح

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 278

سرخ اور جِلادار ہوتا اور آدھا سفید، مگر اس میں بھی شیشے کی سی چمک موجود ہوتی۔ جب دسترخوان پر لا کے لگایا جاتا تو معلوم ہوتا کہ پلیٹ میں ابلق رنگ کے جواہرات رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اور باورچی نے نورتن پلاؤ پکا کے پیش کیا، جس میں نورتن کے مشہور جواہرات کے مثل، نورنگ کے چاول ملا دیے، اور پھر رنگوں کی صفائی اور آب و تاب، عجیب نفاست اور لطف پیدا کر رہی تھی۔ اسی طرح کی خدا جانے کتنی ایجادیں ہو گئیں جو تمام گھروں اور باورچی خانوں میں پھیل گئیں۔

کھانے کے شوقین اگلے رئیسوں میں سے ایک نواب مرزا خاں نیشاپوری تھے جو کہتے ہیں کہ چودہ ہزار ماہوار کے وثیقہ یاب تھے۔ اچھا کھانے کے شوق میں انہوں نے وہ کمال دکھایا اور ایسے اچھے اچھے باورچی جمع کر لیے کہ شہر میں اُن کے دسترخوان کی دھوم تھی۔ دوسرے مرزا حیدر تھے۔ یہ بھی نیشاپوری اور ایسے محترم رئیس تھے کہ تمام نیشاپوری ان کو اپنا سرتاج اور بزرگ مانتے۔ ان کی شان یہ تھی کہ جس کی دعوت میں جاتے، اُن کا آب دار خانہ، گلوریوں کا سامان اور سو ڈیڑھ سو حقے اُن کے ساتھ جاتے۔ اُن کی اس وضع سے اکثر متوسط الحال لوگوں کو بڑی مدد مل جاتی۔ کسی نہ کسی طرح خوشامد درآمد کر کے اُن سے دعوت قبول کرا لیتے اور اُن کے قبول کر لینے کے یہ معنی تھے کہ محفل میں حقوں، گلوریوں اور پانی کا انتظام اُن کے ذمے ہو گیا۔ اور پھر کیسا انتظام، جو کسی بڑے بڑے رئیس کے بھی امکان سے باہر تھا۔

کھانا تیار کرنے والے تین گروہ ہیں : پہلے، دیگ شو، جن کا کام دیگوں کا دھونا اور باورچیوں کی ماتحتی میں مزدوری کرنا ہے۔ دوسرے باورچی، یہ لوگ کھانا پکاتے ہیں اور اکثر بڑی بڑی دیگیں تیار کر کے اُتارتے ہیں۔ تیسرے، رکاب دار،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 279

یہی لوگ اس فن کے اعلا درجے کے ماہر اور صاحب کمال ہوتے ہیں۔ یہ لوگ علی العموم چھوٹی ہانڈیاں پکاتے ہیں اور بڑی دیگیں اتارنا اپنی شان اور مرتبے سے ادنا خام خیال کرتے ہیں۔ اگرچہ اکثر باورچی بھی چھوٹی ہانڈیاں پکاتے ہیں، مگر رکاب داروں کا کام فقط چھوٹی ہانڈیوں تک محدود تھا۔ یہ لوگ میوہ جات کے پھول کترتے، کھانا نکالتے اور لگانے میں سلیقہ، نفاست، اور تکلف ظاہر کرتے۔ چوبھوں اور قابوں میں جو پلاؤ یا زردہ نکالا جاتا، اُس پر میوہ جات اور دیگر طریقوں سے گل کاریاں کرتے اور نقش و نگار بناتے۔ نہایت نفیس اور لطیف مربے اور اچار تیار کرتے اور کھانوں میں اپنی طبیعت داری سے صدہا قسم کی صنعتیں دکھاتے۔

غازی الدین حیدر پہلے شاہِ اودھ کو پراٹھے پسند تھے۔ اُن کا رکاب دار ہر روز چھ پراٹھے پکاتا۔ اور فی پراٹھا پانچ سیر کے حساب سے 30 سیر گھی روز لیا کرتا۔ ایک دن وزیر سلطنت معتمد الدولہ آغا میر نے شاہی رکاب دار کو بلا کے پوچھا: ارے بھئی، یہ تیس سیر گھی کیا ہوتا ہے؟ کہا : حضور! پراٹھے پکاتا ہوں۔ کہا : بھلا میرے سامنے تو پکاؤ۔ اس نے کہا : بہت خوب۔ پراٹھے پکائے۔ جتنا گھی کھپا کھپایا، اور جو باقی بچا، پھینک دیا۔معتمد الدولہ آغا میر نے یہ دیکھ کے حیرت اور استعجاب سے کہا : "پورا گھی تو خرچ نہیں ہوا؟ اس نے کہا : اب یہ گھی تو بالکل تیل ہو گیا، اس قابل تھوڑے ہی ہے کہ کسی اور کھانے میں لگایا جائے۔ وزیر سے جواب تو نہ بن پڑا مگر حکم دے دیا کہ آیندہ سے صرف پانچ سیر گھی دیا جایا کرے۔ فی پراٹھا ایک سیر بہت ہے۔ رکاب دار نے کہا : بہتر، میں اتنے ہی گھی میں پکا دیا کروں گا۔ مگر وزیر کی روک ٹوک سے اس قدر ناراض ہوا کہ معمولی قسم کے پراٹھے پکا کے بادشاہ کے خاصے پر بھیج دیے۔ جب کئی دن یہی حالت رہی تو بادشاہ نے شکایت کی کہ یہ پراٹھے اب کیسے آتے ہیں؟ رکاب دار نے عرض کیا : حضور!

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 280

جیسے پراٹھے نواب معتمد الدولہ بہادر کا حکم ہے، پکاتا ہوں۔ بادشاہ نے اس کی حقیقت پوچھی تو اس نے سارا حال بیان کر دیا۔ فوراً معتمد الدولہ کی یاد ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا : جہاں پناہ! یہ لوگ خوامخواہ لوٹتے ہیں۔ بادشاہ نے اس کے جواب میں دس پانچ تھپڑ اور گھونسے رسید کیے، خوب ٹھونکا، اور کہا : تم نہیں لوٹتے ہو؟ تم جو ساری سلطنت اور سارے ملک کو لوٹے لیتے ہو، اس کا خیال نہیں۔ یہ جو تھوڑا سا گھی زیادہ لے لیتا ہے اور وہ بھی میرے خاصے کےلیے، یہ تمہیں نہیں گوارا ہے؟ بہرحال معتمد الدولہ نے توبہ کی، کان اُمیٹھے، تو خلعت ہوا، جو اس بات کی نشانی تصور کی جاتی کہ آج جہاں پناہ نے دستِ شفقت پھیرا ہے، اور اپنے گھر آئے، پھر انہوں نے کبھی اس رکاب دار سے تعرض نہ کیا اور وہ اسی طرح 30 سیر گھی روز لیتا رہا۔

(29)

نواب ابو القاسم خاں ایک شوقین رئیس تھے۔ ان کے وہاں بہت بھاری پلاؤ پکتا۔ 34 سیر گوشت کی یخنی تیار کر کے مقطر کر لی جاتی اور اس میں چاول دم کیے جاتے۔ اور پھر اس لطف کے ساتھ کہ لقمہ مُنہ میں رکھتے ہی معلوم ہوتا کہ سب چاول خود ہی گھل کے حلق سے اتر گئے۔ پھر اس کے ساتھ اس درجہ لطافت کہ مجال کیا جو ذرا بھی محسوس ہو سکے کہ اس میں کسی قسم کی گرانی ہے۔ اتنی ہی یا اس سے زیادہ قوت کا پلاؤ واجد علی شاہ کی خاص محل صاحبہ کے لیے روز تیار ہوا کرتا تھا۔

ممدوح بالا معزول شاہ اودھ کے ہم راہ مٹیا برج میں ایک رئیس تھے، جن کا منشی السلطان بہادر خطاب تھا۔ بڑے وضع دار اور نفیس مزاج شوقینوں میں تے،کھانے کا بے حد شوق تھا اور اگرچہ کئی صاحب کمال باورچی موجود تھے، مگر انہیں جب تک
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 286

دھاگہ کس کے باندھ دیا جاتا۔ اور اُسے خفیف سا جوش دے کے، چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کر دی جاتی، اور سڈول، آب دار موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشت کے ساتھ دم کر دیے جاتے۔ بعض رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور اس پر چاندی کا ورق چڑھا دیتے۔ بہرحال ایسی ایسی جدتیں عمل میں آتیں کہ اور کہیں لوگوں کے خیال میں بھی نہ آئی ہوتیں۔ بعض رکاب داروں نے پلاؤ کی تیاری میں یہ صنعت دکھا ئی کہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بنا کے اور خوب احتیاط سے اس طرح پکا کے کہ صورت نہ بگڑنے پائے، پلیٹ میں بٹھا دیں۔ چاولوں کی صورت دانے کی کر دی۔ اور معلوم ہوتا کہ ہر مہمان کے سامنے پلیٹ میں چڑیاں بیٹھی دانہ چُگ رہی ہیں۔ پھولے ہوئے سموسے، جن میں سے توڑتے ہی، لال نکل کے اُڑ جاتے، حیدرآباد دکن میں غالباً لکھنؤ کے رکاب دار پیر علی نے آ کر تیار کیے جو سرکاری ڈنروں میں میز پر آئے۔ اور معزز انگریزوں اور لیڈیوں کو بہت محظوظ کیا۔ اس کی ایجاد سب سے پہلے نصیر الدین حیدر کے دسترخوان پر ہوئی تھی۔ مگر چڑیوں والا مذکورہ بالا پلاؤ اس سے بہ درجہ ہا زیادہ دلچسپ صنعت تھا۔

ایک رکاب دار نے یہ صنعت دکھائی کہ دسترخوان پر بڑے بڑے سیر سیر بھر کے انڈے اُبلے ہوئے اور تلے ہوئے پیش کیے، جن میں سفیدی اور زردی اُسی نسبت اور وضع سے قائم تھی جو معمولی انڈوں میں ہوا کرتی ہے۔ بعض رکاب داروں نے بادام کا سالن پکایا جو بعینہ سیم کے بیجوں کے مثل، زور مزے اور لطافت میں اس سے بڑھا ہوا تھا۔ وزیر سلطنت روشن الدولہ کے باورچی نے کچے بھٹوں کے لچھے اس نفاست سے کاٹے کہ کہیں ٹوٹنے نہ پائے اور اُن کا رایتا ایسا اعلا درجے کا بنایا کہ جس نے چکھا، اَش اَش کر گیا۔

ہمارے معجز رقم خوشنویس منشی شاکر علی صاحب نے چاول پر قُل ھُواللہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 287

لکھ کے بےمثل کمال دکھایا ہے۔ مگر یہاں کے ایک باورچی نے، شاہی میں، خشخاش کے کے دانوں میں چاروں طرف کٹھل کے سے خار پیدا کیے اور اُسے خاص ترکیب سے پکا کے دسترخوان پر پیش کیا تھا۔

پیر علی، لکھنؤ کا مشہور رکاب دار، جو حضور نظام کے باورچی خانے میں ملازم تھا، ایک نہایت قیمتی اور لذیذ ارہر کی دال پکایا کرتا، جو اگلے فرماں روایانِ لکھنؤ کے باورچی خانوں میں پکا کرتی تھی، اور سلطانی دال کے نام سے مشہور تھی۔

بعض رکاب دار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے کہ دیکھیے تو معلوم ہوتا کہ انہیں بھاپ بھی نہیں لگی ہے، ویسے ہی ہرے اور کچھے رکھے ہیں، مگر کاٹ کے کھائیے تو نہایت ہی پُرلطف اور لذیذ ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ آج ہی کل کے زمانے میں ہمارے مکرم دوست سید علی اوسط صاحب کو پیش آیا۔ ان کا بیان ہے کہ موجودہ خاندانی رؤساے لکھنؤ میں سے نواب علی نقی خاں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ رات کا کھانا ذرا انتظار کر کے کھائیے گا، میں کچھ بھیجوں گا۔ رات کو حسب وعدہ کھانے کے وقت ان کا آدمی ایک خوان لے کے آیا۔ میں نے وفور شوق سے خوان اپنے سامنے منگوا کے کُھلوایا، تو اُس میں صرف ایک پلیٹ تھی اور اُس پر ایک کچا کدو رکھا ہوا تھا۔۔ دیکھ کے طبیعت نہایت منغض ہوئی۔ انتہاے یاس سے میں نے ماما سے کہا : اے لے جا کے رکھو، کل پکا لینا۔ مگر شاہ زادے صاحب کے آدمی نے ہنس کے کہا : اسے کاٹ کےیوں ہی کھائیے، پکانے کی ضرورت نہیں۔ اب میں نے جو اُسے کاٹا تو عجیب لذیز اور مزے کی چیز نظر ائی، اور ایسا کبھی نہیں کھایا تھا۔

رکاب داروں نے، سچ یہ ہے، کہ اس قسم کی صنعتوں میں یہاں عجیب

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 288

عجیب کمال دکھائے تھے۔ پیر علی رکاب دار مٹھائی کا انار بناتا تھا۔ جس میں اوپر کا چھلکا، اندر کے دانے، ان کی ترتیب اور ان کے بیچ کے پردے، سب اصلی معلوم ہوتے۔ دانوں کی گٹھلیاں، بادام کی ہوتیں۔ طاشپاتی کے عرق کے دانے ہوتے۔ دانوں کے بیچ کے پردے اور اوپر کا چھلکا دونوں شکر کے ہوتے۔

علی العموم رکاب دار مربے اور اچار وغیرہ اور طرح طرح کی مٹھائیاں تیار کرتے، جن میں صدہا قسم کی ترکیبیں اور عجیب عجیب صنعتیں اور نفاستیں دکھائی جاتیں۔ آم کا مربہ سب نے کھایا ہے، مگر یہاں رکاب دار مسلم ہری کیریوں کا مربہ تیار کرتے اور ان میں ویسے ہی سبز چھلکے اپنی اصلیت پر قائم رہتے۔ بس یہ معلوم ہوتا کہ تازی کیریاں ابھی توڑ کے لائی اور شیرے میں ڈال دی گئی ہیں۔

(30)

مذکورہ بالا تمام تکلفات نے دعوتوں اور حصوں کے لیے جو کھانے علی العموم منتخب کر دیے تھے، ان کے مجموعے کا نام تورا تھا۔ جن میں لازمی طور پر حسب ذیل غذائیں ہوتیں :

(1) پلاؤ (2) مزعفر (3) متنجن (4) شیر مال (5) سفیدہ (میٹھے چاول) جن مین زعفران کا رنگ نہ دیا گیا ہو (6) بورانی کے پیالے (7) شیر برنج کے خوانچے (8) قورمہ (9) تلی ہوئی ارویاں گوشت میں (10) شامی کباب (11) مربہ (12) اچار یا چٹنی۔ اکثر جگہ تورےمیں ان میں سے بعض چیزیں کم و بیش بھی کر دی جاتیں۔ مگر لکھنؤ میں علی العموم یہی کھانے مقبول تھے اور دعوتوں اور حصوں میں ان کے سوا اور کوکئی چیز کم ہوتی تھی۔ دعوتوں میں یہ چیزیں دسترخوان پر ہر شخص کے سامنے جُدا جُدا پلیٹوں میں چُنی جاتیں۔ اور کہیں بھیجنا ہوتا تو یہی تورا لکڑی کے خوانوں میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 289

رکھ کے اہتمام سے بھیجا جاتا۔

انگریزوں میں رواج ہے کہ میز، پھولوں، گل دستوں اور طرح طرح کی زینتوں سے آراستہ کی جاتی ہے۔ اس کا اس قدر نمونہ یہاں بھی تھا کہ امیروں، نوابوں اور شاہزادوں میں جوتورے تقسیم ہوتے، ان میں کھانوں کے درمیان میں کاغذ کے پھولوں کا ایک گلدستہ بھی رکھ دیا جاتا، جس کو عوام اور اوسط درجے کے لوگوں نے فضول سمجھ کے ترک کر دیا۔

جن معزز سرکاروں اور اعلا درجے کی ڈیوڑھیوں میں کھانا جاتا، ان کے رُتبے اور درجے کے مطابق تورے میں الوانِ نعمت کا شمار بھی بڑھ جاتا۔ بادشاہ کے محل میں خاص جہاں پناہ کے لیے ایک سو ایک خوانوں کا تورا جاتا، جس کی لاگت کا اندازہ پانچ سو روپے کا تھا۔ فرماں روایان اودھ میں واجد علی شاہ کے والد امجد علی شاہ بڑے ثقہ اور متقی و پرہیزگار فرماں روا تھے۔ مناہی سے بچتے، اوامر شریعت کی پوری پابندی کرتے، اور کوئی کام بغیر جناب قبلۂ و کعبہ کی اجازت کے نہ کرتے۔ انہوں نے جوش اتقامیں ملک کا روپیہ اپنی ذات پر صرف کرنا حرام تصور کیا۔ اور اپنے تمام اعزہ سے خواہش کی کہ ہمیں دعوت میں بجائے کھانے کے تم لوگ نقد روپیہ بھیج دیا کرو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ پانچ سو روپے بھیج دیا کرتے۔ مگر ان کے ساتھ خوش نودی مزاد کے لیے ایک تورا بھی ضرور بھیجا جاتا، جس کے لیے اس کی پابندی نہ تھی کہ ایک سو ایک خوان ہوں۔

خوانوں کی شان عام سوسائٹیوں میں یہ تھی کہ لکڑے کے خوان، ان پر رنگین تیلیوں کا گُمبد تُما جھابا۔ اس پر ایک سفید کپڑے کا کسنا، جو چوٹی کے اوپر باندھ دیا جاتا۔ اور شاہی باورچی خانے اور معزز امرا میں دستور تھا کہ اس بندھن پر لاکھ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 290

لگا کے مُہر بھی کر دی جاتی تاکہ درمیان میں کسی کو تصرف کا موقع نہ ملے۔ پھر اس کسنے کے اوپر نہایت پُرتکلف رنگین اور اکثر ریشمی خوان پوش ہوتا۔ یہ خوان پوس بڑی سرکاروں میں لازمی طور پر اطلس و کمخواب یا زربفت کے ہوتے۔ اور کبھی فقط لچکا ٹانک دیا جاتا یا کارچوب کا کام ہوتا۔

ممکن ہے کہ یہ طریقہ دربارِ مغلیہ میں بھی جاری ہوا اور وہیں سے لکھنؤ میں آیا ہو، مگر ہم نے ان تکلفات کو جس اعلا پیمانے پر لکھنؤ میں دیکھا، دہلی میں نہیں دیکھا۔ یہاں کھانے پینے کے ادنا ادنا معاملے میں یہ تکلفات لازمی اور طبیعتِ ثانیہ ہو گئے ہیں۔ کسی معمولی شخص کے لیے بھی فقط پانی مانگا جائے تو خدمت گار نہایت نفاست کے ساتھ گلاس کو تھالی میں رکھ کے اور اُس پر بُجھرا ڈھانک کے لائے گا، اور ادب سے پیش کرے گا۔

اس شوق، اس نفاست اور ان تکلفات نے سو ہی برس کے اندر لکھنؤ میں ایسے باکمال باورچی پیدا کر دیے جن کی ہندوستان کے ہر شہر اور ہر دربار میں شہرت اور قدر تھی۔ اور میں نے ہندوستن کے تمام مسلمان درباروں اور ریاستوں میں، جہاں گیا، لکھنؤ ہی کے باورچیوں کو پایا، جن کو خاص اُمرا اور والیانِ ملک کے مزاج میں دخل تھا اور اُن کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اب حیدرآباد دکن، بھوپال اور رام پور میں بڑے بڑے صاحب کمال باورچی موجود ہیں، لیکن اگر آپ ان کی اصلیت کا پتا لگائیں، ان کے خاندان کا پتا لگائیں اور ان کی ترقی کی تاریخ پر غور کریں تو یہی ثابت ہو گا کہ باورچی یا تو وہ لکھنؤ کے ہیں، یا لکھنؤ سے آئے ہوئے باورچیوں کی نسل سے ہیں، یا کسی لکھنؤی باورچی کے شاگرد ہیں۔

ہم باورچی خانے کا حصہ ختم کر چکے، مگر ابھی مٹھائیوں کا ذکر باقی ہے۔مٹھائیوں کا بنانا، ہندو حلوائیوں کا کام ہے۔ اور انہیں کی مٹھائیوں سے عام پبلک آشنا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 291

ہوئی ہے۔ لیکن مٹھائیاں تیار کرنے میں مسلمان رکاب داروں کا درجہ بڑھا ہوا ہے۔ رکاب دار عوام کی ضرورتوں کو نہیں پورا کر سکتے، اس لیے کہ یہ ہندو حلوائیوں کا حصہ ہے۔ رکابدار خاص امیروں اور شوقین اور نفاست پسند امیروں کے لیے مٹھائیاں تیار کرتے ہیں، جو بے نظیر اور بہت ہی لذیذ ہوتی ہیں۔

حلوائی لکھنؤ میں دو طرح کے ہیں : مسلمان حلوائی اور ہندو حلوائی۔ مسلمان حلوائیوں کی شان یہ ہے کہ اگر عام قسم کی مٹھائی لی جائے تو ان کی دکان کی چیز ہندو حلوائیوں کی دکانوں سے اچھی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر فرمایش کر کے ان سے خاص قسم کی تکلفی مٹھائی بنوائیے تو ہندو حلوائیوں کی مٹھائی سے بہت زیادہ اچھی اور بہت ہی نفیس و لذیذ ہوتی ہے۔ لیکن علے العموم لکھنؤ میں جلیبیاں، امرتیاں اور بالو شاہی بہت اچھی بنتی ہیں۔

مٹھائیوں میں یہ امتیاز کرنا دشوار ہے کہ کون اصلی ہندوؤں کی ہے اور کون مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان سے آئی۔ لیکن ناموں اور مذاق پر قیاس کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حلوا خالص عربی چیز ہے جو عرب سے ایران ہوتا ہوا ہندوستان میں آیا اور اپنا نام بھی ساتھ لیتا آیا۔ لیکن بہ ظاہر یہ عام فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں تفریق ہے۔ ترحلوا جو عموماً حلوائیوں کے وہاں ملتا ہے، اور پوریوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے، وہ خالص ہندو چیز ہے، جسے وہ موہن بھوگ بھی کہتے ہیں۔ مگر حلوا سوہن کی چار قسمیں : پپڑی، جوزی، حبشی اور دودھیا، یہ خالص مسلمانوں کی معلوم ہوتی ہیں۔ جدید عربی مذاق کے حلوے جو جنوبی ہند خصوصاً مدراس میں مروج ہیں، ان کا پتا نہیں۔ وہ واقعی خالص عربی حلوے ہیں جو بہ راہ راست عرب سے ہندوستان میں آ گئے۔


مگر ہندو حلوائیوں کی اکثر مٹھائیاں بھی مسلمانوں ہی کے زمانے کی ایجاد

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 292

معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً برفی کا نام بتا رہا ہے کہ اسے فارسی و عجمی مذاق نے ایجاد کیا۔ بالو شاہی، خرمے، نکتیاں، گلاب جامن، دربہشت، وغیرہ بھی عہد اسلام کی ایجاد ہیں۔

جلیبی کو عربی میں زلابیہ کہتے ہیں، اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ زلابیہ ہی سے بگڑ کے جلیبی کا لفظ بنا ہے۔ اس لیے یہ بھی انہی عربی و فارسی مٹھائیوں میں شامل کرنے کے قابل ہے۔ پیڑا خالص ہندی مٹھائی ہے اور امرتیاں بھی ہندی ہیں۔ مگر مجھے بتایا گیا ہے کہ امرتی خاص لکھنؤ میں ایجاد ہوئی۔ فی الحال ان مٹھائیوں کے اعتبار سے لکھنؤ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ جو درجۂ بلندی ہند کے تمام ممتاز شہروں کو حاصل ہے۔ وہی لکھنؤ کو بھی حاصل ہے۔ بلکہ یہ عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ لکھنؤ میں تو آگرے اور پنجاب کے حلوائی زیادہ مشہور ہیں، اور دوسرے شہروں میں مجھے یہ نظر آیا کہ لکھنؤ اور اطرافِ لکھنؤ کے حلوائیوں کو زیادہ نمو حاصل ہے۔ دراصل اس کو کسی دکان کے چل جانے سے تعلق ہے۔ اس لیے کہ جس حلوائی کی دکان جس قدر زیادہ چل جاتی ہے، اسی قدر اسے مٹھائیوں میں ترقی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

حلوائیوں کی نسبت اصلی فیصلہ یہ ہے کہ ہندو حلوائیوں کا درجہ بہت بڑھا ہوا ہے۔ مٹھائیوں کے جتنے قدردان ہندو ہیں، مسلمان نہیں۔ مسلمانوں کو شاید گوشت خوری کی وجہ سے علی العموم نمکین کھانوں کا زیادہ شوق ہے۔ بہ خلاف ان کے ہندو، مٹھائیوں کے زیادہ شوقین ہیں۔ وہ فقط مٹھائیوں سے پیٹ بھر لیتے ہیں، جو مسلمانوں سے غیر ممکن ہے۔ اور ہندوؤں کی رغبت کی وجہ سے متھرا، بنارس اور اجودھیا جو ہندوؤں کے مذہبی مرکز ہیں، مٹھائیوں کے اقسام اور مزے کے اعتبار سے دوسرے شہروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 293

مگر حلوا سوہن کے بنانے میں مسلمان رکاب داروں کے علاوہ اور بہت سے لوگوں نے بھی شہرت حاصل کی۔ آخر زمانے میں یہاں کے مشہور خوش نویس، منشی ہادی علی صاحب نے پپڑی حلوا سوہن میں خاص ناموری حاصل کی۔ وہ سیر بھر سمنک میں پچیس تیس سیر گھی کھپا دیتے اور اس کی ٹکیوں پر عجیب عجیب قسم کے خوب صورت طغرے بناتے جن سے حلوا سوہن بنانےکے ساتھ خوش نویسی اور نقاشی کے کمالات بھی ظاہر ہوتے۔

اس کے بعد میں نے مٹیا برج (کلکتہ میں) منشی السلطان بہادر کو جو لکھنؤ کے ایک رئیس زادے تھے، اپنی آنکھوں سے بارہا دیکھا کی چھٹانک بھر سمنک میں دو ڈھائی سیر گھی کھپا دیتے، جو فی سیر چالیس سیر کے قریب پڑا۔ اُن کا پپڑی حلوا سوہن بجائے زرد کے، دھوئے کپڑے کے مانند اُجلا اور سفید ہوتا۔

(31)

باورچی خانے اور کھانوں کی ایجاد و ترقی کے متعلق ہم کافی درجے تک لکھ چکے ہیں۔ لیکن اتنا اور کہنا چاہتے ہیں کہ یہاں عموما ایشیائی ممالک میں خوش مزگی پیدا کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش اہمیت کے ساتھ کی جاتی تھی کہ لطافت ذوق کے ساتھ غذاؤں میں اعلا درجے کی روح افزا خوشبوئیں پیدا ہوں، رنگ نفیس اور دلکش رہے۔ صورت نظر فریب اور شوق دلانے والی ہو۔ اگرچہ ہندوستان کے تمام شہروں میں جہاں لوگوں کو اچھا کھانے کا شوق ہے، ان تمام امور کی کسشش کی جاتی ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لکھنؤ سب جگہ سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ کسی جگہ کھانے کا سچا ذوق چند امیروں اور مخصوص لوگوں تک محدود رہا ہے، مگر یہاں قریب قریب ہر شخص میں ایک صحیح ذوق

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 294

پیدا ہو گیا۔ اچھے باورچی ہی نہیں پیدا ہوئے بلکہ معزز اور شریف گھرانوں کی عورتوں میں رکاب داروں سے زیادہ نفاست مزاجی اور ذوق کی خوش سلیقگی پیدا ہو گئی۔ کوئی معزز خاندان نہیںہے جس کی محترم بیگموں میں سے ہر ایک کھانا پکانے میں اچھا سلیقہ نہ رکھتی ہو، اور اسے کسی اچھی غذا کے تیار کرنے میں دعوا نہ ہو۔

دودھ، دہی کا ہر جگہ رواج ہے۔ لکھنؤ میں ان دونوں چیزوں کے علاوہ بالائی کی تیاری میں زیادہ توجہ ہوئی۔ اس لیے کہ دودھ کا لطیف ترین حصہ اس میں آ جاتا ہے۔ انگریزی میں اسی کو "کریم" کہتے ہیں، جس کا رواج یورپ میں کثرت سے ہے۔ مگر وہاں کریم اس کا نام ہے کہ دودھ تھوڑی دیر رکھا رہے اور جب دُہنیت کا سفید اور لطیف حصہ اوپر آ جائے تو کاچھ کے الگ کر لیا جائے۔ یہاں دودھ کا یہ لطیف حصہ، ہلکی آگ پر رکھ کے اور جما کے الگ کیا جاتا ہے ۔ اور بڑی نفاست سے اس کی تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔ بالائی کی تہوں کو نفاست اور خوش نمائی سے جمانا ایسا کام ہے جو لکھنؤ کے سوا شاذ و نادر ہی کسی اور شہر کے لوگوں کو آتا ہو گا۔

اس کو پُرانی زبان میں ملائی کہتے ہیں۔ آصف الدولہ بہادر نواب اودھ کو یہ اس قدر پسند تھی کہ خاص اہتمام سے ان کے لیے تیار کی جاتی۔ انہوں نے اس کا نام ملائی کے عوض بالائی رکھ دیا۔ اس لیے کہ یہ دودھ کے اوپر کی چیز ہے۔ اہل لکھنؤ کو اپنے فرماں روا کا یہ تصرف بہت پسند آیا اور بالائی کا لفظ زبانوں پر اس قدر چڑھ گیا کہ اب لکھنؤ میں سوا دیہاتیوں یا ہندو و جُہلا کے، سب اسے بالائی ہی کہتے ہیں اور ملائی کا لفظ کسی مہذب شخص کی زبان پر باقی نہیں رہا۔

اس پر مولوی محمد حسین صاحب آزادؔ مرحوم نے آب حیات میں اعتراض

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 295

کر دیا اور انصاف کو ذوق سلیم پر محول فرمایا۔ جس معیار سے اں کے مذاق میں "ملائی" کا لفظ بالائی سے زیادہ لطیف و فصیح ہے۔ کسی لفظ کو محض اپنے مذاق کے اعتبار سے غیر فصیح کہہ دینا، میرے نزدیک ایک بے معنی سی چیز ہے۔ اس لیے کہ ہر جماعت کو وہی الفاظ اپنے ذوق میں اچھے معلوم ہوتے ہیں جو اُن لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوں اور اُن کے لہجے اور محاورے سے مانوس ہو گئے ہوں۔ جن شہروں کے لوگ ملائی کہتے ہیں، ان کو بے شک بالائی کا لفظ گراں گزرتا ہو گا، اور ان کی زبان سے ناآشنا ہو گا۔مگر جس شہر میں لوگ بالائی کہتے ہیں اور یہی لفظ اُن کے محاورے میں شامل ہو گیا ہے، ان کو جو فصاحت بالائی میں نظر آتی ہے، ملائی میں ممکن نہیں۔ ان کو ملائی جاہلوں اور گنواروں کا لفظ معلوم ہوتا ہے۔ فصاحت و لطافت زبان کا اندازہ کسی خاص ذوق یا کسی منطق سے نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ اہل زبان مان لیے جاتے ہیں، فقط ان کا ذوق و محاورہ معیار قرار پا جاتا ہے اور سب کو بغیر کسی منطق و دلیل کے ان کی پیروی کرنا پڑتی ہے۔ اردو کے لیے اب دہلی و لکھنؤ دونوں اہل زبان کے مستند اسکول سمجھے جاتے ہیں۔ لہذا دونوں مسلم الثبوت معیار سخن ہیں۔ چاہے ایک کا لفظ دوسرے کو غیر مانوس ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ لکھنؤ کی زبان کو سچا اور مستند معیار ہی نہ تسلیم کیا جائے۔ لیکن اس جھگڑے میں ہم پڑنا نہیں چاہتے اور غالباً یہ جھگڑا بے بھی ہو چکا ہے۔ بہرحال اگر دونوں شہر معیار مانے جائیں تو ملائی اور بالائی بجائے خود دونوں فصیح ہیں۔ ملا، اہل دہلی کے نزدیک اور بالائی، اہل لکھنؤ کے نزدیک کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔

کھانے کے پکانے سے زیادہ یا اسی کے برابر ضرورت کھانوں کے نکالنے میں اچھا سلیقہ دکھانے اور نکالنے کے بعد اس کے آراستہ کرنے اور سجنے کی ہے۔ یورپ کی موجودہ مذاق یہ ہے کہ میز خوب آراستہ کی جاتی ہے، اس پر جابجا گلدستے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 296

لگائے جاتے ہیں، اور بعض جگہ تکلف کے لیے کچے چاولوں کو مختلف رنگوں میں رنگ کے ان سے میز پر حروف نقس و نگار بنا دیے جاتے ہیں۔ ظروف بھی نہایت صاف ستھرے، قیمتی اور اکثر چاندی کے کام میں لائے جاتے ہیں۔ مگر خاص کھانے کی سجاوٹ کا انگریزی باورچیوں یا خانساماؤں کو چنداں خیال نہیں ہوتا۔ بہ جز شادیوں کے کیک کے، جو امرا اور لارڈوں کے عروسی ڈنروں میں عجیب تکلفات سے بُرجوں یا خوبصورت عمارتوں کی وضع میں بنا کے، دعوت ولیمہ کی میز پرلگا دیے جاتے ہیں۔

اس کے خلاف، ہندوستان میں دسترخوان کی آراستگی کی طرف تو کم توجہ کی جاتی ہے، مگر خود کھانے اعلا درجے کی نفاست سے نکال کے سجے جاتے ہیں۔ ان پر چاندی سونے کے ورق لگائے جاتے ہیں، پستے اور بادام کی ہوائیوں سے نقش و نگار اور رنگ رنگ کے پھول بنائے جاتے ہیں، کھوپرے کے ورق کاٹ کاٹ کے نہایت ہی موزوں ترتیب سے ان پر آراستہ کے جاتے ہیں۔ اس فن میں رکاب داروں کو خاص کمال حاصل ہے۔ بلکہ ان کا کامیہی ہے کہ جس خوبی سے غذاؤں کو تیار کریں۔ اس سے زیادہ خوش نمائی سے ان کو سجیں اور ہر پلیٹ کو ایک گلدستہ بنا دیں۔

لکھنؤ میں یہ تکلفات اہل پیشہ باورچیوں اور رکاب داروں سے شروع ہو کے شرفا کے عام گھروں میں پہنچ گئے۔ اور خانونوں اور بیگموں کو اس میں ایسا اچھا سلیقہ ہو گیا کہ جو خوبی پلیٹوں اور قابوں کے سجنے میں اکثر وہ دکھاتی ہیں، خود رکاب داروں سے بھی ممکن نہیں۔ اگرچہ یہ خاص انہی کا ہنر ہے۔ یورپ کے محققین نے طے کر دیا ہے کہ عورتیں فنون لطیفہ سے خاص مناسبت رکھتی ہیں، خصوصاً کسی چیز کے سجنے اور آراستہ کرنے میں ان کو بالطبع مردوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت ہندوستان میں لکھنؤ کی اُن عورتوں کی طبیعت داری سے مل سکتا ہے جو کھانوں کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 297

سجنے میں کمال دکھا دیا کرتی ہیں۔

ہندوستان کے عروسی کے کیک جن کا ابھی ذکر ہو چکا، چوبھے ہیں، جو عموماً رسم کے طریق سے شادیوں میں دولہا دلہنوں کے سامنے لگائے جاتے ہیں۔ ان کو اکثر گھروں کی خاتونیں ایسی نفاست مزاجی اور ذہانت و طباعی سے آراستہ کرتی ہیں کہ جی چاہتا ہے، بیٹھے انہیں دیکھا کیجیے۔

کھانے کے ساتھ ہی آب دار خانے کی ترقیوں کو بھی بیان کر دینا لطف سے خالی نہ ہو گا۔ آب دار خانہ، بادشاہوں اور امیروں کے پانی کے انتظام کا نام ہے۔ اگلے دنوں برف نہ تھی، اور بعض موسموں میں ٹھنڈا پانی ملنا نہایت دشوار ہوتا تھا۔ اس کے لیے ان دنوں خاص قسم کے انتظام کیے جاتے تھے۔ پانی کورے گھڑوں میں بھر کے رکھا جاتا۔ نازک اور نفیس آب خورے پینے کے لیے موجود رہتے۔ گھڑوں اور آب خوروں پر سرخ کپڑا چڑھا دیا جاتا اور وہ تر رکھا جاتا، اس لیے کہ ہوا لگنے سے بھیگا کپڑا خوب ٹھنڈا ہو جاتا۔ یہاں تک کہ گرم ہوا اور لُو بھی جتنی زیادہ گرم ہوتی، اُتنا ہی زیادہ کپڑے کو ٹھنڈا کر دیتی۔ اور کپڑے کی ٹھنڈک اندر کے پانی کو ٹھنڈا کرتی۔ اکثر جھجریاں اور صراحیاں بلکہ گھڑے بھی منہ پر کپڑا باندھ کے کسی درخت کی ٹہنیوں مہں اُلٹے لٹکا دیے جاتے۔ ہوا کا اندر نفوذ نہ ہونے کی وجہ سے پانی نہ گرتا، اور خوب ٹھنڈا ہو جاتا۔ برسات میں جب یہ تدبیر بھی کامیاب نہ ہوتی تو اکثر گھڑے بھر کے کنووں کے اندر لٹکا دیے جاتے۔ جہاں ان میں خوب خنکی پیدا ہو جاتی۔

اس کے علاوہ سب سے بڑا انتظام یہ تھا کہ جست کی نازک صراحیاں موجود رہتیں اور وہ ناندوں میں شورا اور پانی ڈال کے اس میں پھرائی جاتیں۔ اس تدبیر سے تھوڑی دیر میں پانی میں برف کی سی خنکی پیدا ہو جاتی اور اس کی ٹھنڈک نہایت ہی لطیف و خوشگوار ہوتی۔ اس تدبیر کو، صراحیوں کا جھلنا کہتے تھے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 298

بعد کے زمانے میں برف کے فراہم کرنے بھی ایک معقول اور دیرپا تدبیر نکال لی گئی تھی۔ چلوں کے جاڑوں میں جب سردی خوب شدت پر ہوتی، کھیتوں اور کھلے میدانوں میں رات کو گلی رکابیوں اور پیالوں میں گرم گرم پانی بھر کے رکھ دیا جاتا جو صبح کو جما ہوا ملتا۔ اس برف کو اُسی وقت فوراً زمین کے اندر گہرے کھتوں میں پہلے سے کُھدے تیار رہتے، دفن کر دیتے اور ان میں وہ برف جب تک دبی رہتی، اپنی حالت پر قائم رہتی۔ بہرحال اس طریقے سے اتنی برف بنا کے کھتوں میں بھر دی جاتی کہ سال بھر کے لیے کافی ہوتی اور اسی میں سے ہر روز نکال لی جاتی۔ مگر یہ برف اس قدر صاف نہ ہوتی کہ پانی میں ملائی جائے بلکہ شورے کی طرح اس میں نمک اور شورا ملا کے صراحیاں جھلی جاتیں۔ یا برف کی قفلیاں جمائی جاتیں۔

مگر یہ انتظام خاص بادشاہوں یا ان کے ہم رتبہ امیروں تک محدود رہتا۔ غریب لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتے۔ غربا اور متوسط درجے کے لوگ انہی اول الذکر تدبیروں سے کام لے کے پانی ٹھنڈا کرتے۔ اور یہ اہتمام اس قدر عام ہو گیا تھا کہ تھوڑا بہت ہر گھر میں رہتا۔

بہر تقدیر، لکھنؤ میں پانی کےلیے یہ اہتمام اں دنوں ہوا کرتا اور نفاست مزاجی نے یہ تکلفات پیدا کر دیے تھے کہ مٹی اور جست کی صراحیوں اور ایسے ہی آبخوروں پر اکثر سرخ شال باگ (ٹول) کا کپڑا چڑھا ہوتا۔ اور ٹول پر روپہلا گوٹا خوب صورتی سے لپیٹ کے ان میں ایسا لطف پیدا کر دیا جاتا کہ پینا درکنار، اس کے ظروف دیکھ کے آنکھوں میں خُنکی پیدا ہو جاتی۔

مجھے یہ نہیں معلوم کہ آب دار خانے کا یہ انتظام جو میں نے بیان کیا ہے، پورا پورا دہلی میں تھا بھی یا نہیں۔ غالباً وہاں ضرور ہو گا۔ اور وہیں سے یہ سب چیزیں لکھنؤ میں آئی ہوں گی۔ مگر میں نے اس اہتمام اور سامان کو جس تکمیل کے ساتھ اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 299

جس تعمیم سے لکھنؤ کے لوگوں میں دیکھا تھا، دہلی میں نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کہ وہاں بھی ایسا ہی ہو۔ لیکن اس میں شک نہیں کیا جا سکتا کہ لکھنؤ میں آ کے، مٹی کے ظروف آپ کی لطافت و نفاست اور نزاکت بہت بڑھ گئی۔ اس لیے کہ یہاں کی مٹی کی عمدگی کی وجہ سے جیسے نازک و خوش نما اور خوش قطع ظروف گلی لکھنؤ میں بن سکتے ہیں اور کہیں نہیں بن سکتے۔ دہلی والوں کے پاس جست کی صراحیاں ایسی ہی ہوں گی، مگر ایسی مٹی کی صراحیاں وہاں کسی کو نصیب نہیں ہو سکیں۔ ان ظروف گلی کا حال ہم آیندہ مناسب موقع پر بیان کریں گے۔

بادشاہوں کے ساتھ، جہاں وہ جائیں، باورچی خانہ اور آب دار خانہ بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن یہاں آب دار خانے کا اہتمام دوسرے اُمرا کے وہاں بھی اس قدر بڑھ گیا تھا کہ بہت سے اُمرا تھے جو اپنا آب دار خانہ اپنے ساتھ رکھتے۔ چنانچہ مرزا حیدر صاحب کا آب دار خانہ اور بھنڈی خانہ اس فیاضی کے اصول پر قائم تھا کہ وہ جس شادی کی محفل میں جاتے، ساری محفل کو پانی اور حقہ پلانے کا انتظام انہی کے سپرد ہو جاتا اور ان کی شرکت محفل بہت سے لوگوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقہ اور رحمت الٰہی بن جاتی۔

(32)

اب ہم اس دربار اور لکھنؤ کے لبار پر بحث کرنا چاہتے ہیں، جو دراصل نہایت ہی دلچسپ بحث ہے۔ ہندوستان کے لباس کی تاریخ نہایت تاریکی میں ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے پیش تر ہندوستان میں جہاں تک پتا لگایا جائے اور قدیم مورتوں اور الوز وغیرہ کی تصویروں پر غور کیا جائے، یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں سیے ہوئے کپڑے کا رواج نہ تھا۔ عورت

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 300

اور مرد دونوں بے سی ہوئی چادروں، ساریوں اور دھوتیوں سے بدن ڈھانکتے تھے۔ عرب سیاح جو فاتحانِ اسلام سے پہلے ہی یہاں پہنچ گئے تھے، انہوں نے سندھ سے لے کے بنگالے تک ہر ساحلی شہر اور قریب کے اندرونی علاقوں میں یہاں کے لوگوں کو اسی وضع میں پایا۔

پہلے عرب مسلمان جو یہاں پہنچے، وہ اگرچہ کُرتے، تہمت اور عبائیں پہنتے تھے، مگر لباس و وضع میں انہیں یہاں کے لوگوں پر کچھ زیادہ فوقیت نہیں حاصل تھی۔ لباس میں ترقی اس وقت سے شروع ہوئی جب ساسانی معاشرت اختیار کر کے، بغداد کے عباسی دربار نے شرفائے عرب کے لیے پائجامے، عبا و قبا اور خوش قطع عمامے ایجاد کیے۔ جو لباس کا کلیتہً یا زیادہ تر ساسانی دربار کے امرا و اعیان کی وضع سے ماخوذ تھا۔ چند ہی روز میں یہی لباس ان تمام مسلمانوں کا ہو گیا جو مصر سے دریائے سندھ کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور آخر وہ اس لباس کو لیے ہوئے ہندوستان میں آئے۔ تصویروں میں جو لباس عہد اولیں کے مسلمان تاج داران ہند کا نظر آتا ہے، وہ قریب قریب وہی ہے جو عجمی و عباسی اُمرا و فرماں رواؤں کا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں کے سلاطین، ہندو راجاؤں کی تقلید میں جواہرات بہت زیادہ پہنا کرتے تھے۔

دہلی میں دربار مغلیہ کا آخری لباس جو ہمیں معلوم ہو سکا،یہ تھا کہ سر پر پگڑی، بدن میں نیمہ، جامہ، ٹانگوں میں ٹخنوں سے اونچا تنگ مہری کا پائجامہ، پاؤں میں اونچی ایڑی کا کفش نما جوتا، اور کمر میں جامے کے اوپر پٹکا۔ بس یہی دہلی کے قدیم شرفا کی وضع بھی جس میں محمد شاہ رنگیلے کے زمانے تک کسی قسم کا رد و بدل نہیں ہوا تھا۔ اور اگر ہوا بھی ہو تو اتنا نہ تھا کہ ہم کو نظر آ سکے۔

اس لباس میں نیمے سے مرد کہنیوں تک کی آدھی آستینوں کا شلوکا تھا۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین

ریختہ صفحہ 241

اس قسم کی کوئی چیز اگلے زمانے میں نہ تھی۔ سوا دف کے، جو عربوں میں تھی اور گانے کےساتھ بجائی جاتی تھی۔ یہاں بھی گانے کے ساتھ سب سے پہلے دف کا رواج معلوم ہوتا ہے، جو بین کے ساتھ بجتی اور لے کے قائم رکھنے میں مدد دیتی۔ اس کے بعد قدیم الا یاّم ہی میں مردنگ نکلی جو غالباً سری کرشن جی کے زمانے میں موجود تھی۔ اور ان کی بانسری کے نغمے کے ساتھ مردنگ کی گمک بھی جمنا کنارے برج کے جنگل میں سنی جاتی تھی۔ مردنگ کے بعد ترقی یہ ہوئی کہ پکھاوج بنی، جو اعلا موسیقی کا خوب ساتھ دے سکتی تھی۔ اب اُس کے بعد سے عام لوگوں میں اور گھر کی بیٹھنے والی عورتوں میں ڈھول کا رواج ہوا جو مردنگ اور پکھاوج سے نکل کے عام پسند ہو گئی۔ اور خاص باکمالانِ موسیقی کی اعلا محفلوں کے لیے طبلہ ایجاد ہوا، جس میں پکھاوج کے دونوں رخ، دو جُدا سازوں میں تقسیم ہو کے، دہنا اور بایاں کے نام سے مشہور ہوئے۔ طبلہ یقیناً مسلمانوں کے آنے کے بعد کی ایجاد ہے۔ اگرچہ ہمیں نہیں معلوم کہ لےَ داری کے ان سازوں میں مذکورہ ترقیاں کب اور کس کے ہاتھ سے ہوئیں۔
(23)
موسیقی کے ساتھ ناچ نے بھی ایک ممتاز فن کی حیثیت سے لکھنؤ میں بہت نمایاں ترقی کی۔ رقص ہر قوم میں تھا اور قدیم سے قدیم زمانے میں تھا۔ فراعنۂ مصر کے سامنے بانکی رسیلی عورتیں کھڑی ہو کے ساز کے ساتھ ناچا کرتی تھیں۔ حضرت مسیح کے عہد میں بتسما دینے والے یوحنّا کا سر ہر وڈیا نے ناچ ہی کے کٹوایا تھا۔ مگر ہندوستان میں بہت صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گانے کی طرح ناچنا بھی عبادت میں داخل تھا اور یہاں فنِ رقص کی پرورش ہمیشہ مذہب ہی کے آغوش میں ہوئی۔ چنانچہ اِس فن کے جاننے اور کرنے والے خاص برہمن تھے اور ان کا مرکز یا تو اجدھیا اور بنارس کے کتھک تھے، یا متھرا اور برج کے رہس دھاری۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے

ریختہ صفحہ 242
تمام قدیم مندروں میں اگرچہ سیکڑوں ہزاروں عورتیں دیوتاؤں کی مورتوں کے سامنے روز مجرا کیا کرتی تھیں اور جہاں بڑے معبد تھے وہاں قدیم سے قدیم زمانے میں ناچنے والیوں کا ایک بڑا بھاری گروہ بھی موجود رہا کرتا تھا، مگر ناچنے کی استادی ہمیشہ مرووں میں رہی اور وہی جوان عورتوں کو اس کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
ناچنا دراصل حرکاتِ جسمانی کے باقاعدہ بنانے کا نام ہے۔ حرکات کی اس باقاعدگی کو اگر بہت سے اشخاص کے حرکات کے موافق یکساں اور موزوں بنانے سے تعلق ہو تو وہ ڈرل یا فوجی قواعد ہے، یا یورپ کے میوزک ہالوں کا وہ ناچ ہے جو "بیلڈ" کہلاتا ہے۔ اور اب اکثر ہندوستان کے تھیڑوں میں نظر آ جایا کرتا ہے۔ اور اگر وہ حرکات کی باقاعدگی موسیقی کی لَے اور آواز کے نشیب و فراز کے موافق بنانے سے علاقہ رکھے، تو وہ رقص ہے۔ ہندوستان کا اصلی خالص رقص یہی ہے کہ جسم کے حرکات وسکنات گیتوں اور شعروں کے زیروبم کے مطابق اور مناسب بنالیے جائیں۔ یہ اصلی ناچ ہے جو ہندوستان میں ایک بہت بڑا وسیع فن بن گیا۔ اس کی سیکڑوں گتیں اور بے شمار توڑے اور ٹکڑے ایجاد ہو گئے۔ اس کے بعد رقص میں جذبات و خیالات کا اشاروں اور حرکتوں سے ادا کرنا بھی شامل کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی گانا، ناچنے کی شرح بن جاتا ہے۔ پھر جب خوبصورت عورتوں کا ناچنا لوگوں کو فطرتاً زیادہ پسند آیا، تو معشوقانہ نازوانداز دکھانا اور نزاکت و نازنینی کی اداؤں کا ظاہر کرنا بھی اِس کا جز بن گیا۔ لکھنؤ کے اسکول نے انہی امور کا لحاظ کرکے، زنانے اور مردانے طائفوں میں امتیاز پیدا کر دیا۔ نزاکت کے ساتھ بتانا۔ معشوقانہ نازو انداز دکھانا اور ہر حرکت میں معشوقیت و نازنینی کا لحاظ رکھنا، ناچنے والی عورتوں کے ساتھ مخصوص رہا۔ جو بعض وقت اگر بے مزہ ہو تو ناظرین کی طبیعتوں کو سُست اور پست کر دیتا ہے۔ اس کے مقابل حرکات کو لَے کے مناسب بنانے

ریختہ صفحہ 243

میں چلت پھرت دکھانا اور شاعرانہ دل کشی سے اظہارِ جذبات کرنا، مردانے طائفوں کے لیے خاص ہو گیا۔ اگرچہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے فن کا ایک مناسب حد تک ضرور لحاظ رکھتے ہیں، مگر یہ امتیاز نمایاں طور پر قائم ہے۔
یہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اودھ اور لکھنؤ میں اربابِ نشاط اور مجرا کرنے والی رنڈیوں کے طائفوں کا آ آ کے جمع ہونا، نواب شجاع الدولہ ہی کے زمانے میں انتہائی درجے کو پہنچ گیا تھا۔ اِن کے علاوہ اجودھیا اور بنارس کے کتھک جو یہیں یا قریب ہی موجود تھے، قدردانی دیکھ کے، دربار کے مرکز کی طرف کھنچنے لگے۔ اور دونوں کے میل جول سے رقص کا فن نمایاں ترقی کرتے کرتے یہاں خاص شان پیدا کرنے لگا۔
مرد ناچنے والوں کے یہاں دو گروہ ہیں: ایک ہندو کتھک اور رہس دھاری اور دوسرے مسلمان کشمیری بھانڈ۔ مگر اصلی ناچنے والے کتھک ہیں۔ اور کشمیری طائفوں نے معلوم ہوتا ہے اپنی نقّالی کے کمالات میں جان ڈالنے کے لیے اپنے گروہ میں ایک ناچنے والا نوعمر لڑکا بڑھا لیا، جو بال بڑھا کے، عورتوں کا سا جوڑا باندھتا ہے، اور نہایت ہی پھُرتیلے پن سے ناچ کے، اپنی چلت پھرت سے محفل میں زندہ دلی اور تازگی پیدا کر دیتا ہے۔
ہندو کتھکیوں میں سے کوئی نہ کوئی باکمال ہر زمانے میں یہاں موجود رہا۔ یہ لوگ اپنے فن کا بانی مہا دیوجی، پاربتی جی، اور کنھیاّ جی کو بتاتے ہیں۔ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کے عہد میں خوشی مہاراج ناچنے کا بڑا زبردست استاد تھا۔ نوّاب سعادت علی خاں، غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدار کے دور میں ہلال جی، پرکاش جی، اور دیالوجی مشہور ناچنے والے تھے۔ محمد علی شاہ کے زمانے سے واجد علی شاہ کے عہدِ فرماں روائی تک پر کاش جی کے بیٹوں درگا پرشاد اور ٹھاکر پرشاد کے ناچ کی شہرت رہی۔ درگا پرشاد کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ناچ میں واجد علی شاہ کا استاد تھا۔ اس کے بعد درگاہ پرشاد کے

ریختہ صفحہ 244
بیٹوں: کالکا اور بندادین کی شہرت ہوئی اور قریب قریب تمام لوگوں نے مان لیا کہ سارے ہندوستان میں ناچنے کا ان دونوں سے زیادہ صاحبِ کمال استاد کوئی نہیں ہے۔ پُرانے استاد کسی خاص بات میں نمود حاصل کرتے تھے، مگر ان دونوں بھائیوں خصوص بندادین نے ناچ کے تمام فنون میں کمال دکھا کے، اپنے آپ کو ہر حیثیت سے استادِ بے بدل ثابت کر دیا۔ اور آج کل کے اکثر مشہور ناچنے والے انہی دونوں بھائیوں کے شاگرد ہیں۔ اور ان کا گھر، ہندوستان بھر کا سب سے بڑا رقص کا اسکول ہے۔
کالکاتھوڑا زمانہ ہوا کہ مرگیا اور سچ یہ ہے کہ اُس کے مرنے سے بندادین کے ناچ کا مزہ اُٹھ گیا۔ بندادین کی عمر اس وقت 77 سال کی ہے اور اب بھی ناچ کے شائق اُس کا مجرا دیکھنے کو اپنی زندگی کی ایک یادگار مسّرت تصور کرتے ہیں۔ اُس کا گت پر ناچنا رقص کے استادانہ توڑے اور ٹکڑے اصلی صورت میں دکھانا، گھونگھرو بجانے میں یہ اختیار اور قدرت ظاہر کرنا کہ جے گھونگھرو چاہے بجائے، اور اِس کے بعد ہر ہر لفظ اور ہر ہر چیز کو بتانا، ایسی چیزیں ہیں جن کا بندادین ہی پر خاتمہ ہے۔ وہ ایک ایک چیز کو سو سو اداؤں، وضعوں، نزاکتوں اور دل فریب اشاروں سے بتاتا ہے، اور اس میں ایسی نازک خیالی اور جدّت طرازی ہوتی ہے کہ دیکھنے والا جانتا نہ ہو تو سمجھ بھی نہیں سکتا۔ معمول تھا کہ بندا دین بتاتا اور کالکا پاس کھڑے ہو کے اُس کی تشریح کرتا جاتا۔ اُس کی تشریح ہی سے لوگوں کو پتا چلتا کہ بندادین اپنے فن میں کیسا کمال دکھا رہا ہے۔ ناچ میں اُس کے پانو اس نزاکت سے زمین پر پڑتے ہیں کہ مشہور ہے بعض اوقات وہ تلوار کی باڑھ پر ناچا اور مجال کیا جو تلوے میں چرکا آیا ہو۔
(24)
مرد ناچنے والوں کا دوسرا گروہ بھانڈ ہیں۔ اُن کے مجرے کی شان یہ ہے کہ

ریختہ صفحہ 245
ایک نوخیز و خوش رو لڑکا، جس کے بال عورتوں کی طرح لمبے ہوتے ہیں، رنگین اور زرق برق کپڑے پہن کے اور پانو میں گھونگھرو باندھ کے ناچتا گاتا ہے۔ اُس کے ساتھ کا ساز، لَے میں ڈوبا ہوا اور دلوں کو ابھارنے والا ہوتا ہے۔ اُس کے ناچ میں غیر معمولی چلت پھرت اور شوخی و چالاکی ہوتی ہے اور اس کا گانا بھی اسی رنگ اور مذاق کے مناسب ہوتا ہے۔ ساتھ بجانے والوں کے علاوہ سات آٹھ یا اس سے زیادہ بھانڈ رہتے ہیں جو اُس کے ناچ گانے پر واہ واہ کے نعرے بلند کرتے۔ متاثّر ہو ہو کے تال دیتے اور اکثر خلافِ تہذیب بے اعتدالیوں سے اُس کے حرکات و سکنات اور اس کی اداؤں پر ہنسانے والے ریمارک کرتے رہتے ہیں۔ اور جہاں وہ لڑکا تھوڑی دیر گا چکا، وہ سامنے آ کے نقلیں کرتے اور بذلہ سنجی و نقّالی کا کمال دکھاتے ہیں۔
لکھنؤ میں اِن لوگوں کے دو گروہ ہیں: ایک کشمیری جو کشمیر سے آئے ہیں۔ اور دوسرے خاص یہاں کے، جن کا پیشہ ابتداً کچھ اور تھا، مگر اب نقالی ان کا خاص فن ہو گیا ہے۔
نقّالی اور خصوصاً رقص و سرود کے ساتھ نقالی ہندوستان کا بہت ہی پُرانا فن تھا، جو راجا بکرماجیت کے دربار میں یعنی حضرت مسیح سے پہلے بہت ترقی پر تھا۔ مگر اس وقت اس میں اعلا درجے کے ڈراما دکھائے جاتے۔ اور سچ یہ ہے کہ وہ بہت ہی مہذّب و شائستہ تقّالی تھی۔ ہندوستان کی ادنا قوموں کی تقریبوں میں آج تک معمول ہے کہ جب وہ لوگ خود ہی ناچتے گاتے ہیں تو انہیں کے ساتھ مضحک نقلیں بھی کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے زمانے میں دولت مغلیہ سے پہلے بھانڈوں اور نقالوں کا پتا نہیں لگتا۔ ممکن ہے کہ ہوں اور اس دور کے وقائع نگاروں نے اُن کو قابلِ لحاظ نہ خیال کیاہو۔ مگر دولتِ مغلیہ کے زمانے میں بھانڈوں نے خاس نمود حاصل
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 246
کرلی تھی۔ ان کا پتا اورنگ زیب کے بعد سے ملتا ہے۔ جب امراوسلاطینِ دہلی کو ملک گیری و ملک داری کی زحمتوں سے چھٹّی مل گئی تھی اور صرف دربارداری و عیش پرستی کو اپنا آبائی حق تصوّر کرنے لگے تھے۔ مگر دراصل ان بھانڈوں نے یہاں کی سوسائٹی میں عجیب عجیب کام کیے۔ یہی یہاں کے نیشنل سٹائرز ہیں۔ اور انہوں نے قریب قریب وہی کام کیے جو انگلستان میں اسپکٹیٹر اور ٹائٹلر نے کیے تھے۔ دہلی کا سب سے پہلا بھانڈ کریلا مشہور ہے، جو محمد شاہ کے عہد میں تھا۔ کسی بات پر ناراض ہو کے محمد شاہ نے حکم دیا کہ بھانڈوں کو ہمارے ملک سے نکال دو۔ دوسرے دن بادشاہ کی سواری نکلی تو اوپر سے ڈھول بجنے اور بھانڈوں کے گانے کی آواز آئی۔ تعجب سے سر اٹھا کے دیکھا تو کریلا اور چند بھانڈ ایک کھجور کے درخت پر چڑھے ہوئے ڈھول بجا بجا کے گا رہے تھے۔ سواری رکوا کے پوچھا: " یہ کیا گستاخی ہے؟ اور ہمارے حکم کی تعمیل کیوں نہ ہوئی"؟ عرض کیا: "قبلۂ عالم!ساری دنیا تو جہاں پناہ کے زیرِ نگیں ہے، جائیں تو کہاں"! اس جواب پر بادشاہ اور جملہ مصاحبین ہنس پڑے اور اُن کا قصور معاف کیا گیا۔
لکھنؤ میں آنے کے بعد ان لوگوں کی کچھ ایسی قدر ہوئی کہ ان طائفوں کا اصلی مرکز لکھنؤ ہی قرار پا گیا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے فی الحال دہلی میں بھانڈ نہیں ہیں۔ اور ہوں تو بہت ہی کم اور گم نام ہیں۔ ہاں بریلی میں پرانے زمانے سے بھانڈوں کے طائفے موجود ہیں۔ اور اکثر لکھنؤ کے ڈوم ڈھاڑی بھی بریلی سے آئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوانینِ روہیل کھنڈ بھی موسیقی اور اربابِ نشاط کے قدرداں تھے، جن کی فیاضی سے بریلی و مراد آباد میں ان لوگوں کا نشو ونما اچھی طرح ہوا۔ اور وہاں سے بھی صاحبِ کمال ڈھاڑی اور نقّال لکھنؤ میں آئے۔ اگرچہ اب ان کا اصلی مرکز لکھنؤ ہی بنا ہوا ہے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 247

اِن کے لطیفے نوک جھونک کے فقرے، اور نقالی کے عجیب کمالات لکھنؤ میں مشہور ہیں۔ نوّاب سعادت علی خاں کے اشارے سے اُس وقت کے سب سے بڑے بانکے کے سامنے جو چوٹ کرتا ہوا فقرہ ایک بھانڈ نے کہا تھا، اِس سے پہلے ہم اپنے ناظرین کو سنا چکے ہیں۔ اُسی زمانے کا ایک یہ واقعہ بھی یادگار ہے کہ کسی رئیس نے انعام میں دو شالا دیا۔ مگر وہ دوشالا بوسیدہ اور پُرانا تھا۔ ایک نقّال نے ہاتھ میں لے کے اُسے غور سے دیکھنا شروع کیا اور اس پر بہت ہی گہری نظریں جمادیں۔ دوسرے نے پوچھا: دیکھتے کیاہو؟ کہا: دیکھتا یہ ہوں کہ اس پر کچھ لکھا ہوا ہے۔ پوچھا: آخر کیا لکھا ہے؟ عینک نکال کے لگائی اور اٹک اٹک کے بڑی مشکلوں سے پڑھا: لا الہ الاّ اللہ۔ پوچھا: بس اتنا ہی؟ محمدﷺ رسول اللہ نہیں لکھا؟ جواب دیا: محمدﷺ رسول اللہ کیسے لکھا ہو، یہ تو ہمارے حضرت سے پہلے کا ہے۔
لکھنؤ کے ایک نوّاب صاحب "گڑھیاّ والے نوّاب" مشہور تھے۔ اِس لیے کہ اُن کے مکان کے قریب ایک گڑھیاّ تھی۔ اُنہی کے وہاں کسی تقریب میں محفل رقص و سرود تھی۔ ایک بھانڈ گھبرایا ہوا نکل کے سامنے آیا اور سب ساتھیوں سے کہا: اُٹھو اُٹھو، تعظیم کرو۔ سب نے کہا: کس کی تعظیم کریں؟ کوئی ہے بھی؟ بولا: نوّاب صاحب آتے ہیں۔ اور یہ کہہ کر ایک ہانڈی جو کھولی تو ایک بڑا سا مینڈک اچھل کے بیچ محفل میں بیٹھ گیا اور سب سے کہنا شروع کیا: جلدی اُٹھو، جلدی اُٹھو۔ ساتھیوں نے حیران ہو کے پوچھا: آخر کس کے لیے اٹھیں؟ کہا: تم نے پہچانا نہیں، آپ گڑھیاّ کے نوّاب ہیں۔
اُن لوگوں کی نسبت مشہور تھا کہ جس کے وہاں جا کے ناچتے، اُس کی نقل ضرور کرتے، اور ممکن نہ تھا کہ اُس پر چوٹ نہ کریں۔ اور سچ یہ ہے کہ جیسی جیسی خوب صورتی سے اِن لوگوں نے اُمراو روسا کو سبق دیے ہیں اور اُن کی لغزشوں پر اُنہیں

ریختہ صفحہ 248
متنبہ کیا ہے، اور کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ اِسی طرح نقالی میں جس کی نقل کرتے، اُس کا ایسا مکمل بہروپ بھرتے اور ایسا سچّا کیرکڑ دکھاتے کہ لوگ اَش اَش کر جاتے۔ آج کل انگریزوں کی صحبت میں جس طرح " بابوز انگلش" کا مضحکہ اّڑا کرتا ہے، اُن دنوں کا یتھوں کی فارسی آمیز اُردو کا مضحکہ اُڑا کرتا تھا۔ اُن کی نقل اور دیوان جی کا کیرکٹر ایسا اعلا درجے کا یہ بھانڈ دکھایا کرتے تھے کہ لوگ محوِ حیرت ہو جاتے۔ یہاں دوسرا کریلا بھانڈ نصیرالدین حیدر کے زمانے تک موجود تھا۔ اس کے بعد سجن، قائم، دائم، رجبی، نشاہ، بی بی قدر وغیرہ کی شہرت ہوئی۔ علی نقی خاں مع اپنی بی بی کے جن کا بہت کچھ دور دورا تھا۔ قائم کی سبیل دیکھنے کو آئے جسے وہ خوب سجتا اور شربت پلایا کرتا تھا۔ ان معزّز زائروں کو دیکھتے ہی قائم سامنے آ گیا، اور ہاتھ جوڑ کے کہا: خدا نوّاب صاحب کو سلامت اور بیگم صاحب کو قائم رکھے۔ اتنا سخت فقرہ تھا، مگر نوّاب اور بیگم دونوں کو انعام ہی دیتے بنی۔ قائم کا کمال یہ تھا کہ ایک مرتبہ ساڑھے تین گھنٹے تک فقط طرح طرح کے منہ بناتا رہا۔
آخر زمانے میں فضل حسین، کھلونا، بادشاہ پسند، کیا خوب، کے طائفے بہت مشہور تھے۔ اب بھی علی جان غنیمت ہے۔ یہ اُن طائفوں کے ناچنے والوں کے نام ہیں جنہوں نے رقص میں بڑی ناموری حاصل کی تھی اور جواب نہ رکھتے تھے۔
مگر لکھنؤ کی سوسائٹی پر ان سب لوگوں سے زیادہ اثر ڈومنیوں کا پڑ گیا تھا۔ تمام قصبات اور کل شہروں میں شادیوں میں گانے والی میراثنیں اور جاگنیں مدت ہائے دراز سے ہوتی آئی ہیں، جن کی وضع ڈفالیوں کی طرح ہمیشہ یکساں رہی۔ مگر ڈومنیوں نے لکھنؤ میں عجیب نمایاں ترقّی کی۔ ڈھول کو چھوڑ کے، انہوں نے رنڈیوں اور مردانے طائفوں کی طرح طبلہ سارنگی اور مجیرے اختیار کیے۔ صرف گانے کی حد سے ترقی کر کے ناچنا شروع کیا۔ اور اِسی پر کفایت نہ کی بلکہ بھانڈوں کی طرح زنانی محفلوں
ریختہ صفحہ 249

میں نقلیں بھی کرنے لگیں۔ شادی کی تمام رسموں کا وہ سب سے بڑا عنصر بن گئیں اور دولت مند گھرانوں کی بیگموں کو ایسا گرویدہ کر لیا کہ کوئی محل اور کوئی ڈیوڑھی نہ تھی جس میں ڈومنیوں کا کوئی طائفہ نہ نوکر ہو۔ ان میں سے اکثر گانے اور ناچنے میں بے مثل ہوتی تھیں۔ اور ایسے نور کے گلے پائے تھے کہ زنانی محفلیں، مردانی محفلوں سے زیادہ شان دار اور حد درجہ دل کش و پرلطف ہو گئیں۔ خصوصاً محفلوں میں ان کی شوخیاں اور جدّت طرازیاں ایسی دل فریب ہوتی تھیں کہ مردوں کو اکثر تمناّ رہتی تھی کہ کسی طرح ڈومنیوں کا مجرا دیکھنے کا موقع ملے۔ اِس لیے کہ ڈومنیاں مردانی صحبتوں میں گانا ناچنا کسی طرح گوارا نہ کرتی تھیں۔ اب بھی ڈومنیاں کثر ت سے موجود ہیں اور اُسی شان و وضع پر ہیں، مگر کمال اُٹھ گیا۔ جیسی جیسی نامی لَے دار اور گلے باز ڈومنیاں لکھنؤ میں گزر گئیں، ویسے گویے بھی کہیں نہ پیدا ہوئے ہوں گے۔
(25)
ناچنے کی استادی اگرچہ مردوں ہی میں مخصوص ہے، مگر علی العموم جس وسعت اور تعمیم کے ساتھ گانے والی رنڈیوں نے اس فن کو ترقی دی، مردوں سے ممکن نہیں۔ ناچنے کو عورتوں کے ساتھ خصوصیت اور موزونیت بھی زیادہ ہے۔ یہ چیز ایک حد تک ہندوستان کے ہر شہر میں نظر آئے گی۔ مگر جیسی باکمال ناچنے اور بتانے والی رنڈیاں لکھنؤ میں پیدا ہوئیں، شاید کسی شہر میں نہ ہوئی ہوں گی۔ آج سے 40 سال پیش تر لکھنؤ کی ایک مشہور رنڈی منصرم والی گوہر نے کلکتے میں جا کے نموو حاصل کی تھی۔ میں نے ایک محفل میں اس کا یہ رنگ دیکھا کہ کامل تین گھنٹے تک ایک ہی چیز کو ایسی خوبی سے بتاتی رہی کہ حاضرینِ محفل (جن میں مٹیا برج کے تمام باکمال ڈھاڑی اور معزّز لوگ موجود تھے) اوّل سے آخر تک محوِ حیرت و سکوت تھے، اور کوئی بچّہ بھی

ریختہ صفحہ 250
نہ تھا جو ہمہ تن غرق نہ ہو۔ زہرہ و مشتری شاعرہ اور صاحبِ کمال گانے والیاں ہی نہیں، بے نظیر رقاصّہ تھی تھیں۔ جدّن نے ایک مدت تک زمانے کو اپنے رقص و سرود کا گرویدہ رکھا ہے۔
یہاں کی رنڈیاں عموماً تین قوموں کی تھیں: اول کنچنیاں، جو اصلی رنڈیاں تھیں اور اُن کا پیشہ علی العموم عصمت فروشی تھا۔ دہلی اور پنجاب ان کے اصلی مسکن تھے، جہاں سے ان کی آمد شجاع الدولہ ہی کے زمانے سے شروع ہو گئی۔ شہر کی نامی رنڈیاں اکثر اسی قوم کی ہیں۔ دوسری چونے والیاں: ان کا اصلی کام چونا بیچنا تھا مگر بعد کو بازاری عورتوں کے گروہ میں شامل ہو گئیں، اور آخر میں انہوں نے بڑی نموو حاصل کی۔ چونے والی حیدر جس کے گلے کا شہرہ تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ اس کا سا گلا کسی نے پایا ہی نہیں، اسی قوم کی تھی اور اپنی برادری کی رنڈیوں کا بڑا گروہ رکھتی تھی۔ تیسری، ناگرنیاں۔ یہ تینوں وہ شاہدانِ بازارا ہیں جنہوں نے اپنے گروہ قائم کر لیے ہیں اور برادری رکھتی ہیں۔ ورنہ بہت سی اور قوموں کی عورتیں بھی آوارگی میں پڑنے کے بعد اسی گروہ میں شامل ہو جاتی ہیں۔
گویّوں اور ناچنے والوں کے بعد یہاں اسی نوعیت کا ایک اور گروہ بھی ہے، جس کا نشوونما لکھنؤ میں بہت ہوا اور اسے لکھنؤ کے ساتھ مخصوص کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ وہ رہس والے ہیں۔ رہس خاص متھرا اور برج کا فن ہے۔ وہیں کے رہس دھاریوں نے آ آ کے لکھنؤ کو اس کا شوق دلایا۔
واجد علی شاہ کو جب رہس پسند آیا تو انہوں نے اپنے مذاق اور اپنے خیالی پلاٹ کا ایک نیا رہس تیار کیا۔ اس کو دیکھتے ہی رعایا میں اس بات کا خاص شوق پیدا ہوا کہ عاشقانہ قصّے جو اُن دنوں پریوں کے حسن و عشق سے زیادہ وابستہ تھے، عملی صورت میں دکھائے جائیں۔ پبلک کا یہ رحجان دیکھ کے میاں امانت نے ، جو رعایتِ لفظی
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 301

اور سینے پر سامنے اُس میں گھنڈیاں لگائی جاتیں (کذا)۔ اس کو نیچے پہن کے، اس کے اوپر جامہ پہنا جاتا جو عجمی قبا میں ترمیم کر کے بنایا گیا تھا۔ اس میں گریبان نہ ہوتا، بلکہ دونوں جانب کے کنارے جو "پردہ" کہلاتے، ترچھے ایک دوسرے پر آ کے، سینے کو ڈھانک لیتے۔سینے کا بالائی حصہ جو گلے کے نیچے ہوتا ہے، اسی طرح کھلا رہتا جیسے آج کل انگریزی کوٹوں میں کھلا رہتا ہے۔ اور جس طرح فی الحال قمیص، سینے کے اوپر والے حصے کو چُھپاتا ہے، اسی طرح اُن دنون نیمہ اس کو ڈھانکے رکھت۔ سینے پر جامے کا وہ پردہ جو بائیں طرف سے آتا، نیچے رہتا۔ اور داہنے پہلو پر بندوں سے باندھ دیا جاتا اور اس پر داہنی طرف کا پردہ رہتا جو اوپر بائیں پہلو میں باندھا جاتا۔ پھر اس میں کمر کے پاس سے دامنوں کے عوض ایک اسکرٹ سی جوڑ دی جاتی جو ٹخنوں کے اوپر تک لٹکتی رہتی۔ اس میں بہت سے چنٹ دی جاتی۔ اور اس کا گھیر بہت بڑا ہوتا۔ جامے کی آستینیں آدھی کلائی تک بے سلی اور کھلی رہتیں اور وہ دونوں جانب لٹکا کرتیں۔ اس کے نیچے سیدھی سادی تنگ مُہریوں کا پائجامہ ہوتا جو اُمرا میں مشروع اور گُلبدن کا ہوا کرتا۔ پھر جامے کے اوپر کمر میں پٹکا باندھ لیا جاتا۔

دو تین صدی پیش تر ہمارے بزرگوں اور ہندوستن کے امیروں اور تمام شریفوں کا یہی لباس تھا۔ ٹوپیوں، پگڑیوں اور پائجاموں میں جو ترمیمیں ہوئیں، اُن کا مفصل و مشرح حال ہم بعد کو بیان کریں گے۔ سردست ہم درمیانی حصہ جسم کے لباس کا ذکر کرتے ہیں، جو سچ پوچھیے تو اصلی لباس ہے اور اُسی سے انسان کی وضع قطع مسخص و معین ہوتی ہے۔ یہی اس دور کا درباری لباس تھا اور یہی لباس پہلے ہوئے نواب بُرہان الملک منصور جنگ اور شجاع الدولہ، دہلی سے اودھ میں آئے تھے۔ جامہ عموماً باریک ململ کا ہوتا جو ہندوستان کے مختلف شہروں میں نہایت نفیس، ب اریک اور سبک بنا کرتی اور ساری دنیا میںمشہور تھی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 302

ڈھاکے کی ململ اور جامدانی، عالی مرتبہ امیروں اور بادشاہوں کے لیے مخصوص تھی۔

اس کے بعد ایرانی قبا سے ماخوذ کر کے بالابر ایجاد ہوا۔ جس میں گول گریبان بالکل کھلا رہتا۔ اس لیے کہ سینے کے ڈھانکنے کے لیے نیمہ کافی تھا جو اس کے نیچے بھی پہنا جاتا۔ وہ چنٹ اور گھیر اس میں سے نکال دیا گیا۔ اور اس ضرورت سے کہ دامن آگے کی طرف نہ کھلیں، داہنے دامن میں ایک چوڑی کلی لگا دی جاتی۔ یہی کلی اس کلی کا نقش اولیں ہے جو فی الحال شروانیوں میں بائیں جانب نیچے لے جا کے بندے سے باندھی یا ہُک سے اٹکائی جاتی ہے۔ بالابر بھی دہلی ہی کی ایجاد ہے۔

اسی بالابر پر ترقی کر کے دہلی ہی میں انگرکھا ایجاد کیا گیا۔ جس میں دراصل جامہ اور بالابر دونوں کو ملا کے ایک نئی قطع پیدا کی گئی۔ اس میں سینے پر چولی، قبا سے لی گئی۔ مگر سینہ کھلا رکھنے کی جگہ ایک گول اور لمبوترا گریبان بڑھایا گیا۔ جس کے اوپر گلے کے نیچے ایک ہلال نما کنٹھا لگایا جاتا۔ اور وہ بائیں طرف گردن کے پاس گھنڈی تکمے سے اٹکا دیا جاتا۔ چولی نیچے رہتی، جس میں پہلے داہنی طرف کا پردہ نیچے بغل میں بندوں سے باندھ دیا جاتا۔ اور پھر اوپر بند ہوتے جس سے دونوں طرف کے پردے سینے کے نیچے بیچوں بیچ میں لا کے باندھ دیے جاتے۔ اس میں بائیں جانب تھوڑا سا سینہ کُھلا رہتا۔ چولی نیچی رہتی اور نیچے دامن اگرچہ قبا کے سے ہوتے مگر پُرانے جامے کی یادگار میں دونوں پہلوؤں پر بغلوں کے نیچے چنٹ ضرور رکھی جاتی۔

یہ پُرنا انگرکھا تھا جو دہلی کے آخری دور میں رواج پا چکا تھا اور وہاں سے سارے ہندوستان میں پھیل گیا۔ لکھنؤ میں آنے کے بعد اس انگرکھے میں زیادہ چُستی اور قطع داری پیدا کی گئی۔ چولی خوب گول اونچی اور کھینچی ہوئی چست ہو گئی، بغلوں کی چنٹ بالکل نکل گئی۔ دامنوں میں بجائے موڑ کے ٹانک دینے کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 303

سنجافی گوٹ لگائی گئی۔ پھر اُس کے بعد نواب زادوں اور شوقین وضع داروں نے ایک کمر توئی کے عوض جو چولی کے نیچے بند لگانے کی جگہ پر ہوتی، پلیٹوں کی وضع سے تین تین کمر ٹوئیاں لگائیں۔ جا بہ جا گوٹ اور کمر توئیوں کے پاس کٹاؤ کا کام بنایا۔

دہلی میں انگرکھے کے ایجاد ہونے کے بعد نیمہ چھوٹ گیا تھا اور بائیں جانب سینے کا کھلا رہنا معیوب نہ تھا، بلکہ وضع داری خیال کیا جاتا۔ لکھنؤ میں اس کے نیچے، نیمے کے عوض شلوکا ایجاد ہوا۔ جس میں آگے کی طرف بوتام لگائے جاتے۔ اس لیے کہ اب یورپ کے بونام یہاں پہنچ گئے تھے۔ شلوکوں میں خاص وضع داریاں دکھائی جاتیں۔ نازک مزاج لوگ جالی یا بابرلیٹ کے چُست شلوکے پہنتے، جن میں کچے سوت سے نقش سے نگاقر کاڑھے جاتے۔ بعض لوگ رنگین شلوکے پہنتے۔ اس لیے کہ اس کے بیل بوٹے ار اس کا رنگ، تنزیب کے سپید انگرکھے کے نیچے سے اپنی جھلک دکھا کے خاص لطافت اور خاص نفاست پیدا کرتے۔

دوسری ترمیم بالابر میں دربار کے لکھنؤ آنے کے بعد یہ ہوئی کہ چپکن کے نام سے ایک چُست قبا ایجاد ہوئی۔ اس میں ویسا ہی گول گریبان رکھا گیا۔ اور اس میں انگرکھے کی طرح سینے پر پردہ بھی لگایا گیا۔ مگر وہ پردہ داہنی جانب قوس نُما صورت میں بوتاموں سے اٹکایا جاتا۔ اس میں داہنی جانب گلے کے پاس سے بوتاموں کی ایخ خوش نُما قوس گولوئی لیتی ہوئی کوڑی تک آتی اور اس کے مقابل دوسری جانب کی قوس میں اصلی قبا میں سی دیا جاتا۔ اس میں بھی بالابر کی طرح چوڑی کلی اوپر لگائی جاتی، جو بغل کے نیچے بائیں طرف بوتام یا گھنڈی سے اٹکا دی جاتی۔ یہ چپکن جو شالی یا کسی اور بھاری کپڑے کی ہوتی اور جاڑوں کے موسم کے لیے زیادہ موزوں تھی، ایک زمانے میں یہاں اہل دربار اور خاصۃً اہل کار

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 304

باریان دربار کا معزز لباس تھی۔ اسے انگریزوں نے بہت پسند کیا اور اپنے ملازموں کو ایک مدت تک وہی پہناتے رہے۔

سب کے بعد لکھنؤ کے بالکل آخری عہد میں چپکن اور انگرکھے دونوں کے ترتیب دینے سے اچکن ایجاد ہوئی۔ اس میں انگرکھے اور چپکن کا سا گریبان قائم رکھا گیا، جو بیچ سے سیدھا کاٹ کے آدھا دونوں جانب سی دیا جات۔ اور سلائی کی جگہ پر سنجافی گوٹ کے ذریعے سے گریبان کی گولوئی اور قطع برقرار رکھی جاتی۔ بیچ کے چاک میں جو گلے سے لے کے سیدھا کوڑی تک آتا، بوتام لگا دیے جاتے۔ وہ بالابر کی کلی جو اوپر لگائی جاتی تھی، اس میں نیچے کر دی گئی تاکہ دامن بھی نہ کھلیں اور بالابر کی کلی کے اوپر کی طرف لگانے جو بدمذاقی ظاہر ہوتی تھی، دُور ہو جائے۔ اچکن کا نیچے کا حصہ بالکل چپکن اور انگرکھے کا سا ہوتا۔ شوقین لوگ اس میں بھی ویسی ہی در دامن گوٹ اور اسی طرح کی تین تین کمر توئیاں لگاتے اور کٹاؤ کا کام بناتے۔

یہ آخری ایجاد اچکن لوگوں کو بہت پسند آئی۔ اس کا رواج شہر سے گزر کر دیہاتوں میں بھی شروع ہوا۔ اور آناً فاناً سارے ہندوستان میں پھیل گیا۔ یہی اچکن، حیدرآباد پہنچ کے تھوڑی ترمیم کے بعد شیروانی بن گئی۔ وہاں اس کی آستینیں انگریزی کوٹ کی سی کر دی گئیں۔ گریبان جو گوٹ لگا کے سینے پر نمایاں کیا جاتا تھا، نکال ڈالا گیا۔ قطع و بُرید میں انگریزی کوٹ کی وضع دامنوں وغیرہ میں بھی اختیار کی گئی اور وہ لباس ایجاد ہو گیا جو آج کل ہندوستان کے ہندو مسلمان تمام لوگوں کا قومی لباس کہے جانے کے قابل ہے۔ لکھنؤ والوں نے بھی چند روز بعد جب اپنی پرانی ایجاد میں حیدرآباد کی مناسب اصلاح دیکھی تو اسے بہت ہی پسند کیا۔ اور تھوڑے ہی زمانے میں شیروانی کا رواج ہر شہر اور قریے کی طرح لکھنؤ میں بھی ہو گیا۔

انگرکھے کے نیچے جو شلوکا پہنا جاتا تھا، اس کے عوض پہلے ڈھیلا اور اونچا کُرتا اختیار کیا گیا اور چند روز بعد مغربی اثر نے کُرتا چھڑا کے، انگریزی قمیص کو رواج دیا،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 305

جس میں کف اور کالر ہوتے ہیں۔ قمیص اور کالر کے رواج نے شیروانی کے تکلفات اور بڑھائے، یعنی لازمی ہو گیا کہ سفید کالر اوپر نکلا رہے۔ اور شروانی کا اوپر کا سرا گلے پر ہُک سے اٹکا کے، قمیص کے اُس بالائی بوتام کے نیچے رہے۔ جس میں کالر لگایا جاتا ہے۔ آستینیں اتنی رہیں کہ کفوں کا کسی قدر حصہ نکلا رہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں اور متوسط طبقے والوں کا لباس دوسرے شہروں کی طرح فی الحال لکھنؤ میں بھی یہی شروانی ہے۔ مگر اس کو لکھنؤ سے خصوصیت نہیں، لکھنؤ کی ایجاد و اختراع کا خاتمہ اچکن پر ہو گیا۔ جو اب قریب قریب بالکل متروک ہو گئی ہے۔

(33)

درمیانی حصہ جسم کے لباس کا حال ہم بیان کر چکے ہیں۔ لہذا اب اس جزو لباس کی طرف توجہ کرتے ہیں جو سر کے لیے مخصوص ہے۔ اور اسی لباس کی ہندوستان میں زیادہ عزت و حرمت کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس طرح سر سارے جسم میں ممتاز ہے، اسی طرح اس کے لباس کو بھی زیادہ ممتاز ہونا چاہیے۔ قدیمُ الایام سے ہندوستان میں پگڑی باندھنے کا رواج چلا آتا ہے۔ اگرچہ عربی و عجمی بھی عمامے باندھے ہوئے یہاں آئے اور ان کی حکومت قائم ہو جانے کی وجہ سے یہاں کی پگڑیوں میں بہت کچھ تغیر ہو گیا، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے یہاں پگڑی نہ تھی۔

ابتدائی دور کے مسلمان فرماں رواؤں کے عمامے بڑے بڑے تھے۔ اور اسی لحاظ سے اُن تمام معززین و اُمرا اور دولت مندوں کی پگڑیاں بھی غالباً بڑی بڑی ہوں گی، جن کے نیچے قدیم تُرکی وضع کی نوک دار مخروطی ٹوپیاں ہوتیں جو افغانستان میں آج تک مروج اور موجود ہیں۔ اور انہی سے لے کے ہماری ہندوستانی فوج کی وردیوں میں شامل کی گئی ہیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 306

سلطنت مغلیہ کے عہد میں پگڑیاں روز بہ روز چھوٹی ہونے لگیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سرد ممالک میں جس طرح سردی کی مضرت سے بچنے کے لیے، جو جو زمانہ گزرتا ہے، لباس وزنی اور گُندہ ہوتا جاتا ہے، ویسے ہی گرم ملکوں میں سبک، ہلکا اور مختصر ہوتا رہتا ہے۔ اگلے مسلمان فاتح جیسے بھاری اور موٹے کپڑے پہنے ہوئے یہاں آئے ہوں گے، اُن کے وزنی ہونے کا اندازہ تو ہم فقط قیاس سے کر سکتے ہیں، مگر انگریزوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کا اور ان کی عورتوں کا لباس روز بہ روز کس قدر سبک، ہلکا اور مختصر ہوتا جاتا ہے۔

اسی اصول کے مطابق یہاں پگڑیاں روز بہ روز ہلکی اور چھوٹی ہوتی گئیں اور ملک کا یہ رحجان دربار کی وضع پر بھی اثر کرتا گیا۔ دربارِ مغلیہ کے آخر عہد میں اُمرا اور منصب داروں کی پگڑیاں بہت ہلکی ہو گئی تھیں۔ اور اسی اختصار پسندی نے یہ بات پیدا کی کہ پگڑیوں کی صدہا قطعیں ہو گئیں۔ اور اکثر اُمرا نے اپنے لیے خاص بندشیں اور خاص وضع کی چھوٹی چھوٹی پگڑیاں ایجاد کر لیں۔

پگڑیوں کے اختصار نے ترکی کُلاہ کو ترک کرا دیا اور یہ حالت ہو گئی کہ کسی کے پگڑی کے نیچے ٹوپی ہوتی ہی نہ تھی۔ اور بعض پہنتے بھی تھے تو کسی بہت ہی باریک کپڑے کی ذرا سی ٹوپی جو پھونک میں اُڑ جائے۔ ان ٹوپیوں کی نسبت ہمیں وثوق کے ساتھ نہیں معلوم ہے کہ کس وضع کی ہوتی تھیں۔ غالباً ان ٹوپیوں کی قطع اُن ٹوپیوں کے قطع سے ملتی ہوئی ہو گی جو اب مشائخ اور فقرا کے سروں پر ہوتی ہیں یعنی ایک چھ ساتھ انگل کی چوڑی پٹی کا سر کے برابر ایک حلقہ بنایا جائے اور اوپر کی جانب چنٹ دے کے وہ سمیٹ دیا جائے۔

لیکن چند روز میں ضرورت محسوس ہوئی کہ گھر میں اور بے تکلفی کی صحبتوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 307

میں پگڑی اتر کے رکھ دی جایا کرے۔ لیکن ننگے سر رہنا چوں کہ معیوب ہے، اس لیے کسی قسم کی ٹوپی سر پر ضرور رہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دہلی میں تاج کی وضع سے لے کے ایک کمرخی ٹوپی ایجاد ہوئی، جس میں اس گول حلقے کے اوپر جو سر میں پہنا جاتا تھا، چار کونے نکلے رہتے۔ اس وضع کی ٹوپی اب بھی بعض بعض اُرا و شاہ زادگانِ دہلی کے سروں پر نظر آ جایا کرتی ہے۔ یہ ٹوپی صحیح معنوں می چوگوشیہ کہلاتی تھی۔ چند روز کے اندر اس ٹوپی میں بھی ترمیم و تنسیخ کا عمل شروع ہوا اور دہلی ہی میں وہ کمرخی کونے نکال کے، ایک گول قُبہ نُما ٹوپی ایجاد ہو گئی۔ جس میں چار پان ایسی قطع سے کگاٹ کے جوڑے جاتے کہ ایک لمبوترا قُبہ سر پر نظر آتا۔ یہی ٹوپی پہنے ہوئے لوگ لکھنؤ میں آئے اور اس وقت سے اس میں دربار لکھنؤ کا اثر پڑنا شروع ہوا۔ یہاں پہلی ترمیم یہ ہوئی کہ پاؤں کے جوڑوں پر لمبی صراحیاں بنائی گئیں۔ اور اُن صراحیوں کے درمیان خوش نما چاند قائم کیے گئے۔ یہ چاند اور صراحیاں اور چاند کاٹ کے اندر کی طرف ٹانک دیے جاتے جو اوپر نمایاں ہو کے ٹوپی میں ایک اچھی نفاست صفائی اور سادگی پیدا کرتے۔ یہ ٹوپی یہاں بہت پسند کی گئی۔ عام لوگوں نے یکایک پگڑی باندھنا چھوڑ دیا اور ہر مہذب و شایستہ آدمی کے سر پر یہی ٹوپی نظر آنے لگی۔

عام مقبولیت نے اس کی قطع اور درست کی، لمبوتڑا پن موقوف ہو کے نہایت مناسب گولوئی پیدا کی گئی اور لکڑی اور تانبے کے قالب ایجاد ہوئے تاکہ ان پر کھینچ کے یہ چوگوشیہ ٹوپیاں (جو دہلی والی پُرانی کمرخی ٹوپیوں کا نام اپنے ساتھ لیتی آئی تھیں) خوب قبے دار اور گول کر لی جائیں۔

اتنے میں نصیر الدین حیدر کا زمانہ آیا جب کہ لکھنؤ میں مذہب شیعہ کو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 308

خوب فروغ تھا۔ اور مذہب، سیاست، تمدن اور معاشرت ہر چیز میں اپنے مذاق کے مطابق اصلاحیں کر رہا تھا۔ خلفائے اربعہ کی مخالفت اور پنج تن کی محبت نے، لکھنؤ کی درباری معاشرت نے (کذا) چار کے عدد کو بُرا ور پانچ کے عدد کو محبوب بنا دیا تھا۔ جس کا اثر ٹوپی پر یہ پڑا کہ بربنائے بعض مستند روایات، خود جہاں پناہ کی ہدایت کے مطابق اس چوگوشیہ ٹوپی میں چار کے عوض پانچ پان کر دیے گئے۔ جس کی وجہ سے اس میں پانچ صراحیاں اور پانچ پان ہو گئے اور نام بھی بجائے چوگوشیہ کے پنجگوشیہ قرار دیا گیا۔ لیکن اصل ٹوپی میں جو ترمیم ہوئی تھی وہ تو اس قدر مستقل ہو گئی کہ چار پانوں کی ٹوپیاں بالکل فنا ہو گئیں۔ اور کسی کو یاد بھی نہ رہا کہ کبھی ان میں فقط چار پان ہوا کرتے تھے۔ مگر چوگوشیہ کا نام نہ مٹ سکا۔ آج تک باقی ہے اور زبانوں پر وہی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ پنج گوشیہ بھیکہتے ہیں مگر زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں جو اس پانچ پانوں والی ٹوپی کو آج تک چوگوشیہ کہتے ہیں۔

نصیر الدین حیدر بادشاہ اودھ نے یہ پانچ پانوں والی ٹوپی ابتداً خاص اپنے لیے ایجاد کی تھی اور ان کی زندگی میں رعایا میں سے کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کو پہنے۔ مگر اہل شہر کو یہ وضع اس قدر پسند آ گئی تھی کہ ان کے آنکھ بند ہوتے ہی ہر ادنا و اعلا نے اسی کو اختیار کر لیا اور لکھنؤ کے تمام مہذب و شایستہ لوگوں کے سروں پر یہی گول قُبہ نما ٹوپی نظر آتی تھی۔

چند روز بعد جاڑوں کی ضرورت سے اسی قسم کی نہایت نفیس کام دار ٹوپیاں ایجاد ہو گئیں جن میں پانچوں پانوں میں زربفت یا زری بوٹی کی زمین پر دوسرے رنگ کی ریشمی زمین دے کے، قیتون سے چاند اور صراحیاں بنائی جاتی تھیں۔ اور تمام وضع دار لوگوں کے سروں پر جاڑوں کے موسم میں ان کے سوا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 309

اور کوئی ٹوپی نہ ہوتی۔ اس کے بعد جب چکن کا رواض ہوا تو موسم گرما کے لیے اسی کام کی چوگوشیہ ٹوپیاں ایسی اعلا درجے کی نفیس و خوش نُما بننے لگیں جو سال سال بھر کی محنت میں تیار ہوتیں اور دس دس بارہ بارہ روپے تک ان کی قیمت پہنچ گئی۔

اُسی زمانے میں دہلی کے ایک شاہ زادے واردِ لکھنؤ ہوئے، جن کی دربار اور سوسائٹی نے بڑی عزت کی۔وہ دو پلڑی ٹوپی پہنا کرتے تھے جس میں سر کے لمبان کے مناسب دو لمبے پلے بیضاوی صورت میں کاٹ کے جوڑ دیے جاتے تھے۔ اُن کی یہ سادی ٹوپی اکثر لوگوں کو پسند آئی۔ اس لیے کہ وہ نسبتہً زیادہ سادی اور تیاری کے اعتبار سے آسان تھی۔ بہت سے لوگوں نے یہ ٹوپی اختیار کر لی۔ اور عوام میں اس کا اس قدر رواج ہوا کہ آج یہی دو پلڑی ہندوستان کی قومی ٹوپی ہے۔ وہ شاہ زادے یہاں کے لوگوں میں "دو پلڑی ٹوپی والے شاہ زادے" مشہور ہو گئے۔ اور کروڑوں خلقت کے سر اُن کی ایجاد اور تراش کے آج تک زیر بار ہیں۔ یہاں تک کہ شاہی کے آخری دور میں اسی دو پلڑی سے لے کے، یہاں ایک بہت چھوٹی پتلی ٹوپی ایجاد ہوئی، جس میں آگے پیچھے دونوں طرف دو نوکیں نکلی ہوتیں۔ یہ نکے دار ٹوپی کہلاتی تھی۔ اور اس قسم کی بھاری کام کی ٹوپیاں خاص شاہ زادوں، صاحب دولت رئیسوں، اعزاے شاہی اور اعلا درجے کے نواب زادوں کے ساتھ مخصوص تھیں۔

الحاصل، غدر کے زمانے تک اہل لکھنؤ میں دو ہی طرح کی ٹوپیوں کا رواج تھا : اول چوگوشیہ جو مہذب اور ثقہ لوگوں کے ساتھ مخصوص تھی۔ اور دوسرے دو پلڑی جو شاہ زادوں سے لے کے ادنا طبقے والوں تک تھوڑے تھوڑے تغیر وضع کے ساتھ مروج تھی اور آج عام لباس ہے۔

غالباً غازی الدین حیدر یا نصیر الدین حیدر کے زمانے ہی سے ایک گول

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 310

ٹوپی کا بھی خاص لوگوں میں رواج ہو گیا جو مندیل کہلاتی۔ اس کی قطع ڈفلی کی سی ہوتی اور اکثر کارچوب کے کام کی پسند کی جاتی۔ دولت مندوں اور بعض نواب زادوں نے اس کو زیادہ موقر و مشین تصور کر کے اختیار کیا اور اسے یہ خصوصیت دی گئی کہ بادشاہ اور شاہ زادوں کے سامنے بغیر پگڑی باندھے یا کارچوب کی مندیل پہلے، کوئی شخص نہ جا سکتا تھا۔ غرض مندیل کو دربار میں جگہ دی گئی۔ اسی مندیل سے ماخوذ وہ گول ٹوپی تھی جس کے اوپر کے کونے ذرا گولائی لیے ہوتے اور جنریلی ٹوپی کہلاتی۔ یہ عموماً سیاہ مخمل کی ہوتی۔ اور اس پر سچے سنہرے کلابتوں کا سچا کام ہوتا۔ اصل میں یہ ٹوپی سرکار انگریزی کی فوج میں گوروں کو دی گئی تھی اور بظاہر اس میں وردی کی شان بھی تھی۔ مگر انگریزوں کی تقلید کا غالباً پہلا نمونہ یہی تھا کہ یہ فوجی اور جنریلی ٹوپی، شاہ زادوں اور خاندانی امیروں کے لباس میں داخل ہو گئی۔

آخری شاہ اودھ واجد علی شاہ نے اپنے دربار کے خطاب یافتہ معززین کے لیے ایک نئی اور عجیب قسم کی درباری ٹوپی ایجاد کی۔ اس میں کاغذ کا مقوا دے کے، گول حلقہ سادے اطلس یا کارچوبی کام کا بنایا جاتا، جو پیشانی پر زیادہ اونچا ہوتا۔ اس میں اوپر کی طرف تنزیب، گرنٹ یا جالی کی ایک بڑی سی جھولی بنا کے جوڑ دی جاتی۔ اور پہننے میں وہ جھولی پیچھے گدی تک لٹکتی اور سر کے پچھلے حصے پر پڑی رہتی۔ اس درباری ٹوپی کا نام بادشاہ نے عالم پسند رکھا تھا اور اکثر عوام اُسے جھولا کہتے۔ مگر یہ اس قدر غیر مقبول اور ناپسندیدہ وضع تھی کہ واجد علی شاہ کی زندگی میں بھی ان کے دربار کے باہر ان لوگوں کے سروں پر بھی نظر نہ آ سکتی، جن کو وہ عطا ہوئی تھی۔ اور ان کے بعد تو اس قدر مٹ گئی کہ آج کل کے لوگوں نے شاید اسے کبھی دیکھا بھی نہ ہو گا۔

غدر کے بعد لکھنؤ میں یکایک ٹوپیوں کی دنیا میں ایک انقلاب عظیم

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 311

شروع ہو گیا۔ چند روز تک تو چوگوشیہ، دو پلڑی اور مندیلوں یا پگڑیوں کے سوا سر کا کوئی لباس نہ تھا۔ اس کے بعد یکایک چوگوشیہ ٹوپی کا رواج چھوٹنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ اب اس کے لیے صرف چند پُرانے وضع دار سر رہ گئے ہیں۔ ان ٹوپیوں سے جو سر خالی ہو گئے، ان میں سے اکثر نے دو پلڑی اختیار کی۔ لیکن بعض جدتیں تلاش کرنے لگے۔ چند روز تک میرٹھ کی سوزن کار مندیل نما ٹوپیوں کا دور رہا۔ اس کے بعد انگریزوں کی نائٹ کیپ یا کشمیر کی اونی لمبی چندوے دار ٹوپیاں مروج ہوئیں۔ پھر ان کی وضع سے ماخوذ کر کے گرنٹ یا سٹین کی پتلی پتلی ٹوپیاں اختیار کی گئیں جو مختصر ہوتے ہوتے دو پلڑی کے قریب پہنچ گئی تھیں۔اب انگریزی عہد کی وضع داریاں شروع ہوئیں اور سر کے لیے ان کے لباس سے ملتا جُلتا لباس ڈھونڈھا جانے لگا۔ بعض بزرگوں نے تو ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے بلا تامل ہیٹ یا انگریزوں کی نائٹ کیپ پہننا شروع کر دی۔

لیکن اب تُرکی ٹوپی کا دور شروع ہو گیا تھا۔ اس ٹوپی کو سید احمد خاں مرحوم نے اختیار کیا تھا۔اور مسلمان جنٹلمین کے لیے کوٹ پتلون میں اس کا جوڑ لگایا تھا۔ اس وجہ سے ابتداً یہ ٹوپی نہایت ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھی گئی۔ نیچریوں کی ٹوپی اس کا نام پڑ گیا۔ اخباروں میں اس پر ہزاروں پھبتیاں کہی گئیں۔ مگر سر سید کے استقلال نے اسے مروج کر ہی کے چھوڑا۔ ان کی زندگی ہی میں لاکھوں آدمی اسے پہننے لگے۔ یہاں تک کہ لکھنؤ میں بھی آ پہنچی۔ بہتوں نے علٰے رغم المخالفین یہاں بھی اُسے پہننا شروع کر دیا۔ لیکن اندر ہی اندر اس کی طرف لوگوں کا رجحان اس قدر بڑھا کہ اب سارے ہندوستان میں اکثر تعلیم یافتہ اور مہذب مسلمان اسی ٹوپی کا استعمال کر رہے ہیں۔

لکھنؤ میں معزز تعلیم یافتہ اور شایستہ شیعہ ہندوستان کے تمام شہروں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 312

سے شاید زیادہ ہیں اور ان میں اس بات کی تحریک بہ مقابل سُنیوں کے بڑھی ہوئی ہے کہ ہر بات میں اپنے آپ کو متمائز کریں اور اپنے شعائر و اوضاع جداگانہ قرار دیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ جس طرح اہل سنت، دولتِ عثمانیہ کے طرف دار ہیں، شیعہ، دولت قاچاریۂ ایران کے پیرو و جانب دار ہیں۔ لہذا جب لکھنؤ میں ترکی ٹوپی کا رواج بڑھنا شروع ہوا جو ترکوں کی ٹوپی ہے، تو وضع دار شیعوں کو خیال ہوا کہ بجائے ترکی ٹوپی کے، دربار عجم کی کلاہ پا پاخ کو اپنے لیے اختیار کریں۔ یہ تحریک پورا کام کر گئی۔ اور اب یہ حالت ہے کہ جو مسلمان اپنی پرانی ٹوپیوں کو چھوڑ کر نئی ٹوپی اختیار کرتے ہیں، وہ اگر سُنی ہیں تو ترکی ٹوپی پہننے لگتے ہین اور اگر شیعہ ہیں تو ایران کی پرشین کیپ کو اختیار کرتے ہیں۔ گرچہ دونوں فریقوں میں بعض ایسے روشن خیال بھی موجود ہیں جو مسلمانوں کی اس اندرونی اعتقادی تفریق کو مٹانا چاہتے ہیں اور باوجود سُنی ہونے کے ایرانی یا باوجود شعیہ ہونے کے ترکی ٹوپی پہنتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ کم ہیں۔ مسلمانانِ شہر کے جدید المذاق لوگوں کی عام وضع یہی ہے کہ شیعہ، ایرانی اور سُنی، تُرکی ٹوپی پہنتے ہیں۔

مسلمانوں کی یہ باہمی تفریق دیکھ کے ہندو تعلیم یافتہ لوگوں نے علی العموم گول مندیل نما فلٹ کیپ اختیر کر لی۔ جس کو بعض مسلمان بھی پہنتے ہیں۔ مگر ہندو انگریای دانوں کی وضع میں بہ کثرت داخل ہو جانے کی وجہ سے انگریزوں نے اس کا نام "بابوز کیپ" رکھ دیا ہے۔ مگر عوام ہندو ہوں یا مسلمان، شیعہ ہوں یا سُنی، دو پلڑی ہی پہننے ہیں۔

غدر کے بعد جو زمانہ گزرا، یہ لکھنؤ کی سوسائٹی کے لیے عظیم الشان کون وفساد کا زمانہ تھا۔ معاشرت اور اخلاق و عادات کے ساتھ لوگوں کے لباس اور وضع میں بھی تغیر ہونے لگا۔ اور تعلیم یافتہ جماعت میں کثرت سے ایسے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 313

لوگ پیدا ہو گئے، جنہوں نے اپنی معاشرت کے ستھ اپنی وضع بھی بالکل چھوڑ دی۔ نہ اُن کی ٹانگوں پائجامہ رہا، نہ پنڈے پر انگرکھا، نہ پاؤں میں چڑہواں جوتا رہا۔ نہ سر پر ٹوپی یا پگڑی۔ بلکہ ایک ہی جست میں وہ ساتوں سمندر پھاند کے ہندوستان سے انگلستان میں کود پڑے اور کوٹ پتلون، بوٹ اور ہیٹ ان کا لباس ہو گیا۔ لیکن آبادی کے غالب گروہ نے اپنی وضع برقرار رکھنا چاہی۔ تاہم بغیر اس کے کہ وہ محسوس کریں، ان میں بھ تغیر ہوا۔ اور انگرکھے کے عوض سروانی ان کا قومی لباس بن گئی۔ لیکن سر کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ابھی تک کوئی ایسی ٹوپی نہیں منتخب ہو سکی جس کو سب بلا تامل اختیار کر لیں۔

اس کون و فساد اور رد و بدل کے زمانے میں لکھنؤ میں بیسیوں ٹوپیاں پیدا ہوئیں، جو یا خود یہیں کی ایجاد تھیں یا کسی اور قوم یا مقام سے ماخوذ تھیں۔ ان میں سے جو چند روز تک ٹھہر سکیں اُن پر لکھنؤ کے اصلی مذاق نے بہت کچھ تصرف بھی کیا۔ مگر آخر کو ترک ہو گئیں۔ اہل لکھنؤ کا طبعی رجحان اس جانب ہے کہ ہر چیز حتی الامکان نازک، نفیس، چھوٹی، چُست اور سبک ہو۔ ہر وضع و لباس میں ان لوگوں نے اسی مذاق کا تصرف کیا۔ اور اکثر ٹوپیوں میں بھی اس قسم کا تصرف ہوا۔ مگر ترکی ٹوپی، ایرانی ٹوپی، اور ہیٹ میں یہ لوگ مطلق تصرف نہ کر کسے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹوپیاں دوسری قوموں سے بنی بنائی لی جاتی ہیں۔ اور باہر سے آتی ہیں۔ اور اسی تصرف نہ ہو سکنے کی وجہ سے ہمارا خیال ہے کہ ان ٹوپیوں میں سے ایک بھی، باوجودیکہ بہ کثرت مروج ہو گئی ہیں، لکھنؤ کے مذاق سے جدا ہونے کے باعث یہاں کا قومی لباس نہ بن سکے گی۔ اور ٹوپی ک مسئلہ تاحال موجدان لباس کی مجلس میں زیر غور و تجویز ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 314

(34)

اگرچہ ہندوستان خصوصاً لکھنؤ میں سر کا قومی لباس، ٹوپی ہے، مگر یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہاں کی نزاکت پسندی نے پگڑی کو فنا کر دیا۔ دربار میں علی العموم پگڑیوں کا رواج تھا۔ وہ دہلی کی باوقعت امیرانہ دستاریں تو بے شک یہاں نہیں باقی رہیں اور امرا و اعزاے شاہی کے سروں پر فقط ٹوپیاں رہ گئیں۔ مگر دربار کے لے پگڑیاں آخر عہد تک مخصوص تھیں اور عام ملازمین کا اخلاقی فرض تھا اور اب بھی بڑی وسیع حد تک ہے کہ آقا کے سامنے جائیں تو سر پر پگڑی باندھ کے جائیں۔

خود حکمرانوں کے سروں پر پرانی دستار نواب سعادت علی خاں کے زمانے تک رہی۔ نواب برہان الملک، نواب شجاع الدولہ اور نواب آصف الدولہ کے سروں پر وہی دہلی کے عہدہ داران سلطنت کی سی سفید دستار ہوا کرتی جس پر بڑے درباروں کے موقعوں پر جواہرات کی کلغیاں، مرصع جیغے اور سرپیچ لگا لیے جاتے۔ مگر فی نفسہ وہ دستاریں سادی اور سفید ہوتی تھیں۔ مگر نواب سعادت علی خاں کے سر پر ہمیں ایک نئی قسم کی پگڑی نظر آتی ہے۔ جس کو اہل لکھنؤ اپنی زبان میں شملہ کہتے تھے۔ یہ شملہ یہاں اس طرح بنایا جاتا کہ بھراو میں کپڑے کا ایک چوڑا اور پتلا کگردار حلقہ سر کی ناپ کے برابر بنایا جاتا جو بیچ میں خالی اور کُھلا رہتا۔ پھر کسی نفیس ریشمی یا شالی کپڑے کی پتلی پتلی بہت لمبی بتی بنا کے اس کے بیسیوں پیچ اس کپڑے کے حلقے پر نیچے اور اوپر برابر لپیٹ کے ٹانک دیے جاتے۔ اس حلقے میں اوپر کی جانب ایک چوڑی پٹی ویسے ہی ریشمی یا شالی کپڑے کی جوڑ دی جاتی۔ تاکہ وہ اُس حلقے کو نیچے اُترنے سے روکے رہے۔ مگر اس سے پوری چندیا یا ڈھنک نہ سکتی تھی۔ اس لیے اس کے نیچے کوئی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 315

معمولی دو پلڑی یا چوگوشیہ ٹوپی ضرور رہتی۔ یہ تھا لکھنؤ کا اصلی شملہ جس کو پہلے پہل نواب سعادت علی خاں نے پہنا۔ اور غالباً وہ وسطِ ہند کے ہندو اور مسلمان درباروں کی اُن پگڑیوں سے ماخوذ تھا جو کسی باریک رنگین کپڑے کی صدہا گز کی بتیوں کو خاص ترتیبوں سے لپیٹ کے بنائی جاتی تھیں۔ نواب سعادت علی خاں نے اس شملے کو خود ہی نہیں پہنا بلکہ معززین دربار اور عمائد سلطنت اور وزرا کو بھی وہی عطا ہوا۔

غازی الدین حیدر کو دولتِ انگلشیہ نے بادشاہ بنا کے تاج پنہا دیا جو دراصل ہندوستان اور ایشیا کا تاج شاہی نہ تھا بلکہ ایک قسم کا یورپ کا تاج تھا۔ اس وقت سے فرماں روایان لکھنؤ نے شملے یا دستار کو بالکل چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ تمام شاہ زادوں، نواب زادوں اور عمائد شہر نے بھی پگڑی کو خیر باد کہہ دی۔ شاہ زادے خاص موقعوں پر تو تان، مگر علے العموم مسالے دار بھاری کام کی نکے دار ٹوپیاں پہنتے۔ اور انہی کی تقلید شہر کے دیگر معززین بھی کرتے۔ لیکن عہدہ داران سلطنت، وزرا اور اہل کاروں کو حکم تھا کہ شملہ پہن کے سلاطین و وزرا کے دربار میں آئیں۔ غازی الدین حیدر کے زمانے سے امجد علی شاہ کے عہد تک تمام عہدے داروں کے سر پر وہی شملہ رہا کرتا تھا جس کی تصویر اپنے ناظرین کو ہم نے لفظوں میں دکھا دی ہے۔ واجد علی شاہ نے جب اپنے دربار کی مخصوص ٹوپی عالمپسند (جھولا) ایجاد کی تو معمول ہو گیا کہ جن لوگوں کو زیادہ تقرب ہوتا اور "دولہ" کے خطاب سے سرفراز ہوتے، ان کو عالم پسند کبھی عطا ہوتی۔ ان کا فرض تھا کہ عالم پسند پہن کے دربار میں آئیں۔ ان سے کم درجے کے باریابانِ حضور، جو کسی کارخانے یا محکمے کے داروغہ ہوتے، ان کوداروغگی کے خطاب کے ساتھ شملہ عطا ہوتا۔ اور وہی پُرانا شملہ پہن کے حاضر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 316

ہوتے جو پہلے پہل نواب سعادت علی خاں کے سر پر لوگوں کو نظر آیا تھا۔ باقی تمام لوگوں کو حکم تھا کہ کسی قسم کی پگڑی باندھ کے دربار میں آئیں اور پگڑی نہ ہو تو ٹوپی اتار لیں۔ اہل کاروں کے جس شملے کا ہم نے ذکر کیا ہے، اسی قسم کا شملہ غالباً مرشد آباد کے دربار میں بھی تھا اور اسی کا اثر تھا کہ آج سے پچاس برس پہلے ہم کلکتہ ہائی کورٹ کے بنگالی وکیلوں کو اسی طرح کا شملہ پہنتے دیکھتے تھے۔ لیکن وہ شملہ دربار اودھ کے شملوں سے سبک اور ہماری نظر میں ذرا اوچھا ہوتا۔

اب پگڑی کو سوا عہدے داروں کے، تمام خوش باش لوگوں اور معززین شہر نے مطلقاً ترک کر دیا تھا لیکن اس پر بھی دربار میں اور نیز عوام میں پگڑی کی جو عزت دلوں میں قائم تھی اور ہے، اس کا ثبوت اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ شادیوں کے موقع پر ادنا اور اعلا طبقے میں دولہا کے سر پر پگڑی ہی ہوا کرتے ہے۔ اور لکھنؤ کے شرفا میں تو عموماً بھاری کمخاب کے شملے کا رواج ہے۔

یہاں کے دربار نے مذکورہ پگڑیوں کے علاوہ ملازمین کے مختلف طبقوں کے لیے جُدا جُدا وضعوں کی پگڑیاں بھی مخصوص کر دی تھیں۔ اہل قلم یعنی محرروں کے لیے اسی مذکورہ شملے کی سی سفید ململ کی پگڑی مخصوص تھی۔ دربار کے ہرکارے اور چوب دار بھی اسی قطع کی پگڑیاں پہنتے (اس لیے کہ وہ پگڑیاں سرخ ہوتیں اور چوب داروں کی سفید براق جن پر آگے داہنی جانب مقیش کا ایک پھول بھی ٹنکا ہوتا۔ ہرکاروں کی پگڑیوں سے ملتی جلتی پگڑیاں کہاروں کی ہوتیں۔ اُن کی پگڑیوں میں داہنی جانگ کی کور پر چاندی کی مچھلیاں ٹنکی ہوتی اور جسم پر سُرخ بانات کے ڈھیلے ڈھالے چُغے ہوتے۔

ان کے علاوہ تمام فوجوں اور معزز لوگوں کے خدمت گاروں میں بھی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 317

پگڑیوں کا رواج تھا جو اپنی وضع پر جدا اور خود رو سی ہوتیں۔

سب سے زیادہ معزز و محترم عمامے علما کے تھے۔ اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر پگڑیوں کے سلسلے میں ہمعلماے کرام و مقتدایان امت کے عماموں کے ساتھ پورے زی علما سے بحث کریں۔ لکھنؤ میں مسلمانوں کے دو فرقوں کے علما ہیں : اول علمائے اہل سنت، دوسرے مجتہدین و افضلِ شیعہ۔ ان دونوں کی وضع جُداگانہ ہے۔ سنیوں کو تقدس اور ثقاہت کی شان اہل عرب کے لباس میں نظر آتی ہے اور شیعوں کو علمائے فارس و عجم کی وضع میں۔ اسی مذاق و رجحان کے مطابق دونوں گروہوں کے علما کا لباس بھی ہے۔

آں حضرت صلعم کے عہد مبارک میں عربوں کا عمامہ صرف اس قدر تھا کہ کوئی مختصر سا کپڑا سر پر لپیٹ لیا جائے، جس کو نہ کسی قطع داری سے علاقہ تھا اور نہ وضع داری سے۔ مگر جب خلفائے عباسیہ کے عہد میں عراق مستقرِ خلافت قرار پایا تو عجمی و ساسانی لباس، عمائد و اکابر عرب کی وضع میں داخل ہو گیا۔ بہرحال جو بڑے بڑے شان دار عمامے اور طیلسان وغیرہ عہد خلافت کے علمائے عرب نے اختیار کیے، ان کو عربی لباس مشکل سے کہا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کے علمائے اہل سنت نے اگلے دنوں وہ عربی لباس چھوڑ کے دہلی کی درباری وضع اختیار کر لی تھی اور اس وضع داری کے ساتھ اس لباس کو نباہا کہ آج ہندوستان کے سارے ابناے وطن نے اسے چھوڑ دیا، مگر وہ ابھی تک اس پر قائم ہیں۔

چنانچہ آج تک علماے فرنگی محل کی اصلی وضع یہ ہے کہ ایک سیدھا گول عمامہ باندھتے ہیں، جس کی بندش میں بالکل اسی کی کوشش نہیں کی جاتی کہ پیشانی پر محراب کی قطع پیدا ہو۔ جسم میں اگلے زمانے کا جامہ ہوتا ہے جو سب جگہ بالکل خواب و خیال ہو گیا۔ پاؤں میں چوڑے اور عرض کے پائنچوں کا ٹخنوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 318

سے اونچا پائجامہ ہوتا ہے اور گلے میں ایک پتلا سا دوپٹا پڑا ہوتا ہے۔ اس وضع میں ہمارے دو ایک بزرگان فرنگی محل آج بھی جمعے کی نماز پڑھانے کو آتے ہیں۔ مگر گھروں میں وہ معمولی سادی دوپلڑی یا چوگوشیہ ٹوپی، لمبا کرتا، جس میں گریبان کا چاک بیچ میں ہو، یا انگرکھا اور عرض کے پائنچوں کا پائجامہ پہنتے ہیں۔ فی الحال حدیث العمر علمائے فرنگی محل نے اب اس وضع کو چھوڑ کے علمائے حرمین اور مقتدایان شام و مصر کی وضع اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ جسے آخر میں مولانا شبلی نعمانی نے بھی قومی اور سرکاری درباروں کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان بزرگوں کا جوتا بھی اگلے دنوں گھتیلا تھا مگر اب یا تو زیر پائیاں ہیں اور یا لکھنؤ یا دہلی کا چڑھواں جوتا۔

علمائے شیعہ کی وضع اس سے بالکل جدا ہے۔ وہ اول تو سر پر دوپلڑی ٹوپی پہنتے ہیں، مگر عام لوگوں کے خلاف اس کی سیون کی بجائے آگے سے پیچھے کی طرف رہنے کے، آڑی یعنی ایک کان سے دوسرے کان تک رہتی ہے۔ اس پر بلند اونچے قبے کا عمامہ اہل عجم کے عمامے کی بندش سے ملتا ہوتا ہے۔ بدن میں لمبا کرتا، مگر اس کے گریبان کا چاک بجائے اس کے کہ سینے کے بیچ میں ہو، بائیں شانے کے پاس ہوتا ہے۔ اگلے دنوں علمائے شیعہ کے کُرتوں میں گریبان کی جگہ دونوں شانوں پر ہوا کرتی تھی مگر یہ وضع اب متروک ہو گئی ہے۔ جو علما ایران و کربلا ہو آئے ہیں، وہ کرتے کے اوپر اگلی فیلسان پہنتے ہیں جو یہاں قبا کہلاتی ہے۔ پاؤں میں چوڑے پائنچوں کا پائجامہ ہوتا ہے۔ اور علی العموم کفشیں پہنتے ہیں، جن کا ذکر جوتوں کے بیان میں آئے گا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 319

(35)

سر اور درمیانی حصہ جسم کے لباس کا حال تفصیل و وضاحت سے ہم بیان کر چکے۔ اب اسفل جسم کے لباس کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دیگر زوائد لباس اور مختلف گروہوں کی خاص خاص وضعوں کا اور ان کے بعد عورتوں کے لباس کا تذکرہ کریں گے۔

نشیبی حصۂ جسم کے لیے عربوں میں سوا تہمت کے کچھ نہ تھا۔ عربی تہمت اور ہندوؤں کی دھوتی دونوں بے سی ہوئی پتلی چادریں ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ تہمت صرف کمر میں لپیٹ کے اٹکا لیا جاتا ہے۔ دھوتی ہندوستان کی مختلف قوموں میں خاص خاص بندشوں سے باندھی جاتی ہے۔ اس کا ایک سرا نیچے سے پھیر دے کے پیٹھ کے نیچے گھرس لیا جاتا ہے اور دوسرے کو بعض لوگ کمر میں لپیٹ لیتے ہیں۔ بعض چنٹ دے کے اور اوپر سے ناف کے پاس گھرس کے آگے لٹکا لیتے ہیں۔ عربوں کے تہمت نے بعد کے زمانے میںیہ ترقی کی کہ اس کے دونوں سرے سی کے ایک حلقہ بنا لیا جاتا ہے اور اس میں دونوں پاؤں ڈال کے اور کمر کے پاس اسے سمیٹ کے بندش کر دی جاتی ہے۔

ظہور اسلام کے وقت اور اس سے مدتوں پیش تر عربوں کا قومی لباس زیریں یہی تھا۔ امیر و غریب بادشاہ و وزیر سب تہمت باندھتے۔ فرق اس قدر تھا کہ اُمرا و متکبرینِ عرب اپنی نخوت اور اپنے غرور کا اظہار اس طرح کرتے کہ یہ تہمت بہت نیچا اور زمین سے ملا ہوا ہوتا جس میں سارے پاؤں چھپ جاتے۔ اس کے دونوں سرے زمین پر لٹکتے اور رگڑتے ہوئے چلتے۔ چونکہ اس وضع میں کبر و نخوت کی بو آتی اور جو شخص ایسا تہمت باندھ کے نکلتا، دوسروں کو اپنے سامنے ذلیل و حقیر خیال کرتا، اس وجہ سے اسلام نے اس وضع کی سخت ممانعت کی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 320

حکم دے دیا کہ ازار (تہمت) ٹخنوں سے نیچی نہ رہے۔ علما نے اسی حکم کی بنا پر فی الحال یہ فتوا دے رکھا ہے کہ پائجامہ یا ٹانگوں کا کوئی لباس تخنوں سے نیچا نہ ہو۔ حالانکہ پائجامہ نہ ان دنوں تھا اور اس حکم میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ نیچی اور زمین پر لوٹتی ہوئی ازار باندھنے سے جو کبر و نخوت کا خیال اُمراے عرب میں پیدا ہوتا تھا، ہندوستان کے نیچے پائجامے پہننے والوں میں ہر گز نہیں ہوتا۔

حضرت رسول خدا صلعم کے زمانے ہی میں پائجامہ دیگر ممالک و اقوام سے عرب میں پہنچ گیا تھا اور بعد کے زمانے میں بغداد کے دربار کا اور ان عربوں کا جو عرب سے نکل کے دیگر ممالک میں متوطن ہو گئے تھے، قومی لباس بن گیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں سے پہلے دھوتی کے سوا پائجامہ نہ تھا۔ مسلمان فاتح اسے اپنے ساتھ ہندوستان میں لائے۔ جن میں ملے چند ایسے عابد و زاہد اور مقتدایان دین تھے جو سنت نبوی کی پیروی میں تہمت ہی باندھے ہوئے اس سر زمین پر آ گئے۔ تہمت چونکہ سنت ہونے کی وجہ ایک خالص دینی لباس تھا، اس لیے بے نفس اور دین دار مسلمانوں یا طالب علموں ہی کے ساتھ مخصوص رہا۔ مگر پائجامہ یہاں کی سوسائٹی میں اس قدر عام ہو گیا کہ مسلمان درکنار ہندوؤں اور یہاں کی دوسری قوموں میں اس کا رواج ہو گیا۔

لیکن غور طلب یہ امر ہے کہ مسلمانوں کا پہلا اور اصلی پائجامہ کس وضع کا تھا؟ غالباً وہ تنگ مہری کا اٹنگا پائجامہ جو شرعی پائجامہ کہلاتا ہے اور اتقیائے اہل سنت میں مروج ہے، مسلمانوں کا پہلا پائجامہ ہے۔ یہی بغداد میں مروج تھا۔ اسی کا رواج ایران و ترکستان میں ہوا۔ اور اسی کو پہنے ہوئے مسلمان ہندوستان میں آئے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 321

ہندوستان کے آخری عہد میں اس کی قطع میں اتنا تغیر ہوا کہ پائنچے یا مُہری پنڈلی سے لپٹی رہتی۔ مگر اوپر کا گھیر قریب قریب اتنا ہی ہوتا جتنا کہ پُرنے شرعی پائجامے کا تھا۔ چند روز بعد مہری کسی قدر لمبی اور نیچی ہو گئی مگر ٹخنوں سے آگے نہیں بڑھی۔ دہلی کے آخر عہد تک وہاں اور سارے ہندوستان میں مسلمانوں کا یہی پائجامہ تھا۔ اگرچہ ادنا طبقے کے مسلمان، ہندو عوام کی آمیزش سے دھوتیاں باندھتے تھے اور معزز درجے کے ہندو اپنے گھروں میں چاہے دھوتیاں باندھے رہیں، مگر مہذب صحبتوں میں آتے تو پائجامہ پہن کے آتے۔

اُنہی دنوں کابل اور قندھار میں دو متضاد قسموں کے پائجامے مروج تھے۔ کابل والوں کا پائجامہ نیچے مہری کے پاس تنگ اور اوپر گھیر کے پاس اتنا ڈھیلا ہوتا کہ نیچے کا جسم ایک بہت بڑے جھول دار غبارے میں غائب ہو جاتا۔ اور ایک ایک پائجامےمیں ایک ایک اور دو دو تھان خرچ ہو جاتے۔ یہ آج بھی افغانیوں کی ٹانگوں میں نظر آ سکت ہے۔ بخلاف اس کے قندھار والے ایسا پائجامہ پہنتے جس کے اوپر کا گھیر تو زیادہ نہ ہوتا مگر دونوں پائنچے کلیاں جوڑ جوڑ کے اتنے بڑے اور اتنے گھری کے بنا دیے جاتے کہ جب تک انسان ان کو گھرس نہ لے، یا ہاتھ سے سنبھالے نہ رہے، چلنا دشوار تھا۔

دربار دہلی میں بہ کثرت قندھاری آ آ کے فوج میں نوکر ہوئے۔ وہ لوگ چوں کہ بڑی بہادر سمجھے جاتے، اس لیے یہاں کے عام سپہ گروں میں اُن کی وضع و لباس اور عادات و خصائل رواج پانے لگے۔ اور یہ اُنہی کی برکت اور اُنہی کی صحبت کا اثر تھا کہ دہلی میں بانکے بڑے بڑے کلیوں دار پائنچوں کے پائجامے پہنتے۔ دہلی کے آخر عہد میں بانکوں کی وضع داری و شجاعت اس قدر پسندیدہ ہو گئی کہ صدہا شریف زادوں نے بانکوں میں داخل ہو کر اُن کی وضع اختیار کر لی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 322

اور شرفا جن میں اکثر اپنی اصلی وضع پر تھے اور بہت سے بانکے بنے ہوئے تھے، لکھنؤ میں آئے۔

لکھنؤ میں آ کے یک بہ یک ایک ڈھیلا عرض کے پائنچوں کا پائجامہ پیدا ہو گیا۔ شجاع الدولہ، آصف الدولہ اور سعادت علی خاں کے زمانے تک تو اس کا پتا نہیں چلتا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ غازی الدین حیدر یا ان کے فرزند نصیر الدین حیدر کے زمانوں میں جب کہ یہاں لباس و معاشرت میں تغیر ہو رہا تھا، اسی بانکوں کے کلیوں دار پائجامے سے مختصر کر کے یہ پائجامہ بنا لیا گیا۔ جو نہ اتنا ڈھیلا تھا کہ ایک ایک پائجامے میں ایک ایک تھان صرف ہو جائے اور نہ تنگ اور چُست مہری والے پُرانے پائجامے کی طرح اتنا تنگ کہ پائنچے اوپر چڑھانا غیر ممکن ہو۔ یہ نیا پائجامہ ہلکا پھلکا اور ہندوستان کی گرمیوں میں نہایت آرا م دہ تھا۔ چند ہی روز میں امرا و مہذب لوگوں میں اس قدر مقبول ہو گیا کہ سوا ان لوگوں کے جو بانکپن کا دعوا رکھتے تھے، تمام اہل فضل و علم، زہاد و اتقیا اور سارے شرفا و امرا کی وضع میں یہی پائجامہ داخل تھا۔

اب لکھنؤ میں صرف دو پائجامے تھے، ایک تو وہی بانکوں کا کلیوں دار پائجامہ، دوسرا عرض کے پائنچوں کا پائجامہ، جو سارے شہر کے مہذب لوگوں کی وضع میں داخل ہو گیا تھا اور اس شان کے ساتھ کہ اکثر مہذب و تعلیم یافتہ لوگ بھی گلبدن اور مشروع کا سلواتے اور اُس کے پائنچوں میں چوڑی گوٹ لگائی جاتی۔ بانکوں والے اول الذکر پائجامے کو خود نصیر الدین حیدر نے اپنی وضع میں داخل کر لیا۔ ان کو انگریزی لباس کا بھی شوق تھا۔ اس لیے یا کوٹ پتلون پہنتے یا کلیوں دار پائجامہ جس کو فی الحال پنجاب والے غرارے دار پائجامہ کہتے ہیں۔ نصیر الدین حیدر کو یہ پائجامہ اس قدر عزیز تھا کہ انگریزنوں کی گون کے مشابہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 323

دیکھ کے انہوں نے اسے اپنے محل کی بیگموں کو بھی پنہانا شروع کیا۔ اور محل کی وضع میں داخل ہو جانے کا یہ اثر ہوا کہ شہر کی تمام عورتیں اسی کو پہننے لگیں۔ جس کا ذکر عورتوں کے لباس کے بیان میں آئے گا۔

شاہی میں اودھ کی فوج فتح پنجاب کے موقع پر انگریزوں کے ساتھ جا کے سکھوں سے لڑی تھی۔ سکھ لوگ ایک نئی قسم کا اوریبی ترچھی کاٹ کا تنگ اور چُست پائجامہ پہنتے تھے جو گُھٹنا کہلاتا ہے۔ بہت سے پنجاب جانے والوں نے اس وضع کو بہت پسند کیا اور گھروں میں واپس آئے تو وہی آری کاٹ کے گھٹنے پہنے تھے۔ یہاں کے اکثر لوگوں نے یہ پائجامہ بہت پسند کیا اور یکایک ایسا رواج ہو کہ لکھنؤ کے تمام بانکے ترجھے شوقین اور امیر زادے گُھٹنا پہننے لگے۔ جو خوب چُست اور خوب کھنچا ہوتا اور گٹے پر اس کی شکنوں کی بہت سی چوڑیاں رکھی جاتیں۔

لکھنؤ میں یہی تین پائجامے تھے کہ انگریزی ہو گئی۔ بڑے پائنچوں کا کلیوں دار پائجامہ تو بانکوں اور اسلحہ کے ساتھ سارے مردوں میں سے فنا ہو گیا۔ نصیر الدین حیدر کی عنایت سے فقط عورتوں میں باقی ہے۔ مردوں میں فقط دو پائجامے تھے یعنی عرض کا پائجامہ اور گُھٹنا۔ یا سنی اہل اتقا میں سے بعض بعض پُرانا شرعی پائجامہ پہن لیا کرتے۔ انگریزی دور نے پہلا اثر یہ کیا پائجاموں کی وضع قطع تو وہی رہی مگر اطلس، گلبدن اور مشروع کے یا رنگین سوتی پائجامے مردوں سے بالکل چھوٹ گئے۔ چند روز بعد علی گڈھ کالج کے سوشل اسکول سے انگریزی پتلون کی نقل کے پائجامے ایجاد ہوئے جو نہ اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ پنڈلی سے لپٹے رہیں اور نہ اتنے ڈھیلے کہ پائنچا اوپر تک چڑھا لیا جا سکے۔ انگریزی تعلیم پانے والوں اور سارے ہندوستان کے اکثر شریف زادوں میں اب اسی پائجامے کا رواج بڑھتا جاتا ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 324

اگرچہ اکثر تعلیم یافتہ جو تہذیب جدید کے مُلاِ اعلیٰ تک پہنچ گئے ہیں، اپنا سارا لباس چھوڑ کر کوٹ پتلون پہننے لگے ہیں۔ لیکن لکھنؤ میں آج بھی بعض گنتی کے ایسے ثقہ لوگ نظر آ سکتے ہیں جو پُرانی قطع کے عرض کے پائجامے پہنتے ہیں اور اپنی وضع نہیں چھوڑتے۔

(36)

انگرکھے یا چپکن وغیرہ کے اوپر اگلے دنوں دوشالے کا رواج زیادہ نظر آتا ہے۔ اور یہی شاہی درباروں سے خلعت میں عطا ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ شالی رومال اوڑھنے کا بھی ایک معمولی حد تک رواج تھا۔ یہی دونوں چیزیں دہلی سے لکھنؤ میں آئیں۔ مگر لکھنؤ میں زیادہ رواج رومال اوڑھنے کا تھا۔ جاڑوں میں اکثر شالی رومال اور سردی کے اوقات میں دوشالہ اوڑھا جاتا۔ لکھنؤ میں دربار قائم ہوجے کے بعد جب گرمیوں کے لیے لباس میں نفاست و لطافت اور سبکی کو ترقی ہونے لگی تو بابر لیٹ اور چکن کے رومال ایجاد ہوئے۔ اور تمام سفید پوش شریفوں کا یہ لباس ہو گیا کہ سر پر قالب چڑھی چکن کی چوگوشیہ ٹوپی، بدن میں انگرکھا، پاؤں میں عرض کے پائنچوں کا پائجامہ اور کندھے پر ہلکا چکن یا جالی کا رومال۔ شرفاے لکھنؤ کی یہ پہلی عام وضع تھی جس کو میر انیس مرحوم کا خاندان انہی اگلے تکلفات کے ساتھ آج تک نباہ رہا ہے۔

لباس میں سب سے آخری اور بڑی اہم چیز جوتا ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں جوتے کا مطلق رواج نہ تھا۔ اس لیے کہ چمڑے کے استعمال سے ہندو لوگ مذہباً احتراز کرتے تھے۔ بلکہ جوتے کے عوض یہاں لکڑی کی کھڑانویں پہنی جاتیں جو آج کل کے بعض فقیروں اور مرتاض رشیوں کے علاوہ قدیم راجاؤں میں بھی مروج تھیں۔ مسلمان اپنے ساتھ یہاں مخیط لباس کے ساتھ چمڑے کے جوتے بھی لائے۔

مسلمانوں کا پہلا جوتا عربوں میں فقط ایک چمڑے کا تلا تھا۔ جو پٹے یا بندھنوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 325

کے ذریعے سے پاؤں میں اٹکا لیا جاتا۔ عجمیوں اور رومیوں کا چمڑے کا موزہ، جوتے سے پہلے عرب میں پہنچ گیا تھا۔ پھر جب عربی دربار شام و عراق یعنی روم کے آغوش میں قائم ہوئے تو چمڑے کے جوتوں کا رواج شروع ہوا۔ مگر وہ پہلے جوتے بظاہر سیدھی سادی زیر پائیاں تھے۔ انہی کو پہنے ہوئے مسلمان ہندوستان میں آئے۔

دہلی کے امرا اور بادشاہ اگلے دنوں میں اپنی تصویروں میں اونچی ایڑی کی کفش نُما جوتیاں پہنے نظر آتے ہیں۔ دہلی کے آخر عہد میں چڑھواں جوتا ایجاد ہوا۔ جس کی ابتدائی وضع یہ تھی کہ آدھا پنجہ اور گٹے سے نیچے تک پاؤں اس میں چُھپ جاتا۔ اس کے سرے پر چوڑی نوک، پنجے پر جھکا کے بٹھا دی جاتی۔ یہ پہلا دلی وال جوتا تھا جس کا پچاس سال پیشتر زیادہ رواج تھا۔ اس کے بعد سلیم شاہی جوتا نکلا۔ جو غالباً جہانگیر کے زمانے میں ایجاد ہوا۔ اس کی نوک آگے نکلی اور اُٹھی ہوئی ہوتی اور نوک کا تھوڑا سا باریک سرا اوپر موڑ دیا جاتا۔ ایجاد کے بعد اس پر کلابتون کا مضبوط کام بننے لگا جو بالکل سچا اور قیمتی ہوتا۔ اگرچہ یہ کام دلی وال اور سلیم شاہی دونوں وضع کے جوتوں پر بنایا جاتا، مگر سلیک شاہی جوتے کا بہت زیادہ رواج ہوا اور اس نے چند روز میں پُرانے دلی وال کو مٹا دیا۔ اور اسکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اب جب کہ انگریزی وضع و قطع نے ہمارے سارے لباس اور ہماری تمام چیزوں کو مٹا دیا، وہ آج تک باقی اور مقبول عام ہے۔ اور اکثر ہندوستانی وضع پسند کرنے والے وضع دار بھاری سے بھاری لباس پر اُسی کو پہنتے ہیں۔ اور فی الحال لکھنؤ میں بھی بہت سے لوگ اس کو پہنتے ہیں۔

مگر لکھنؤ میں بہ عہد شاہی ایک نئی قطع کا خرد نو کا جوتا ایجاد ہوا۔ جو کو یہاں کے وضع داروں نے ابتداً بہت پسند کیا تھا۔ اس میں نوک بالکل نہ
 

محمد عمر

لائبریرین
281

دو ایک چیزیں خود اپنے ہاتھ سے نہ پکا لیتے، کھانے میں مزہ نہ آتا۔ آخر اُن کے اچھّے کھانے کی یہاں تک شہرت ہوئی کہ واجد علی شاہ کہا کرتے: اچھّا تو مُنشی السّلطان کھاتے ہیں، میں کیا اچھا کھاؤں گا۔ بچپن میں چھ سات برس تک مٹیا بُرج میں، مَیں انہی کے ساتھ رہا اور انہی کے ساتھ دستر خوان پر شریک ہوتا رہا۔ میں نے اُن کے دسترخوان پر تیس چالیس قسم کے پلاؤ اور بیسیوں قسم کے سالن کھائے، جن میں سے بعض ایسے تھے کہ پھر کبھی کھانا نہ نصیب ہوئے۔ انہیں حلوا سوہن کا بھی بڑا شوق تھا جس کا ذکر اپنے محل پر آئے گا۔

آخر زمانے میں اور غدر کے بعد، لکھنؤ میں حکیم بندہ مہدی مرحوم کو کھانے اور پہننے کا بےحد شوق تھا۔ اور بڑے بڑے دولت مند اور شوقین لوگوں کو یقین ہے کہ جیسا کھانا اُنہوں نے کھایا اور جیسا کپڑا اُنہوں نے پہنا، اُس زمانے میں بہت کم کسی کو نصیب ہو سکا۔ ہمارے ایک معمّر و معزّز دوست فرماتے ہیں کہ ”ہمارے خاندان سے حکیم صاحب موصوف سے بہت ربط و ضبط تھا۔ ایک دن حکیم صاحب نے ہمارے والد اور چچا کو بلایا بھیجا کہ ایک پہلوان کی دعوت ہے، آپ بھی آ کے لطف دیکھیے۔ والد تشریف لے گئے اور میں بھی اُن کے ساتھ گیا۔ وہاں جا کے معلوم ہوا کہ وہ پہلوان روز صبح کو بیس سیر دودھ پیتا ہے۔ اس پر ڈھائی تین سیر میوہ یعنی بادام اور پستے کھاتا ہے اور دوپہر اور شام کو ڈھائی سیر آٹے کی روٹیاں اور ایک متوسط درجے کا بکرا کھا جاتا ہے۔ اور اِسی غزا کے مناسب اس کا تن و توش بھی تھا۔ وہ ناشتے کے لیے بے تاب تھا اور بار بار تقاضا کر رہا تھا کہ کھانا جلدی منگوائیے۔ مگر حکیم صاحب جان بوجھ کے ٹال رہے تھے۔ یہاں تک کہ بھوک کی شدّت نے اُسے بے تاب کر دیا اور اب وہ ناراض ہو کے اُٹھنے لگا۔ تب حکیم صاحب کھانا بھیجنے کا وعدہ کر کے اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر اور ٹالا اور جب دیکھا کہ اب

228

وہ بھوک کو بالکل برداشت نہیں کر سکتا، تو مہری کے ہاتھ ایک خوان بھیجا جس کی صورت دیکھتے یی پہلوان صاحب کی جان میں جان آئی۔ مگر جب اُسے کھولا تو ایک چھوٹی تشتری میں تھوڑا سا پلاؤ تھا جس کی مقدار چھٹانک بھر سے زیادہ نہ ہو گی۔ پُرخور مہمان کو یہ چاول دیکھ کے بڑا طیش آیا جو اُس کے ایک لقمے کے لیے بھی کافی نہ تھے۔ قصد کیا کہ اُٹھ کے چلا جائے، مگر لوگوں نے سمجھا بجھا کے روکا، اور اُس نے مجبوراً وہ تشتری اُٹھا کے مُنہ میں انڈیل لی اور بغیر مُنہ چلائے نِگل گیا۔ پانچ منٹ کے بعد اُس نے پانی مانگا۔ اور اس کے پانچ منٹ بعد پھر پانی پیا اور ڈکار لی۔ اب اندر سے کھانے کے خوان آئے، دسترخوان بچھا، حکیم صاحب بھی آئے۔ کھانا چُنا گیا۔ اور وہی پلاؤ جس میں سے ایک لقمہ پہلے بھیجا گیا تھا، اُس کی پلیٹ جس میں کوئی ڈیڑھ پاؤ چاول ہوں گے حکیم صاحب کے سامنے لگائی گئی۔ حکیم صاحب نے اُس پلیٹ کو اُس پہلوان کے سامنے پیش کیا اور کہا: ”دیکھیے، یہ وہی پلاؤ ہے یا کوئی اور۔“ اس نے قبول کیا کہ وہی ہے۔ حکیم صاحب نے کہا: ”تو اب کھائیے، مجھے افسوس ہے کہ اِس کی تیّاری میں دیر ہوئی، اور آپ کو تکلیف اُٹھانا پڑی۔“ پہلوان نے کہا ”مگر اب مجھے معاف فرمائیے۔ میں اُسی پہلے لقمے سے سیر ہو گیا، اور اب ایک چاول بھی نہیں کھا سکتا۔ ہزار اصرار کیا گیا مگر اُس نے قطعاً ہاتھ کو روک لیا اور کہا: کھاؤں کیونکر، جب پیٹ میں جگہ بھی ہو۔ حکیم صاحب نے وہ چاول لے کے سب کھا لیے اور اس سے کہا : بیس بیس سیر اور تیس تیس سیت کھا جانا انسان کی غزا نہیں، یہ تو گائے بھینس کی غذا ہوئی۔ انسان کی غذا یہ ہے کہ چند لقمے کھائے مگر اُن سے قوّت و توانائی وه آئے جو بیس تیس سیر غلّا کھانے میں بھی نہ آ سکے۔ آپ اس ایک لقمے میں سیر ہو گئے ہیں۔ کل پھر آپ کی دعوت ہے، کل آ کے بتائیے گا کہ اِس ایک لقمے سے آپ کو ویسی ہی قوّت و توانائی محسوس ہوئی جیسی کہ بیس سیر دودھ اور سیروں میوے

283

اور گوشت اور غلّے سے حاصل ہوتی تھی، یا اس سے کم؟ اور ہم سب کو بھی حکیم صاحب نے دوسرے دن مدعو کر دیا۔ دوسرے دن اُس پہلوان نے آ کے بیان کیا کہ مجھے زندگی بھر ایسی توانائی اور چونچالی نہیں نصیب ہوئی جیسی کہ کل سے آج تک رہی۔

شاہی خاندان کے لوگوں میں سے آخر عہد میں نواب محسن الدولہ اور نواب ممتاز الدولہ دسترخوان اور باورچی خانے کے شوق اور کمال میں بے نظیر مانے جاتے۔ اور انہی کا باورچی تھا جو حکیم بندہ مہدی صاحب کے لیے یہ پلاؤ تیار کیا کرتا تھا۔ کافی دنوں ملکہ زمانیہ کی ایک بڑی سرکار قائم تھی اور اُن کا باورچی خانہ مشہور تھا جس میں روزانہ تین سو روپے کی پخت ہوتی۔ اُسی عہد میں شہزادے یحییٰ علی خان کی سرکار میں عالم على نام ایک باورچی نوکر تھا، وہ مسلّم مچھلی ایسی بے مثل پکاتا تھا کہ تمام رئیسوں میں مشہور تھی۔ اور دوسری سرکاروں کے باورچیوں نے ہزار کوشش کی، مگر وہ بات نہ پیدا کر سکے۔

نصیر الدین حیدر کے زمانے میں محمد ونام ایک ولائتی شخص نے آ کے فرنگی محل میں باورچی کی دُکان کھولی اور اُس کی نہاری کی ایسی شہرت ہوئی کہ بڑے بڑے رئیس اور شہزادے تک اُس کی نہاری کی قدر کرتے۔ قدردانی نے اُس کا حوصلہ بڑھایا اور اُس نے شیر مال ایجاد کی جو آج تک لکھنؤ کا سرمایۂ ناز ہے۔ روٹیوں کی بہت سی قسمیں مشہور اور مختلف شہروں میں مروّج ہیں۔ ایران سے مسلمان خمیری روٹیاں کھاتے اور ہندوستان کی سرزمین میں تنور گاڑتے ہوئے آئے تھے۔ مگر اُس وقت تک سادی روٹیاں تھیں جن میں گھی کا لگاؤ نہ ہوتا۔ ہندوؤں کو پوریاں تلتے دیکھ کے مسلمانوں نے توے کی روٹیوں میں گھی کا جُز دے کے پراٹھے ایجاد کیے۔ اور پھر اُن میں متعدد پرتیں اور تہیں دینا شروع کیں۔ پھر اُسی پراٹھے میں پہلی ترقّی یہ ہوئی کہ باقر خانی کا رواج ہوا، جو ابتداً امرا کے دسترخوان کی بہت تکلّفی روٹی تھی۔

284

لکھنؤ میں محمدو نے باقر خانی پر بہت ترقی دے کے شیر مال پکائی جو مزے، بو باس، نفاست اور لطافت میں باقر خانی اور تکلّفی روٹیوں کے تمام اصناف سے بڑھ گئی۔ شیر مال آج تک سوا لکھنؤ کے اور کہیں نہیں پکتی۔ اور پکتی بھی ہے تو ایسی نہیں پک سکتی۔ چند ہی روز میں شیر مال کو ایسی عام مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ لکھنو کی نیشنل روٹی قرار پا گئی۔ یہاں تک کہ جس دعوت میں شیر مال نہ ہو وہ مکمل نہیں سمجھی جاتی۔

شیر مال کی ایجاد نے محمدو کی اس قدر قدر بڑھائی کہ شاہی مجالس اور تقریبوں کے لیے اُسے بعض اوقات ایک ایک لاکھ شیر مالوں کا آرڈر ایک دن میں ملا۔ اور اُس نے بھی ایسا کافی انتظام کر رکھا تھا کہ جتنی شیر مالیں مانگی جاتیں، مہیا کر دیتا۔ محمدو کا جانشین ان دنوں علی حسین تھا جو کئی مہینے ہوئے مر گیا۔ مگر اُس کی دکان سے آج بھی جیسی اعلیٰ درجے کی شیر مالیں مل سکتی ہیں، اور کہیں نہیں مل سکتیں۔

شیر مال سے بھی زیادہ مزے دار نان جلیبی ہوتی ہے، جو خاص اہتمام سے پکوائی جاتی ہے۔ اور وہی رکاب دار اِسے تیّار کر سکتے ہیں جو واقف ہیں۔ اور باورچیوں کو دعوا ہے کہ لکھنؤ کے باورچیوں سے اچھی نان جلیبی کوئی نہیں پکا سکتا۔ پراٹھوں میں لکھنؤ اُسی درجے پر ہے جو دوسرے شہروں کو حاصل ہے۔ اِس میں بہ ظاہر کوئی خاص ترقّی نہیں ہوئی۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ دہلی کے اچھّے نان بائی بہت اعلیٰ درجے کے پراٹھے پکاتے ہیں۔ اور سیر بھر آٹے میں پورا سیر بھر گھی کھپا دیتے ہیں۔ مگر میں نے اپنے زمانہ قیام دہلی میں کئی بار مشہور نان بائیوں سے پراٹھے پکوائے۔

بے شک انہوں نے گھی بہت خرچ کر دیا۔ مگر چوں کہ آٹے کے اندر گھی نہیں دیا تھا، اس لیے وہ اُسی وقت تک کھانے کے قابل تھے جب تک کہ تازے کھا لیے

285

جائیں۔ ٹھنڈے ہوتے ہی چمڑے ہو گئے۔

روٹی کو توڑ کے اور اُس میں گھی شکر ملا کے مَل دینا، ایک عام اور معمولی غذا جس کا اکثر فاتحوں اور نیازوں میں زیادہ رواج ہے۔ مگر شاہی باورچی خانے کے یہاں کے باورچی ایسا لطیف ملیدہ تیار کرتے جو بعض فرماں رواؤں کو نہایت ہی مرغوب تھا۔ اور تعریف یہ تھی کہ مُنہ میں لقمہ لیتے ہی شربت بن جائے او معلوم ہو کہ چبانے یا مُنہ چلانے کی مطلق ضرورت نہیں۔

اِسی روٹی کے سلسلے میں یہاں تک ترقّی ہوئی کہ صرف دودھ کی پوریاں پکائی جانے لگیں، جن میں آٹے کا بالکل جُز نہ ہوتا۔ صرف دودھ کے جُبن میں، گُندھے ہوئے میدے کی شان پیدا کر لی (جاتی)۔ اور آخر میں یہاں تک ترقی ہوئی کپ دودھ کی گلوریاں اور دیگر اقسام کی چیزیں تیّار ہونے لگیں۔ اِسی طرح خالص دودھ کی پنجیری دسترخوانوں پر آئی جو بہت ہی نفیس و لطيف غذا اور امرا کو بہت پسند تھی۔

لیکن مسلمانوں کی نیشٹل ڈِش یعنی قومی غذا پلاؤ اور قورمہ ہے۔ لہٰذا سب سے زیادہ نزاکت و لطافت انہی چیزوں میں دکھائی گئی۔ پلاؤ کے متعلق ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ پچھی بعض باتیں باقی رہ گئیں۔ دولت مند اور شوقین امیروں کے لیے مرغ، مشک و زعفران کی گولیاں کھلا کھلا کے تیّار کیے جاتے۔ یہاں تک کہ اُن کے گوشت میں اِن دونوں چیزوں کی خوشبو سرایت کر جاتی اور ہر رگ ریشہ معطّر ہو جاتا۔ پھر اُن کی یخنی نکالی جاتی۔ اور اِس یخنی میں چاول دم دے دیے جاتے۔

موتی پلاؤ کی یہ شان تھی کہ معلوم ہوتا، چاولوں میں آب دار موتی ملے ہوئے ہیں۔ اِس کے لیے موتیوں کے تیّار کرنے کی یہ ترکیب تھی کہ تولہ بھر چاندی کے ورق اور ماشہ بھر سونے کے ورق، انڈے کی زردی میں خوب حل کیے جاتے۔ پھر اُس حل شده مرکّب کو مرغ کے نرخرے میں بھر کے، نرخرے کے ہر جوڑ پر باریک
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 331

نفاست و خوش نمائی کے انداز سے ناف کے نیچے گھرس لیے جاتے تاکہ چلنے پھرنے میں زمین پر لوٹ کے خراب اور میلے نہ ہوں۔ غدر کے قریب زمانے یا شاہی کے عہد آخر میں باریک کپڑوں اور آدھی آستینوں کے تنگ شلوکوں کا رواج ہو گیا۔ جو کُرتی کے عوض پہلے تو محرم کے اوپر پہنے جانے لگے، اور چند روز بعد انہوں نے محرم کی ضرورت بھی اڑا دی، مگر اب بھی بہت ہی باریک کپڑوں کے استعمال کیے جانے کی وجہ سے یہ لباس ننگا معلوم ہوتا۔ خصوصاً اس لیے کہ باہیں بالکل ننگی رہتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شلوکوں کے عوض کسی قدر ڈھیے کُرتوں کا رواج ہونے لگا۔ لیکن اب یک بہ یک کُرتوں کی جگہ انگریزی جاکٹ اور باڈس پہنے جانے لگے

اب ہر صوبے اور ہر شہر کی وضعوں کا مقابلہ اور اس کے ساتھ باہمی اختلاط سے ہونے لگا ہے (کذا) اور بعض مسلمانوں ی خود خاتونوں کو ساری زیادہ خوش نُما نظر آنے لگی۔ جس کی وجہ سے لکھنؤ کی عورتیں آدھے کے قریب پُرانی وضع چھوڑ کے ساریاں باندھنے لگی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس میں زیادہ سادگی ہے۔ میں اگرچہ اس کے خلاف نہیں ہوں کہ عورتیں اپنے حُسن میں جدت اور تازگی پیدا کرنے کے لیے مختلف لباسوں کو پہنیں اور بہ مصداق، ع

ہر لحظہ بوضع دگر آن یار برآید

نئی نئی دھجوں سے اپنے شوہروں کی دل داری کریں۔ لیکن میں اس کے سخت خلاف ہوں کہ اپنی قومی وضع بالکل چھوڑ دی جائے۔ اور اپنے معاشرتی خصائص بالکل فنا کر دیئے جائیں۔ ساری ایک غیر مخیط کپڑا اور تمدن انسانی کے بالکل ابتدائی اور غیر متمدن زمانے کی یادگار ہے۔ سادگی بے شک دل کس چیز ہے، لیکن بہت سی قیدوں اور خصوصیتوں کے ساتھ، ورنہ پوری سادگی تو عریانی میں ہے۔ خود لباس، فطرتِ انسانی کو اپنے تفنن کا جامہ پہنانا ہے۔ اس لیے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ساری

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 332

میں کیا خاص خوبی و خوبصورتی ہے۔

جس طرح مرد کی طبیعت کا خاصہ ہے کہ اپنی حسین ترین منکوحہ سے اُکتا کے دوسری جوان عورتوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے نوجوان اپنے بیبیوں کی وضع سے سیر ہو کے دوسری قوموں کی عورتوں کے لباس پر فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ مگر خوب یاد رکھیے کہ جس طرح آپ اُن کے لباس پر فریفتہ ہیں، اُسی طرح دوسری قوموں کے مرد آپ کی عورتوں کے ترقی یافتہ لباس میں زیادہ دل کشی و رعنائی پاتے ہیں۔ نفسانی خواہشات کا ایک مغالطہ ہے جو فی الحال آپ کی نظر میں اپنی عورتوں کے لباس کو معیوب ثابت کر کے بار بار ملک میں یہ بحث پیدا کراتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی بیبیوں کے لیے مناسب کیا ہے۔

ہم اس مسئلے پر اچھی طرح بحث کرتے اگر ہمیں یقین ہوتا کہ خالص عورتوں کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح کی غرض سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ دراصل یہ مسئلہ اُسی تقاضاے طبع سے پیدا ہوا ہے جس نے نوجوانوں کو کوٹ پتلون پہنایا، ہیٹ سے اُن کے سروں کو زینت دی اور سوا رنگت کے ان میں کوئی چیز اپنی نہیں باقی رکھی۔ لہذا ہم کو یقین ہے کہ یہ مسئلہ فقط اس جوش میں پیدا ہوا ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی انگریزی لباس اختیار کریں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ اس بارے میں لکھنا پڑھنا اور کہنا سننا بے کار ہے۔ اس لیے کہ جب تک انگریزی سایے اور اسکرٹ اور بانٹ (انگریزوں کی ٹوپی) پہننے کا فیصلہ نہ کر دیا جائے گا، ہمارے مصلحان معاشرت اور نقال موجدانِ فیشن کو چین نہ آئے گا۔ اس کے سوا چاہے اور کیسی ہی اچھی اصلاح و ترمیم کی جائے گی، اُن کا اطمینان نہ ہو گا۔

غرض اس انجام کو سوچ کے، اس بارے میں اخباروں اور رسالوں کے صفحے سیاہ کرنے کا کوئی نتیجہ نہیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 333

لباس کے متعلق لکھنؤ میں تراش و خراش اور کپڑوں کی نوعیت میں روز بہ روز ترقی ہوتی رہی۔ گرم ملک ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی ادنا طبقے والے سوا ستر پوشی کے اپنا سارا پنڈا برہنہ رکھتے ہیں۔ یہ صرف ان کے افلاس اور اہل ملک کی کم یایگی کے باعث نہیں، بلکہ موسم اور آب و ہوا کے تقاضے سے ہے۔ اس کا اثر دہلی میں بھی یہ تھا کہ بجائے گُندہ اور گراں کپڑوں کے، سبک اور نازک کپڑے اٰتیار کیے گئے۔ یہاں اس سے بھی زیادہ ترقی ہوئی۔ اور چوں کہ اب سپہ گری و جنگ جوئی کی بہت ہم کم ضرورت باقی تھی۔ عیش پرستی اور عورتوں کی صحبت بہت بڑھتی جاتی تھی، اس لیے مردوں پر عورتوں کی وضع کا اثر پڑنے لگا، جو اعتدال سے باہر ہو گیا۔ اور جس قسم کی زینت و آرایش عورتوں کے لیے موزوں ہے، مردوں نے اپنی وضع اور اپنےلباس میں اختیار کرنا شروع کر دی۔

خصوصاً اس زمانے سے جب کہ یہاںکے حکم رانوں نے اپنے لیے نواب کالفظ چھوڑ کے، بادشاہ کا لفظ اختیار کیا، نیشاپوری اور سالار جبگی خاندان کے لوگ جو معتد بہ وثیقے اور پنشنیں پاتے تھے، بالکل خانہ نشیں کر دیے گئے، تو ان کو سوا عورتوں کے کسی کی صحبت ہی نہ نصیب ہوتی تھی۔ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان کی وضع اور لباس ہی میں زنانہ پن نہیں پیدا ہوا بلکہ ان کی زبان بھی عورتوں کی سی ہو گئی۔ اور چوں کہ وہی شہر کے رئیس اور وضع دار تصور کیے جاتے، لہذا اکثر عوام نے بھی ان کی پیروی شروع کر دی۔ اور بہ خلاف دیگر مقامات کے رئیسوں کے، یہاں لکھنؤ میں یہ عام وضع ہو گئی کہ سر پر مانگ، اس پر مسالے کی کام دار ٹوپی، کانوں تک بال، جن کی کنگھی کرنے میں ماتھے پر دونوں جانب پٹیاں جمائی جاتیں، منہ میں پان، ہونٹوں پر لاکھا، پنڈے پر تین تین کمر توئیوں کا چُست انگرکھا، اس کے نیچے گلبدن کا ریشمی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 334

کھنچا ہوا گُھٹنا، ہاتھوں میں مہندی، پاؤں میں ٹاٹ بافی یعنی کام دار بوٹ، جاڑوں میں انگرکھے کی جگہ نیلے، زرد یا سبز و سرخ، اطلس یا گرنٹ کا روئی دار دگلا۔

جاڑوں میں یہاں کے بعض معزز لوگ عموماً شال کی قبائیں پہنتے۔ مگر دو شالے اور شالی رومال کو سب پسند کرتے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسا شال لکھنؤ والوں میں اب بھی کہیں کہیں نکل آتا ہے، ویسا شال ہندوستان کیا معنی شاید خود کشمیر میں بھی اب نصیب نہ ہو سکے گا۔

شال کا شوق یہاں تک بڑھا کہ بہت سے شال بُننے والے اور ہزاروں رفوگر اور شال کے دھونے والے کشمیری اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کےلکھنؤ میں آ بسے۔ جن کا گذشتہ پچاس سال میں اب نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ ان میں سےکوئی بچا بھی تو اس نے کوئی اور پیشہ اختیار کر لیا۔


محرم چونکہ لکھنؤ میں ایک بڑی اہم چیز اور عزاداری کا زمانہ تھا، اس لیے سوگ داری اور نفاست و نزاکت کا لحاظ رکھ کے، یہاں محرم کے لیے خاص لباس اور خاص زیور ایجاد ہو گیا۔ سیاہ اور نیلے رنگ غم و سوگ واری کے رنگ سمجھے گئے۔ اور سبز رنگ اس لیے کہ بنی عباس کے عہد میں ان کے سیاہ رنگ کے مقابل بنہ فاطمہؓ کا رنگ سبز تھا، چنانچہ آج بھی ایران و ہند کے بعض فاطمی اپنے سبز عماموں سے سیدوں کی اس قدیم وضع کا ثبوت دے دیا کرتے ہیں۔ بہرتقدیر محرم میں سرخ رنگ ممنوع قرار پایا۔ سبز، نیلا اور سیاہ رنگ اور ان کے ساتھ زرد رنگ بھی اس موسم کے لیے مناسب سمجھے گئے۔ چنانچہ یہاں محرم میں تمام عورتوں کا لباس انہی مذکورہ رنگوں سےمناسب جوڑ لگا کے منتخب کیا جاتا۔ سارا زیور بڑھا دیا جاتا۔ حتی کہ چوڑیاں تک اتار ڈالی جاتیں، جن کے عوض کلائیوں کے لیے ریشم کی سیاہ و سبا پہنچیاں اور کانوں کے لیے سیاہ و زرد ریشم کے کرن پھول

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 335

ایجاد ہوئے۔ جو سونے چاندی کے زیور سے بھی زیادہ نفاست کے ساتھ ان کی زیبائی و رعنائی بڑھا دیا کرتےہیں۔

محرم تو نہایت ہی اہم مہینہ تھا، یہاں ہر موسم اور ہر زمانے کےمناسب ایسی ایسی ایجادیں عورتوں کے لباس میں روز ہوتی رہتی تھیں، جن کو سارا ہندوستان حیرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ اور سچ یہ ہے کہ آج سے پچاس سال پیشتر لکھنؤ میں عورتوں کے لباس کی تراش خراش اور روز روز کی تازہ جدتوں کو جو دیکھتا، وہ فرانس اور لندن کے فیشن بدلنے کو بھول جاتا۔ اور اسی بنا پر اکثر زبانوں پر جاری ہو گیا کہ لکھنؤ، مشرق کا پیرس ہے۔آج بہت سے سادگی پسند اور ترقی یافتہ معاشرت سے محروم رہنے والے ان تکلفات پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جن درباروں اور شہروں میں تمدن ترقی کرتا ہے، وہاں معاشرت و صحبت کے ہر شعبے میں ایسی ہی باتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ جو ایک فلسفی کی نظر میں لغو و فضول ہوں مگر وضع داروں کی صحبتیں اور شایستہ لوگوں کی محفلیں ان کو نہایت ہی اہم اور ضروری تصور کرتی ہیں۔

مردوں پر عورتوں کی وضع کے غالب آنے کا اثر اگر کپڑوں کی نزاکت اور تیز بھڑکیلے رنگوں تک محدود رہتا تو بہت غنیمت ہوتا، یہاں تو بہت سے لوگوں کی یہ حالت ہو ئی کہ میاں بیوی کے دگلوں، دوپٹوں، دُلائیوں، رضائیوں اور پائجاموں میں کسی قسم کا فرق ہی نہیں رہا۔ بہ جز اس کے کہ گوٹا پٹھا اور زیور عورتوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ مرد شوخ رنگوں کے نازک ریشمی کپڑے بغیر گوٹے پٹھے کے پہنتے، مگر یہ مذاق غدر کے بعد انگریزی اثر سے گھٹنے لگا۔ اور اب صرف چند گنتی کے لوگوں کے سوا کسی میں نہیں باقی رہا۔

مرد خدمت گاروں اور ان کے مختلف طبقات کی طرح یہاں عورتوں کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 336

مختلف طبقوں کی بھی خاص خاص وضعیں قرار پا گئیں۔ انگریزوں کے خانساماں، کوچ مین، اور سائیس مختلف وردیوں میں رہتے ہیں۔ مگر وہ وردیاں ان کا اصلی لباس نہیں قرار پا سکیں کہ اپنے گھروں میں بھی وہ ان کو پہنا کرتے ہوں۔ بخلاف اس کے لکھنؤ میں زنانے اور مردانے نوکروں اور اندر باہر کے تمام ملازموں کے لیے جو خاص خاص لباس مقرر ہو گئے تھے، وہی ان کی اصلی وضع قرار پا گئی۔ مثلاً جیسے ڈیوڑھیوں کے پہرے والے سپاہیوں اور چوب داروں، ہرکاروں وغیرہ کی خاص اور جدا جدا وضعیں تھیں۔ ویسے ہی زنانی محل سراؤں میں محل داروں، مغلانیوں اور کہاریوں کی وضعیں اس قدر ممتاز تھیں کہ دور سے دیکھتے ہی انسان سمجھ جائے گا کہ یہ عورت محل دار ہے، یہ خوص ہے، یہ مغلانی ہے اور یہ کہاری ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ ان کے لباس میں وردی کی شان نہیں پیدا ہونے پائی۔

خدمت گاروں اور انہی کی طرح پیش خدمتوں کا البتہ وہی لباس تھا جو خود میاں بیویوں کا لباس تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں گروہ اپنے مالک یا مالکہ کا اُتارن یعنی ان کے اُترے ہوئے کپڑے پہنا کرتے ہیں۔

لباس کے بعد عورتوں کے لیے سب سے اہم چیز زیور ہے۔ اور عورتیں اکثر اپنی مخصوص دولت و جائیداد اپنے زیور کو سمجھتی ہیں۔ جس کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ اکثر صوبجات ہند میں بھدے اور بھاری زیور کا زیادہ رواج ہے تاکہ وہ قیمت میں زیادہ ہوں۔ زیور کے بھاری ہونے کا شوق اودھ کے دیہات میں اور عموماً ہندوستان کے تمام شہروں میں روز بہ روز بڑھتا جاتا ہے۔ مگر لکھنؤ میں دہلی کے شریف خاندانوں کی معزز خاتونیں آئیں تو ابتداً وہی زیور جس کا سارے ہندوستان اور خود دہلی میں رواج تھا، پہلے ہوئے تھیں۔مگر یہاں آنے کے چند روز بعد جب یہاں کی ترمیم شدہ مخصوص معاشرت قائم ہوئی تو زیور میں فقط زینت و آرایس کا خیال باقی رہ گیا۔ اور ہر قسم

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 337

کا زیور روز بہ روز سبک، ہلکا، نازک اور خوش نُما ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آخر عہد میں اُمرا اور دولت مند گھرانوں کی بیویوں کی یہ وضع ہو گئی کہ سادے بغیر مسالے اور گوٹے پٹھے کے کپڑے پہنتیں اور زیور کی قسم کی دو ہی ایک چیزوں پر جو بہت ہی ناشک سبک اور قیمتی ہوتیں، کفایت کرتیں۔ اور اگر گلے اور ناک کان میں متعدد چیزیں پہنتیں بھی تو وہ بہت ہی ہلکی ہوتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا سبک اور ہلکا زیور لکھنؤ میں بننے لگا، کہیں نہ بن سکتا تھا۔

ناک میں نتھ، ہندوؤں کے عہد سے نہایت ہی ضروری زیور اور سہاگ کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ جو خیال باہمی میل جول سے مسلمانوں میں پیدا ہو گیا۔ چنانچہ دیہات والیاں آج بھی اس کے بھاری کرنے میں یہاں تک مبالغہ کرتی ہیں کہ چار چار پانچ پانچ تولے کی نتھیں پہن لیتی ہیں، جن سے اکثر نتھنے پھٹ جاتے ہیں، مگر دوبارہ ناک چھدوائی جاتی ہے تاکہ ناک نتھ سے خالی نہ رہے۔ لکھنؤ کی بیویوں نے نتھ کو اُڑا ہی دیا۔ اور اس کی جگہ سونے کی مرصع کیل پہننے لگیں۔ جو بہت ہی نفیس اور خوبصورت زیور ثابت ہوئی۔ اور نزاکت پسندی نے ان کیلوں کو بھی اتنا مختصر اور سبک کر دیا کہ سبک ناک کی کیلیں، لکھنؤ کے سناروں اور سادہ کاروں کے سوا اور کہیں کے کاری گر نہیں بنا سکتے۔

اب ادھر پچیس تیس سال سے بُلاق کا رواج بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی پسندیدہ مذاق نہیں، مگر زیور کے اختصار اور عام پسندی نے اسے اس قدر ترقی دی ہے کہ اب بہت کم عورتیں ہیں جو بُلاق نہ پہنتی ہوں۔

یہ فی الحال مختلف شہروں کے باہمی میل جول سے زیور بنانے کے فن میں ہر جگہ ترقی ہو رہی ہے۔ اور خاص خاص زیوروں کے لیے خاص خاص شہر مشہور ہو گئے ہیں۔ مگر غدر سے پیش تر جب ریلوے نے بلاد ہند میں یہ باہمی موانست ویگرنگی نہیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 338

پیدا کی تھی، لکھنؤ سے اچھے سُنار اور کاری گر کہیں نہ مل سکتے تھے۔لیکن اب بہت سے شہر اس فن میں لکھنؤ سے بڑھتے جاتے ہیں۔ خصوصاً شہر دہلی، مغشوش چاندی کے سبک زیور بنانے میں ہندوستان کے تمام شہروں سے سبقت لے گیا ہے۔ مگر پھر بھی اکثر مقامات کے نفیس مزاج گھرانے لکھنؤ، ہی کے بنے ہوئے زیور اور یہاں کے چاندے کے ظروف کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ بحث لکھنؤ کی صنعتوں میں ہمیں بار بار چھیڑنا پڑے گی، اس لیے یہاں اتنے ہی پر قناعت کرتے ہیں۔

(38)

کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی بحث ختم کر کے اب ہم ان چیزوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جن کو سوسائٹی اور میل جول سے خصوصیت ہے اور جن پر مناسب اور اپنے مذاق کا تصرف کر کے لکھنؤ نے انہیں اپنا بنا لیا۔

دنیا کے ہر ملک میں میل جول اور معاشرت کا ایک تمدن قائم ہو جاتا ہے ۔ جس میں زیادہ تر تعلق وضع قطع، اخلاق و عادات، نشست برخاست، طرزِ کلا، طریقۂ مذاق۔ مکان اور فرنیچر وغیرہ کو ہوتا ہے۔ اور ان باتوں کے بعد اس سامان زندگی کو، جس کی اس سوسائٹی کو ضرورت ہو۔ فطری طور پر یہ چیزیں ہر گروہ، ہر طبقے اور ہر شہر و قریے میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور آج بھی دنیا میں پھر کے دیکھیے تو ہر جگہ سوسائٹی کی خاص نوعیت اور اس کے خصوصیات نظر آ جائیں گے۔ مگر جن مقاموں میں کوئی معزز دربار قائم ہو جاتا ہے اور علم و ادب کو ترقی ہوتی ہے، وہاں کی سوسائٹی ایک بڑے حصۂ ملک کو اپنا تابع بنا کے اس کے ہر شہر و قریے کی معاشرت کا مرجع اور اصول تہذیب کا مرکز بن جاتی ہے۔

ہندوستان میں تہذیب و تمدن اور آداب سوسائٹی کا اصلی مرکز یقینی طور پر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 339

دہلی تھی۔ اس لیے کہ بہت سی صدیوں تک وہ ہندوستان میں حکومت کا مرکز اور علم و فضل کا منشا و مستقر رہ چکی ہے۔ سارا ہندوستان اس کے زیر نگیں تھا اور وہاں کی صحبت کے تربیت یافتہ تمام صوبوں کے حاکم اور ادب آموز ہوا کرتے تھے۔ لکھنؤ کے لیے اس کے مقابل میں نہ کوئی خصوصیت ہے اور نہ اسے کوئی امتیاز حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر اس محل پر لکھنؤ کا نام لیا جانے کی اگر کوئی وجہ ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ زمانے کے اتفاق سے پچھلی صدی میں وہی دہلی کی معاشرت پوری پوری لکھنؤ میں منتقل ہو آئی۔ اور وہیں کے امرا و شرفا، علما و شعرا، اتقیا و صلحا سب کے سب لکھنؤ میں چلے آئے۔ اور جو دربار دہلی میں اُجڑتا تھا، لکھنؤ میں آ کے جمع ہوتا۔ اس لیے وہاں کے تمام وضع دار لوگ ایک ایک کر کے سب یہیں چلے آئے۔ اور یہاں اطمینان حاصل ہو جانے کی وجہ سے اپنی برقی یافتہ معاشرت پر اور ترقیاں کے لگے۔ اور پھر لطف یہ کہ دہلی والوں کی جو معاشرت اودھ میں آ کے قائم ہوئی تھی، اس میں سوائے دہلی والوں کے کوئی غیر شخص نہ تھا۔ حتٰی کہ لکھنؤ کے پرانے معزز باشندوں کو بھی اس میں بالکل جگہ نہیںملی۔

لہذا لکھنؤ کی معاشرت دراصل دہلیکی معاشرت اور وہیں کی ترقی یافتہ سوسائٹی کا آخری نمونہ ہے۔ اس پچھلی صدی میں دہلی کے پُرانے تمدن کے دو اسکول ہو گئے تھے۔ ایک وہ جو خاص دہلی میں موجود تھا اور دوسرا وہ جو لکھنؤ میں منتقل ہو آیا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ زوال سے پیش تر کی آخری صدی میں اس اسکول کے لیے جو دہلی میں تھا، دربار مغلیہ کے کمزور پڑ جانے اور دولت مندی کے مٹ جانے کی وجہ سے میدان ترقی میں آگے قدم بڑھانے کا ویسا موقع نہیں نصیب تھا، جیسا لکھنؤ والے دہلی کے اسکول کو حاصل تھا۔ اور یہی وجہ ہوئی کہ اس زمانے میں لکھنؤ کا تمدن ترقی کر رہا تھا، اور دہلی کے قدیم تمدن کی ترقی رُک گئی تھی۔

الغرض یہی ترقیاں لکھنؤ کی سوسائٹی کے خصوصیات ہیں۔ بلکہ غور کرنے سے یہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 340

نظر آتا ہے کہ دہلی میں تمدن و معاشرت کو قدیم شہنشاہی دربار کی برکتوں سے جو ترقی حاصل ہوئی تھی، پچھلے دور میں تجارت پیشہ جاہل قوموں کے غلبے اور قدیم خاندانی شرفا کے دیگر بلاد میں منتشر ہونے یا خانہ نشین ہو جانے کے باعث وہ بھی تشریف لے گئی۔ اور سچ یہ ہے کہ اودھ کے شاہی دربار کے ٹوٹ جانے کے بعد سے بیرونی لوگوں کے میل جول اور پرانے مہذب خاندانوں اور ان کے اثر کے مٹ جانے کی وجہ سے جو تہذیب لکھنؤ میں پیدا ہوئی تھی، وہ بھی روز بہ روز رخصت ہوتی جاتی ہے۔

مگر ہمیں اُس بدتمیزی کی سوسائٹی اور ان متمردانہ اخلاق و آداب سے بحث نہیں جو غدر کے بعد سے لکھنؤ میں پیدا ہونا شروع ہوئے اور ترقی کرتے جاتے ہیں۔ ہمارے غرض محض اس تہذیب کو بتانا ہے جو لکھنؤ کے شاہی دربر کے آغوش میں پرورش پا کے یہاں کی صحبتوں میں پیدا ہو گئی تھی۔

یہاں کی معاشرت کے متعلق اپنے اس مضمون کے سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل اُمور کو بیان کرنا چاہتے ہیں (1) مکان (2) فرنیچر (3) وضع قطع (4) اخلاق و عادات (5) نشست برخاست (6) صاحب سلامت و مزاج پُرسی (7) طرز کلام (8) طریقہ مذاق (9) شادی و غمی کی محفلیں (10) مجلسیں (11) مولد شریف کی محفلیں۔ پھر ان کے بعد ہم ان چیزوں کو بیان کریں گے جو لوازم صحبت اور سامان معاشرت ہیں۔

مکان : دہلی اور لکھنؤ میں مکانوں کے متعلق پُرانا مذاق یہ تھا کہ ظاہری نمایش اور شان داری صرف شاہی قصروں اور ایوانوں کے لیے مخصوص تھی، اُمرا و تجار اپنے رہنے کے لیے جو مکان تعمیر کراتے، وہ اندر اندر سے چاہے کیسے ہی وسیع اور نفیس ہوں مگر ان کی ظاہری حالت بالکل معمولی مکان کی سی ہوتی۔ اور اس میں مصلحت یہ تھی کہ جو مکان ظاہر میں شاندار ہوتے، اکثر بادشاہوں کو پسند آ جاتے، اور بنوانے والوں کو ان میں رہنا بہت کم نصیب ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ رعایا میں سے کسی کا تعمیرِ مکان
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 361

یا عورت اسے شوہر کے پاس یا شوہر کو اس کے پاس جاتے دیکھ لے۔ یہ سختی شہر کے شرفا میں نہ تھی۔ شہر کے خاندانوں میں میاں بیوی ابتدا ہی سے ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے۔ مگر یہ معیوب تھا کہ ماماؤں اور پیش خدمتوں کے سامنے بھی باہم بے تکلفی اختیار کریں۔

عورتوں کی باہمی صحبت، سوا بڑے بڑے امیروں کے گھرانوں کے، نسبۃً بے تکلف رہتی۔ ان میں مہمان آنے والی بیویوں کے ساتھ ایک معتدل درجے تک تکلف رہتا۔ مگر اس تکلف کے ساتھ خلوص اور یک جہتی کا اظہار زیادہ ہوتا۔

(42)

نشست برخاست کے کے سلسلے میں ہمیں یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ یورپ یا عرب و عجم کی طرح ہندوستان میں باہم ملنے جلنے اور لطف صحبت اٹھانے کے لیے کلبوں اور سوسائٹیوں کا رواج نہ تھا۔ یورپ میں ہر جگہ ایسے کلب یا ایسی سوسائٹیاں قائم ہیں جن میں جا کے لوگ احباب اور ہم مذاق لوگوں سے ملتے اور ان کی صحبت سے لطف اٹھاتے ہیں۔ عربوں، ایرانیوں اور ترکوں میں چائے خانے یا قہوہ خانے میل جول اور مبادلۂ خیالات کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ جس جگہ دو چار انگریز ہوتے ہیں، وہاں اپنا ایک کلب قائم کر لیتے ہیں اور فرصت کے اوقات میں وہاں جا کے اخبار پڑھتے اور احباب سےملتے ہیں، اسی طرح جس شہر میں ایرانیوں اور عربوں کی کافی تعداد ہوتی ہے، وہاں ان کا کوئی چائے خانہ یا قہوہ خانہ کھل جاتا ہے اور اس میں جس وقت دیکھیے ان کا کوئی نہ کوئی گروہ ضرور موجود ہوتا ہے جو وہاں چائے اور حقے پیتے، کھانے کھاتے اور ساتھ بیٹھ کے غپیں اڑاتے ہیں۔

بہ خلاف اس کے ہندوستان میں کبھی اس قسم کے کلبوں یا چائے خانوں کا رواج نہ تھا اور نہ آج تک ہے۔ سرکار انگریزی نے جا بہ جا شہروں میں اس مذاق

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 362

کے پیدا کرنے کی کوشش کی، بڑے بڑے مصارف کا بار اٹھا کے چائے خانے کھلوائے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ آج سے تیس پنتیس سال پیشتر خاص لکھنؤ کے چوک میں میر محمد حسین صاحب مرحوم ڈائرکٹر زراعت و تجارت ریاست نظام نے، حیدر آباد جانے سے پہلے، گورنمنٹ کی اعانت سے ایک چائے خانہ کھلوایا تھا۔ جس میں فرنیچر بھی اچھا تھا اور سوا ناجائز چیزوں کے، ہر قسم کی مشروبات تیار رہتے تھے۔ مگر کسی نے توجہ نہ کی اور آخر میر صاحب کو نقصان اُٹھا کے اسے بند کر دینا پڑا۔

یہاں کا پُرانا مذاق صحبت یہ ہے کہ ہر محلے میں یا آبادی کے ہر حلقے میں کوئی خوش حال یا دولت مند شخص اپنے گھر میں لوگوں کے آنے اور اٹھنے بیٹھے کا سامان کرتا ہے۔ احباب کی تواضع و خاطر بردشت کے لیے حقے پان وغیرہ ضروری چیزوں کو وہ اپنے ذاتی صرف سے مہیا کرتا ہے اور اس کے ہم مذاق بلا ناغہ اور پابندی سے آتے ہیں۔ دیر تک صحبت رہتی ہے، بذلہ سنجییاں اور لطیفہ گوئیاں ہوتی ہیں۔ اور جب تک صحبت قائم رہے، حقے پان سے تواضع ہوتی رہتی ہے۔ اور پھر ندیمان صحبت کے مذاق کے اعتبار سے ان کی محفلوں کا رنگ بھی بدلتا جاتا ہے۔ ارکان محفل اگر ادب اور شعر و سخن کا مذاق رکھتے ہیں، تو شاعری، نثاری، اور سخن آفرینی و سخن سنجی کی چرچا رہتا ہے۔ اگر وہ علما و فضلا ہیں، تو عالمانہ مذاق کے ساتھ علمی مباحث چھڑتے ہیں۔ اگر مہذب امرا کی صحبت ہے تو وضع و لباس، سامان عیش، کھانے پینے اور ہر چیز کے برتنے اور ہر مذاق کے اختیار کرنے میں انتہا درجے کی نفاست و شایستگی اور رکھ رکھاو کے ساتھ تمیز داری ظاہر کی جاتی ہے۔ اگر رنگین مزاج عیاشوں کی صحبت ہے تو اس میں بازاری مہ لقائیں بھی شریک ہوتی ہیں اور ناز آفرینی و ناز برداری کی ادائیں نظر آتی ہیں۔ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ یورپ کی طرح یہاں مردوں کی کسی صحبت میں شریف و پاک دامن عورتیں شریک ہو سکتیں۔ اور احباب کی محفل میں جب کوئی عورت نظر آ جائے تو یقین جان لیجیے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 363

کہ وہ عصمت فروش بازاری رنڈی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کی صحبتوں میں شریف و شایستہ عورتوں کے شریک ہونے کی وجہ سے بازاری عورتوں کا درجہ اور مرتبہ سوسائٹی میں اس قدر گر گیا کہ کسی شریف خاندان کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھل سکتا اور نہ شرفا کے کلبوں اور سوسائٹیوں میں وہ قدم رکھ سکتی ہیں۔ بخلاف اس کے ایک حد تک سارے ہندوستان میں اور اسی طرح لکھنؤ میں بازاری عورتوں کو یہ رتبہ حاصل ہو گیا کہ مہذب و شایستہ اُمرا کی محفلوں میں ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھیں۔ اور یہاں اس مذاق میں یہاں تک ترقی ہوئی کہ بعض معزز رنڈیوں نے بھی اپنے گھروں میں ایسی ہی نشست و برخاست کی صحبتیں قائم کر دیں، جن میں جاتے بہت سے مہذب لوگوں کو بھی شرم نہیں آتی۔ لکھنؤ میں چودھرائن، بی حیدر جان اور اسی پائے کی چند اور رنڈیوں کے مکان اچھے خاصے شرفا کے کلب تھے۔ جن میں صاحب محفل یعنی ان بی صاحب کی طرف سے حقے پان کی بہ خوبی خاطر کی جاتی۔ انگریزی مذاق نے اب اتنی اصلاح ضرور کی ہے کہ اگرچہ طرح طرح کی نئی بداخلاقیاں پیدا ہو گئی ہیں، مگر رنڈیوں کے گھروں میں علانیہ بیٹھ کے لطف صحبت اٹھانا ذرا معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔

بہرحال لکھنؤ کے کلب خوش باش لوگوں اور امیروں کے گھر تھے۔ یہاں یہ طریقہ نہایت ہی معیوب تھا اور اب تک ہے کہ ساجھے کی ہانڈی پکائی جائے یا حاضرین محفل چندہ دے کے اور اپنے اپنے داموں کا حقہ پان یا کھانا پانی ایک ساتھ بیٹھ کے کھائیں پیئں۔ یہاں چندے کے ڈنر قوم کے لیے مایۂ شرم اور خلاف شرافت تھے اور یہاں کی تمام دعوتیں عام اس سے کہ خوشی کی تقریب میں ہوں یا محض دوستانہ ہم صحبتی کےلیے، فقط ایک شخص کی طرف سے ہوا کرتیں۔ دوسرا اگر استطاعت رکھتا ہو تو اپنی طرف سے پوری دعوت دے سکتا ہے۔ یہ نہیں کر سکتا کہ اپنی دعوت میں مجھ سے کھانے کے پانچ روپے لے کے مجھے بھی شریک کر لیجیے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 364

دہلی کے تاجروں میں پتی پڑنے کا رواج ہے یعنی بہت سے تاجر مل کے چندا جمع کرتے ہیں اور اس رقم سے کوئی دعوت یا رقص و سرود کی صحبت کسی گھر میں یا باہر کی تفرج گاہوں میں کی جاتی ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ طریقہ وہاں کی تجارت نے زوال سلطنت کے بعد نکال لیا ہے۔ شرفاے دہلی کا یہ مذاق ہرگز نہ تھا۔ اس لیے کہ وہاں کے شرفا میں ہوتا تو لکھنؤ میں بھی ہوتا۔ جو معاشرت میں دہلی کا شاگرد اور اسی کے اگلے نکھرے مذاق کا نام لیوا ہے۔

6 – صاحب سلامت اور مزاج پرسی : آدابِ معاشرت میں چھٹی چیز جو سب باتوں سے زیادہ اہم اور ضروری ہے، سلام کرنا اور جس سے ملیں اس کا مزاج پوچھنا ہے۔ اسلام کا قدیم مذہبی اور سیدھا سادہ سلام، السلامُ علیک، اور بہت لوگ ہوں تو "السلامُ علیکم" ہے۔ اس کے ساتھ وہ لوگ اس سلام کے بعد ہر ملنے والے سے صبح کو ملیں تو "صبحکم اللہ بالخیر" یعنی اللہ تمہاری صبح خیریت سے گزرانے، اور شام کو ملیں تو "مساکم اللہ بالخیر" کہا کرتے تھے۔ یہی سلام اور مزاج پرسی عربوں کی تھی جسے تعلیم دیتے ہوئے وہ مغر ب میں اندلس تک چلے گئے۔ اور مشرق میں ہندوستان تک چلے آئے۔ یورپ میں یہی طریقۂ صاحب سلامت ان سے اہل فرنگ نے سیکھا۔ اور مشرق میں ایرانیوں تورانیوں اور ہندستانیوں نے سیکھا۔ چنانچہ یورپ میں اصلی سلام جو اسلام کا خصیصہ تھا، وہ تو غائب ہو گیا۔ فقط سلام کے بعد والی دعائیں "صبحکم اللہ بالخیر" اور "مساکم اللہ بالخیر" باقی رہ گئیں۔ انہی کا ترجمہ "گڈ مارننگ" اور "گڈ ایوننگ" آج تک صاحب سلامت ہیں۔ انگریزوں کی زبان سے سنتے ہیں۔ فرانسیسی میں "بون ستین" "بون ژور" اور "بون سُوار" یعنی تمہاری صبح، دن اور شام اچھی ہوں۔ کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مغربی قوموں کو صاحب سلامت کا یہ سبق اندلس کے عرب فاتحوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 365

سے ملا ہے۔

ہندوستان اور ایران میں چوں کہ بزرگوں کی پرستش کا رواج تھا اور یہ چیز ان مشرقی لوگوں کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی، اس لیے خالی خولی "السلام علیکم" کے الفاظ جو افراد قوم کی مساوات کو قائم کرتے تھے، دولت مندوں کو اپنے تلبختر اور اپنی نخوت کے جوش میں بہت پھیکے اور اپنی شان سے کم نظر آئے۔ خصوصاً جب یہاں یہاں شہنشاہی دربار قائم ہوا اور تاج داروں نے اپنی تعظیم و تکریم کرانے میں سارے اسلامی آداب کو مٹا دیا۔ درباریوں کے اپنے سامنے اسی طرح ہاتھ باندھ کے کھڑے ہونے اور اپنی تعظیم میں جھکنے کا حکم دیا جس طرح کہ بندے خدا کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے اور رکوؑ و سجود کرتے ہیں۔ تو شاہی درباروں کی پیروی میں عام امرا اور دولت مندوں نے بھی بجائے "السلام علیکم" کے دیگر تعظیمی الفاظ سلام کے لیے مقرر کیے۔ مثلاً تسلیم، کونش، آداب، بندگی، اور خود پرست و خدا فراموش امراے اسلام کی برکت سے فی الحال یہ سب الفاظ ہمارے سلام ہیں۔ عرب میں "السلام علیکم" کہنے کے ساتھ، سواخندہ جبینی کے اور کوئی حرکت نہیں کی جاتی تھی، فقط سلام کے بعد ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا جاتا۔ مصافحے میں ہاتھ کو حرکت دیجاتی۔ اور اسی کے ساتھ "صبحکم اللہ بالخیر" یا "مساکم اللہ بالخیر" کہا جاتا۔ اس عربی طرز صاحب سلامت کی یادگار میں اب یورپ میں سر کی ایک خفیف حرکت کے ساتھ "گڈمارننگ" وغیرہ کہتے اور ہاتھ کو ملا کے جھٹکا دیتے ہیں۔ بخلاف اس کے ہندوستان میں اب پورا اسلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا الفاظ کہنے کے ساتھ ہاتھ کو سر یا پیشانی پر رکھتے اور رکوع کے درجے تک یا اس سے کسی قدر کم جھکتے ہیں۔ یہ جھکنا اور پیشانی پر ہاتھ رکھنا خالص ہندو اثر اور مشرکانہ جذبات کی یادگار ہے۔ ان دنوں باتوں میں اشارہ ہے کہ ہم آپ کے قدموں پر سر جھکاتے اور آپ کے سامنے زمیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 366

بوس ہوتے ہیں۔

اس قدر نہیں، بادشاہوں اور امیروں کے درباروں میں سلاموں کی تعداد مقرر تھی۔ کہیں سات سلام کیے جاتے اور کہیں تین۔ عام بزرگوں اور دوستوں سے ملنے میں ایک سلام کافی تھا۔ لکھنؤ میں چوں کہ آداب و حفظ مراتب کا زیادہ خیال تھا، اس لیے خردوں کا سلام بزرگوں سے اور نیز متوسط درجے والوں کا معزز لوگوں سے یہ ہے کہ الفاظ مذکورہ میں سے کسی ایک کو زبان سے ادا کرنےکے ساتھ، داہنے ہاتھ کو سینے یا چہرے کے سامنے تک اٹھا کے کئی بار حرکت دی جائے۔ خُردوں کے لیے آج تک یہ نہایت ہی پسندیدہ اور سعادت مندانہ سلام ہے۔ یہ ہاتھ کو کئی بار حرکت دینا متعدد سلاموں کا اشارہ ہے۔ علٰی ھذا القیاس، اکثر نوگ تسلیم اور کورنش کو جمع کے صیغوں میں استعمال کر کے کہتے ہیں :"تسلیمات" اور "کورنشات"۔ یہ بھی سلام کے تعدد کی یادگار ہے۔

اب ہم مذکورۂ بال مروجہ الفاظ سلام کے معنی اور ان کی شان و اصلیت جُدا جُدا بیان کرتے ہیں۔ تسلیم کے معنی عربی میں "سلام کرنا" ہیں۔ بہ ظاہر "السلام علیکم" کو چھوڑ کے فعل کا صیغہ استعمال کرنا لغو سا معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہاں کی سوسائٹی میں یہ سمجھا گیا کہ بجائے سلام کرنے کے "میں سلام کر رہا ہوں" کہنے میں زیدہ اظہار تعظیم ہوتا ہے۔ کورنش ترکی زبان کا لفظ ہے جو ترکی فاتحانِ ہند کے ساتھ یہاں آیا۔ اس کے معنی، سلام کے لیے جھکنے کے ہیں۔ لہذا اس میں بھی جُھک کے زمیں بوس اور قدم بوس ہونے کا خیال موجود ہے۔ آداب، فقط ادب کی جمع ہے۔ سلام کے محل پر اس کے زبان پر لانے کا منشا یہ ہے کہ ادب و تعظیم کے جتنے طریقے ہیں، ان سب کو بجا لاتا ہوں۔ بندگی، یہ تمامالفاظِ سلام سے زیادہ ذلیل اور مشرکانہ لفظ ہے۔ بندگیکے معنی پوجنے اور عبادت کرنے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 367

کے ہیں۔ سلام میں اس کا منشا اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ حق عبودیت بجا لاتا ہوں، جو مسلمانوں کے عقائد کی رو سے خدا کے سوا اور کسی کے مقابل نہیں کہا جا سکتا۔

بہ خلاف ان ہندوستانی سلاموں کے، عرب میں جو الفاظ "السلام علیکم" کہے جاتے ہیں۔ ان کا لغوی ترجمہ یہ ہے کہ "تم پر سلامی" یا صاف اردو میں یوں کہیے، "تم سلامت رہو" یعنی سلام کرنا دراصل ہر ملنے والے کو سلامتی کی دعا دینا ہے۔ اسلام نے اس پر ترقی یہ کی کہ سلام خدا کا پیام ہے جو رسول خدا صلعم نے مسلمانوں کو پہنچایا اور قیامت تک آپ کا یہ پیغام ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو پہنچاتا رہے گا۔ السلام علیکم میں سلام پر جو الف لام لگا ہوا ہے، اس میں صاف اسی جانب اشارہ ہے کہ وہ سلام جو حضرت رسالت کا پیام ہے، تم کو پہنچے۔

اسلام کے اصلی سلام کے ان معنوں اور اس کے مقصد کو سمجھ کے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ سلام قومی مساوات کا خیال دلانے اور تمام پیرو ان رسالت محمدی میں قومیت و اخوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ مگر افسوس، مسلمانوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ اور ہمارا فضول تبختر اب ہمیں یہ خیال دلاتا ہے کہ کسی معمولی مسلمان کا ہم سے ملتے وقت السلام علیکم کہنا ہماری توہین کرنا ہے۔ اس پر طُرہ یہ ہوا کہ شیعہ سُنی کے اختلاف نے چوں کہ یہ شان پیدا کر دی ہے کہ دونوں بجائے ایک قوم بننے اور ایک جماعت ثابت ہونے کے، ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز رہنا چاہتے ہیں۔ عوام ہی نہیں دونوں فریقوں کے مُتاخر علما و مصنفین تک نے اپنے اپنے فریق کو دوسرے کے عادات و اطوار سے نفرت کرنے کا سبق دیا ہے۔ اس رجحاج کا نتیجہ یہہوا کہ عرب و عجم تک میں تو شیعہ و سُنی دونوں کا سلام "السلام علیکم" تھا۔ مگر ہندوستان خصوصاً لکھنؤ کے شیعوں نے السلام علیکم کو سُنیوں کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 368

سر مار کے، اپنے لیے "سلامٌ علیکم" کے الفاظ مخصوص کر لیے ہیں۔ وہ زیارت ائمہ پڑھنے میں تو وہی پرانے الفاظ مثلاً "السلام علیک یا ابا عبد اللہ علیہ السلام" کہتے ہیں، مگر ملنے جلنے والوں سے جب صاحب سلامت کرتے ہیں تو کہے ہیں "سلامٌ علیکم" اس لیے کہ "السلامُ علیکم" سُنیوں کا سلام ہے۔

تاہم زیادہ تر یہ اگلا عربی سلام سُنی اور شیعہ دونوں میں مذہبی لوگوں کے لیے مخصوص ہو گیا ہے۔ یا مذہبی شان و وضع میں داخل ہے۔ ورنہ امرا کی سوسائٹی میں :آداب و تسلیم" کا عام رواج ہے۔ بندگی بھی اکثر لوگ کہتے ہیں مگر یہ لفظ عورتوں میں زیادہ مروج ہے۔

لکھنؤ میں پُرانا، مہذب اور شایستہ لوگوں کا سلام یہ تھا کہ چھوٹا، بڑے سے یا غریب، امیر سے نہایت جُھک کے تسلیم یا آداب کہے۔ جواب میں بزرگ خُردوں سے کہیں : جیتے رہو، بڑے ہو، صاحب اقبال ہو۔ اُمرا، غریبوں کے لیے بغیر جھکے فقط ہاتھ اٹھا دیں یا ہاتھ اٹھانے کے ساتھ انہیں الفاظِ تسلیم و آداب و تسلیم کا اعادہ کریں یا بندگی کہہ دیں۔ مگر برابر والوں کا طریقہ جواب دینے میں یہ تھا کہ راہ چلتے میں صاحب سلامت ہو تو اسی طرح جھک کے تسلیم یا آداب کہیں۔ اگر کسی محفل میں بیٹھے ہوں تو پوری طرح اٹھ کھڑے ہوں اور جھک کے جواب دیں۔

سلام کے بعد ایک دوسرے سے کہے : مزاج شریف یا مزاج اقدس یا مزاج عالی یا مزاج مبارک یا مزاج مُعلا۔ اور دوسرا ہاتھ جوڑ کے کہے : دعا کرتا ہوں۔ تقریباً سارے ہندوستان میں مہذب و شایستہ لوگوں کو طریقہ سلام و مزاج پرسی یہی ہے۔ مگر لکھنؤ میں اور چند شہروں میں جہاں ہندوستانی ریاست قائم ہے، اور کوئی دربار موجود ہے، ان طریقوں کے ادا کرنے میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 369

زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور اس میں کمی ہونا بدتمیزی خیال کی جاتی ہے۔

مگر اب چند روز سے خصوصاً لکھنؤ میں عوام اہل حرفہ اور ادنا طبقے والوں میں اگلے دربار اور اس کے آداب کے مٹ جانے سے "السلام علیکم" کہنے کا بہت رواج ہو گیا ہے۔ خدا کرتا، امرا بھی اس کی پیروی کرتے، اور ادنا و اعلا کا امتیاز بالکل اٹھ جاتا۔

(43)

7 - طرز کلام : آداب معاشرت میں ساتویں اہم چیز گفتگو اور طرز کلام ہے۔ دنیا میں ہر شخص کی سایستگی اور ادبی قابلیت کا پہلا اندازہ اس کے الفاظ اور اس کے انداز گفتگو سے ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر اقبال مند قوم سب سے پہلے اپنی زبان کی اصلاح کرتی اور اسے ترقی دیتی ہے۔

تہذیب و شایستگی کا تقاضا یہ ہے کہ زبان پر مکروہ و فحش الفاظ نہ آئیں۔ جو الفاظ و خیالات مخاطب کو ناگوار گزریں۔ اس کے سامنے زبان سے نہ نکلیں۔ اور اگر کبھی ناگوار مضامین کے ظاہر کرنے کی ضرورت پیش بھی آئے تو وہ ایسے الفاظ اور ایسے عنوان سے ادا کیے جائیں کہ مخاطب کو گران نہ گزریں۔ اور اگر گراں گزریں بھی تو ان کی گرانی میں ایک گونہ گوارائی و لطف پیدا ہو جائے اس بارۂ خاص میں اہل زبان لکھنؤ اور یہاں کے شایستہ لوگوں کو جو کمال حاصل ہے، ہندوستان کے اور کسی شہر والوںمیں نہ نظر آئے گا۔ اگرچہ موجودہ تعلیم و تہذیب نے ایک حد تک یہ خوبی ہر جگہ انداز گفتگو میں پیدا کر دی ہے، مگر انگریزی اثر سے معرا کر کے دیکھیے تو بالذات یہ شایستگی و شستگی زبان اہل لکھنؤ ہی کا حصہ نظر آئے گی۔

باہر کے لوگ اس کا یہاں تک لوہا مانے ہوئے ہیں کہ لکھنؤ والوں کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 370

سامنے گفتگو کرتے جھیپتے، اور جس قدر شایسگی ان میں ہے، اس کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد جب اپنی صحبتوں میںبیٹھتے ہیں تو یہ کہہ کے اپنی کمزوری کا الزام دور کرتے ہیں کہ ہم سادگی سے صاف صاف باتیں کرتے ہیں اور ہمیں لکھنؤ والوں کی سی چناں چنیں نہیں آتی۔مگر دراصل یہ عذر بدتر از گناہ ہے۔ میں نے ایرانیوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ہندوستانی بات کرنا بھول جاتےہیں۔ انگلستانمیں دیکھا کہ فرانسیسیوں کے سامنے انگریزوں کی زبان سے ایک لفظ نکلنا بھی مشکل ہو جات اہے۔ اسی طرح عربوں کی طاقت لسانی کی کبھی یہ حالت تھی کہ ان کے سامنے غیر ملک والوں کی زبان نہ کھل سکتی تھی اور عرب لوگوں کا خیال ہو گیا تھا کہ زبان خدا نے فقط ہم کو دی ہے، اور ساری دنیا ہمارے مقابل گونگی ہے۔ اسی خیال کا نتیجہ تھا کہ ماسوا رب کے تمام دنیا کے لوگوں کو وہ "عجم" کہتے، جس کے لغوی معنی گونگے کے ہیں۔ بعینہ یہی حال ہندستان میں ہر شہر کے لوگوں کے مقابل لکھنؤ والوں کا ہے کہ وہ فصاحت و بذلہ سنجی میں سب کو دبا کے صحبت پر چھا جاتےہیں اور اپنے سامنے کسی اور کو زبان نہیں کھولنے دیتے۔

شایستگی زبان میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ مخاطب کو کن ضمائر سے یاد کیا جائے۔ اور سب زبانوں میں مخاطب کے لیے دو ضمیریں ہیں : ایک واحد کی اور ایک جمع کی۔ اور معزز مخاطب کے لیے واحد کی جگہ ہر زبان میں تعظیماً جمع کی ضمیر استعمال کی جاتی ہے۔ فارسی میں واحد مخاطب کی ضمیر "تو" ہے اور جمع کی "شما"، عربی میں واحد کی "ک" اور "انت" اور جمع کی "کم" اور "انتم"۔ انگریزی میں "یو" کے لفظ سے معزز شخص مخاطب کیا جاتا ہے۔ بخلاف ان سب زبانوں کے اردو میں مخاطب کے لیے واحد کی تو ایک ہی ضمیر "تو " ہے۔
 

شعیب گناترا

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۲۶۱ کتابی صفحہ ۲۵۹

ثواب سمجھ کے شریک ہوتے اور ثواب کے بہانے اپنے اپنے فنون کا کمال اہلِ شہر کو دکھاتے۔ اور اِسی وجہ سے اُن کا معمول تھا کہ جہاں کھڑے ہوگئے، قدر دانوں نے گھیر لیا، اور وہ گھنٹوں اُسی جگہ کھڑے، اِس بات کا دعوا کر رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمارے سامنے آ کے بجائے؟ بڑے بڑے استاد گویّے ان کی داد دیتے اور وہ جوش میں آ آ کے اور زیادہ خوبی سے بجاتے۔ خصوصاََ اُن میں تاشا بجانے والے بڑے استاد ڈھاڑی ہوتے جو موسیقی میں کمال رکھتے اور گتوں میں جدّتیں پیدا کرتے۔

ڈھول تاشا بجانے کے فن کے اہم اور با اصول ہونے کا اِس سے زیادہ کیا ثبوت ہوگا کہ آخری معزول تاج دارِ اودھ واجد علی شاہ کو جو موسیقی کے استادِ بے بدل تھے، میں نے کلکتّے میں اپنی آنکھ سے دیکھا کہ محرم کی ساتویں تاریخ، جب منہدی کا جلوس اُن کی آسمانی کوٹھی سے روانہ ہوتا، تو وہ خور گلے میں تاشا ڈال کے بجاتے۔ بڑے بڑے گویّوں کے گلوں میں بڑی بڑی ڈھولیں ہوتیں۔ معزّزینِ دربار گرد حلقہ باندھے ہوتے، اور وہ ایسی نزاکت اور خوبی سے تاشا بجاتے کہ ناواقف سننے والے بھی اَش اَش کر جاتے۔ اور گویّوں کی واہ واہ تو ہمارے مشاعروں کے ہنگاموں کو بھی مات کر دیتی۔ اسی طرح میں نے انہیں کئی بار ڈھول بجاتے بھی دیکھا۔

بہ ہرحال، ہندوستان کے اِس قدیم ترین باجے میں بھی لکھنؤ کی سوسائٹی نے اپنا تصرّف کیا اور ایسا تصرّف کیا جو نہایت ہی مقبول اور ضروری ہے۔ اگر کو شخص آ کے یہاں کے تاشہ نوازوں کا کمال دیکھے تو اُسے معلوم ہوگا کہ کس قدر مناسب تصرّف ہے اور اس نے ڈھول اور جھانجھ کو کس قدر اہم بنا دیا ہے۔

دوسرا جوڑ روشن چوکی کا ہے۔ روشن چوکی بہت پرانا باجا ہے اور اگر کُل نہیں تو اُس کے اہم ترین اجزا کو مسلمان اپنے ساتھ لائے، کیونکہ شہنائی اُس کا اہم جز ہے اور اس کی نسبت مشہور ہے کہ شیخ الرئیس ابنِ سینا کی ایجاد ہے۔ بالکل

ریختہ صفحہ ۲۶۲ کتابی صفحہ ۲۶۰

انسان کے گلے کی طرح جس قدر سچّے سُر، گلے بازی کے اعلا ترین کمال کے ساتھ، شہنائی سے ادا ہوتے ہیں، اور کسی باجے سے نہیں ادا ہو سکتے۔ روشن چوکی میں کم از کم دو شہنائی نواز ہوتے ہیں۔ اور ایک طبلچی، جس کی کمر میں چھوٹے چھوٹے دو طبل بندھے ہوتے ہیں۔ طبل، لَے کو قائم رکھتے ہیں۔ ایک شہانی نواز اصلی سُر قائم رکھنے کے سُر دیتا رہتا ہے اور ایک آواز کی چلت پھرت اور گلے بازی کی مشق دکھاتا ہے۔ اور یہی اصلی شخص ہوتا ہے جو غزلوں یا ٹھمریوں وغیرہ کو عجب دل کش سروں میں ادا کرتا ہے۔

روشن چکی ہندوستان کا خاص درباری باجا تھا جو بادشاہوں اوراعلا ترین امرا کے خاصے کے وقت بجا کرتی۔ رات کو آرام کے وقت روشن چوکی شاہی قصر کے گرد گشت کیا کرتی اور اُس کا نغمہ دور سے بہت ہی لطف دیتا۔ دولتِ مغلیہ میں یہ بہت ہی اہم اور لطیف باجا خیال کی جاتی۔ اور دہلی میں خدا جانے کب سے مروّج تھی۔ یقیناً لکھنؤ میں روشن چوکی بجانے والے دہلی سے آئے ہوں گے۔ مگر اِن کے صاحبِ کمال ان اطراف میں بھی مدت سے موجود تھے۔ بنارس کے اکثر مندروں میں آج تک صبح کو روشن چوکی بجا کرتی ہے، اور تڑکے منہ اندھیرے کہیں قریب سے جا کے سنیے تو بہت ہی لطف آتا ہے۔

لکھنو میں علی العموم شادی کے جلوسوں میں روشن چوکی بجانے والے دولہا کے قریب رہتے ہیں۔ خصوصاََ ہندوؤں کی براتوں میں راستے بھر قدم قدم پر انھیں انعام دیا جاتا ہے۔ روشن چوکی بجانے والے میرے خیال اور تجربے میں لکھنؤ سے اچھے آج کل کہیں نہ ملیں گے۔ جس قدر لَے داری اور ہر چیز کو دل کش دُھنوں میں سچّے سُروں کے ساتھ اہلِ لکھنؤ ادا کر لیتے ہیں، اور کسی مقام کے روشن چوکی نواز نہیں ادا کر سکتے۔ اُن کے کمال اور فن دانی کا اندازہ اُس وقت ہو سکتا ہے، جب کوئی شوق سے سنے اور داد دیتا جائے۔ اُسی بخشو کے تعزیے میں، جس کا ذکر آچکا ہے، روشن چوکی بجانے والے بھی اپنا کمال دکھاتے اور اس طرح

ریختہ صفحہ ۲۶۳ کتابی صفحہ ۲۶۱

جان توڑ کے کوشش کرتے تھے کہ پھر اُن کے بعد اور کسی کی شہنائی میں مزہ نہ آتا۔

تیسرا جوڑ نوبت کا ہے۔ یہ ہمارے پرانے نغمہ ہائے طرب میں سب زیاره عالی شان بینڈ ہے۔ اس میں دو تین شہنائی نواز ہوتے ہیں، ایک نقّاره بجانے والا ہوتا ہے، جو دو بہت بڑے بڑے عظیم الشّان نقّاروں کو اپنے آگے خمیدہ رکھ کے، دونوں کو ایک ساتھ چوبوں سے بجاتا ہے۔ ان نقّاروں کی آواز بہت بڑی ہوتی ہے اور گرد کی فضا میں بہت دُور تک گونجتی ہے۔ اور ساتھ ہی ایک جھانجھ والا بھی رہتا ہے۔

نوبت تاریخی باجا ہے اور اظہارِ شوکت کے لیے مدتوں کام میں لایا جاتا رہا ہے۔ تاریخِ اسلام میں ہیں دمشق و بغداد و مصر کے درباروں میں بھی اس کا پتا لگتا ہے۔ بغداد میں عبّاسیہ کے درمیانی دَور میں ہر امیر کی ڈیوڑھی پر نوبت بجا کرتی تھی اور موجبِ احترام و عظمت تصوّر کی جاتی۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہی یہ ہندوستان میں آئی۔ ممکن ہے کہ ہندوستان میں پہلے سے موجود ہو۔ اور گو کہ شہنائی نہ تھی، مگر خالی نقّاره اور جھانجھ بجتی ہو۔ لیکن اس کی موجودہ صورت وہی ہے جو ایران و عراق میں مرتّب ہونے کے بعد یہاں آئی۔

بادشاہوں اور عالی مرتبہ امیروں کے جلوس اور لشکر کے ساتھ نوبت بہت ہی لازمی شے تھی۔ الوالعزم تاج داروں کے جلوس کے آگے آگے ہاتھیوں پر نوبت بجتی جاتی۔ لڑائیوں میں غالب آنے والا گروه اپنی فتح مندی اور غلبے کے اظہار کے لیے زور شور سے نوبت بجوایا کرتا۔ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے حیدرآباد کو فتح کر کے، اُس کے قریب ایک پہاڑی پر نوبت بجوائی تھی، جو آج تک نوبت پہاڑ کہلاتی ہے۔ دولتِ مغلیہ میں دربار کے اعلا ترین طبقے کے رئیسوں اور عہدے داروں کو بادشاہ کی طرف سے نوبت کا حق دیا جاتا، جو اپنی ڈیوڑھیوں اور نیز اپنی سواری

ریختہ صفحہ ۲۶۴ کتابی صفحہ ۲۶۲

میں نوبت بجوایا کرتے۔ نوبت بجانے والوں کے لیے کوئی بلند برج منتخب کیا جاتا۔ چنانچہ اکثر شاہی محلوں کے پھاٹکوں کے اوپر نوبت خانہ بنوا دیا جاتا ہے، جس کے نمونے ہر بڑے شہر میں، جہاں کوئی بڑا دربار رہ چکا ہو، نظر آتے ہیں۔

اِسی قدیم رواج کی پیروی میں لکھنؤ میں آج تک معمول ہے کہ جس دولت مند شخض کے وہاں شادی یا کوئی خوشی کی تقریب ہوتی ہے، تو اس کے دروازے پر لمبی لمبی بلّیاں کھڑی کر کے اور سُرخ کپڑے اور پنّی وغیرہ سے منڈھ کے، عارضی طور پر ایک بلند نوبت خانہ بنوا دیا جاتا ہے۔

دن بھر، ٹھہر ٹھہر کے، مختلف اوقات میں، بار بار نوبت بجایا کرتے ہیں۔ علیٰ ہذا القياس، جب براتیں یا تعزیوں کے جلوس چلتے ہیں، اِسی قسم کے مصنوعی نوبت خانے جو تختوں پر بنا لیے جاتے ہیں، کہاروں کے کندھوں پر سب کے آگے آگے چلا کر تے ہیں اور راستے بھر اُن پر نوبت بجتی جاتی ہے۔

یہی نوبت اگلے دنوں خصوص لکھنؤ کے دربار میں وقت پہچاننے کا ذریعہ قرار پاگئی تھی۔ اُن دنوں وقت کی تقسیم یہ چوبیس گھنٹوں کی نہ تھی جو اب انگریزی گھڑیوں کے رواج سے ہم میں مروّج ہوگئی ہے۔ اُن دنوں وقت کی تقسیم کا یہ حساب تھا کہ دن اور رات کے آٹھ پہر ہوتے ہیں۔ چار پہر دن کے اور چار پہر رات کے۔ اور ہر پہر کی آٹھ گھڑیاں ہوتیں۔ ہر نوبت خانے میں ایک پتیلے یا ناندے میں پانی بھرا رہتا۔ اُس میں کٹورا جس کے پیندے میں ایک باریک سا سوراخ ہوتا تھا، خالی کر کے ڈال دیا جاتا۔ وہ پانی پر تیرتا رہتا تھا۔ اُس سوراخ سے آہستہ آہستہ اُس میں پانی آتا رہتا تھا۔ اور وہ سوراخ ایسا اندازہ کر کے بنایا جاتا تھا کہ ایک گھڑی بھر میں پانی سے بھرتے بھرتے ڈوب جائے۔ پہر شروع ہونے کے بعد جب پہلی مرتبہ کٹورا ڈوبتا، تو ایک گھڑی بجائی جاتی۔ جب دوبارہ ڈوبتا، دو گھڑیاں بجائی جاتیں

ریختہ صفحہ ۲۶۵ کتابی صفحہ ۲۶۳

اسی طرح مسلسل آٹھ گھڑیاں بجائی جائیں۔ اور آٹھویں گھڑی کے ساتھ گجر جاتا۔ یعنی پہلے ممتاز طور پر آٹھ ضربیں بجا کے گھڑیال پر ایک ساتھ بہت سی بے شمار ضربیں جلدی جلدی لگادی جاتیں۔ جس میں یہ اشارہ تھا کہ پہر پورا ہو گیا۔ اور گھڑیوں کا سلسلہ پھر ایک سے شروع ہو جاتا۔

جن ڈیوڑھیوں پر نوبت ہوتی، وہاں ہر پہر کے خاتمے پر تقریباً ایک گھڑی تک نوبت بجتی رہتی۔ اس طریقے سے رات دن کے آٹھ پہروں کی آٹھ نوبتیں ہوئیں۔ مگر معمول یہ تھا کہ صرف سات ہی نوبتیں بجا کرتیں۔ پہلی نوبت تڑکے نماز کے وقت یعنی پہلے پہر کے آغاز پر بجتی اور صبح کی نوبت کہلاتی۔ دوسری اس وقت جب کہ ایک پہر دن چڑھ جاتا۔ یہ پہر دن چڑھے کی نوبت کہلاتی۔ تیسری جب آفتاب نصف النّہار پر ہوتا۔ یعنی ٹھیک بارہ بجے۔ یہ دوپہر کی نوبت کہلاتی۔ اس کے بعد جب آٹھ گھڑیاں پوری ہو جاتیں تو تیسری نوبت بجتی اور یہ تیسرے پہر کی نوبت کہلاتی۔ اس کے بعد چوتھا پہر ختم ہونے پر مغرب کے وقت نوبت بجتی اور یہ شام کی نوبت کہلاتی۔ اس کے بعد جب پانچواں پہر پورا ہو جاتا تو پانچویں نوبت بجتی جو پہر رات گئے کی نوبت کہلاتی۔ پھر جب چھٹا پہر گزرتا تو چھٹی نوبت بجتی جو آدھی رات یا دوپہر کی نوبت کہلاتی۔ اس کے بعد جب ساتواں پہر پورا ہوتا اور رات کے تین پہر گزر جاتے تو اس وقت لوگوں کے آرام میں خلل نہ پڑنے پانے کے خیال سے نوبت نہ بجائی جاتی۔ صرف گجر بجا دیا جاتا۔ پھر اس کے بعد آٹھویں پہر کے خاتمے پر صبح کی نوبت بجتی۔

اوقات کا یہ حساب تھا جو دربارِ مغلیہ میں اور نیز انتزاعِ سلطنت تک لکھنؤ میں مروّج رہا، اور کلکتّے میں، جب تک واجد علی شاہ زندہ رہے، اسی حساب سے پہر اور گھڑیاں بجتی رہیں۔ مگر اتنے ہی دنوں میں وہ حساب اس قدر مفقود ہوگیا کہ اب

ریختہ صفحہ ۲۶۶ کتابی صفحہ ۲۶۴

شاذ و نادر ہی کوئی شخص ہوگا جو پہروں اور گھڑیوں کا حساب جانتا ہو۔ مگر خرابی یہ ہے کہ باوجود شب و روز کی تقسیمِ اوقات کے بدل جانے کے، اگلا حساب ہماری زبان کے رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔ ہم کہتے ہیں: گھڑی بھر میں آؤں گا۔ دوپہر کو سوؤں گا۔ پہر دن چڑھے کھانا کھاؤں گا۔ مگر ہم نہیں جانتے کہ پہر کتنا ہوتا ہے اور گھڑی کسے کہتے ہیں۔ ہم عموماً سُنا کرتے ہیں کہ ”پہرا بیٹھ گیا“ اور ”پہرے کے سپاہی“۔ مگر نہیں جانتے کہ پہرے کا لفظ اُسی پہر سے نکلا ہے۔ اِس لیے کہ اُن دنوں پہر پہر بھر کی نوکری ہر ایک کو دینا پڑتی تھی۔

تقسیمِ اوقات کا یہ پرانا حساب ہندوؤں کا ہے مگر ایران میں بھی اگلے دنوں یہی حساب مروّج تھا اور اسی حساب سے نوبت بجا کرتی تھی۔ ہمارے موجودہ حساب سے ایک پہر، تین گھنٹوں کا ہوا کرتا تھا۔

نوبت نواز بھی لکھنؤ میں ایسے اعلا درجے کے تھے کہ ہر جگہ اور شہر میں یہیں سے جایا کرتے۔ یا یہاں کے استادوں کے شاگرد ہوتے۔ لیکن نوبت میں کوئی ترقی یا اضافہ نہیں ہوا۔ بجانے والوں کی تعداد وہی رہی اور بجانے کا طریقہ وہی رہا۔ پھر بھی اتنا ضرور ہوا کہ لکھنؤ کے اسکولِ موسیقی نے جن چیزوں اور جن دُھنوں کو منتخب کر کے عام سوسائٹی میں مقبول کرا دیا تھا، وہی دُھنیں اور چیزیں، نقّار خانوں میں بھی سنی جانے لگیں۔ مگر باوجود اس کے نوبت بجانے کا جو قدیم طریقہ تھا، وہ بھی اپنی حد پر قائم رہا۔ امیر خسرو نے اپنے زمانے کی نوبت نواری کی جو تصویر اپنی نظم میں دکھائی ہے، اِس سے اُس وقت کی نوبت بجنے کے طرز کا بہت کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہی طرز آج تک مروّج ہے، اور اُس میں بہت کم فرق آیا ہے۔ لیکن اِس پر بھی شہنائی سے جو دُھنیں اور گیت بجاتے ہیں، اُن پر لکھنؤ کی موسیقی کا جو کچھ اثر پڑا ہے، وہ سنتے ہی نظر آجاتا ہے۔

ریختہ صفحہ ۲۶۷ کتابی صفحہ ۲۶۵

تُرھئی اور قرنا ہندوستان کے بہت پرانے قومی باجے ہیں، جن کو فوجوں کے ساتھ زیادہ خصوصیت تھی۔ تُرھئی کی صورت سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزوں کے ساتھ ہندوستان میں آئی۔ اور اُن کے ورود کے ابتدائی دور میں رواج پاگئی۔ مگر قرنا خاص ایرانی باجا ہے اور اُس کی آواز میں کچھ ایسا رُعب و داب ہے کہ میدان جنگ میں رُعب بٹھانے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اِن دنوں باجوں کا بھی لکھنؤ کے جلوسوں میں رواج ہے۔ لیکن مستقل باجے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ فوجی دستوں یا پلٹنوں کے ساتھ ایک ترھئی نواز یا قرنا نواز رہا کرتا ہے، جو تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنا باجا بجا کے، اپنے گروہ کی موجودگی کی اطلاع دے دیا کرتا ہے۔ ان دونوں باجوں کے مقابل ہندوؤں کا قدیم باجا نرسنگھا ہے جو اکثر ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کے ساتھ بجا کرتا ہے۔ یہ باجے دہلی سے آئے، اور جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ اور شاید ان میں ترقی کی گنجائش بھی نہیں ہے۔

بِگل اور ڈنکا جو فی الحال لکھنؤ کے شادی کے جلوسوں میں نظر آیا کرتا ہے، و در اصل اگلے اور پچھلے باجوں کا ایک مبتذل مجموعہ ہے۔ ڈنکے سے مراد وہ نقّارہ ہے جو اگلے دنوں فوجوں اور زبردست فاتحوں کے ساتھ گھوڑے پر رہا کرتا تھا، اور اُس پر چوب پڑتے ہی لوگوں پر ایسا رُعب پڑتا کہ بڑے بڑوں کے کلیجے دہل جایا کرتے تھے۔ بگل با بیوگل انگریزی فوج کا وہ باجا ہے، جس کے ذریعے سے فوج کو حسبِ ضرورت نقل و حرکت اور دوسرے کاموں کا حکم دیا جاتا۔ لہٰذا اب ڈنکے کے ساتھ بِگل کو شریک کر کے ایک نیا جوڑ بنا لیا گیا جو شادی کے جلوسوں کے ساتھ نظر آیا کرتا ہے۔ مگر چوں کہ یہ کرایے کے اور بہت ہی مبتذل حالت کے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے اِن کا لباس، اِن کے گھوڑے، اور خود ان کی صورتیں ایسی ذلیل و خوار ہوتی ہیں کہ ان سے بجائے رونق کے، اور ابتذال اور ایک


ریختہ صفحہ ۲۶۸ کتابی صفحہ ۲۶۶

شرم ناک منظر پیدا ہو جاتا ہے۔

اب سب کے آخر میں اور سب سے زیادہ ترقی پذیر باجا، انگریزی باجا ہے۔ یہ خالص انگریزوں کا لایا ہوا ہے جو اُن سے پیشتر مطلقاً نہ تھا۔ لکھنؤ میں خدا جانے کیوں، مگر اِس کے بجانے والے صرف مہتر ہی ہیں، جو پائخانے صاف کرنے کے علاوہ اِس کام کو بھی کرتے ہیں۔ غالباً اِس کی وجہ یہ ہو کہ ابتداءً ہندو مسلمان دونوں گروہوں کو عیسائیوں سے ایسی سوشل نفرت تھی کہ اگر وہ کسی برتن کو ہاتھ لگا دیتے تو ہمیشہ کے لیے چھوت ہو جاتا۔ اور اِس باجے کو انگریزوں سے سیکھنا اور اّسے منہ لگانا پڑتا، اس لیے سوا مہتروں کے اور کسی کو اس کے اختیار کرنے کی جُرأت نہ ہوئی۔ بہ ہر حال اب قریب قریب یہ مہتروں کا لازمی پیشہ ہوگیا ہے۔

چوں کہ اس کام کو یہاں ایک ایسے گروہ نے اختیار کیا جو سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہے، اور جسے موسیقی سے بالکل مس نہیں، اس لیے امّید نہ تھی کہ اس فن میں یہاں ذرا بھی ترقی ہو سکے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ مہتروں ہی میں ترقی کا شوق پیدا ہوا، اور چونکہ شہر کی سوسائٹیوں میں ہندوستانی موسیقی کی دُھنیں پھیلی اور مذاق میں سرایت کی ہوئی تھیں، اس لیے مہتروں کو مجبور ہونا پڑا کہ اس مغربی ارغنون میں اپنی دُھنوں کو ادا کریں۔ انگریزوں یا انگریزی بجانے والے فوجی سپاہیوں سے انھوں نے صرف یہ حاصل کیا تھا کہ انگریزی باجوں کا بجانا آجائے یا دو چار مغربی موسیقی کی دُھنیں سیکھ لی ہوں گی۔ لیکن اب انھوں نے ہندوستانی دُھنوں میں مروّجہ چیزوں کو بجانا شروع کیا تو روز بہ روز اس میں ترقی ہی کرتے گئے۔

انگریزی باجا میں نے ہر جگہ سُنا ہے اور سب جگہ وہی انگریزی کی چیزیں بجائی جاتی ہیں جن کو اُنھوں نے اپنے انگریزی بینڈ ماسٹروں سے سیکھ لیا ہے۔ یہ کہیں نہ نظر آیا کہ اس باجے کو، بجانے والوں نے ہندوستانی موسیقی کے سانچے میں ڈھال لیا

ریختہ صفحہ ۲۶۹ کتابی صفحہ ۲۶۷


ہو۔ یہ بات اگر غور سے دیکھیے تو لکھنؤ ہی میں نظر آئے گی کہ جن غزلوں یا ٹھمریوں کو روشن چوکی والے شہنائی سے ادا کر رہے ہیں، انھیں چیزوں کو انگریزی باجے والے اپنے باجوں سے ادا کر رہے ہیں۔ اور ایسی خوبی سے کہ خواہ مخواہ سننے کو جی چاہتا ہے۔

انگریزی باجے کے بینڈ، مہتروں کی مستعدی سے لکھنؤ میں سیکڑوں قائم ہوگئے ہیں، جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان میں پچیس پچیس تیس تیس بجانے والے ہوتے ہیں، اور بعض میں چھ سات یا چار ہی پانچ۔ اُنھوں نے گوروں کی وردیوں میں ہندوستانی مذاق کے مطابق تصرّف کر کے، اپنے لیے رنگ رنگ کی وردیاں بھی بنالی ہیں۔ اور اگر وه وردیاں صاف اور نئی ہوں، تو اُن کو پہن کے جب وہ برات کے ساتھ ارگن باجا بجاتے ہوئے چلتے ہیں تو بہت اچّھے اور بہت شان دار معلوم ہوتے ہیں۔

وردی کی خصوصیت اِنھی لوگوں میں ہے۔ اور قسم کے باجے والوں کو کبھی اس کا خیال نہ آیا کہ اپنے لیے کوئی وردی ایجاد کریں۔ وہ نہایت ہی ذلیل اور کثیف کپڑے پہنے ہوا کرتے ہیں۔ مگر انگرنی بینڈ والے مہتروں نے اپنے لیے طرح طرح کی وردیاں ایجاد کر کے اپنی شان بڑھالی ہے اور ہندوستانی موسیقی کو انگریزی ارغنون میں شامل کر کے، لوگوں میں اپنی قدر بھی زیادہ کرلی ہے۔

(۲۸)

انسانی معاشرت میں سب سے زیادہ ضروری اور سب سے اہم کھانا پینا ہے۔ اور کسی گروہ اور قوم کے ترقی کرتے وقت، سب سے پہلے شوق، اپنی خوش مذاقی اور جدّتوں کا اظہار دسترخوان پر کرتا ہے۔ اسی لیے اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ باورچی خانے اور دسترخوان کے متعلق لکھنؤ کے مشرقی دربار نے کیا رنگ دکھایا اور کیا کیا جدّت طرازیاں کیں۔ اور اس فن میں یہاں کے لوگوں نے کس درجے تک ترقّی کی۔

ریختہ صفحہ ۲۷۰ کتابی صفحہ ۲۶۸


اَوَدھ کے تمدّن کی تاریخ شجاع الدّولہ سے اور اُن کے بھی آخر عہد سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اُس وقت سے جب کہ وہ بکسر کی لڑائی میں شکست کھا کے اور انگریزوں سے نیا معاہدہ کر کے خاموش بیٹھے اور فوجی سرگرمیوں کی طرف سے بے توجّہی ہوئی۔ اُس زمانے میں ان کے مہتمم باورچی خانہ حسن رضا خاں عرف مرزا حسنو تھے، جو ایک دہلی کے آئے ہوئے معزّز شریف گھرانے سے تھے۔ صفی پور ضلع انّاؤ کے ایک شیخ زادے مولوی فضل عظیم جو لکھنؤ میں طالب علمی کو آئے تھے، خوش قسمتی سے مزا حسنو کے گھر میں اُن کی رسائی ہو گئی۔ اور اُن کے ساتھ ہی مل کے اور کھیل کود کے بڑے ہوئے تھے۔ اِن کو اُنھوں نے اپنی طرف سے نائب مہتمم باورچی خاہ مقرّر کرا دیا تھا۔ اور اِن کا معمول تھا کہ خاصے کے خوانوں کو درست کر کے اور ان میں اپنی مہر لگا کے نوّابی ڈیوڑھی میں لے جاتے۔ اور بہو بیگم صاحبہ کی ڈیوڑھی کی مخصوص مہریوں دھنیا، پنیا اور منیا کے حوالے کر دیتے۔ محض اس غرض کے لیے کہ یہ مہریاں اِن کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے دیں، مولانا نے اِن مہریوں سے بھائی چارا کر لیا تھا۔ چنانچہ یہ مہریاں بہت ہی نازک موقعوں پر ان کے کام آئیں۔

نوّاب شجاع الدّولہ کا معمول تھا محل کے اندر اپنی بی بی بہو بیگم صاحبہ کے ساتھ کھانا کھاتے۔ مہریاں خوانوں کو بیگم صاحب کے سامنے لے جا کے کھولتیں اور دسترخوان پر کھانا چُنا جاتا۔

نوّاب اور بیگم کے لیے ہر روز چھ باورچی خانوں سے کھانا آیا کرتا: اوّل، مذکورہ بالا اصلی نوّابی باورچی خانے سے، جس کے مہتمم مرزا حسنو تھے اور مولوی فضل عظيم خاصے کے خوان خود لے کے ڈیوڑھی میں حاضر ہوتے۔ اِس باورچی خانے میں دو ہزار روپے روز کی پُخت ہوتی۔ جس کے یہ معنی ہوئے کہ باورچیوں اور دیگر ملازموں کی تنخواہوں کے علاوہ ساٹھ ہزار روپے ماہ وار یا سات لاکھ بیس ہزار روپے سالانہ کی رقم فقط الوانِ نعمت
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 376

کو ایسےعنوان اور پہلو سے ادا کرنا تاکہ اس میں بہ عوض تشبیہ کے، استعارے کی شان پیدا ہو جائے۔ علٰی ہذا القیاس، کبھی اپنے آپ کو یا کسی اور کو اس قدر بڑھانا یا اتنا گھٹانا کہ اصلی درجے سے بہت دور ہو جائے۔ ان سب باتوں کے لیےسلیقے کی ضرورت ہے۔ اچھا سلیقہ رکھنے والا سخت سے سخت تعریض کر جاتا ہے اور ناگوار سے ناگوار تشبیہ دے دیتا ہے،مگر کسی کا دل میلا نہیں ہوتا یا کسی کو اظہار ناگواری کی گنجائش نہیں ملتی۔ بہ خلاف اس کے اگر کسی بدسلیقہ شخص نے یہ کام کرنا چاہا تو لوگ بگڑ کھڑے ہوتے ہیں اور عداوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس کا جیسا اچھا سلیقہ لکھنؤ کے عوام الناس کو ہے، اور جگہ کے خاص لوگوں میں بھی نہیں نظر آتا۔

ایک بنگالی عالم ڈاکٹر اگھور ناتھ نے، جو بڑے عالم و فاضل، فلسفے میں یکتائے روزگار، لٹریچر کے ڈاکٹر اور اردو کے اچھے ماہر تھے، زبان اردو پر اعتراض کرنے کے عنوان سے مجھ سے کہا، "صاحب! یہ کون سی زبان کی خوبی ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک صحبت میں کہا : ہم آج کل دودھ پیا کرتے ہیں۔ اس پر سب لوگ بے ساختہ ہنس پڑے۔" میں نے کہا : اردو کا یہی اعلا درجے کا حُسن ہے۔ آپ چونکہ اس زبان میں ناقص ہیں، اس لیے آپ کو بجائے اپنے عیب کے، یہ زبان کا عیب نظر آیا۔ ہر زبان میں ذو معنی لفظ ہوا کرتے ہیں اور زبان دانوں کا کام یہ ہے کہ تمام ذم کے پہلوؤں کو بچا کے، لفظوں کو استعمال کیا کریں۔ انگریزی میں لفظ "کنسیو" کے معنی خیال کرنے کے بھی ہیں اور حاملہ ہونے کے بھی۔ ایک مشہور لاٹ صاحب نے پارلیمنٹ میں تین بار کہا : "آئی کنسیو" اور آگے سوچنے لگے۔ کسی نے پکار کے کہہ دیا : جناب نے تین آئی کنسیو کہا اور ہوا کچھ بھی نہیں۔ یعنی تین بار حمل رہا اور پید کچھ نہ ہوا۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 377

اس پر سب نہ قہقہہ لگایا اور وہ لاٹ صاحب جھینپ گئے۔ اسی طرح اردو میں ہزارہا الفاظ ہیں جن میں مختلف پہلو نکلتے ہیں، بولنے والا ان کے استعمال کا صحیح سلیقہ نہ رکھتا ہو گا تو بات بات ہنسا جائے گا۔

یہی مذکورۂ بالا "دودھ پینے" کا جملہ ہے۔ ہندوستن میں "دودھ پینا" شیر خوار بچوں کا کام ہے۔ اور کسی عاقل بالغ کے لیے کہ "یہ دودھ پیتے ہیں" عیب ہونے کے علاوہ ان معنوں میں مستعمل ہوتا ہے کہ ابھی ناسمجھ اور نادان ہیں۔ اس پہلے کے بچانے کے خیال سے اہل لکھنؤ یہ کبھی نہ کہیں گے کہ میں دودھ پیتا ہوں۔ بلکہ اس مضمون کو یہ عیب کا پہلو بچا کے مختلف عنوانوں سے ادا کریں گے کہ "میں آج کل دودھ کو استعمال کرتا ہوں۔" آج کل میری غذا دودھ ہے۔" "دودھ چاول کھاتا ہوں" لکھنؤ والوں کی ان احتیاطوں کو دیکھ کے آگرے کے ایک قابل و زبان داں شاعر کو دھوکا ہوا کہ لکھنؤ کی زبان "دودھ کھانا" ہے، دودھ پینا نہیں۔ لکھنؤ کے ایک صاحب سے ان سے اس بارے میں اختلاف ہوا۔ اور حکم کے طور پر مجھ سے دریافت کیا گیا۔ میں نے کہا "دودھ پینے کی چیز ہے، کوئی اس کی نسبت کھانے کا لفظ کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ذم کا پہلو بچانے کے لیے اہل لکھنؤ دودھ پینے کا لفظ اپنی نسبت استعمال نہ کریں گے۔

ایک اسی محاورے پر منحصر نہیں، اردو میں صدہا الفاظ میں مختلف محاوروں اور معنوں کی وجہ سے ذم کے پہلو پیدا ہو گئے ہیں اور ہر اہل زبان کا کام ہے کہ ان سے بچے۔ یا کوئی شخص کسی کی نسبت مذاقاً استعمال کر جائے تو اس کا فرض ہے کہ سمجھے اور جواب دے۔ ورنہ سمجھ لیا جائے گا کہ وہ زبان سے ناواقف ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 378

اہل لکھنؤ میں شوخی و ظرافت بہت ہے۔ وہ اپنے کلام میں صدہا عنوانوں سے ظرافت پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ اور جو اس فن میں جتنا زیادہ کمال رکھتا ہے، اتنا ہی زیادہ اہل سخن کی محفلوں میں چمکتا اور ممتاز ثابت ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اور مقامات کے لوگوں میں یہ ملکہ نہیں۔ ہے اور کثرت سے ہے۔ اور اب اردو زبان سارے ہندوستان میں اس طرح ترقی کر رہی ہے کہ ہر جگہ اعلا درجے کے ظریف پیدا ہوتے جاتے ہیں اور سخن دانی و سخن فہمی کا شعور بڑھ رہا ہے۔ مگر کھنؤ والوں میں یہ ملکہ طبیعت ثانویہ بن کے ان کی فطرت و جبلت بن گیا ہے۔ اور لطافتِ کلام کے ساتھ بذلہ سنجی و ظرافت میں جیسا بے تکلف اور ستھرا مذاق ان کا نظر آئے گا، اوروں کا نہیں ہو سکتا۔

9 – آدابِ معاشرت میں نویں چیز، شادی اور غمی کی محفلیں ہیں۔ مسلمانوں کی اگلی دولت مندی و حکومت نے ان کی عورتوں کی ارمانیں بہ مقبل اکثر مقامات کے، یہاں بہت بڑھا دی ہیں۔ ولادت سے لے کے شادی تک لڑکے کی ہر خوشی و کامیابی ایک تقریب بن جاتی ہے۔ پیدایش کے بعد ہی چھٹی، چلہ اور درمیان کے نہان، عقیقہ، کھیر چٹائی، دودھ بڑھائی، بسم اللہ، ختنہ اور سب سے بڑھکے عقد نکاح۔ یہ سب بجائے خود شادی کی تقریبیں ہیں۔ اکثر بچوں کی سال گرہ ہوا کرتی ہے۔ مذکورہ تقریبوں کے علاوہ غسل صحب یا کسی خاص مقصد کے پورے ہونے پر بھی خوشی کی غیر معمولی تقریبیں ہو جاتی ہیں۔

ان سب تقریبوں میں قرابت والی بیویاں اور پاس پڑوس کی بہت سی شناسا عورتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ زنانی محفلیں مرتب ہوتی ہیں، جن میں تختوں کے چوکوںپر اور زیادہ مہمان ہوئے تو زمین پر دری چاندنی کا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 379

اُجلا فرش بچھتا ہے۔ دولت مند گھروں میں چاندنی پر تین طرف یا فقط صدر پُر تکلف قیمتی قالین بچھتے ہیں۔ کنول اور مردنگیں روشن ہوتی ہیں اور ڈومنیوں کا طائفہ سامنے بیٹھ کے مجرا کرتا ہے۔ ناچنے والی ڈومنی گھونگھرو باندھ کے ناچتی اور بھاو بتاتی ہے۔ مجرے کے درمیان میں وقتاً فوقتاً دومنیاں ہنسانے والی نقلیں کرتی ہیں۔ بہرحال مسرت کے ولولے اور خوشی کے چہچہے ہوتے ہیں اور ڈومنیاں اگرچہ مجرے میں اکثر بے اعتدالیاں کرنے لگتی ہیں اور صحبت میں بے حیائی و بے شرمی کو بڑھا دیتی ہیں، مگر نشست برخاست کے سلیقے، بیویوں کے باہمی ربط و ضبط اور اس کے ساتھ حفظ مراتب میں کوئی فرق نہیں آنے پاتا۔ ہر تقریب کے متعلق صدہا رسمیں یں جن کا انجام پانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان رسموں کی محافظ اور برقرار رکھنے والی بڑی بوڑھی عورتیں اور ان کے ساتھ ڈومنیاں ہوا کرتی ہیں، جن کو اس رسموں کے بہانے بہت کچھ مل جاتا ہے۔

اکثر تقریبوں میں رت جگا ضرور ہوا کرتا ہے اور یہی ایک چیز ہے جو ہندوستانی عورتوں کے اعتقاد میں خالصتہً بوجہ اللہ ہے اور جس میں ڈومنیاں "اللہ میاں کی سلامتی" کا نغمہ گاتی ہیں۔ شب زندہ داری ہوتی ہے، مگر عبادت کے لیے نہیں، بلکہ گانے بجانے، رات بھر دھما چوکڑی مچانے اور صبح ہوتے مسجد میں جا کے اللہ میاں کا طاق بھرنے کے لیے، جن کی نذر کے لیے گلگلے اور خدا رحم مخصوص چیزیں ہیں۔ ان تقریبوں میں یہی کاروائی دیہات میں بھی ہوا کرتی ہے مگر وہاں بدتمیزی و بدسلیقگی ہوتی ہے تو شہر والیوں میں نفاست، صفائی، خوش ترتیبی، اور شایستگی۔

(45)

جن شادی کی تقریبوں کا ہم ذکر کر چکے ہیں اور ان کی زنانی محفلوں کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 380

ایک عام تصویر گذشتہ موقع پر دکھا دی ہے، ان کی مفصل تشریح یہ ہے کہ چھٹی اس تقریب کا نام ہے جب کہ زچگی کے بعد ماں اور بچے کو پہلی دفعہ نہلایا جاتا ہے۔ زچہ کو تیز گرم پانی نہلانا ایک طبی علاج ہے۔ مگر یہ ٹسل ولادت چونکہ ایک خوشی کے موقع پر ہوتا ہے، اس لیے اس کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور چونکہ عموماً زچگی کے چھٹے روز یہ پہلا نہان ہوتا ہے، اس لیے اس نام ہی چھٹی پڑ گیا۔ اور اس میں زچہ بڑے اہتمام سے نہلائی جاتی ہے پھر بچہ نہلایا جاتا ہے اور ان کے بعد تمام عورتیں جو مہمان ہوتی ہیں یکے بعد دیگرے سب نہاتی ہیں۔ زچہ اور بچے کے لیے نئے بھاری جوڑے حسب حیثیت تیار کیے جاتی ہیں۔ اور ساتھ ہی سب عورتیں کپڑے بدلتی ہیں۔ اس نہان میں جو طرح طرح کی رسمیں برتی جاتی ہیں، وہ بے حد و بے شمار ہیں۔ اور غالباً ہر شہر و قریے بلکہ ہر خاندان میں کُلیتہً یکساں اور جُزءً مختلف اور نئی ہیں۔

دلہن کے میکے یا دیگر اعزہ کی طرف سے اس موقع پر زچہ اور بچے کے جوڑے، طوق، ہنسلی اور کٹرے، ننے بچے کے قابل کھلونے، جھنجھنے، چٹوے، ان کے ساتھ مرغیاں اور خدا جانے کیا کیا چیزیں بڑی دھوم دھام، جلوس اور باجوں کے ساتھ آتی ہیں۔ زنانے میں رقص و سرود کی محفلیں گرم ہوتی ہیں اور اتنی استطاعت نہ ہوتو خود گھر والی عورتیں ڈھول سامنے رکھ کے، گا بجا لیتی ہیں۔

یہی شان بعد کے دو نہانوں یعنی بیسویں اور چلے کے نہانوں کی ہوتی ہے۔ اگر خدا نے اطمینان دیا ہے تو دونوں موقعوں پر محفل عیش و نشاط گرم ہوتی ہے، ورنہ فقط چلے کے نہان میں زیادہ دھوم دھام ہوتی ہے، اور بیسویں کے نہان کی تقریب معمولی ہوتی ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 381

عقیقہ مسلمانوں کی خالص مذہبی رسم ہے، جس کا آغاز بنی اسرائیل کے زمانے آلِ ابراہیم ؑ میں چلا آتا ہے۔ یہود، پیدایش کے آٹھویں دن بچے کو مسجد اقصٰی میں لے جا کے اس کا سر منڈاتے اور قربانی کرتے تھے۔ا ور ان کا مقتدا خاص طریقوں سے اس کے لیے برکت کی دعا کیا کرتا تھا۔ یہی طریقہ مسلمانوں میں بھی رسمِ ابراہیمی ؑ اور سنتِ محمدﷺ کی حیثیت سے آج تک جاری چلا آتا ہے۔ اگرچہ اب ولادت کے بعد آٹھویں دن عقیقے کی قید اُٹھ گئی ہے، مگر اکثر بچے کی عمر کے پہلے ہی سال میں ہو جایا کرتا ہے۔ اس میں بچے کو نہلا کے نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اعزہ و احباب کے مجمع میں نائی اس کا سر مونڈتا ہے۔ اور جیسے ہی وہ سر میں اُسترا لگاتا ہے، بچے اگر لڑکا ہے تو دو اور لڑکی ہے تو ایک بکرا قربانی کیا جاتا ہے۔ مُنڈ جانے کے بعد سر میں صندل لگایا جاتا ہے۔ اعزہ و اقارب حسب حیثیت بچےکو کچھ رونمائی دیتے ہیں۔ قربانی گوشت غربا اور اعزہ میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور گھر میں خوشی کا جلسہ ہوتا ہے اور اسی قسم کی محفل مرتب ہو جاتی ہے جیسی کہ اور تقریبوں میں ہوتی ہے۔

کھیر چٹائی ۔ اس تقریب سے بچے کو دودھ کے علاوہ اور غذاؤں کے دینے کا آغاز ہوتا ہے جو اکثر اس وقت ہوا کرتی ہے جب بچہ چار یا پانک مہینے کا ہو چکتا ہے۔ اکثر گھروں میں غذا کا آغاز کھیر سے کیا جاتا ہے جو خاص اہتمام سے پکائی جاتی ہے اور خاص طور پر قرابت دار خاتونوں کی موجودگی میں بچے کو چٹائی جاتی ہے، جب کہ وہ نئے کپڑے پہنے ہوتا ہے اور سب بیویاں ترقی عمر کی دُعاؤں کے ساتھ اس کے ہاتھ میں روپے دیتی ہیں اور وہی محفل طرب قائم ہو جاتی ہے جو ہر تقریب میں نظر آتی ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 382

دودھ بڑھائی – یہ تقریب اس موقع پر ہوتی ہے جب بچے کا دودھ چُھڑایا جاتا ہے۔ اس میں عموماً کھجوریں پکائی جاتی ہیں تکہ بچہ اگر دودھ کے لیے ضد کرتے تو بہلانے کے طور پر اس کے ہاتھ میں دے دی جایا کریں۔ مگر عموماً رواج ہے کہ اتنی مقدار میں پکائی جاتی ہیں کہ جن جن گھروں سے حصہ داری ہے، ان میں تقسیم بھی ہو سکیں۔ دودھ کے چُھڑانے کا عام طریقہ یہ ہے کہ ماں یا مرضعہ کی چھاتیوں میں پانی میں گھول کے ایلوایا اور کوئی کڑوی چیز لگا دی جاتی ہے، جس کی کڑواہٹ سے گھبر کے بچہ دودھ چھوڑ دیتا ہے۔ اور جب پینے کے لیے ضد کرتا اور بہلائے نہیں بہلتا تو پھر یہی کاروائی کی جاتی ہے۔ اور دو ایک دفعہ میں اسے دودھ سے نفرت ہو جاتی ہے۔ دودھ بڑھائی کا زمانہ علی العموم اُس وقت ہوتا ہے جب بچہ دو سال کا ہو جائے۔ حنفیوں میں مدت رضاعت اڑھائی برس ہیں۔ یعنی اڑھائی برس کے بعد دودھ چھڑانا لازمی ہے۔ لیکن رواج اس سے کم ہی زمانے کا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض عورتیں تین تین چار چار سال دودھ پلاتی رہتی ہیں مگر یہ بات عموماً نفرت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے، اس لیے کہ شرع کے خلاف ہے۔ اس تقریب میں بھی جن گھروں کو خدا نے استطاعت دی ہے، ان میں بہت اچھی چہل پہل ہو جاتی ہے اور رقص و سرود کی محفل گرم ہوتی ہے۔

بسم اللہ – یہ تقریب اس دن ہوتی ہے جس روز لڑکے کو پہلے پہل پڑھنے کے لیے بٹھاتے ہیں۔ اور اس کا زمانہ از روے رسوم مروجہ وہ خیال کیا گای ہے جب بچہ چار سال چار مہینے اور چار دن کا ہو جائے۔ اور اس چار کے عدد نے اس تقریب میں اس قدر خصوصیت پیدا کر لی ہے کہ چار سال چار مہینے چار دن کے بعد چار گھنٹے اور چار منٹ کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔ وقت مقررہ پر کوئی محترم مولوی صاحب یا کوئی بزرگِ خاندان لڑکے کو جو نہلا دھلا کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 383

اور نئے کپڑے پہنا کے دولہا بنا دیا جاتا ہے، پڑھانے کے لیے لے کے بیٹھتے ہیں۔ الف، بے، کی کتاب اس کے سامنے رکھتے ہیں اور بسم اللہ کہلا کے عربی کے دعائیہ الفاظ "رَبّ یسّر وَلاَ تعسّرِ و تمِّمم بالخیر" کہلاتے ہیں۔ جن کے معنی یہ ہیں کہ "خداوندا آسان کر اور دشوار نہ کر اور خیریت سے ختم کر" پھر الف بے کہلا کے مٹھائی تقسیم ہوتی ہے۔ عزیز و قریب لڑکے کو حسب توفیق دیتے ہیں اور اس دن سے ان کی تعلیم شروع ہو جاتی ہے۔

ختنہ – یہ بھی سنتِ ابراہیمی اور آلِ ابراہیمؑ کی پُرانی اور ضروری رسم ہے۔ اور چونکہ ہندوستان میں صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کاروائی کے بعد سے لڑکا مسلمان ہو جاتا ہے اس لیے اس رسم کا عام نام ہی "مسلمانی" پڑ گیا ہے۔ اس میں بچے کے عضو مخصوص کے مُنہ پر کی کھال کاٹ لی جاتی ہے، جس کا کاٹنا طبی اور ڈاکٹری اصول سے بھی بعض امراض و شکایات سے بچےکے لیے نہایت مفید ہے۔ یہ ایک قسم کا آپریشن ہے، جس کو ہمارے قدیم سرجن (جراح) جو عموماً نائی ہوتے ہیں، نہایت خوش اسلوبی اور غیر معمولی پُھرتی سے انجام دیتے ہیں۔ ان کے اچھا معاوضہ اور انعام دیا جاتا ہے اور اس رسم کے انجام دیتے وقت مردانے میں اکثر اعزہ و احباب بُلا کے بٹھا لیے جاتے ہیں۔ اور زنانے میں مہمان بیویوں کا مجمع ہوتا ہے۔ ختنہ ہوتے ہی مٹھائی تقسیم ہوتی ہے۔ جن کو استطاعت ہوتی ہے، دعوت کرتے ہیں۔ اور پھر اس روز خوشی کی تقریب ہوتی ہے۔ جب زخم اچھا ہونے کے بعد لڑکا غسل صحت کرے، اکثر خاندانوں اور منت مراد والے گھرانوں میں اس روز لڑکا دولہا بنا کے گھوڑے پر چڑھایا جاتا ہے۔ اور برات کےبڑے جلوس اور دھوم دھام کے ساتھ کسی درگاہ میں جاتی ہے، جہاں چادر اور مٹھائی چڑھا کے، لڑکا اسی شان سے گھر واپس آتا ہے، جہاں خوشی کے چہچہے اور عیش و شادمانی کے جلسے نظر آتے ہیں۔ اس رسم کے ادا ہونے کا زمانہ مختلف ہے۔ بعض لوگ چھٹی یا چلے ہی میں بچے کا ختنہ کرا دیتے ہیں۔مگر عام رواج اس وقت ہے جب لڑکا چھ ساتھ برس کا ہو جائے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 384

ایک اور تقریب روزہ کُشائی کی بھی ہے۔ یہ اس وقت ہوتی ہے جب لڑکا یا لڑکی نو دس برس کی عمر کو پہنچ جائے اور اسے پہلے پہل روزہ رکھوایا جائے۔ اس میں علی العموم بہت سے روزہ داروں کی دعوت کی جاتی ہے جن کے لیے کثرت سے افطاریاں تیار کی جاتی ہیں اور لڑکا ان کے ساتھ بیٹھ کے افطار کرتا ہے اور لڑکی ہے تو زنانے میں مہمان روزہ دار بیویوں کے ساتھ روزہ کھولتی ہے۔ اس میں گانا بجانا کم ہوتا ہے۔ مگر شوقین اور رنگین مزاج لوگوں کے لیے یہ بہانہ بھی محفل رقص و سرود کرنے کے واسطے کافی ہو جاتا ہے۔
اس قسم کی کاروائیاں غسل صحت کی تقریبوں اور منت مراد پوری ہونے کے موقعوں پر ہوا کرتی ہیں۔ اور سوا ان خاص باتوں کے جو اس تقریب سے تعلق رکھتی ہوں، باقی سب باتیں ان میں بھی وہی ہوتی ہیں جو اور تقریبوں میں بیان کی گئیں۔

سب سے بڑی اور اہم تقریب شادی یا عقد نکاح ہے۔ یہ وہ ضروری تقریب ہے جس کی بے اعتدالیوں کی بدولت سیکڑوں خاندان تباہ و برباد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ کہ خوشی کے جوش اور شاہد آرزو سے ہم کنار ہونے کی محویت میں کسی کو نہ اپنی حالت و استطاعت کا خیال رہتا ہے، نہ اپنے انجام و مآلِ کار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قرض لے کے، جائیدادیں بیچ کے، دوستوں عزیزوں سے مانگ کے، یا جس طرح کوئی رقم مل سکے فراہم کر کے، ارمانیں پوری کی جاتی ہیں۔ اور شادی کے ختم ہوتے ہی یہ حالت ہوتی ہے کہ اکثر گھروں میں فاقے کی نوبت آ جاتی ہے۔

شادی اور نکاح چونکہ انسانی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے، اس لیے اس کو ہم ذرا تفصیل و تشریح سے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ شادی کی نسبت اکثر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 385

مشاطاؤں کے ذریعے سے ٹھہرتی ہے۔ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں، خصوصاً ان میں جہاں اگلے تمدن نے ترقی کی تھی، عورتوں کا ایک خاص پیشہ ہے مشاطہ گری۔ شعرا کے کلام اور لُغت میں مشاطہ اس عورت سے مراد ہے جو عالی مرتبہ خاتونوں کی کنگھی چوٹی کرتی، کپڑے اور زیور پہناتی، اور، اور انہیں بنا چُنا کے سنوارتی اور آراستہ کرتی ہے۔ مگر سوسائٹی میں مشاطہ ان عورتوں کو کہتے ہیں جو شادی کے پیام لے جاتی، نسبتیں ٹھہراتی اور شادیاں کراتی ہیں۔ غالباً اس پیشے کی ابتدا اُنہی عورتوں سے پڑی جو حسینوں کو بنایا سنوارا کرتی ہیں، اور آخر میں شادی ٹھہرانے والی عورتوں کا نام مشاطہ پڑ گیا۔ یہ بڑی چالاک اور مکار عورتیں ہوا کرتی ہیں۔ ہر لڑکے کا پیام جب کسی گھر میں لے جاتی ہیں تو اس کی دولت مندی، تعلیم، سعادت مندی، خوش اخلاقی اور خوبصورتی کی اس قدر تعریف کرتی ہیں کہ لڑکی والوں کی نظر میں اسے مثنوی میر حسن کا شاہزادۂ بے نظیر ثابت کیے بغیر دم نہیں لیتی ہیں۔ اسی طرح جب کسی لڑکی کی بات لڑکے والوں کے یہاں لے جاتی ہیں تو اس کے حُسن و جمال، ناز و انداز اور خوبی و رعنائی کے بیان میں ایسے لقلقے باندھ دیتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے جس لڑکی کا ذکر کر رہی ہیں، وہ انسان نہیں، کوہ قاف کی پری یا شاہزادی بدر منیر ہے۔

مشاطہ کی پیام رسانیوں کے بعد اگرچہ تحقیق و جستجو مرد ہی کرتے ہیں مگر نسبت ٹھہرنے میں زیادہ دخل دونوں گھروں کی عورتوں کو ہی ہوا کرتا ہے۔ جو اپنا اطمینان کر کے مردوں کی رضا مندی حاصل کرتی ہیں اور نسبت ٹھہر جاتی ہے ۔ دونوں خاندانوں میں بچوں کے پیدا ہوتے ہی ارمان بھری مائیں نسبت ٹھہرا لیا کرتی ہیں۔ ان کے لیے مشاطہ کی ضرورت نہیں پیش آتی، بلکہ دولہا کو بے غل و غش ٹھیکرے کی منگی دلہن مل جاتی ہے اور شادی سے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 386

پیش تر کی رسمیں جن کو نسبت ٹھہرنے سے تعلق ہے، ان کی نوبت نہیں آتی، گویا پیدا ہوتےہی منگنی ہو جاتی ہے۔

نئے گھروں میں جب پیام جاتا ہے تو اکثر لڑکا اپنے چند عزیزوں اور مخصوص دوستوں کے ساتھ "بر دکھوا" کے نام سے دلہن والوں کے وہاں بلایا اور ایسی جگہ بٹھایا جاتا ہے جہاں سے عورتیں بھی اسے تاک جھانک کے دیکھ سکیں۔ گھر والے مرد جمع ہو کے اس سے ملتے اور حسب حیثیت خاطر مدارت کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے کی ماں بہنیں ایک مقررہ تاریخ پر دلہن کے گھر میں جاتی اور مٹھائی کھلانے یا کسی اور بہانے سے دلہن کا چہرہ دیکھتی ہیں، جو عام طور پر ان سے چھپائی اور پردے میں رکھی جاتی ہے۔ مگر بعض شریف گھروں میں دولہا نہیں بلایا جاتا بلکہ خاندان کے مرد کسی نہ کسی عنوان سے لڑکے کی لاعلمی میں اسے دیکھتے اور اس کا حال دریافت کر لیتے ہیں اور یوں ہی لڑکی کی حالت کا بھی پتا لگا لیا جاتا ہے۔

ان طریقوں سے جب لڑکے والے لڑکی کو، اور لڑکی والے لڑکے کو پسند کر لیتے ہیں، جس میں صورت شکل، حالت و حیثیت کے علاوہ شرافت خاندان کو بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے، تو منگنی کی رسم عمل میں آتی ہے۔ اس میں دولہا کی طرف سے مٹھائی جاتی ہے، پھولوں کا گہنا جاتا ہے اور ایک سونے کی انگوٹھی جاتی ہے، جسے بعض گھرانوں میں دولہا کی عزیز عورتیں خود جا کے پہناتی ہیں۔

منگنی کی رسم ادا ہو جانے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ نسبت ٹھہر گئی۔ اور اس وقت سے دونوں جانب معمول ہو جاتا ہے کہ جب کوئی تقریب ہو، تو سمدھیانے میں خاص اہتمام سے حصے جائیں۔ اور جو حصہ لڑکے یا لڑکی کےلیے ہوتا ہے، وہ بڑا ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مشین و با وقعت بنا دیا جاتا ہے۔ اسی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 387

اثنا میں اگر محرم آ گیا تو دونوں جانب سے اہتمام اور تکلف کے ساتھ گوٹا، الائچیاں، چکنی ڈلیاں اور اعلا درجے کے کارچوبی اور ریشمی بٹوے سمدھیانے میں بھیجے جاتے ہیں۔

برات یعنی نکاح کے دن سے چند روز پہلے دلہن مانجھے بٹھا دی جاتی ہے جب کہ اسے مانجھے کا زرد جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ اس وقت سے روز اس کے بُٹنا لگتا ہے اور بہ جبر خاص ضرورتوں کے، وہ پردے سے باہر نہیں نکلتی۔ جس دن وہ مانجھے بیٹھتی ہے، اسی روز رسم ہے کہ اس کا جھوٹا بٹنا، اس کی جھوٹی مہندی، مصری کا کوزہ اور بہت سی پینڈیاں ایک شان دار جلوس اور باجے کے ساتھ دولہا کے گھر بھیجی جاتی ہیں۔ جو پینڈیاں خاص دولہا کے لیے ہوتی ہیں، وہ جداگانہ خوانوں میں ممتاز و مخصوص ہوتی ہیں۔ انہی کے ساتھ دولہا کے لیے مانجھے کا زرد بھاری جوڑا، ایک رنگی ہوئی منقش چوکی اور لوٹا کٹورا بھی ہوتا ہے۔ لوٹا کٹورا چوکی پر ناڑے سے کس کے باندھ دیے جاتے ہیں اور جلوس میں یہ چیزیں اس ترتیب سے ہوتی ہیں کہ باجے والوں اور جلوس کے بعد سب کے آگے چوکی ہوتی ہے۔ اس کے بعد خوانوں میں دولہا کی مخصوص چیزیں ہوتی ہیں جو عموماً کچے طباقوں میں رکھی ہوتی ہیں۔ اور ان کے بعد بہت سے خوانوںمیں عام قسم کی پینڈیاں ہوتی ہیں۔ دلہن کی چھوٹی بہنیں اور ڈومنیاں فینس اور ڈولیوں پر سوار ہو کے جاتی ہیں، جو دولہا کے گھر پہنچ کر، ایک پینڈی اور مصری کے سات سات ٹکرے کر کے، وہ سب ٹکڑے دولہا کو ڈہکا ڈہکا کے کھلاتی ہیں۔ اس رسم کی نسبت قیاس کیا جاتا ہے کہ خالص ہندی رسم ہے، جس کو نہ عرب سے تعلق ہے نہ عجم سے۔ اس لیے کا مانجھے اور اس کے ساتھ کنگنے کی ابتدا ہندوستان کے سوا اور کسی جگہ نہیں ثابت ہوتی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 388

مانجھے کے دس بارہ روز سے زیادہ زمانہ گزرنے کے بعد اسی شان و شوکت اور جلوس کے ساتھ دولہا کے گھر سے دلہن کے یہاں شانچق جاتی ہے۔ چانچق، تُرکی لفظ اور ترکی رسم ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ترک و مغل اس رسم کو اپنے ساتھ ہندوستان میںلائے۔ اس میں دولہا کے یہاں سے دلہن کے لیے چڑھاوے کا جوڑا جاتا ہے جو عموماً بہت بھاری اور کارچوبی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دلہن کے لیے سنہری مقیش کا سہرا، چاندی کا چھلا، سونے کی انگوٹھی، دو ایک اور چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ زیور ہوتا ہے جس کو پہنا کر وہ رخصت کی جائے گی۔ اور پھولوں کا گہنا ہوتا ہے۔ جوڑے کے ساتھ شکر کے نُقل، شکر کے قُرص اور میوہ جاتا ہے۔ سانچق کے لیے خاص اہتمام سے منقش اور رنگین گھڑے تیار کرائے جاتے ہیں۔ پھر بانس اور کاغذ کے رنگا رنگ تختوں میں چار چار گھڑے لگا کے جو گھڑے بنا دیا جاتے ہیں، اور دولت مندی و امارت کی شان کے مناسب ان چوگھڑؤں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور اکثر سو سو دو دو سو کے شمار کو پہنچ جاتے ہیں، مگر ان کے اندر چند گنتی کے نقلوں یا پاؤ آدھ سیر شکر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے منہگڑوں پر عموماً سوہے کا کپڑا ناڑے سے بندھا ہوتا ہے۔ اور جلوس میں ان سب گھڑوں کے آگے چاندی کی ایک دہی کی مٹکی رہتی ہے جس میں دہی بھرا ہوتی ہے۔ اور اس کے منہ پر بھی ساہا ناڑے سے باندھ دیا جاتا ہے اور اس کے گلے میں مبارک فالی کے دو ایک مچھلیاں بھی بندھی ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں جب دلہن کے گھر پہنچتی ہیں تو اعزہ و اقارب میں تقسیم ہوتی ہیں۔

(46)

سانچق کے دوسرے ہی روز شب کو دولہن کے گھر سے بڑے جلوس اور روشنی کے ساتھ مہندی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ غالباً یہ عربی الاصل رسم

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 389

ہے۔ اس میں دراصل دلہن والوں کی طرف سے دولہا کے لیے وہ جوڑا جاتا ہے جسے پہن کر وہ بیاہنے کو آئے گا۔ اس جوڑے میں علی العموم قدیم عہد مغلیہ کی درباری وضع کا خلعت، شملہ، جیغہ، سرپیچ اور مرصع کلغی ہوتی ہے۔ نصیب ہوا تو اس کے ساتھ موتیوں کا ہار بھی بھیجا جاتا ہے۔ مذکورہ چیزوں کے علاوہ ریشمی پائجامہ اور جوتا وغیرہ معمولی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ اکثر ایک طلائی انگوٹھی بھی جاتی ہے۔ اس جوڑے کے ساتھ دولہا کے لگانے کے لیے پسی ہوئی تیار مہندی بھی بھیجی جاتی ہے جس کو بہت سے طباقوںمیں پھیلا کے رکھتے ہیں اور اس میں سبز و سرخ شمعوں کو نصب کر کے روشن کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے مہندی کے بہت سے طباق روشن ہوتے ہیں جو مہندی کے جلوس میں ایک خاص شان اور آن بان پیدا کر دیتے ہیں۔ مہندی کے ان روشن طباقوں کے ساتھ سو پچاس طباقوں میں ملیدہ ہوتا ہے جو خُرموں کو کوٹ کے بنایا جاتا ہے اور جیس حیثیت ہوتی ہے، اسی کے مناسب کثرت سے بھیجا جاتا ہے۔ اس موقع پر جوڑے کے ساتھ دولہا کے لیے سونے کا سہرا بھی بھیج دیا جاتا ہے۔

مہندی کے دوسرے دن دولہا کی طرف سے برات جاتی ہے۔ برات جانے کا اگلا ضروری وقت، پہر رات رہے یعنی تین بجے شب کا تھا۔ لیکن اب یہ وقت اکثر چھوٹتا جاتا ہے اور بجائے پہر رات رہے کے، پہر دن چڑھے یعنی نو دس بجے صبح کو براتیں جنے لگی ہیں۔ اس تاخیر کی ابتدا واجد علی شاہ آخری بادشاہ اودھ کے زمانے نے ہوئی۔ ان کی برات جانے میں اتفاقاً دیر ہو گئی اور دن نکل آیا تھا۔ لوگوں نے آسانی اور روشنی کے سامان کی تخفیف کے خیال سے اسی وقت کو اختیار کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اب عموماً ابتداے روز میں برات جاتی ہے اور دوپہر کو عقد ہو جاتا ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 390

برات میں حتی الامکن پورا جلوس جمع کیا جاتا ہے۔ مروجہ تین باجے : یعنی پُرانا ڈھول، تاشے اور جھانجھیں۔ روشن چوکی اور ارگن باجا ضرور ہوتے ہیں۔ اس سے ترقی ہوئی تو گھوڑوں پر نوبت، نقارہ، جھنڈیاں، برچھے بردار، ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، اور اس سے بھی زیادہ حوصلہ ہوا تو انہی باجوں کے متعدد گروہ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ دولہا وہی جوڑا پہن کے جو مہندی کے ساتھ آیا تھا اور سہرا باندھ کے علی العموم گھوڑے پر اور اعلا طبقے کے اُمرا کے یہاں ہاتھی پر سوار ہو کے، سارے جلوس اور باجوں کے پیچھے آہستہ آہستہ زینت و وقار سے روانہ ہوتا ہے۔ دولہا کو "نوشہ" یعنی نیا بادشاہ کہتے ہیں۔ اور خیال بھی یہی ہے کہ دولہا ایک دن کے لیے بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔ مگر غور طلب یہ امر ہے کہ جب دولہا کو بادشاہ بناتے ہیں تو اس کے سر پر شملہ کیوں ہوتا ہے؟ تاج کیوں نہیں پہناتے ؟ اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان سریر آرا تارج نہیں پہنتے تھے، بلکہ سب کے سروں پر کلغی دار شملے ہوتے تھے۔ انگریزوں نے غازی الدین حیدر کے زمانے سے شاہان اودھ کو تاج پہنا دیا۔ مگر وطنی سوسائٹی نے اس تاج کو قبول نہیں کیا اور اپنے بادشاہوں کی وضع وہی رکھی جو پرانی تھی اور اسی نمونے کا بادشاہ اپنے نوشاہوں کو بناتے ہیں۔ دولہا کے پیچھے بینسوں اور ڈولیوں میں سوار دولہا کی ماں بہنیں اور عزیز و قریب عورتیں اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ چلے وقت گھر میں جو صدہا رسمیں اور ٹؤٹکے ہوتے ہیں، بہت ہیں، اور لغو ہونے کی وجہ سے زیادہ تر قابل لحاظ بھی نہیں۔

اس شان سے جب بارت دُلہن کے گھر پہنچتی ہے تو عموماً اس وقت دلہن نہلائی جا چکتی ہے اور اس کے غسل کا پانی باہر لا کے دولہا کی سواری کے گھوڑے یا ہاتھی کے پاؤں کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے۔ دلہن کو یہ غسل سات

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 391

دن کے باسی ٹھنڈے پانی سے دیا جاتا ہے جو کلس کا پانی کہلاتا ہے۔ اور جاڑوں کے موسم میں غریب دلہن کے لیے اس پانی میں نہانا قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ چوکی پر پان بچھا کے وہ نہلائی جاتی ہے اور یہی پان اس اکیس پانوں والے بیڑے میں شامل ہوتے ہیں جو سب سے پہلے سسرال میں کھلایا جاتا ہے۔

اب دولہا سواری سے اتر کے زنانے میں جاتا ہے۔ وہاں رسی ننگھائی جاتی ہے۔ اور طرح طرح کی بیسیوں اور رسمیں عمل میں آتی ہیں۔ جو ہر گروہ اور ہر خاندان میں جدا جدا اور عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ یہ وقت علی العموم وہ ہوتا ہے جب دلہن نہا تو چکتی ہے مگر ابھی کپڑے نہیں پہنائے گئے ہوتے ہیں۔ وہ ایک چادر میں لپٹی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ پر مصری رکھ کے دولہا کو کھلائی جاتی ہے۔ جس میں سالیاں، زندہ دل عورتیں اور ڈومنیاں قیدیں بڑھا بڑھا کے دولہا کے لیے ہر کام مشکل کر دیتی ہیں۔

شادی کی یہ پہلی ہفتخوان طے کر کے دولہا باہر مردانے میں آتا ہے، جہاں بزم نشاط مرتب ہوتی ہے۔ اعزہ و احباب پُر تکلف کپڑے پہنے، قرینے سے صاف ستھری دری چاندنی اور قالینوں کے فرش پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور سامنے مردانہ یا زنانہ طائفہ کھڑا مجرا کرتا ہوتا ہے۔ عین محفل کے درمیان میں اور صدر مقام پر دولہا کے لیے زرنگار مسند تکیہ ہوتا ہے جس پر دولہا کو اس کے ہم عمر لڑکے لا کے بٹھا دیتے ہیں اور اس کے دونوں طرف خود بیٹھ جاتے ہیں۔ تاکہ دولہا ان کے ساتھ آزادی سے باتیں کر سکے۔

دولہا کے لیے لازم ہے کہ اپنی ہر وضع، ہر حرکت سے شرمیلا پن ظاہر کرے۔ وہ نہ تو بے تکلف باتیں کر سکتا ہے، نہ کوئی اس کی آواز سن سکتا ہے، نہ کسی سے وہ بے تکلفی سے مل جل سکتا ہے۔ مُنہ پر سہرا ہوتا ہے اور پھر سونے کے سہرے پر پھولوں کا سہرا باندھ کے، اس قابل نہیں رکھا جاتا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 392

کہ کوئی بغیر کوشش اور دیر تک کی محنت کے اس کی صورت دیکھ سکے۔ محفل نشاط میں بیٹھنے بلکہ اکثر عقد ہو جانے کے بعد سہرا اٹھا کے شملے میں لپیٹ دیا جاتا ہے تاکہ چہرہ کھل جائے۔ مگر اب بھی اس کے لیے لازم ہے کہ ایک ہاتھ سے منہ پر رومال رکھے رہے، جو اظہار شرم کی ایک علامت ہے۔ اور اب چہرہ کھلنے کے بعد بھی اس رومال کی وجہ سے اس کی صورت دیکھنے کے شائقین کو بغیر دیر تک اس فکر میں لگے رہنے کے کامیابی نہیں ہو سکتی۔

دولہا کے باہر آ کر تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد عقد نکاح کا انتظام ہوتا ہے، جس کے لیے یہ سب بکھیڑا کیا گیا ہے۔ اگر شیعہ خاندانوں کی شادی ہے تو دو مجتہد صاحب تشریف لاتے ہیں، ایک لڑکے کے نائب و وکیل بن کے اور دوسرے لڑکی کے نائب و وکیل بن کے۔ لڑکی والے خود پردے کے پاس جا کے یا عادل شاہدوں سے تصدیق فرما کے لڑکی کی شرعی مختاری حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد دونوں دولہا کے سامنے بیٹھ کے دولہا دلہن کی جانب سے قرأت و صحتِ مخارج سے ایجاب و قبول کے صیغے ادا کرتے ہیں۔ اور اگر خاندان سُنی ہے تو کوئی محترم مولوی صاحب اور اگر کوئی گاؤں ہوا تو وہاں کے مقررہ قاضی صاحب آ کے نکاح پڑھاتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے عزیزوں میں سے کوئی صاحب اس کے وکیل و مختار بن کے آتے ہیں اور وہ شاہدوں کو پیش کرتے ہیں کہ فلاں لڑکی نے مجھے اپنا وکیل اس دونوں شاہدوں کے سامنے مقرر کیا اور مجھے اپنے عقد کا اختیار دیا۔ قاضی صاحب ان شاہدوں پر اطمینان کر کے اور مقدارِ مہر کو ان وکیل صاحب سے دریافت کر کے، دولہا کو کلمۂ شہادت پڑھاتے، مسلمان کے لیے جن جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کا عربی میں اقرار کراتے اور اس کے بعد تین بار اس سے یہ کہہ کے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 393

کہ "فلاں لڑکی کے ساتھ اتنے مہر پر ہم نے تمہارا عقد نکاح کر دیا۔" دولہا سے اقرار کراتے ہیں کہ "میں نے قبول کیا۔" اس کے بعد ایک دعائیہ خطبہ پڑھ کے لوگوں سے کہتے ہیں : "مبارک" ساتھ ہی مبارک سلامت کا غل ہوتا ہے ۔ نقل اور چُھوہارے جو سینیوں میں بھرے سامنے رکھے ہوئے ہیں، ان کو حاضرین میں لُٹا دیتے ہیں۔

مجتہد یا مولوی صاحب کے آنے کے وقت گانا موقوف ہو جاتا ہے۔ اور بعد عقد مولوی صاحب چلے جاتے ہیں تو پھر رقص و سرود کی محفل گرم ہو جاتی ہے۔ اور اس کے بعد دولہا پھر اندر زنانے میں بلایا جاتا ہے۔ عورتوں کی دنیا میں رسوم اور شرائط عقد کے اصلی لوازم کے بجا لانے کا خاص یہی وقت ہے۔ زنانے میں اس موقع پر رسوم نکاح کے ضمن میں دولہا کے ساتھ ہر قسم کا تمسخر کیا جاتا ہے اور اس کے پریشان کرنے میں کوئی کاروائی اٹھا نہیں رکھی جاتی۔ اس تمام رسوم کی بجا لانے والی سالیاں اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ درحقیقت ناکتخدا نوجوانوں کے لیے شادی ایک پُراسرار لاج (فرامشن خانہ) ہے، جس میں بیسیوں ایسے مراحل پیش تے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ دلہن اوڑھ لپیٹ کے ایک غیر متحرک گٹھری کی طرح اس کے سامنے لا کے رکھ دی جاتی ہے۔ ابھی تک اسے رخصتی کا جوڑا نہیں پہنایا گیا ہوتا۔ لاتے وقت کوشش کی جاتی ہے کہ پہلی آمد میں دلہن کی ایک لات دولہا کے پڑ جائے۔ پھر ٹونے گائے جاتے ہیں۔ دولہا سے بیوی کی غلامی، ذلیل ترین غلامی اور خدا جانے کیسی کیسی خدمتیں بجا لانے کا اقرار کرایا اور وعدہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آرسی مصحف کی رسم ادا ہوتی ہے، جس کے لیے دولہا دلہن کے درمیان رحل پر قرآن شریف اور اُس پر آئینہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 394

رکھا جاتا ہے۔ اور اس آئینے میں دولہا کو دلہن کا پہلا جلوہ دکھایا جاتا ہے۔ مگر لازم ہے کہ چہرہ دیکھنے سے پہلے دولہا سورۂ اخلاص پڑھ لے۔ اس جلوے میں دلہن آنکھیں بند کیے رہتی ہے۔ عورتیں دولہا سے آنکھیں کھولنے کے لیے طرح طرح کی التجائیں کراتی ہیں اور اسی سلسلے میں ہر قسم کی اطاعت و غلامی کا اس سے اقرار کرا لیتی ہیں۔ بڑی مشکلوں اور خوشامدوں کے بعد دلہن آنکھیں کھول کے ایک نظر دیکھتی اور پھر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ اور اسی پر رسوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

اب دولہا باہر رخصت کر دیا جاتا ہے کہ دلہن کو کپڑے پہنائے جائیں، زیور پہنایا جائے، بنائی سنواری اور سسرال جانے کے لیے تیار کی جائے۔ اس وقت ڈومنیاں بابل یعنی رخصتی کا نغمہ جاں گداز گاتی ہیں اور خوشی کا گھر، ماتم کدہ بن جاتا ہے۔ جب دلہن بنا چُنا کے تیار کر دی جاتی ہے، اس وقت میکے کے تمام عزیز دوست اور سب ملنے والے آتے، رو رو کے دلہن کو رخصت کرتے اور جو کچھ توفیق ہو، روپیہ یا زیور اسے دیتے ہیں۔

(47)

اسی اثنا میں جہیز کا سامان نکالا جاتا ہے۔ اس کی فرد لا کے دولہا والوں کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے۔ جس میں وہ تمام زیور، جوڑے، ظروف، پلنگ اور چوکی اور جو کچھ چیزیں دی جائیں، درج ہوتی ہیں۔ تمام چیزوں کا فہرست سے مقابلہ کر لیا جاتا ہے۔ اور اب دلہن رخصت کے کے لیے بالکل تیار ہوتی ہے۔ اس کا لباس کوئی بھاری کام دار جوڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک سوہے یعنی ٹول پر کی تنزیب کا کُرتا اور سادہ ریشمی پائجامہ پہنے ہوتی ہے۔ اور ان میں بھی سادگی کا اس قدر لحاظ رہتا ہے کہ گوٹ تک نہیں لگائی جاتی۔ اور ناڑے کا ازار بند

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 395

پڑا ہوتا ہے۔

اس کے سنگار اور کپڑے پہنانے کے وقت ڈومنیاں "بابل" یعنی میکا چھوٹنے کا رات گاتی رہتی ہیں، جو نہایت ہی پُر حسرت اور جگر گداز ہوتا ہے۔ ایک عجیب رنج و الم کا سماں بندھ جاتا ہے۔ ہر شخص ملول و حزیں ہوتا ہے۔ تمام اعزہ، ملنے والے، اور خاندان کے دوست احباب مل مل کے اور سوز و گداز کے الفاظ کے ساتھ لڑکی کو رخصت کرتے ہیں۔ وہ خود زار و قطار روتی ہوتی ہے۔ اور فینس ڈیوڑھی میں لگا دی جاتی ہے۔ اس وقت دولہا پھر اندر بلایا جاتا ہے کہ آ کے اپنی دلہن کو لے جائے۔ وہ آتا ہے اور دلہن کو اپنی گود میں اٹھا کے فینس میں بٹھا دیتا ہے۔

رخصت سے پہلے زنانے میں دولہا کو سلامی کرائی دی جاتی ہے اور تمام اعزہ و اقارب، دوست احباب بہ قدر حیثیت دیتے ہیں۔ اسی وقت باہر شربت پلائی ہوتی ہے، جس میں شربت کا کنٹر اور گلاس فقط رسم کے طور پر لایا جاتا ہے، پیتا کوئی نہیں، مگر تمام حاضرینِ محفل شربت کی تھالی میں حسب حیثیت و توفیق روپیہ ڈالتے ہیں۔ اور اس طرح اندر باہر جو کچھ روپیہ سلام کرئی اور شربت پلائی میں جمع ہوتا ہے، دولہا کو دے دیا جاتا ہے۔

اب برات اُسی دھوم دھام اور اسی شان و شوکت سے دولہا کے گھر کی طرف واپس روانہ ہوتی ہے۔ واپسی کے اس جلوس میں جو اضافہ ہوتا ہے، اس میں سب سے پہلے تو دولہن کی فینس ہے جو دولہا کے گھوڑے کے آگے رہتی ہے اور نہایت ہی ممتاز ہوتی ہے۔ پُر تکلف چھٹکا پڑا ہوتا ہے۔ دونوں جانب کہاریاں جھٹکے کو پکڑے ہوئے ساتھ رہتی ہیں۔ اردگرد دولہا کے ملازموں یا مخصوص لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور دولہا کے بعد

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 396

پھر اور سب ساتھ والی عورتوں کی فینسیں رہتی ہیں۔

سب سے زیادہ نمایاں چیز اس جلوس میں جہیز کا سامان ہوتا ہے۔ یہ سب سامان سارے جلوس اور باجے والوں کے پیچھے اور دلہن کی فینس کے آگے اس ترتیب سے جاتا ہے کہ تانبے کا ایک ایک برتن ایک ایک چنگیر میں رکھا ہوتا ہے اور ایک مزدور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ چینی اور شیشے کے ظروف کشتیوں کے لگے ہوتے ہیں۔ ان کے بعد صندوق وغیرہ وہتے ہیں جن میں دلہن کے جوڑے ہوتے ہیں۔ ان کے بعد پلنگ ہوتا ہے جس میں ریشمی توشک، لحاف، تکیے، چادر، سب سامان تیار موجود ہوتا ہے۔ اور بچھونا ریشمی ڈوریوں سے پایوں میں بندھا ہوتا ہے اور ڈوریوں کے دونوں سروں پر خاص وضع کے نقرئی گبھے لٹکتے ہوتے ہیں۔ لڑکی کو معاشرت کا تمام سامان دیا جاتا ہے۔ آئینہ، کنگھی، سنگھار کی ضروری چیزیں، تیل، عطر اور اگر استطاعت ہو تو چاندی کا پاندان، خاصدان، لوٹا، کٹورا، اور بعض اور چیزیں دی جاتی ہیں۔ بہرحال یہ سب سامان باجوں اور برات کے جلوس اور دولہا کے درمیان میں رہتا ہے۔ اور سب کے پیچھے ڈولیوں پر کھانے کی دیغیں ہوتی ہیں۔ یہ بہوڑے کا کھانا کہلاتا ہے جس کو عموماً لڑکی والے دولہا کو دیتے ہیں۔

اس شان سے جب برات دولہا کے گھر پہنچتی ہے تو خوشی کے شادیانے بجتے ہیں۔ ڈومنیاں پہلے سے پہنچ کے بنڑے گانا شروع کرتی ہیں۔ جو خاص شادی کے گیت ہیں۔ا ور اس مبارک سلامت کے زور شور میں دلہن اتاری جاتی ہے۔ بعض خاندانوں میں یہاں بھی اسے دولہا ہی گود میں لے کے اتارتا ہے۔ اور بعض گھرانوں میں دولہا کی ماں بہنیں آ کے اتارتی ہیں۔ اندر اسے لے جا کے بٹھاتے ہی دولہا سے اس کے دامن پر نماز شکرانہ پڑھائی جاتی ہے۔ دلہن کے پاؤں دھلا کے، پانی مکان کے چاروں کونوں میں ڈال دیا جات ہے۔ رونمائی ہوتی ہے، جس میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 397

تمام عورتیں اور عزیز مرد جی کھول کھول کے روپیہ یا زیور دیتے ہیں اور منہ کھول کھول کے اس کی صورت دیکھتے ہیں۔

اس نئے گھر میں یہ پہلی رات دلہن کے لیے نہایت سخت پابندیوں اور شرمیلے پن سے بسر کرنے کی رات ہوتی ہے۔ نہ وہ کسی سے بول سکتی ہے، نہ باتیں کر سکتی ہے، نہ کسی کو آنکھ بھر کے دیکھ سکتی ہے، سوا میکے کی ساتھ والیوں کے اور کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اور اسی مصیبت سے بچانے کےلیے صبح ہوتے ہی اس کا بھائی یا اور کوئی رشتے دار چوتھی لینے کو آ پہنچتا ہے اور جہاں تک بنتا ہے سویرے ہی سوار کرا لے جاتا ہے۔ اس مرتبہ دلہن اگچہ امتیاز اور شان سے جاتی ہے، مگر جلوس اور باجے کی ضرورت نہیں۔ دولہا بھی دلہن کے ساتھ جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ سات طرح کی ترکاریاں اور سات قسم کی مٹھائیاں جاتی ہیں۔

دن گرز کے، اسی رات کو دلہن کے گھر میں چوتھی کھیلی جاتی ہے۔ دلہن کو وہ بر کا جوڑا اتار کے، چڑھاوے کا جوڑا پہنایا جاتا ہے جو سب جوڑوں سے زیادہ بھاری، کام دار اور نہایت ہی پُر تکلف ہوتا ہے۔ یہ جوڑا پہنا کے، اس کا خوب بناو چناو کیا جاتا ہے۔ دولہا کی طرف سے اس کی بہنیں اور رشتے دار عورتیں بھی آ جاتی ہیں۔ اور اس مجمع میں دولہا دلہن مٹھائی سے اور دولہا کی ساتھ والیاں اور دلہن والیاں ترکاری اور پھولوں کی چھڑیوں سے باہم لڑتی ہیں۔ یعنی مٹھائی اور ترکاریاں ایک دوسرے کو کھینچ کھینچ کے مارتی اور چڑیوں کے ہاتھ رسید کرتی ہیں۔ کبھی دل لگی دل لگی میں لڑائی تیز بھی ہو جاتی ہے اور بعض عورتیں خفیف سی چوٹ بھی کھا جاتی ہیں۔

چوتھی کے دو چار روز بعد پھر دلہن، دولہا کے گھر میں آتی ہے اور اس کے بعد

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 398

علی العموم چار چالے ہوا کرتے ہیں۔ چالے کا لفظ چال اور چلنے سے نکلا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلہن اپنی سسرال سے بلائی جاتی ہے۔ مگر یہ بلانا خود اس کے میکے میں نہیں بلکہ میکے والیوں میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کی خالائیں، پھوپھیاں، ممانیاں ہمت کر کے باری باری اسے اپنے یہاں بلاتی ہیں، جہاں وہ مع دولہا کے جاتی ہے۔ اور اس نئے جوڑے کے رکھ رکھاو کے لیے خاص اہتمام اور انتظام کیا جاتا ہے۔ فقط ایک رات دولہا دولہن مہمان رہتے ہیں اور رخصت کرتے وقت انہیں جوڑا، سلام کرائی، اور زیور وغیرہ بقدر ہمت و استطاعت دیے جاتے ہیں۔

یہ تھی لکھنؤ والوں کی شادی، جس کی بہت سی رسموں کو چھوڑ کر اس کا ایک اجمالی خاکہ ناظرین دلگداز کو دکھا دیا گیا۔ دیہات والوں کی شادی کا طریقہ بہ جُز عقد نکاح کے، اور تمام باتوں میں بدلا ہوا ہے۔ وہاں بھی مانجھا ہوتا ہے مگر دولہا کے لیے مانجھے کا زرد جوڑا اس کی بہنیں اور عزیز عورتیں لاتی ہیں۔ دلہن کے گھر سے دھوم دھام اور جلوس اور باجے کے ساتھ مانجھا نہیں آتا۔ نہ دولہا کے یہاں سے سانچق آتی ہے اور نہ دلہن کے گھر سے مہندی آتی ہے۔ بلکہ سانچق اور مہندی کا مقصد برات ہی کے دن ایک اور طریقے سے پورا ہو جاتا ہے وہ یہ کہ برات جب دلہن کے وہاں پہنچتی ہے تو اس کے مکان سے ذرا فاصلے پر ٹھہر جاتی ہے۔ وہاں سے پہلے بجائے سانچق کے، بری کے نام سے دلہن کا جوڑا اور اس کے ساتھ اور بہت سے جوڑے اور سہاگ کی چیزیں جو ضروری سمجھی جاتی ہیں، کچھ شکر، کچھ کھیلیں، خوانوں پر لگا کے، باجے کے ساتھ دلہن کے پر بھیجی جاتی ہیں۔ دولہا کے اعزہ و احباب ساتھ جاتے ہیں جو ان سب چیزوں کو دلہن والوں کو علانیہ دکھاتے اور ان کے سپرد کرتے، شربت پینے کے بعد واپس آتے ہیں۔

اس کے تھوڑی دیر بعد اسی طریقے سے دلہن کی طرف سے بری آتی ہے،

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 399

جس میں دولہا کا جوڑا ہوتا ہے۔ یہ بری دیہاتیوںمیں مہندی کی قائم مقام ہے۔ اس کے بعد وہ جوڑا پہن کے جس میں جامہ، نیمہ، پگڑی، مقنع، سہرا،پھولوں کی بدھیاں اور جوتا وغیرہوتا ہے، روانہ ہوتا ہے۔ اب برات دلہن کے دروازے پر جاتی اور اس مقام میں ٹھہرتی ہے جو محفل نکاح کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔ یہاں رات بھر نغمہ و سرود اور ناچ گانے کی محفل گرم رہتی ہے۔ بجز اس وقت کے جب قاضی صاحب آ کے نکاح پڑھائیں۔ نکاح کا وہی طریقہ ہے جو شہر والوں میں بیان کیا گیا۔ وہ عقد کے بعد لڑکی والے برات کا کھانا دیتے ہیں۔ شہر میں بجز بہوڑے کے کھانے کے برات کو کھانا دینا لازمی نہیں ہے۔ بلکہ دولہا خود کھلا پلا کے لے جاتا ہے۔ مگر دیہات میں لڑکی والوں کا اہم ترین فرض برات کو کھلانا ہے، جس میں ذرا بھی کمی رہ جائے تو ان کے خیال میں برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔

یہ کھانا پورا تورا ہوتا ہے۔ جس میں پلاؤ، زردہ، قورمہ، خمیری روٹیاں، شیر مال، لازم ہیں۔ اور ہر ادنا و اعلا کو بلا استثنا و امتیاز پورا تورا دیا جاتا ہے۔ کھانا لیتے وقت لڑکے والے نہایت بے حمیتی اور بے شرمی سے چونٹی چونٹی کے لیے کھانا مانگتے ہیں۔ گھوڑوں اور بیلوں کے لیے دانہ چارہ ضرورت سے بہت زیادہ طلب کرتے ہیں اور لڑکی والوں پر فرض ہے کہ زبان سے نہیں نہ نکلے۔ کسی چیز کے دینے سے انکار کیا اور آبرو خاک میں مل گئی اور سب کیا دھرا برباد ہو گیا۔

اس کے بعد رخصتی اور واپسی کا قریب قریب وہی طریقہ ہے جو شہر والوں میں ہے۔ ہاں ایک رواج یہ بھی ہے کہ دیاہت میں برات کے ساتھ عورتیں نہیں جاتین۔ اور نہ دلہنکے ساتھ کوئی معزز خاتون آتی ہے۔ دائی اور خادمہ کی حیثت سے دو ایک ادنا درجے کی عورتیں البتہ چلی آتی ہیں۔ ماسوا اس کے دیہات می دلہن پر بھی بہت زیادہ سختیاں ہوتی ہیں۔ اس کا فرض ہے کہ چوتھی میں واپس آنے کی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 400

گھڑی تک سسُران میں جس طرح رکھ دی جائے، رکھی رہے، نہ کھائے نہ پیئے، نہ پیشاب پاخانے کو جائے، نہ بولے نہ چالے، نہ چہرے پر سے ہاتھ ہٹائے اور نہ آنکھیں کھولے۔ اس لیے کہ یہ سب باتیں بے حیائی و بے شرمی میں داخل ہیں۔ او اس اندیشے سے کہ دلہن کو سسرال میں جا کے پاخانے پیشاب کی ضرورت نہ پیش آئے، دو دن پہلے سے اس کا کھانا پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ اور زیادہ مصیبت یہ ہے کہ دیہات کی دلہن اکثر دوسرے گاؤں میں بیاہ جاتی ہے۔ اور آمد و رفت میں دو دو تین تین منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں دلہن بے چاری پر کیسی سخت مصیبتیں گزرتی ہوں گی۔

دیہات میں سانچق اور مہندی کے ترک ہو جانے اور برات کھلانے میں سختیاں ہونے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ زیادہ تر برات سفر کر کے ایک بستی سے دوسری بستی میں جاتی ہے، جس کی رجہ سے یہ ممکن نہیں ہوتاکہ ایک دن ایک جلوس یہاں سے جائے اور دوسرے دن دوسرا جلوس وہاں سے یہاں آئے اور پھر تیسرے روز برات روانہ ہو۔ علٰی ہذاالقیاس براتیوں کو گو کہ دولہا اکثر اپنے گھر سے کھلا کے لے جاتا ہے، مگر لڑکی والے کے گھر پہنچے پہنچتے سارے براتی بھوکے بنگالی ہوتے ہیں اور کنگلوں کی سی شان دکھانے لگتےہیں۔

(48 )

خوشی کی تقریبوں کو ہم بقدر ضرورت بتا چکے۔ اب غمی کی صحبتوں کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے۔ مگر یہ سارے ہندوستان میں عام ہیں۔ جہاں تک میں نے غور کیا، ان میں لکھنؤ کی کوئی خصوصیت نہیں نظر آتی۔ غمی کا باعث، کسی کا مرنا ہوتا ہے۔ لہذا مرنےکے دن اعزہ و احباب کو خبر کر دی جاتی ہے۔ اور جن لوگوں کو مجبوری مانع نہیں ہوتی، ضرور آتے ہیں۔ عورتیں جو آتی ہیں، اپنی ڈولی یا سواری کا کرایہ آپ دیتی ہیں۔ شادی کی تقریبوں میں عام قسم کی آمد و رفت میں لازم ہے کہ مہمان
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 341

میں شاہانہ ابوالعزمی دکھانا، تمرّدوسرکشی پر محمول کیا جاتا اور اُسے سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا دشوار ہو جاتا۔
اِسی وجہ سے آپ کو دہلی میں مقبروں کے سوا قدیم الایّام کی ایک بھی ایسی عمارت نہ نظر آئے گی جو عالی شان ہو، اور رعایا میں سے کسی عالی مرتبہ امیر یا دولت مند تاجر کی بنوائی ہوئی ہو۔ لکھنؤ میں بھی ابتداً یہی حال تھا۔ نوّاب آصف الدولہ اور نواب سعادت علی خاں کے زمانوں میں دولت مند فرانسیسی تاجر مسیومارٹن نے دو ایک عالی شان عمارتیں تعمیر کیں مگر اُن کی تعمیر میں اصلی منشا یہ تھا کہ فرماں روائے شہر کو پسند آئیں اور اُس کے ہاتھ فروخت کر ڈالی جائیں۔ انہیں عمارتوں میں لامارٹینز کالج ہے، جس پر نوّاب سعادت علی خاں کی جُز رسی کی وجہ سے اسٹیٹ کا قبضہ نہ ہو سکا۔ یہ وہی کوٹھی ہے جو فی الحال عوام میں " مارکین صاحب کی کوٹھی " کے نام سے مشہور ہے۔
اس کے بعد یہاں کے ایک وزیر روشن الدولہ نے اپنے رہنے کے لیے ایک عمدہ عمارت بنوائی تھی جس کا انجام یہ ہوا کہ سلطنت کے حکم سے ضبط کر لی گئی اور انتزاعِ سلطنت کے وقت اس کا شمار مقبوضات شاہی میں تھا۔ چنانچہ انگریزی دور میں وہ سرکاری جائداد ہونے کے باعث گورنمنٹ کے قبضے میں آ گئی۔ اور روشن الدولہ کے ورثہ کو نہیں دی گئی۔ مگر آج تک وہ روشن الدولہ ہی کی کوٹھی کہلاتی ہے۔ گو کہ اس میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر اور ان کے اسسٹنٹ اجلاس کرتے ہیں۔
رعایا کے عام مکانوں کی وضع یہاں یورپ کے کوٹھی نما مکانوں سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔ یورپ میں مکان کے اندر صحن کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس لیے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی پردہ نہ کرنے کی وجہ سے باہر جا کے کھُلی فضا میں ہوا کھا لیتی ہیں۔ لہٰذا وہاں کے خلاف یہاں ضرورت ہے کہ مکان کے اندر صحن ہوا کرے تاکہ عورتیں گھر

ریختہ صفحہ 342
کے اندر ہی کھُلی فضا کا لطف اٹھا سکیں۔
اِس کی ضرورت اور یہاں کی معاشرت کے دیگر تقاضوں نے یہاں کے مکانوں کی عام قطع یہ کر دی ہے کہ بیچ میں صحن، اُس کے گرد عمارت، اُس عمارت میں ایک رُخ صدر قرار دے دیا جاتا ہے اور اُدھر اینٹ چونے کے ستونوں پر کم از کم تین اور کبھی اس سے زیادہ محراب دار در قائم کیے جاتے ہیں۔ محرابیں عموماً شاہجہانی محرابوں کے نمونے کی ہوتی ہیں۔ یعنی ان میں چھوٹی چھوٹی قوسوں کو خوش نُمائی سے جوڑ کے بڑی محراب بنائی جاتی ہے۔ صدر میں اکثر ایسی محرابوں کے دوہرے تہرے ہال ہوا کرتے ہیں۔ پچھلا ہال کبھی دروازے لگا کے ایک بڑا کمرہ بنا دیا جاتا ہے اور اکثر یہ تھی ہوتا ہے کہ تقریباً کم کم تک اس کی کرسی بلند کر کے وہ شہہ نشین بنا دیا جاتا ہے۔
ان بڑے ہالوں کے دونوں پہلوؤں پر کمرے ہوتے ہیں۔ اور ہال کی چھت اتنی اونچی ہوتی ہے کہ پہلو میں تلے اوپر دو کمرے ہال کی ایک چھت کے اندر آ جاتے ہیں۔
اَب صحن کے دونوں پہلوؤں پر اس کے طول کے مناسب دالان کمرے اور کوٹھریاں بنا دی جاتی ہیں۔ جن میں باورچی خانہ، پایخانہ، مودی خانہ، زینہ، کنواں اور ماما اصیلوں کے رہنے کے مقامات ہوتے ہیں۔ صدر دالان کے مقابل جانب بھی اگر ضرورت معلوم ہوئی یا استطاعت ہوئی تو ویسے ہی عالی شان دالان اِدھر بھی بنا دیے جاتے ہیں، جیسے کہ صدر جانب ہوتے ہیں۔ دروازہ اکثر پہلو میں یعنی اُن سمتوں میں ہوتا ہے جدھر باورچی خانہ اور شاگر و پیشہ کے رہنے کے کمرے ہوتے ہیں۔ جس کے سامنے اندر کے رُخ پر مقابل اور ایک پہلو میں قدِّ آدم سے ذرا بلند ایک دیوار قائم کر دی جاتی ہے، تاکہ دروازے سے اندر کا سامنا نہ رہے۔
غریبوں اور اوسط درجے والوں کے مکانوں میں اکثر پختہ محرابوں کے عوض اسی وضع کے چوبی سہ درے قائم کر کے، دالان بنا دیے جاتے ہیں۔ جن میں صدر میں اور کبھی اُس کے مقابل جانب بھی دالان در دالان ہوتے ہیں۔ اِس قسم کے جو مکان زیادہ مکمل

ریختہ صفحہ 343

ہوتے ہیں، اُن میں چاروں طرف سہ درے اور دالان ہوتے ہیں۔ اور اُن کے پہلووں میں ایک ایک دروازے کی کوٹھریاں نکلتی ہیں، جو مختلف ضروریات کا کام دیتی ہیں اور انہی میں سے کسی میں باہر کا دروازہ ہوتا ہے۔
یہ یہاں کے مکانوں کا ایک عام خاکہ تھا۔ مگر اسی مجموعی وضع کو قائم رکھ کے اکثر مکانوں میں نیچے اور ہر جگہ ایسی حکمت اور خوش اسلوبی سے یکدرے، کمرے اور کوٹھریاں نکالی جاتی ہیں کہ تعّجب معلوم ہوتا ہے اتنی تھوڑی سی جگہ میں اتنی مکانیت کیونکر آ گئی۔
فنِ عمارت کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو نظر آئے گا کہ ابتداً پست عمارتیں بنتی تھیں۔ پھر بلند اور مضبوط مگر سادی عمارتیں بننے لگیں۔ اِس کے بعد زیب و زینت کے لیے اُن پر نقش و نگار بننے لگے، پچّی کاری کی ایجا ہوئی، اور عجیب و غریب طریقے سے رنگ آمیزیاں کی جانے لگیں۔ لیکن باوجود اِن سب کمالوں کے اب تک بڑے بڑے چوڑے آثاروں کی دیواریں ہوتیں اور ان میں بڑے بڑے ہال اور دیوان خانے بنا دیے جاتے۔
سب سے بعد کا کمال ہندوستانی عمارت میں یہ تھا کہ درزی کی سی کتربیونت کر کے تھوڑی سی زمین میں بہت زیادہ مکانیت نکال دی جائے۔ عمارت کا یہ کمال خاص دہلی سے شروع ہوا۔ وہیں اِس نے بڑے اعلا درجے تک ترقی کر لی۔ وہاں سے سب جگہ پھیلا اور لکھنؤ میں اِس نے سب مقامات سے زیادہ ترقّی کی۔
آج کل بڑے بڑے استاد انجینیر موجود ہیں، جنہوں نے بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بنوائی ہیں۔ وہ نمایشی طور پر عمارت کی ایک نہایت ہی خوب صورت اور شان دار شکل قائم کر دیں گے۔ لیکن یہ کام فقط پُرانے کاری گروں کا حصہ ہے کہ زمین کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر عالی شان عمارت بنا کے کھڑی کر دیں۔ اور اُس میں مہند سا نہ کمال سے اتنے دالان، کمرے، کوٹھریاں اور صحنچیاں نکال دیں کہ دیکھنے والے کی عقل چکر میں آ جائے۔ اندرونی پردے کی دیواریں اتنی پتلی، نازک، سبک اور اُس کے
ریختہ صفحہ 344

ساتھ مضبوط ہوں کہ معلوم ہو اینٹ چونے کی دیواریں نہیں، لکڑی کی اسکرینیں ہیں۔
عمارت میں لکھنؤ کی یہی خصوصیت تھی جس کو اگلے دربار نے نشوونما دیا۔ مگر اب انگریزی عہد میں یہ کمال ناقدری کی وجہ سے مٹتا جاتا ہے۔ پُرانے کاری گر فنا ہو گئے اور جو دو ایک باقی ہیں۔ اُن کی قدر نہیں۔
مگر پُرانے ہی زمانے سے ہندو مسلمانوں کے مکانوں میں ایک بتین فرق چلا آتا ہے، جو آج تک موجود ہے۔ ہندو اپنے مکانوں میں صحن بہت چھوٹا اور تنگ رکھتے ہیں۔ اور بلالحاظ اس کے کہ ہوا اور روشنی کا گزر ہو گا یا نہیں، مکانیت بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ بہ خلاف اس کے مسلمان کھلے ہوادار مکان چاہتے ہیں اور مکانیت اُسی درجے تک بڑھاتے ہیں جہاں تک کہ ہواداری اور روشن رہنے میں فرق نہ آئے۔ لیکن باوجود مسلمانوں کے اس مذاق کے، اگلے کاری گروں نے ان کے ہوا دار مکانوں میں بھی اس قدر مکانیت نکالی ہے کہ دیکھنے والے اش اش کر جاتے ہیں۔
اِس کے علاوہ اُس زمانے کے باکمال معمار دروازوں، کمروں کی محرابوں اور دالانوں اور کمروں کی دیواروں پر مختلف رنگوں سے ایسے نفیس اور اعلا درجے کے نقش و نگار بناتے تھے جیسے اب مشکل سے بن سکتے ہیں۔ اور آج کل مصوّری کا فن بے شک ترقی کر گیا ہے مگر معمار جیسی نقاشی درودیوار پر کیا کرتے تھے، وہ مِٹ گئی۔ اور عہدِ جدید کی سادگی پسندی کی وجہ سے روز بروز مٹتی جاتی ہے۔ تاہم اب بھی یہاں اس کام کے بعض استاد معمار ایسے پڑے ہیں کہ اُن کی سی نقاشی شاید کسی شہر کے معمار نہ کر سکیں گے۔ نقش و نگار ہی نہیں وہ چھتوں اور دریواروں پر اعلا درجے کی تصویریں بھی بنا سکتے ہیں۔
معماروں ہی پر منحصر نہیں، اُس وقت کے بڑھیّوں کو بھی یہی کمال حاصل تھا۔ وہ چاہے اعلا درجے کی میزیں کرسیاں اور الماریاں یا ریلوے ٹرین کی گاڑیاں

ریختہ صفحہ 345
نہ بنا سکیں، مگر ستونوں، محرابوں اور دروازوں کے چوکھٹ بازوؤں پر ایسے نفیس و نازک نقش و نگار کھود کے بنا دیا کرتے تھے، جیسے آج مشکل سے بن سکیں گے۔
(39)
معاشرت میں دوسری چیز مکانوں کا فرنیچر یعنی وہ سامان ہے جس سے مکان آراستہ کیے جاتے ہیں۔ اُن دنوں آج کل کی سی میز کرسیاں نہ تھیں بلکہ خاص ہندوستانی اور اسلامی مذاق کا سامان تھا۔ مکانوں میں تختوں کے چوکے ہوتے، پلنگ ہوتے، یا تختوں کے اوپر بچھانے کے لیے نازک اور خوش نما پلنگڑیاں ہوتیں۔ غریبوں اور متوسط حیثیت والوں کے یہاں بانوں کے پلنگ ہوتے۔ اور اُمرا کے گھروں میں علی العموم نواڑ کے پلنگ ہوا کرتے۔
نفیس طبع لوگوں کے گھروں کی یہ شان ہوتی کہ جھاڑو دی ہوئی ہے۔ دیواروں پر سفیدی پھری ہے۔ چھت پر اُجلی سفید چھت گیری کھینچی ہوئی ہے، جس کے چاروں طرف چُنّٹ دی ہوئی جھالر لٹک رہی ہے۔ دالان، کمرے یا صحن میں تختوں کا چوکا ہے۔ اُس پر دری ہے اور دری پر سفید برّاق چاندنی، جو اِس نفاست سے کھینچ کے بچھائی گئی ہے کہ شکن کا کہیں نام نہیں۔ چاروں کونوں پر سنگِ مر مر کے گبند نما میر فرش، فرش کے کونوں کو دبائے ہوئے ہیں تاکہ ہوا میں چاندنی اُڑے نہ پائے یا اس میں شکنیں نہ پڑیں۔
اوپر اُجلا فرشی پنکھا ہے، اِس کا بھی بعد کے زمانے میں رواج ہوا۔ ورنہ دراصل اُن مکانوں کی زینت دستی پنکھوں سے ہوتی جو حسبِ مرتبہ اور درجہ و رتبہ بڑے تکلف و اہتمام سے بنائے جاتے۔ اور اُن کا حال ہم آیندہ کسی موقع پر بیان کریں گے۔ اُس چوکے اور فرش پر، خواہ کمرے کے اندر ہو یا باہر، ایک جانب جو صدر مقام قرار پایا جاتا، نواڑ کا نفیس
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 346
اور خوب صورت پلنگ بچھا ہوتا۔ پلنگ کے اوپر گرمیوں میں دری اور جاڑوں میں توشک ہوتی اور اُس کے اوپر ایک اُجلی چادر بچھی رہتی۔ پلنگ کی چادر میں شاہی محلوں یا اُن کی ہم رتبہ محل سراؤں میں ایک نیچی زمین کے قریب تک کی چنّٹ دار جھالر چاروں طرف ٹنکی ہوتی جو پلنگ میں ایک خاص شان پیدا کر دیتی۔ چاروں پایوں پر بچھونے کے چاروں کونے ریشم کی رنگین ڈوریوں سے ایک خوش نُما بندش سے باندھ دیے جاتے تاکہ لیٹنے اور کروٹیں بدلنے میں بچھونا کھنچنے اور اپنی جگہ سے سرکنے اور ہٹنے نہ پائے۔
سرہانے، پلنگ کے عرض کے برابر، مربّع مستطیل قطع کے پتلے پتلے چار نہایت ہی نرم تکیے ہوتے۔ یہ تکیے اکثر شال باف (ٹول) کے ہوتے اور اُن پر تنزیب یا پتلی نین سکھ کے سفید غلاف چڑھے ہوتے، جن میں ٹول کی سرخی اپنی جھلک دکھاتی اور وہ پراٹھے کی پَرتوں کی طرح تلے اوپر رکھے جاتے۔ پھر اُن کے اوپر اِدھر اُدھر اُسی کپڑے کے دو ننھے ننھے نرم گل تکیے ہوتے تا کہ کروٹ سے لیٹنے میں گالوں کے نیچے رہیں۔ یہ گل تکیے ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ بڑے نہ ہوتے۔ اس کے بعد بچھونے پر دونوں جانب دونوں پٹّیوں کی جانب دو گول تکینیاں رہتیں جن کو کروٹ لیتے وقت رانوں کے نیچے دبا لینے میں ارام ملتا۔ پائنتی دُلائی، رضائی بالحاف، موسم کے مناسب لگا دیے جاتے۔ اور دن کو جب کوئی لیٹنے والا نہ ہوتا، سارے پلنگ پر ایک پلنگ پوش پڑا رہتا۔
چوکے پر پلنگ کے آگے صدر نشینی کے لیے فرش کے اوپر ایک قالین مسند کی وضع میں بچھا دیا جاتا۔ اور قالین پر پلنگ سے ملا ہوا گاؤ ہوتا، جس پر روز کے استعمال کے لیے تو سفید غلاف رہتا، مگر اعلا تقریبوں کے موقعوں پر نہایت قیمتی ریشمی اور اکثر کارچوبی کام کے غلاف چڑھا دیے جاتے۔
اور اگر چوکے پر پلنگ نہ ہوتا تو اُس کے کسی ایک رُخ پر، جو مناسب معلوم ہو، مسند تکیہ ہوتا اور اس پر نشست ہوتی۔
ریختہ صفحہ 347

دیواروں پر اگرچہ کبھی کبھی تصویریں ہوتیں۔ مگر تصویروں کا جس قدر اب رواج ہے، اُن دنوں نہ تھا۔ بلکہ تصویروں کے عوض عمدہ قطعات، جن پر بڑی نفاست سے نقش و نگار بنائے جاتے، فریم میں جڑ کے دیواروں پر لگا دیے جاتے۔ ان قطعات کا اُس زمانے میں رؤسا کو اِس قدر شوق تھا کہ انہی کے لکھنے اور تیار کرنے پر خوش نویسوں کی زندگی بسر ہوتی۔ اور سچ یہ ہے کہ اِسی شوق نے اُس زمانے میں وہ نام ور و باکمال خوش نویس پیدا کر دیے جو سوا قطعات لکھنے کے، کتابت کو اپنے لیے ننگ اور اپنے معمولی شاگردوں کا کام سمجھتے۔
تختوں کے علاوہ صحن، ڈیوڑھی، اور دروازے کے باہر کی نشست کے لیے مونڈھے ہوتے۔ جو اگرچہ اب بھی کہیں کہیں نظر آ جاتے ہیں، مگر اُن دنوں شریفوں کا کوئی گھر اِن سے خالی نہ تھا۔ یہ سیٹھے اور بانوں سے بنائے جاتے، اور جن گھروں میں ان کا زیادہ اہتمام ہوتا، اُن میں اُن مونڈھوں پر بکری کی خشک کھال جس میں بال موجود ہوتے چڑھا دی جاتی۔ یا مضبوطی کے لیے وہی بال دار چمڑا فقط ان کے کناروں پر چڑھا ہوتا۔ یہ مونڈھے اُن دنوں بڑی بکار آمد چیز تھے۔
اُمرا کے سوا، جو زنانے اور مردانے دو مکان رکھتے تھے، عوام اور اکثر متوسط طبقے والے فقط ایک ہی مکان پر زندگی بسر کرتے۔ اب علی العموم کوشش کی جاتی ہے کہ ہر مکان میں دروازے کے پاس کوئی بیرونی کمرہ ضرور موجود ہو۔ اُن دنوں اِس کا چنداں خیال نہ تھا۔ بلکہ ڈیوڑھی میں اور اس میں گنجائش نہ ہوتی تو دروازے کے باہر یہی مونڈھے ڈال کے لوگ احباب سے ملتے اور اس میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا جاتا۔
کمروں اور دالانوں کے اندر اکثر طاقوں پر خوش نُمائی و زیبائش کے لیے کاغذ کے گل دستے رکھ دیے جاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 401

آنے والیوں کا کرایہ دیا جائے مگر غمی کا گھر اس تکلیف سے مستثنی کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد مُردے کو غسل خانے میں لے جایا جاتا ہے، جہاں غسال جو نہلانے میں نہایت مشاق مگر اس کے ساتھ قسیُّ القلب مشہور ہیں، مُردے کو غسل دے کے کفن پہناتے ہیں۔ مگر سُنیوں کے یہاں مردہ اپنے گھر ہی میں نہلایا جاتا ہے اور خود اعزہ و اقارب یا دوست احباب نہلاتے ہیں۔ اکثر مرد اور عورتیں جو زیادہ مشاق ہوں، بلا لیے جاتے ہیں۔ اور اکثر جگہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شرع داں مولوی صاحب یا اور کوئی پڑھے لکھے واقف کار بزرگ بتاتے جاتے ہیں کہ اس ترتیب سے نہلانا چاہیے اور مسنون غسل میت کیا ہے۔

غسل کے بعد کفن پہنایا جاتاہے، جس میں ازار، ایک کفنی، جو کُرتے کے نام سے مشہور ہے، پہنا کے، اوپر سے دو چادریں لپیٹ دی جاتی ہیں اور سر اور پاؤں کے پاس اور کمر میں کپڑے کی چٹیں پھاڑ کے باندھ دی جاتی ہیں تاکہ کھلنے نہ پائیں۔

اس کے بعد اگر شیعوں کا جنازہ ہے تو صندوق میں رکھ کے، اس کے کوئی دوشالہ ڈال کے، جنازے کو شامیانے کے سایے میں لے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ کوئی شخص قرأت و ادائے مخارج سے سورہ رحمان کی بعض آیتیں پڑھتا جاتا ہے۔ صندوق، شامیانے کے اٹھانے والے علی العموم شہدے ہوتے ہیں، جن کا مدت دراز سے مُردے اٹھا نا پیشہ ہو گیا ہے۔ مگر ان لوگوں کی بے ہودگیوں اور بدتمیزیوں سے شیعوں میں خیال پیدا ہوا ہے کہ جنازوں کو خود اٹھانا چاہیے۔ جس کے لیے متعدد کمیٹیاں شہر میں قائم ہو گئی ہیں، اور ان کے پُر جوش اور دین دار ارکان تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی مر جائے تو اس کے جنازے کو خود اپنے اہتمام میں لے کے مذہبی آداب اور احتیاطوں سے اٹھائیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 402

سُنیوں میں میت کو کسی ہلکی چارپائی پر لٹا کے، اور اوپر سے چادر ڈال کے لے جاتے ہیں۔ اگر عورت کا جنازہ ہو تو چارپائی پر بانس کی کھپاچوں کو قوس نما صورت میں قائم کر کے، اور ان کے سروں کو دونوں جانب چارپائی میں اٹکا کے، اوپر سے چادر ڈالتے ہیں۔ اس کو گہوارہ بنانا کہتے ہیں اور اس کی ضرورت محض پردے کے خیال سے پیدا ہوئی ہے۔ سُنیوں میں جنازے کو خود اعزہ و احباب اپنے کندھوں پر اُتھا کے آہستہ آہستہ کلمہ پڑھتے ہوئے لے جاتے ہیں اور نماز جنازہ پڑھائی جاتی ہے۔

قبر یہاں عموماً صندوقی کھو دی جاتی ہے، جس میں انسان کے سینے تک ایک چوڑا حوض کھودا جاتا ہے، پھر اس کے اندر دونوں جانب کنارے چھوڑ کے ایک دوسرا پتلا حوض کھودا جاتا ہے۔ وہ بھی انسان کی کمر سے کم گہرا نہیں رہتا۔ جب قبر خوب صاف کر لی جاتی ہے، تو مُردے کو اس میں نہایت احتیاط سے اتارتے ہیں، تاکہ ہاتھ سے گرنے اور چوٹ کھانے نہ پانے۔ قبر میں عموماً سرھانا شمال کی طرف رکھا جاتا ہے اور مردے کا منہ ڈھیلوں وغیرہ کی آڑ لگا کے قبلے کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بند کھول دیتے ہیں اور اکثر اعزہ کو منہ کھول کے میت کی آخری صورت بھی دکھا دیا کرتے ہیں۔ اس موقع پر شیعوں کے وہاں تلقین پڑھی جاتی ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ کوئی ثقہ اور متقی بزرگ قبر میں اُتر کے میت کا شانہ ہلاتے جاتے ہیں اور ایک عربی عبارت پڑھتے جاتے ہیں، جس میں میت کی طفت خطاب کر کے بتایا جاتا ہے کہ وہاں نکیرین آ کے سوال کریں تو تم یہ جوابات دینا۔ جس کے سلسلے میں تمام عقائد دینیہ کی تعلیم کی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اندرونی حوض پرتختے جما دیے جاتے ہیں۔ اور اگر ان میں دراز یا جھری ہو تو مٹی کے ڈھیلے رکھ رکھ کے اطمینا کر لیتے ہیں کہ مٹی اندر نہ جائے گی۔ قبر میں کافور اور خوشبو تو کفن ہی میں موجود ہوتی ہے، بعض لوگ کیوڑے کی بوتل بھی ڈال دیتے ہیں۔ اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 403

اس کے بعد اوپر سے مٹی ڈال کے قبر کا اوپر والا حوض بھر دیا جاتا ہے۔ اور قبر کی صورت بنا دی جاتی ہے۔

مٹی دینے کو لوگ بڑا اہم اور ضروری کام تصور کرتے ہیں۔ اور جب قبر میں مٹی ڈالی جانے لگتی ہے تو حاضرین میں سے ہر شخص، عام اس سے کہ کوئی ہو، تین مرتبہ ہاتھ میں مٹی لے کے قبر میں ڈالتا ہے اور قرآن کی تین آیتیں پڑھتا ہے، جن ترجمہ یہ ہے کہ "ہم نے تم کو اس سے (مٹی سے) پیدا کیا، ہم نے تم کو پھر اسی میں پہنچایا اور ہم پھر آیندہ (روز قیامت) تم کو اس سے نکال کے کھڑا کریں گے۔"

بہرحال جب قبر بن کے تیار ہو جاتی ہے تو اس پر وہی چادر جو جنازے پر پڑی تھی یا پھولوں کی چادر ڈال دی جاتی ہے اور فاتح پڑھ کے اور دعائے مغفرت کر کے لوگ واپس آتے ہیں۔

مرنے والے کے گھر میں اس کی وفات کے دن چولہا نہیں جلتا بلکی جنازے کے گھر سے نکلنے کے بعد کسی عزیز و قریب کے گھر سے پکا پکایا کھانا آ جاتا ہے، جس کو لوگ دفن سے واپس آ کے کھاتے ہیں، اور اسی وقت تمام مہمان اس کھانے سے پیٹ بھرتے ہیں۔ تین دن تک معمولاً یہی ہوتا ہے کہ گھر میں کھانا نہیں پکتا۔ یہ طریقہ اصل میں آغاز اسلام اور خود حضرت رسالت علیہ السلام سے شروع ہوا، جب کہ حضرت جعفر بیار کی شہادت کا حال سن کر اور ان کے گھر والوں کو روتا پیٹتا دیکھ کر آپ نے کھانا بھجوا دیا تھا۔ مگر لوگوں نے اس شایستہ بنیاد پر جو عمارت یہاں قائم کر لی ہے، وہ نہایت لغو اور شرمناک ہے۔ کسی کے مرتے ہی، گھر میں جتنا کھانا تیار ہو، پھینک دیا جاتا ہے، گھڑوں مٹکوں کا پانی بہا دیا جاتا ہے اور اس کا سبب عورتیں بچوں سے یہ بیان کرتی ہیں کہ فرشتۂ موت جس چُھری سے جان لیتا ہے، اس کو کھانے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 404

پینے کی چیزوں میں دھو ڈالتا ہے۔

مرنے کے تیسرے دن اور کبھی مناسب دن دیکھ کے چوتھے روز سوم ہوتا ہے۔ دراصل اس کا آغاز اس سے ہوا کہ یہ دن اس لیے مقرر تھا کہ لوگ آ کر مراسم تعزیت ادا کریں اور پسماندوں کی تسلی و تشفی کریں۔ مگر یہ خیال کیا گیا کہ جو لوگ آئیں، بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ اور دو ایک پارے پڑھ کے ان کا ثواب مرحوم کی روح کو بخشیں۔ چند روز میں تعزیت کا خیال جت رہا اور فقط یہ رہ گیا کہ اس دن کتنے لوگ آئے اور کتنے قرآن مرنے والے کو بخشے گئے۔ ختم صحبت کے وقت پہلے مختلف لوگ قرآن کے چند رکوع اور آخر کی چھوٹی سورتیں پڑھ کر فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس میں ایک نیا لغو طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ تھوڑا گھسا ہوا صندل، ایک پیالے میں تیل، اور تھوڑے پھول لا کے حاضرین میں سے ہر ایک کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہر شخص ایک پھول اٹھا کے تیل میں ڈالتا ہے اور وہ صندل اور تیل اور پھول لے جا کے مرحوم کی تربت پر ڈال دیے جاتے ہیں۔

اُسی روز شام کو پہلے بڑی فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ اور گھر میں پہلی بار کھانا پکتا ہے۔ اگرچہ اب غربت نے ہمدردوں کی اس قدر کمی کر دی کہ میت کے گھر کھانا بھیجنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور اکثر غریب گھر والوں کو اس سے پہلے ہی کھانا پکانے پر مجبور ہو جانا پڑتا ہے، لیکن مروجہ طریقہ یہی ہے کہ نتیجے یعنی سوم سے پہلے باہر ہی کے کھانے پر بسر ہو۔

سوم اور چہلم کی فاتحوں نے عوام میں عجب شان پیدا کر لی ہے۔ اصلیت تو اسی قدر ہے کہ جہاں تک ہو سکے غریبوں اور محتاجوں کو کھانا کھلایا جائے اور اس کا ثواب مرنے والے کو پہنچا دیا جائے۔ ہندوستان میں ہندوؤں میں مُردوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 405

کی تیرھویں اور برسی ہوتے دیکھ کے، مسلمانوں کی جی چاہا کہ ہم بھی اسی قسم کے کام ناموری اور دھوم دھام سے کریں۔ اس شوق کے تقاضے نے تیجے، دسویں، بیسویں، چہلم اور دیسے کے نام سے غمی کی تقریبیں پیدا کر دیں۔ جن میں ہوتا وہی ایصال ثواب ہے مگر دکھانے، نام پیدا کرنے اور برادری کو کھانا دینے کی شان سے، پھر اس پر قیامت یہ ہوئی کہ عوام میں یہ عقیدہ پیدا ہوا کہ ان ہمارے مروجہ فاتحوں میں جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ خدا کے حکم سے بجنسہ مُردے کو پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس عقیدے نے فاتحوں میں یہ شان پیدا کر دی کہ گویا مُردے کی دعوت کی جاتی ہے۔ وہ کھانے زیادہ اہتمام سے دیے جاتے ہیں جو مرحوم کو مرغوب تھے۔ حالانی خیرات کا اصول یہ چاہتا ہے کہ جس غریب کو کھلایا جائے اس کی پسند کا لحاظ رکھا جائے تاکہ اس کے خوش کرنے سے ثواب میں ترقی ہو۔

اسی قدر نہیں، فاتحوں میں تو اب یہ ہوتا ہے کہ چار چار پانچ پانچ جوڑ کھانے کے نکال کے ایک پاک و صاف مقام پر ترتیب سے چُنے جاتے ہیں۔ آبخورے میں پانی بھی لا کے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ کھانے میں مُردے کو پانی پینے کی بھی ضرورت ہو گی۔ پھر اس کے لیے کپڑوں کے نئے اور حتی الامکان نفیس و قیمتی کپڑے، ارؤھنا بچھونا، جانماز، نئی قلعی کیے ہوئے تانبے کے برتن، لوٹا، کٹورا، پتیلی وغیرہ بھی کھانے کے برابر رکھ دیے جاتے ہیں۔ اور جب یہ سب سامان تیار ہو جاتا ہے تو کوئی مُلا آ کے فاتحہ کرتا یعنی قرآن کی چند مخصوص آیتیں اور چھوٹی سورتیں پڑھ کر دعا کرتا ہے کہ خداوندا ان چیزوں کا ثواب فُلاں شخص کو پہنچا۔ اس طریقے سے عوام کو اطمینان ہو جاتا ہے کہ چیزیںمُردے کو پہنچ گئیں اور وہ سب کھانے اور چیزیں کسی محتاج یا دین دار مسلمان کے گھر پہنچا دی جاتی ہیں۔

ان چیزوں سے خود مرحوم کے متمتع ہونے کے خیال نے دلوں میں یہاں تک

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 406

رسوخ پیدا کر لیا ہے کہ بعض ادنا طبقے کی جاہل عورتیں فاتحے کی چیزوں کے پاس بن سنور کے خود بھی بیٹھ جاتی ہیں کہ مرحوم شوہر ان کھانوں اور کپڑوں سے لطف اٹھائے گا تو خود ان کے حسن و جمال کی لذت سے کیوں محروم رہ جائے۔

فاتحوں میں کھانا، فاتحے کی ضرورت سے بہت زیادہ پکوایا جاتا ہے، جو حسب توفیق اعزہ و احباب میں، جن سے حصہ داری ہے، تقسیم ہوتا ہے۔ اور تمام گھر کے بُرجوں، دھوبی، نائی، حلال خور، وغیرہ کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے فاتحوں کے، شان دار تقریبیں بن جانی کی وجہ سے اپنے حقوق پیدا کر لیے ہیں۔

گو کہ ہم نے یہ سب کاروائیاں فاتحہ سوم کے ضمن میں بیان کر دی ہیں، لیکن ان کی تعمیل زیادہ اہمیت کے ساتھ چہلم میں ہوتی ہے۔ جو کہنے کو تو مرنے کے چالیسویں دن مگر ازروئے عمل درآمد چالیس سے دو چار روز کم زمانے میں ہوا کرتا ہے۔ اور فاتحے دسویں، بیسویں کے بھی گو امتیاز سے ہوتے ہیں اور ہر جمعرات کا دن خاندان کے بزرگوں کے فاتحے کے لیے مقرر ہو گیا ہے، مگر علی العموم سوم اور چہلم کے فاتحے غیر معمولی اہتمام سے ہوتے ہیں۔ اور حضرات امامیہ کے وہاں ہر غمی کے فاتحے میں لزوم کے ساتھ مجلس عزاے آہِ عبا علیہم السلام بھی ہوتی ہے۔

غمی کی تقریبوں کے خصوصیات ہم نے بیان کر دیے۔ اب رہا محفلوں کی نشست کا طریقہ، وہ وہی ہے جو دوسری تقریبوں میں عرض کر دیا گیا۔ یہ خوشی اور غمی کی وہ تقریبیں تھیں جو اخلاقی و معاشرتی طریقے سے مروج ہیں۔ مذہب نے جن محفلوں کو رواج دیا ہے، ان کو ہم آیندہ بیان کریں گے۔

(49)

آداب صحبت میں دسویں چیز مذہبی صحبتیں یعنی عزا داری کی مجلسیں اور مولد شریف کی محفلیں ہیں۔ مجلسوں کا عام رواج شیعوں میں ہے۔ اور مولد شریف کا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 407

سُنیوں میں۔ اگرچہ دونوں میں دونوں فریقوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں، بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بعض مُحب اہل بیت سُنی، مجلس عزا کرتے ہیں اور شیعہ حضرات کے یہاں مولد شریف کی محفل ہوتی ہے، مگر لکھنؤ کی خاص چیز جس نے لکھنؤ کی سوسائٹی پر اثر ڈالا اور نیز سوسائٹی اس سے متاثر ہوئی، وہ مجلسیں ہیں۔ مولد کی محفلوں میں کوئی خصوصیت نہیں، جیسی سارے ہندوستان میں ہوا کرتی ہیں یہاں بھی ہوتی ہیں۔ گو اس میں شک نہیں کہ بعض اُمرا کے یہاں مولد میں بھی قریب قریب وہی شایستگی و تہذیب نظر آتی ہے جو شیعوں کی شایستگی کی وجہ سے مجالس میں ہوا کرتی ہے۔

عزاداری کی مجلسیں بہت کثرت سے ہوتی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص چاہے اور پتا لگاتا رہے تو سال بھر بغیر محنت مزدوری کے محض مجالس کی شرکت سے اپنا پیٹ پال سکتا ہے اور فقط فیاض و عقیدت مند شیعوں کی فیاضی پر جی سکتا ہے۔ مجالس ہی کی برکت سے مختلف قسم کے ذاکر پیدا ہو گئے جو جدا جدا عنوانوں سے مصائب سید الشہدا علیہ السلام کو بیان کر کے روتے رُلاتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے علما و مجتہدین کا بیان ہے۔ ان کے بعد حدیث خواں ہیں جو احادیث کو سنا کر ایسی پُردرد اور سوز و گداز کی آواز میں فضائل ائمۂ اطہار و مصائب آلِ رسول بیان کرتے ہیں کہ سامعین بے اختیار رونے لگتے ہیں۔ اور کیسا ہی سنگ دل ہو، ضبطِ گریہ نہیں کر سکتا۔ انہی سے ملتے جلتے واقعہ خواں ہیں جو واقعات مصائب اہل بیت کو ایسے الفاظ اور ایسی فصیح و بلیغ عبارت میں سناتے ہیں کہ جی چاہتا ہے سنتے رہیے اور روتے جائیے۔ واقعہ خوانی کی فصاحت نے دراصل داستان گوئی کو بے مزہ کر دیا ہے۔ ان کے بعد مرثیہ خواں یا تحت اللفظ خواں ہیں، جو مرثیوں کو شاعرانہ انداز سے سناتے ہیں۔ مگر اس سادگی کے سنانے میں بھی چشم و ابرو اور ہاتھ پاؤں کے حرکات و سکنات سے واقعات کی ایسی سچی اور مکمل تصویر کھینچ دیتے ہیں کہ سامعین کو اگر رقت سے فرصت ملی تو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 408

داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی مرثیہ خوانی کی ضرورت و قدر نے میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ پیدا کیے، جو کمالِ شاعری کے اعلا ترین شہ نشین پر پہنچ گئے۔ یا تو یہ مثل مشہور تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو، یا لکھنؤ کے کمال مرثیہ گوئی نے سارے ہندوستان سے منوا لیا کہ عالم شعر و سخن میں مرثیہ گوئی کا رتبہ دیگر اصنافِ سخن سے بہ درجہا بڑھا ہوا ہے۔ قدردانی نے بیسیوں مرثیہ گو اور صدہا مرثیہ خواں پیدا کر دیے جو محرم اور دیگر ایام عزاداری میں لکھنؤ سے نکل کے ہندوستان کے بلادِ دُور و دراز میں پھیل جاتے ہیں اور وہاں کی صحبتوں میں اپنے کمالات کا سکہ بٹھا کے واپس آتے ہیں۔ مرثیہ خوانوں کے بعد سوزخواں ہیں۔ یہ لوگ نوحوں اور مرثیوں کو اول موسیقی کی پابندی میں گا کے سناتے ہیں۔ا ن میں علی العموم تین آدمیوں کا گروہ ہوتا ہے۔ دو (2) سُر دیتے ہیں جو بازو کہلاتے ہیں اور تیسرا شخص جو بیچ میں بیٹھتا ہے، سوز سناتا ہے ۔ ان لوگوں نے بھی اصول موسیقی کے برتنے اور راگوں اور دُھنوں کے ادا کرنے میں اس درجے ترقی کی ہے کہ گویوں کو پیچھے ڈال دیا۔ اور لکھنؤ میں بہت سے اس پایے کے سوزخواں پیدا ہوئے کہ بڑے بڑے استاد گویے ان کے آگے کان پکڑنے لگے۔ بہرحال جو درجۂ کمال مرثیہ گویوں نے شاعری میں حاصل کیا، وہی سوز خوانوں نے موسیقی میں۔

یہ سب فن محض مجالس عزا کی برکت سے پیدا ہوئے اور خاص لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اور ان سب نے علاوہ ادب اردو کو بے انتہا ترقی دینے کے، نظم و نثر اردو کی دنیا میں یہ خاص شان پیدا کر دی کہ انسانی جذبات کو جس طرح چاہیں، حرکت میں لائیں۔ اور جس قسم کے جذبات اور جیسے جوش کو چاہیں، پیدا کر دیں۔ اس فن کو باضابطہ طور پر یونانیوں نے ترقی دی تھی، جنہوں نے اپنی تقریروں کو موثر بنانے کے لیے پتالگایا تھا کہ کن الفاظ، کن حرکات، کیسے لہجے اور کن آوازوں سے انسان کے دل میں خوشی یا غم یا رحم یا قہر و غضب کا جوش پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کبھی اس فن کی طرف کسی قوم نے توجہ نہیں کی۔ یہاں تک کہ اب یورپ کے آریٹروں اور اسپیکروں نے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 409

اس فن کو زندہ کرنا شروع کیا۔ مگر لکھنؤ میں محض ذاکری کے طفیل میں ا فن کو خود بہ خود اس قدر ترقی ہو گئی کہ یورپ والے بھی شاید اس درجے سے آگے نہ بڑھ سکے ہوں گے۔

مجلسوں میں ختم کے وقت شربت پلانا یا مٹھائی یا کھانا تقسیم کرنا لازم ہے۔ مگر مہذب اور دولت مند لوگوں نے اس یہ نہایت ہی شایستہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ جن حضرات کو بُلانا ہوتا ہے، ان کے پاس دعوت کے رقعوں کے ساتھ حصہ بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ مجلس سے واپس آتے وقت ہاتھ میں حصہ لے کے چلنا بہت سے مہذب اور خوش حال لوگوں کو تہذیب کے خلاف اور نہایت مبتذل معلوم ہوتا تھا۔ گو کہ عوام اور بازاری لوگ اس میں مضائقہ نہیں سمجھتے مگر خوش حال اور وضع دار لوگوں کو یہ گراں گزرتا تھا۔ اگر خدمت گار موجود نہ ہو تو بہت سے لوگوں کو مجبور ہونا پڑتا تھا کہ مجلس ہی میں کسی دوست یا غریب آدمی کو اپنا حصہ دے دیں۔

مجلس کی نشست کی شان یہ ہے کہ لکڑی کا ایک منبر، جس میں سات آٹھ زینے ہوتے ہیں، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا ہے اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پُتکلف فرش پر بیٹھتے ہیں۔ا ور اگر مجمع زیادہ ہو تو بیچ کی جگہ بھی بھر جاتی ہے۔ جب کافی آدمی جمع ہو جاتے ہیں تو ذاکر صاحب منبر پر رونق افروز ہو کر، پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں : فاتحہ۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اُٹھا کے چپکے چپکے سورۂ فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اگر حدیث خواں یا واقعہ خواں ہوئے تو کتاب کھول کے بیان کرنا شروع کرتے ہیں۔ا ور اگر مرثیہ خواں ہوئے تو مرثیے کے اوراق ہتھ میں لے کے مرثیہ سنانے لگتے ہیں۔ مجتہدوں اور حدیث خوانوں کے بیان کو لوگ خاموشی و ادب سے سنتے اور رقت کے موقعوں پر زار و قطار رہتے ہیں۔ مگر مرثیوں کے سنتے وقت مجمع حاضرین سے بجز رقت کے بندوں کے جب کہ رونے سے فرصت نہیں ملتی، برابر صدائے آفرین و مرحبا بلند ہوتی رہتی ہے۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 410

سوز خواں منبر پر نہیںبیٹھتے بلکہ لوگوں کے بیچ میں ایک جانب بیٹھ کے نوحے اور مرثیے سناتے ہیں اور اکثر داد بھی پاتے ہیں۔

اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر یکے بعد دیگرے پڑھتے ہیں۔ا ور عموماً حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی ہے۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے، اس لیے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی میں نہیں سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے، مگر مجتہدین اور ثقہ اور پابند شرع بزرگوں کی مجلسوں میں سوز خوانی نہیں ہوتی۔ مجتہدین کے وہاں کی مجلسوں میںپابندی دین کا بہت خیال رہتا ہے۔ خصوصاً یہاں غفران مآب کے امام باڑے میں نویں محرم کو جو مجلس ہوتی ہے، وہ خاص شان اور امتیاز رکھتی ہے اور اس کی شرکت کے شوق میں لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ اس میں اثنائے بیان میں اونٹ حاضرین کے سامنے لائے جاتے ہیں جن پر کُجاوے یا محملیں ہوتی ہیں اور ان پر سیاہ پوششیں پڑی ہوتی ہیں اور مومنین کو یہ منظر نظر آ جاتا ہے کہ دشت کربلا میں اہل بیت کا لوٹا مارا اور تباہ شدہ قافلہ کسی مظلومی و ستم زدگی کی شان سے شام کی طرف چلا جاتا تھا۔ حاضرین پر اس الم ناک منظر کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ ہزار ہا حاضرین سے دس بیس کو غش ضرور آ جاتا ہے، جو بڑی مشکلوں سے اٹھا کر اپنے گھروں کو پہنچائے جاتے ہیں۔

خاندان اجتہاد سے مجالس میں اس ڈریمیٹک شان کی ابردا ہونے کا یہ انجام ہوا کہ اکثر عقیدت مند امرا جدت طرازیاں کرنے لگے۔ اور بعض بزرگوں نے تو یہاں تک ترقی کی مجلسوں کو بالکل ڈراما بنا دیا۔ چنانہ مولوی مہدی حسین صاحب مرحوم کے یہاںمجلسوں میں وقتاً فوقتاً تھیٹر کے ایسے پردے کُھلتے جن کے ذریعے سے واقعات کربلا کے پُرالم سین پیش نظر کر دیے جاتے اور حاضرین پر عجب رقت کا عالم طاری ہوتا۔ اس سے بھی زیادہ ترقی مرحوم کے یہاں زنانی مجلسوں میں ہوتی، جن میں شہر کی ہزاروں عورتیں جمع ہو جاتیں۔ اور بجاے اس کے کہ ذاکر، حدیث خوانی کریں، اسٹیج

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 411

پر کربلا کے سین زندہ ایکٹروں اور ایکٹرسوں کے ذریعے سےدکھائے جاتے۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے، علما و مجتہدین نے ان بدعات کو پسند نہیں کیا۔ مگر عوام الناس کی دلچسپی ان میں روز بروز بڑھتی ہی جاتی ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ شیعوں کی مجلسوں نے لکھنؤ کی معاشرت پر بہت نمایاں اثر ڈالا ہے۔ اور ان کے ذریعے سے آداب صحبت اور تہذیب و شایستگی کو بہت زیادہ ترقی ہو گئی ہے۔ ور مرثیوں کے ذوق نے شاعری و موسیقی کو زندہ ہی نہیں کر دیا بلکہ ان دونوں فنون کا سچ مذاق مردوں سے تجاور کر کے پردہ نشین شریف خاتونوں تک میں ییدا کر دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز یورپ کے سوا جہاں رقص و سرود لڑکیوں کی تعلیم میں داخل ہے، ایشیا کے کسی شہر میں نہ پیدا ہو سکے گی۔

مجلسوں کے علاوہ ایک اور طرح کی محفلیں بھی شیعوں میں ہوتی ہیں جو "صحبت" کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ ان کا زمانہ 9 ربیع الاول یعنی عید شجاع کے دن سے شروع ہو کر، چند روز تک باقی رہتاہے۔ مجالس عزا جس طرح اہل بیت کے مصائب پر رونے اور آنسو بہانے کے لیے ہیں، اسی طرح یہ صحبتیں اس غرض سے کی جاتی ہیں کہ ڈریمٹک طریقے سے دشمنان اہل بیت کی توہین و تذلیل کی جائے اور ان کے بے تکان گالیاں دی جائیں۔ اور چوں کہ شیعوں کے خیال میں اہل بیت کے سب سے بڑی دشمن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس لیے انہی دونوں محترم ناموں کی توہین کرنا اور ان کے پُتلے بنا کے ذلت و نفرت کے ساتھ جلانا، ان صحبتوں کا مقصودِ اصلی ہو گیا ہے۔ ان میںکسی سُنیکے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اپنے مقتداؤں کی توہین گوارا نہیں کر سکتے۔ مگر سُنا جاتا ہے کہ یہ نہایت ہی بدتہذیبی و فحاشی کی شرمناک محفلیں ہوتی ہیں۔ جن میں ابتذال اس درجے تک ترقی کر جاتا ہے کہ کوئی مہذب شیعہ بھی بغیر روحی تکلیف اٹھائے واپس

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 412

نہیں آ سکتا۔ ان صحبتوں نے بھی شیعوں کے مذاق پر بڑا اثر ڈالا ہے اور اسی اثر کا نتینہ ہے کہ ذرا ذرا سی باتوں پر سُنی شیعوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔

شیعوں کی ان مجلسوں اور صحبتوں کے بعد سُنیوں کی مجالس مولد شریف ہیں۔ ان کی نشست اور شان وہی ہوتی ہے جو مجلسوں کی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ سنیوں کے یہاں منبر نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک ممتاز جگہ پر کوئی چوکی بچھا دی جاتی ہے، اس پر تکلف کا فرش کر دیا جاتا ہے، اور اس پر بیٹھ کے واعظ یا مولد خواں صاحب مولد سناتے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ تھا کہ کوئی مولوی صاحب حالات ولادتِ سرور عالم ﷺ بیان کر دیتے اور ذکر ولادت کے وقت سب لوگ کھڑے ہو جاتے۔ مولد خواں صاحب مسرتِ ولادت میں کوئی نظم پڑھتے اور لوگوں پر گُلاب پاش سےھ کیوڑا چھڑکا جاتا۔ یا کوئی واعظ نہ ملتا تو کوئی پڑھا لکھا آدمی مولوی غلام امام شہید کا مولد شریف پڑھ کے سنا دیتا۔ مگر عوام کے لیے مولد خوانی کا یہ طریقہ اطمینان بخش نہ ثابت ہوا۔ اور سوز خوانوں کی دیکھا دیکھی ایسے مولد خواں پیدا ہو گئے جن کے ساتھ دو سُر ملانے والے ہوتے ہیں اور ان کے بیچ میں وہ بیٹھ کر ترنم کے خاص لہجے میں واقعات ولادت بیان کرتے ہیں اور درمیان درمیان میں برابر اشعار و قصائد گاتے جاتے ہیں، جن میں دونوں بازو ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر سوز خوانوں نے تو موسیقی کو زندہ کر دیا اور مولد خواں گانے والوں نے سچ یہ ہے کہ موسیقی کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔

لیکن مولد خوانی کے اعتبار سے لکھنؤ کو کوئی خصوصیت نہیں حاصل ہے۔ اس لیے کہ اسی طرز سے اور اسی شان کی مولد خوانی سارے ہندوستان کے سُنیوں میں جاری ہے۔ اور یہی حال سُنی صوفیوں کی صحبت حال و قال کا ہے، جو ہر جگہ یکساں ہے۔ مسلمانوں کے ہندوستان میں آنے کے زمانے ہی سے مجلس سماع کی بنیاد پڑ گئی۔ مگر اس سے سوا اس کے کہ قوالوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا، جو رتبے اور موسیقی دانی میں ڈھاڑیوں اور گویوں سے گرا ہوا سمجھا جاتا ہے، فن موسیقی کو کوئی نمایاں نفع نہیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 413

حاصل ہو سکا۔ حالانکہ سوز خوانی نے ایک صدی کے اندر ہی موسیقی کو اپنی لونڈی بنا لیا اور حاکمانہ شان سے اس پر تصرف کرنے لگی۔

(50)

مجلسوں اور محفلوں کا حال ہم بیان کر چکے۔ اب ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ ہم لوازم صحبت کو بھی شرح و بسط سے بتا دیں۔ اس لیے کہ یہ وہ چیزیں ہیںجن سے معاشرت اور وضعِ صحبت کا حال آئینے کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ لوازم صحبت بہت زیادہ بلکہ بےشمار ہیں، جن کو ہم وقتاً فوقتاً بتائیں گے۔ مگر فی الحال سب سے مقد چیزیں حقہ، خاصدان، لُٹیا اور اگالدان ہیں۔ یہ اس قدر ضروری اشیا ہیں کہ رؤسا کے ہمراہی خدمت گروں کے پاس لازمی طور پر موجود رہا کرتی ہیں۔ چند روز پیشتر اعلا طبقے کے دولت مندوں کے ہمراہ ایک خدمتگار کے ہاتھ میں حقہ بھی رہا کرتا تھا۔ مگر اب یہ طریقہ چھوٹ گیا۔ حقہ دراصل دہلی کی ایجاد ہے۔ اور وہیں شاہی بھنڈی خانوں میں مختلف وضعوں کے حقے تیار ہو گئے تھے۔ لکھنؤ نے جو کچھ ترقی کی وہ سب سے پہلے پیچوانوں، چلموں اور چمبروں کی شکل اور قطع کی اصلاح سے متعلق ہے۔ دہلی کے حقے بھدے اور بدصورت تھے۔لکھنؤ میں نہایت موزوں و خوش نما بنا دیے گئے۔ پھر تانبے، پیتل، پھول اور جست کے حقوں کے علاوہ مٹی کے حقے ایسے خوش نما بن گئے جو لوگوں کو اپنی نفاست و نزاکت کے لحاظ سے نہایت ہی پسند آئے۔ اور اکثر لوگوں کو مٹی کے نازک، سبک، خوش نما اور سوندھے حقے، پُرتکلف قیمتی حقوں سے زیادہ اچھے معلوم ہوئے۔

حقوں کی شکل میں اصلاح و ترقی ہونے کے بعد،خود تمباکو میں عجیب عجیب لطافتیں اور خوبیاں پیدا کی گئیں۔ تمباکو کو گُڑ یا شیرے میں ملا کے کوٹ لینا غالباً دہلی مہی کی ایجاد ہے، جس کی وجہ سے پینے کے تمباکو کی اصلاح میں ہندوستان کو

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 414

دنیا کے سارے ملکو اور صفحۂ زمین کی تمام قوموں پر فوقیت حاصل ہے۔ تمباکو ساری دنیا میں پیا جاتا ہے۔ چرٹ، سگریٹ اور پائپ کے لیے تمباکو کی اصلاح میں اگرچہ یورپ نے بے انتہا کوششیں کیں اور طرح طرح کی نفاستیں پیدا کر دیں مگر یہ تدبیر کسیکو نہ سوجھ سکی کہ شیرہ یا گڑ ملا کے تمباکو کی تلخی اور گلوگیری مٹائی جائے اور دھویں میں لطف اور قیام پیدا کیا جائے۔ اس کے بعد لکھنؤ نے یہ ترقی کی کہ خمیرہ ملا کے اور خوشبوئیں شریک کر کے تمباکو سی بدبودار ناگوار چیز کو اس قدر خوش آیند اور لطیف بنا لیا کہ چلم بھر کے رکھتے ہی سارا کمرا خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ اور جو حقہ نہ پیتے ہوں، ان کا بھی جی چاہنےلگتا ہے کہ دو ایک کش کھینچ لیں۔ ہندوستان کے بعض خطوں کا تمباکو بہت اچھا ہوتا ہے اور ان شہروں کے نام سے تمباکو مشہور بھی ہو گیا ہے، مگر وہ شہرت کسی انسانی کوشش کا نتیجہ نہیں۔ کوشش اور تدبیر سے جو نفاست تمباکو میں لکھنؤ نے پیدا کی ہے، اور کسی شہر کو نہیں نصیب ہوئی۔ اکثر شہروں کے لوگ خمیرے کو نہیں پسند کرتے، یا شاکی ہیں کہ اس سے نزلہ ہو جاتا ہے، مگر یہ محض ان کے عادی نہ ہونے کی وجہ سے ہے، اور ویسا ہی ہے جیسے انگریزوں کو قورما ناپسند ہے، یا اُسے ہضم نہیں کر سکتے۔ تمباکو کے ساتھ حقے کے تمام لوازم میں ترقی ہوئی۔ چلمیں بھی پہلے سے زیادہ نازک و نفیس اور خوش نما ہو گئیں۔ چمبروں میں بھی ترقی ہوتی رہی۔ چمبروں میں خوبصورت تہری نقرئی زنجیریں لگائی گئیں۔ طرح طرح کی منہنالیں ایجاد ہوئیں، پھو پھولوں کے نفیس اور دل فریب حقے ایجاد ہوئے۔ غرض یہاں کی سوسائٹی نے حقے کو سنوار کے اور آراستہ کر کے دُلہن بنا دیا۔

حقے کے بعد نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم چیز لوازم صحبت میں خاصدان ہے۔ جس کی بار بار ضرورت پیش آیا کرتی ہے۔ اور باہر آنے جانے میں خدمت گاروں کے پاس رہتا ہے۔ خاصدان وہ چیز ہے جس میں پانوں کی گلوریاں بنا کے رکھی جاتی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 415

ہیں۔ پان، ہندوستان کی قدیم چیز ہے۔ہندوؤں کے زمانے سے اس کی اہمیت چلی آتی ہے۔ اگلے دنوں راجاؤں اور بادشاہوں کو جب کوئی بڑی مہم پیش آتی یا کوئی ذمے داری کا کام لینا ہوتا تو پان کا بیڑا (گلوری) بنا کے سامنے رکھتے اور کہتے کہ کون اسے اٹھائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس مہم پر کون جائے گا؟یا اس ذمے داری کے کام کو کون انجام دے گا؟ ارکان دولت، سرداروں یا عام حاضرین دربار میں سے جو کائکی اُس بیٹے کو اٹھا لیتا وہ گویا وعدہ کرتا کہ اس کام کو میں انجام دوں گا، یا اس مہم کو میں سر کروں گا۔ یہ رسم تو مٹ گئی مگر یہ کہاوت آج تک زبانوں پر موجود ہے کہ فلاں شخص نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔" یعنی اس کو اپنے ذمے لیا ہے۔

پُرانے درباروں میں حاضرین کو انعام و اکرام کے ساتھ پان بھی مرحمت ہوا کرتے۔ جس کا ذکر ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں کیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے پان، ہندوستان کی تاریخی چیز ہے۔ لہذا چاہیے تھا کہ مرور زمانہ سے پانوں اور پان کے سامان کو یوماً فیوماً ترقی ہوتی رہتی۔ مگر ہمیں بالکل نظر نہیں آتا کہ پان جب تک دہلی میں تھا، اس کو کیا ترقی ہوئی۔ اس کے مسالے کے جو اجزا قدیم الایام سے چلے آتے ہیں، آخر تک وہی قائم رہے، اور ان کی بھی کسی قسم کی اصلاح نہیں ہوئی اس کے مسالوں میں کتھا، چونا، ڈلیاں اور الائچیاں قدیم زمانے ہی میں منتخب ہو چکی تھیں۔ تمباکو بھی لکھنؤ میں آنے سے پہلے ہی اس کے اجزا میں شامل ہو چکا تھا۔ مگر اس کا بالکل پتا نہیں لگتا کہ اگلی بیسوں صدیوں اور سیکڑوں گذشتہ درباروں او سلطنتوں نے اس کو کون سے خاص ترقی دی۔ لکھنؤ میں پان کا رواج دہلی کی بہ نسبت بہت زیادہ ہو گیا۔ اس کے لیے خاص قسم کے ظروف ایجاد ہوئے۔ اور اس کی تمام چیزوں کو جدا جدا ترقی حاصل ہوئی۔ پہلے خود پانوں یعنی اس کے پتوں کی اصلاح ہوئی۔ ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً مہوبے وغیرہ کے پان قدرتی طور پر بہت اچھے اور اعلا درجے کے ہوتے ہیں۔ اطرافِ لکھنؤ میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 416

اگرچہ پان کثرت سے پیدا ہوتے ہیں، مگر ان میں بالذات کوئی خاص خوبی و فوقیت نہیں ہوتی۔ مگر یہاں کے ترقی پسند اُمرا کی توجہ سے تمبولیوں (پان والوں) نے صنعتی اصول پر پانوں کو ترقی دینا شروع کی اور اس درجے پر پہنچا دیا کہ یہاں کے پان سب جگہ سے بڑھ گئے۔ وہ پانوں کو مہینوں زمن میں دفن کر کے رکھتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا کچا پن دور ہو جاتا ہے، ہرائند بالکل نہیں باقی رہتی ہے، رگیں نازک اور نرم ہو جاتی ہیں، رنگ میں سفیدی اور پختگی آ جاتی ہے۔ کچے پان میں جو ایک طرح کی تیزی ہوتی ہے، وہ بھی جاتی رہتی ہے۔ اور ایسا نرم اور نازک اور لطیف ہو جاتا ہے کہ کسی جگہ کا پان مزے اور لطف میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہی بنے ہوئے پان، بیگمی پان کہلاتے ہیں، جو دُور دُور کے شہروں میں جاتے اور نہایت ہی شوق اور بڑی قدر سے لیے جاتے ہیں۔

پان کے پتے کے بعد چونا ہے۔ ہر جگہ اور ہر شہر میں معمولی چونا استعمال ہوتا ہے جو اکثر چھنا ہوا صاف بھی نہیں ہوتا۔ ماسوا اس کے چونا نہایت ہی تیز اور اکال چیز ہے۔ نیا تازہ چونا ہوا یا زیادہ ہو گیا تو منہ کٹ جاتا ہے۔ ان مضرتوں سے بچنے کے لیے یہاں یہ تدبیر کی جاتی ہے کہ اسے خوب چھان کے اور صاف کر کے اس میں تھوڑی سے بالائی یا تازے دہی کا توڑ چھان کر ملا دیتے ہیں۔ اس طریقے سے لکھنؤ کے نفیس مزاج لوگوں کے پاندانوں میں ایسا اچھا، خوشگوار، لطیف اور بے ضرر چونا ہوتا ہے کہ اور جگہ نہیں نصیب ہو سکتا۔

دوسری چیز پان کے لوازم میں سے کتھا ہے۔ کتھا بجائے خود نہایت ہی بکٹھی، کڑوی اور بدمزہ چیز ہے۔ پان میں وہ فقط چونے کی اصلاح اور اچھا رنگ پیدا کرنے کی غرض سے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا بکٹھا پن بہت ناگوار گزرتا ہے، جو عادت ہو جانے سے چاہے گوارا ہو جائے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک بدمزہ چیز ہے۔ کتھے کے بنانے کی یہ تدبیر تو سب جگہ عام ہے کہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 417

کر کے اسے پانی میں پکاتے ہیں اور جب جوش کھا کر وہ سرخ شربت سا ہو جاتا ہے، تو کپڑے میں چھان کر، پانی میں رکھ کے جما لیتے ہیں۔ عام طور پر سب جگہ اتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر یہاں ایک طباق یا توے میں راکھ بھر کے، اس پر ایک کپڑا ڈالتےہیں اور اُس کپڑے پر اس جمے ہوئے کتھے کو روٹی کی طرح پھیلا دیتے ہیں اور اس پر بار بار پانی چھڑکتے جاتے ہیں۔ پانی اس کی سرخی کو لے کر جس میں بکٹھاپن ہوتا ہے، راکھ میں جذب ہو جاتا ہے۔ اس طرح صاف کرتے کرتے کتھے کا فقط وہ لطیف ترین حصہ باقی رہ جاتا ہے جو دھوئے کپڑے کا سا سفید اور نہایت ہی نفیس ہوتا ہے۔ پھر اس میں کیوڑے کی خوشبو دے کر یا کیوڑے کے پھولوں میں رکھ کر خشک کر لیتے ہیں۔ اس تدبیر پر بعض اور مقامات میں بھی اب عمل ہونے لگا ہے، مگر یہ ایجاد لکھنؤ ہی کی ہے۔ اور جس تکمیل کے ساتھ یہاں اس پر عمل ہوتا ہے، اور کہیں ہو بھی نہیں سکتا۔ اب اس قسم کا کتھا اکثر تاجر لکھنؤ میں تیار کر کے فروخت بھی کرنے لگے ہیں۔ جن میں سے ہمارے مکرم مہربان قاضی محمد یونس صاحب مقیم محمود نگر لکھنؤ نے بہت شہرت حاصل کی ہے۔ مگر نفاست پسند اُمر کے گھروں میں جو سفید اچھا اور صاف کتھا خود ہی بنا لیا جاتا ہے وہ اس قدر نفیس ہوتا ہے کہ اس کی نفاست کو بازار والوں کو تیار کیا ہوا کتھا، چاہے کیسا ہی اچھا ہو، نہیں پہنچ سکتا۔ دکن کے شہروں پونا وغیرہ میں ایکن ئی طرح کا بنا ہوا خشک کتھا بازار میں ملتا ہے جو سوکھا ہی پان میں ڈالا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو وہ کتھا پسند بھی ہے مگر ہم باوجود کوشش کے اس کی خوبیوں کو نہ محسوس کر سکے اور نہ سمجھ سکے، اس لیے کہ بظاہر وہ کرکرا بھی ہوا کرتا ہے اور بکٹھا پن اس میں اصلی بے بنے کتھے سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔

پان کے مسالوں میں تیسری چیز ڈلیان ہیں، جو سروتے سے کاٹ کے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے پان میں ڈالی جاتی ہیں۔ ان کا کاٹنا ایک معمولی چیز تھا مگر لکھنؤ میں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 418

ڈلیوں کا کاٹنا بھی ایک صنعت بن گیا ہے۔ اس لیے کہ اب اکثر خاتونیں باجرے کے دانوں کے برابر باریک کاٹتی ہیں، جس میں سب دانے برابر اور یکساں ہوتے ہیں۔ اور پھر اس شرط کے ساتھ کہ چورا زیادہ نہ نکلے اور ڈلی کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے۔

الائچیوں میں کسی اصلاح کی گنجائش ابھی تک محسوس نہیں ہوئی اس لیے کہ جیسی آتی ہیں ویسی ہی استعمال ہوتی ہیں۔ مگر تکلفات نے اتنا ضرور کیا ہے کہ خاص تقریبوں میں اور خاص موقعوں پر ان میں چاندی کا ورق لگا دیا جاتا ہے۔ اور جب خاصدان یا تھالی میں رکھی جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چاندی کے چمکتے ہوئے ٹکڑے رکھے ہیں۔

اس کے بعد تمباکو ہے۔ تمباکو اس استعمال دھویں کی صورت میں جس طرح عالم گیر ہے، اسی طرح کھانے میں بھی اس کا رواج بڑھتا جاتا ہے۔ انگلستان میں میں نے بہت سے انگریزوں کو دیکھا جو تمباکو کی خشک پتی مل کر پھانک لیا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی مدت سے خشک تمباکو کے کھانے کا رواج چلا آتا ہے۔ جس کو دہلی میں اس کی سنہری رنگت کے لحاظ سے زردہ کہتے ہیں۔ پہلے فقط غیر مدبر اور غیر اصلاح شدہ پتی کو پان میں ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ مگر اگلے ہی دنوں یہ بھی رواج تھا کہ بہت سے گھروں میں تمباکو کی پتی میں اس کے ڈنٹھلوں کا اُبال کر اور اس کے عرق میں چند اعتدال پر لانے والے خوشبودار مسالے ملا کر تمباکو کی کڑواہٹ اپنے مذاق کے مطابق گھٹایا بڑھا دی جاتی اور لطافت و خوشگواری کے ساتھ اس میں ایک جاں فزا خوشبو بھی پیدا کر دی جاتی۔ مگر یہ تدبیر مخصوص گھروں اور خاندانوں تک محدود تھی، عام لوگ تمباکو کی پتی ہی بغیر بنائے کھاتے، جو ہر پاندان میں موجود رہا کرتی۔ لیکن اب تقریباً بیس برس ہوئے منشی سید احمد حسین صآحب نے اپنی ایجاد سے ایک خاص قسم کا بنا ہوا تمباکو جس کی صورے ٹُرے دار باروت کی سی ہوتی ہے، ملک کے سامنے پیس کیا۔ اور وہ ایسا مقبول ہوا کہ چند ہی سال کے اندر بے بنی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 419

پتی کے کھانے کا رواج قریب قریب اُتھ گیا۔

(51)

تمباکو میں پتی کی اصلاح سے پہلے، جس کا سہرا ہمارے مکرم دوست منشی سید احمد حسین صاحب کے سر ہے، اصلاح کی ایک اور کامیاب کوشش کی گئی۔ وہ یہ کہ تمباکو کی پتی اور ڈنغھلوں کو خوب اچھی طرح اُبال کر، اس کا عرق نکال لیا جاتا ہے، اور پکاتے پکاتے وہ اس قدر گاڑھا کر دیا جاتا ہے کہ لئیی یا تازی افیون کی سی شکل ہو جاتی ہے۔ پھر اس میں مُشک، کیوڑا، اور بہت سی مناسب خوشبوئیں ملا کے اس درجہ لطیف و معطر بنا دیا جاتا ہے کہ پان کے ساتھ رتی برابر قوام کھا لیجیے تو تمباکو کا مزہ آنے کے ساتھ منہ میں دن بھر خوشبو آتی رہتی ہے۔ پھر نفاست مزاجی نے اس پر اور زیادہ ترقی کی یعنی اس قوام کی ننھی ننھی گولیاں بنائی جاتی ہیں۔ اور ہر گولی ایک خوراک کی مقدار میں ہوتی ہے۔ پھر گولیوں پر چاندی یا سونے کے ورق لپیٹ کر ایسا خوش نما اور دل فریب بنا دیا جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے موتی رکھے ہوئے ہیں۔ قوام اور گولیوں کو مفتی گنج کی ایک بیگم صاحب بے مثل بناتی تھیں۔ خاص لکھنؤ والوں کو ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی گولیوں کے سوا کسی کارخانے کی گولیاں نہیں پسند تھیں۔ مگر انہی کے زمانے میں اصغر علی محمد علی کے کارخانے نے ان دونوں چیزوں کو تیار کر کے سارے ہندوستان کے سامنے پیش کر دیا۔ چند روز بعد ان بیگم صاحب کا انتقال ہو گیا اور ہر جگہ اصغر علی کے کارخانے ہی کے قوام اور گولیوں کا رواج ہو گیا۔ بعد ازاں اور بہت سے لوگوں اور متعدد کارخانوں نے ان چیزوں کو اپنے اہتمام سے تیار کیا، مگر ابھی تک کوئی اصغر علی مرحوم کے کارخانے سے سبقت نہیں لے جا سکا۔ لیکن قوام اور گولی میں ایک عیب تھا، وہ یہ کہ چاہے خوشبو دیر تک ٹھہر جائے مگر تمباکو کا مزہ اور اس کا کڑوا پن

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 420

پہلی ہی پیک میں جاتا رہتا۔ اسی عیب کو مٹانے کے لیے منشی سید احمد حسین صاحب نے یہ جدید مدبر ومعطر پتی ایجاد کی جس کی تلخی اور عطریت آخر تک پان کا ساتھ دیے جاتی ہے۔ اور اسی خوبی کا نتیجہ ہے کہ یکایک دُنیا کا رُخ اس طرف پھر گیا۔ اور قوام اور گولیاں گو اب بھی تیار کی جاتی ہیں، مگر تقویم پارینہ ہو گئیں۔ اور ان کا مذاق گھٹنے کی یہی رفتار رہی تو امید ہے کہ تھوڑے ہی زمانے میں بالکل مٹ جائیں گی۔

پان ہی کے متعلق یا اُس کی مناسبت سے لکھنؤ میں چند اور ایجادیں ہوئیں مثلا ایسی الائچیاں ایجاد کی گئیں کہ ایک الائچی کھا لیجیے تو منہ پان سے زیادہ سرخ ہو جائے۔ ان کی تیاری میں اگرچہ پان ہی کے اجزا سےکام لیا جاتا ہے جو رنگ ملا کر الائچی کے چھلکوں میں بھر دیے جاتے ہیں، مگر بجز اس کے کہ رنگ چوکھا آتا ہے، وہ پان کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ اور کسی کے پان کھانے کی غرض اس مصنوعی الائچیوں سے نہیں حاصل ہو سکتی۔ اسی طرح ایک اور قسم کی الائچیاں تیار کی گئیں، جن میں مسی بھر دی جاتی ہے۔ اور عورتیں بجائے اس کے کہ دیر تک بیٹھ کےمسی ملیں، اس قسم کی ایک الائچی پان میں ڈال کر کھا لیں تو مسی خود بخود لگ جاتی ہے۔ اور گہری نیلگونی خوب اچھی طرح ریخوں میں جم کر بیٹھ جاتی ہے۔ مگر ان دونوں قسم کی الائچیوں سے وہ مقصد بخوبی نہ حاصل ہو سکا جس کے لیے ایجاد کی گئی ہیں۔ مثلاً سرخ الائچیاں پان کا بدل نہیں ہو سکتیں اور سیاہ الائچیوں میں عمدہ معطر مسی کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اس لیے عام پسند اور مقبول نہ ہو سکتیں اور آج تک ان سے بجز مذاق اور دل لگی کے کوئی ضروری کام نہیں لیا جا سکتا، جو لازمۂ معاشرت ہو۔

اسی سلسلے میں ہمیں چکنی ڈلی کو بھی بیان کر دینا چاہیے جو اگر پان کا جزو مالاینفک نہیں تو اس کے لواحق میں ضرور ہے۔ بعض لوگ معمولی ڈلیوں کے عوض اسے پان میں کھاتے ہین اور پان میں نہ کھائیں تو بہت سے لوگ اسے تنہا

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 421

منہ میں رکھتے ہیں جو الائچی کے ساتھ مل کر بہت لطف دیتی ہے۔ خصوصاً ہندو احباب چونکہ مسلمانوں کے ہاتھ کی گلوری نہیں کھا سکتے، اس لیے ان کی خاطر و تواضع محض چکنی ڈلی اور الائچی ہی سے ہوتی ہے، لہذا وہ بھی معاشرت کا ایک ضروری سامان بن گئی ہے۔

چکنی ڈلی دراصل وہی ڈلی ہے جو پانوں میں ڈالی جاتی ہے مگر مدبر اور اصلاح شدہ۔ یہ لکھنؤ یا دہلی یا حیدر آباد یا دیگر متمدن شہروں میں نہیں بنتی بلکہ جہاں پیدا ہوتی ہے، وہیں سے بنی بنائی آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اصلی ڈلی کو دودھ میں ڈال کے اُبالتے اور پکاتے ہیں۔ خیر جس طرح بنتی ہو، اس میں ایک لعاب پیدا ہو جاتا ہے۔ خشکی دفعہ ہو کے، دُہنیت آ جاتی ہے۔ اور بعض اوقات زیادہ ڈلی کھا جانے سے گلے میں جو پھندا پڑ جاتا ہے، وہ عیب چکنی ڈلی میں بالکل نہیں باقی رہتا۔ اور سچ یہ ہے کہ معمولی ڈلی سے بہ درجہا زیادہ بامزہ، لطیف و نفیس ہو جاتی ہے۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے، چکنی ڈلی کا رواج حیدر آباد، دہلی اور دیگر شہروں میں لکھنؤ کے مقابل بہت زیادہ ہے۔ اور انہی مقامات کے شوقینوں کا کام تھا کہ اس میں کسی قسم کی اصلاح کرتے یا اس کو اپنے مزاق میں ترقی دیتے۔ مگر تعجب ہے کہ کسی شہر میں اس جانب توجہ نہ کی گئی۔ اور چکنی ڈلی کی بھی اصلاح کی تو لکھنؤ والوں نے۔ چکنی ڈلی کا اصلی مغز نہایت لطیف خوش مزہ و نازک ہوتا ہے۔ اور جو حصہ قشر سے ملا رہتا ہے، کسی قدر بکٹھا رہ جاتا ہے۔ خصوصاً پیندی کی طرف کا حصہ بہت زیادہ ناقص ہوتا ہے۔ انہیں عیوب کے مٹانے اور ناقص حصےکے نکال ڈالنے کے خیال سے کانٹ چھانٹ کر معمولی چکنی ڈلیاں کئی قسم کی تیار ہونے لگیں۔ سب سے اول تو دورخی کہلاتی ہیں۔ ان کے بننے کی شان یہ ہے کہ نیچے اوپر سے زیادہ تر حصے کو اور تھوڑے تھوڑے کناروں کو گرد سے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 422

کاٹ کر خوش نما اور خوش رنگ کٹوریاں سی بنا دی جاتی ہیں، جن میں فقط وہی نرم و لطیف مغز رہ جاتا ہے جو چکنی ڈلی کا بہترین حصہ ہے۔ دوسرے درجے کی چکنی ڈلیاں، یک رخی کہلاتی ہیں۔ ان میں بھی اگرچہ چاروں طرف سے تھوڑی بہت کاٹ چھانٹ ہوتی ہے، مگر نیچے اوپر کے دونوں ناقص حصوں میں سے ایک طرف کا زیادہ تر حصہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تیسری قسم یہ ہے کہ چکنی ڈلی کے مغز کے خوش نما ہشت پہل ٹرے بنا دیے جاتے ہیں۔ اس کانٹ چھانٹ میں جو چورا نکلتا ہے، وہ جداگانہ فروکت ہوتا ہے۔ اور دراصل لکھنؤ میں وہ مُدبر چکنی ڈلی کی پانچویں قسم بن گیا ہے۔ پھر اس کی بھی دو تین قسمیں ہو گئی ہیں۔ اسل یے کہ دورخی اور یک رخی ڈلیوں میں سے جو چورا نکلتا ہے، وہ الگ رہتا ہے اور دونوں کی لطافت و نرمی اور مزے میں نہایت فرق ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے ان کی قیمتوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق رہا کرتا ہے۔ الغرض چکنی ڈلی اگرچہ اس قدر زیادہ لکھنؤ والوں کے شوق کی چیز نہیں ہے، مگر اس کی اصلاح بھی انہوں نے اس قدر کی جو کسی جتہ نہیں ہو سکی تھی۔

اب چونکہ پان کے اجزا ختم ہو گئے، لہذا ہم اس کے ظروف و آلات کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ پانوں کے سامان رکھنے کی سب سے اہم چیز یا یوں کہیے کہ پانوں کی گلوریوں میں جو قوت برقی کی سی اخلاقی اور معشوقانہ کشش ہوتی ہے، اس کی بیٹری، پاندان ہے۔ اگلے زمانے میں خصوصاً دہلی میں پٹاری ہوا کرتے تھی جو گول اور مربع یا ہشت پہل سب قطعوں کی ہوتی ہیں۔ اور غالباً دہلی ہی سے حیدر آباد میں پٹاری نما پاندان بن گئے جن کی نقل وہ ٹین اور شیشے کے مربع پاندان ہوتے ہیں جو حیدر آباد کی شادیوں میں کمال فیاضی سے چونا، کتھا، ڈلیاں، چکنی ڈلیاں، الائچیاں، لونگیں اور پان وغیرہ رکھ کر مہمانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔بہر حال پرانے پاندان یہی پٹاریاں تھیں اور انہی پٹاریوں کو ساتھ لیے ہوئے دو ڈیڑھ صدیوں پیش تر کی محترم خاتونیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 423

دہلی سے لکھنؤ آتی تھیں۔ یہاں جب تک دہلی کی تقلید رہی، وہی پٹاریاں رہیں۔ مگر جس دن سے لکھنؤ والوں نے اپنی وضع، معاشرت اور زبان میں اپنی تراش خراش شروع کی، اس روز سے پاندانوں کا نقشہ بھی بدلنا شروع ہو گیا۔ پہلے تو پان رکھنے کے لیے فقط تانبے کی قلعی دار گول پٹاریاں اختیار کی گئیں۔ پھر ان کے ڈھکنے میں بلندی اور گولائی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ چند روز میں ان کی قطع ایک چوڑے نقرئی قُبے کی سی ہو گئی، جس پر چوٹی کی جگہ گرفت کے لے ایک لمبوترا کڑا لگا دیا جاتا ہے۔ کڑے کے دونوں سری کُنڈھوں میں پنہا دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بجائے اوپر کی طرف قائم رہنے کے، وہ ادھر اُدھر پڑا رہتا ہے۔ اس پاندان کے اندر دو کتھے چونے کی کُلھیاں ہوتی ہیں۔ جن کی قطع بعینہ چھوٹی پتیلیوں کی سی ہوتی ہے۔ انہی کُلھیوں کے سلسلے میں تین برابر کی بڑی ڈبیاں ہوتی ہیں۔ جن میں سے بعض میں مسلم اور بعض میں کٹی ہوئی ڈلیاں اور چکنی ڈلیاں رکھی جاتی ہین۔ یہ تینوں ڈبیاں اور دونوں کُلھیاں برابر ایک حلقے میں جمی رہتی ہیں، اور ان کے بیچ میں یعنی مرکز کے مقام پر جو جگہ چھوٹتی ہے، اس میں ایک اور چھوٹی ڈبیا رکھ دی جاتی ہے۔ جس میں علی العموم الائچیاں با لونگیں رکھی جاتی ہیں۔ ڈبیوں کے ڈھکنے کسے ہوئے ہوتے ہیں، خود بخود نہیں کھل سکتے، بلکہ کھلنے میں ٹھوڑا بہت زور مانگتے ہیں۔ مگر کُلھیوں کے ڈھکنے تھالی نما ہوتے ہیں۔ جو ان کے منہ پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ کتھے چونے کی کلھیوں میں کتھا چونا لگانے کی چمچیاں ہوتی ہیں، جن کے سروں پر کبھی تو مور بنا دیا جاتا ہے اور کبھی سادی رہتی ہیں۔ ان کُلھیوں کے اوپر ایک بڑی پورے پاندان بھر کی تھالی ہوتی ہے، جس میں پان کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اگلے دنوں ایک اور پان کی قطع کا جداگانہ ڈھکنے دار ظرف ہوتا تھا، جس میں پان رکھے جاتے، وہ ناگردان کہلاتا تھا۔ مگر تجربے نے اس کو غیر ضروری اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 424

ناقص ثابت کیا۔ اس لیے کہ اس میں بند کر دینے سے ہوا نہ لگتی اور پان خراب ہو جاتے۔ اس وجہ سے ناگردان اگرچہ بعض بعض پُرانے پاندانوں میں اب بھی نظر آ جاتا ہے مگر دراصل اس کا رواج بالکل چھوٹ گیا اور عن قریب عنقا ہو جائے گا۔

چند روز میں پاندان عورتوں کو صندوق، خزانے اور کیش بکس کا کام دینے لگا۔ اور عورتوں کے لیے سچ یہ ہے کہ وہ ہندوستان میں عمر و عیار کی زنبیل تھا۔ اس ضرورت سے وہ وسعت اور جسم میں بڑھنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ دس دس سیر اور بیس بیس سیر کے پاندان بننے لگے۔ اور پھر سخت ضروری تھا کہ مہمان جانے میں ہر جگہ وہ ساتھ رہے۔ اس لیے کہ بہ مصداقِ "شملہ بمقدارِ علم" جتنا بڑا پاندان ہوتا تھا، اتنی ہی بڑی بیگم صاحب کی حیثیت و وجاہت سمجھی جاتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈولی میں ساری جگہ پاندان لے لیا کرتا۔ اور بیگم صاحب کو بڑی مشکلوں سے دبنے اور سمٹھنے کے بعد بیٹھنے کو جگہ ملتی۔ بہر تقدیر پاندان وزن اور قامت میں روز افزوں ترقی کرتے جاتے تھے کہ یکایک اختصار پسندی نے نئی طرح کے چھوٹے، بلند، گُمبد نما اور کلس دار پاندان ایجاد کیے۔ جو پہلے تو آرام دان کہلاتے تھے مگر اب عموماً حُسن دان کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان میں اندر تو وہی چیزیں ہوتی ہیں جو پاندان میں ہیں، مگر بیرونی قطع ایک کلس دار خوش نما گمبد کی سی ہوتی ہے اور بجائے کٹرے کے، اسی کلس یا چوٹی کو پکڑ کے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ حُسن دان عموماً پسند کیے گئے۔ لکھنؤ میں بھی اور دیگر بلاد میں بھی ان کی مانگ بڑھی۔ لکھنؤ میں پہلے پہل ان کومردوں نے اختیار کیا یا ان لوگوں نے جو نمایش اور دکھاوے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ مگر چند روز میں عام ہو گیا۔ اور گو کہ اگلی وضع کے پاندان نہیں مٹے مگر اب زیادہ رواج حسن دانوں ہی کا ہے۔ اور جن گھروں میں پاندان باقی بھی ہیں تو اُتنے بڑے نہیں بلکہ چھوٹے۔ اب مراد آباد میں بھی ایسے ہی لکھنؤ کی وضع کے حُسن دان بننے لگے ہیں۔ مگر وہ زیادہ پھیلے ہوتے ہیں اور اس قدر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 425

خوبصورت نہیں ہوتے جیسے کہ لکھنؤ میں بنائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ کے حُسن دانوں کا تناسب ہی ایک چیز ہے جو یہاں کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے کاری گروں سے اس تناسب کا قائم رہنا قریب قریب غیر ممکن ہے۔

پاندان کے بعد "خاصدان" ہے۔ یہ وہ ظرف ہے جس میں رکھ کے گلوریاں محفل یا صحبتِ احباب میں لائی جاتی ہیں۔ دہلی میں یہ کام ایک کھلی ہوئی تھالی دیتی ہے جس میں ایک طرف کتری ہوئی ڈلیاں رکھ دی جاتی ہیں اور دوسری طرف آدھے آدھے پان چونا کتھا لگا کر اور دُہرا کے یعنی موڑ کر رکھ دیے جاتے ہیں۔اور چونکہ اب بھی وہاں یہی تھالی مروج ہے، اس لیے امید ہے کہ اگلے زمانے میں بھی پانوں کے صحب میں لانے کا یہی طریقہ ہو گا۔ مگر لکھنو میں کم از کم دو پانوں کی گلوریاں بنائی جاتی ہیں، جو پہلے تو سنگھاڑے کی وضع کی خوب گٹھی ہوئی ہوتی تھیں، اب عموماً بیڑے ہوتے ہیں۔ اور ان کی قطع ایسی ہوتی ہے جیسی کہ بوتلوں میں لگانے کے لیے کاغذ کی ڈاٹ بنائی جاتی ہے۔ پھر ان کے قائم رکھنے کے لیے کیلیں لگا دی جاتی ہیں۔ پہلے لونگیں لگا دی جاتی تھیں۔ بعد ازاں زنجیروں کا ایک لچھا ایجاد ہوا۔ لچھے کی صورت یہ ہے کہ چاندی کی ایک ڈبی یا کیری نما عطردان میں چاروں طرف بہت سی زنجیریں لگا دی جاتی ہیں، جن میں کیلیں لگی ہوتی ہیں۔ یہ پورا لچھا مع پانوں کے خاصدان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مگر اس کو تطویل خیال کر کے، یہ رواج ہو گیا کہ گلوریوں میں لوہے کی کیلیں لگا دی جایا کریں۔ مگر اس سب سے اچھا طریقہ یہ ایجاد ہوا ہے کہ گلوری کے اوپر پان ہی کا ایک غلاف چڑھا دیا جاتا ہے جو اس کو کھلنے نہیں دیتا۔

بہرحال ان گلوریوں کے لیے صرف تھالی مناسب نہ تھی، اسی لیے اس تھالی پر ایک گمبد نما کلس دار ڈھکنا ایجاد کیا گیا۔ جس کو تھالی پکڑ لیا کرتی۔ ڈھکنے نے خاصدان کی صورت بھی چھوٹے حسن دان کی سی کر دی۔
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ - 101

سے ملتے مگر تہزیب و عفت کے دائرے سے کبھی قدم باہر نہ نکالتے۔ چند روز بعد عرب ہی میں معشوق گمنام ہوگیا۔اور عموماً شعراء کا معشوق،اُن کے خیال کا ایک پتلا بن گیا،جسے رند مشرب تو کوئی حسین عورت یہ کوئی خوب رو لڑکا بتاتے۔مگر صوفی تھوڑی سی معنوی تاویل کرکے،اُسے حسین مطلق یعنی خلاق عالم بتا دیتے۔یہی سمویاہوا چھپا ڈھکا مزاق رندی فارسی شاعری میں رہا ۔اور یہی مزاق اُس وقت تک اُردو شاعری کا بھی تھا،مگر نواب مِرزا شوق نے اپنی شاعری کو،حسین پردہ دار عور توں پر عاشق ہوکے،اُنکے خراب کرنے کا آلہ بنایا۔اور قیامت یہ تھی کہ انکی مثنویوں کی زبان ایسی خوبصورت،بے تکلف اور شست ورفتہ تھی اور اُن میں عاشقانہ جذبات اِس کثرت سے بھر دیے گئے تھے کہ مہذب و شائستہ لوگوں سے بھی بے دیکھے اور مزہ لیے نہ رہا۔
واجد علی شاہ نے بھی ان مثنویوں کو دیکھا اور چوں کہ ماشاء اللہ خود شاعر تھے اس رنگ کو اختیار كرکے،اپنے بہت سے عشقوں اور اپنی عنفوان شباب کی صد ہا رندانہ بے اعتدالیوں کو خود ہی موزوں کرکے،ملک میں پھیلا دیا اور اخلاقی دنیا میں اقراری مجرم بن گئے۔میں سمجھتا ہوں کہ بادشاہ تو بادشاہ،وزرا w امرا میں بھی شاذ و نادر ہی ایسے گذرے ہونگے جنہوں نے عنفوان شباب میں اپنی شہوت پرستی کی ہوسو ں کو جی بھر کے نہ نکال لیا ہو۔مگر واجد علی شاہ کی طرح كسی نے اپنے اُن بےشرمی کے جرائم كو خود ہی پبلک کے سامنے پیش نہیں کیا تھا۔واجد علی شاہ زور میں آئے تو چاہے شاعری میں نہ بڑھ سکیں،مگر اپنے جذبات و خیالات اور اپنے کارناموں کو عالم آشکارا کرنے میں،نواب مرزا سے بھی دو قدم آگے نکل گئے ۔اور یہاں تک ترقی کی کہ بعض موقعوں پر اُنہیں مبتذل،بازاری مذاق اور فحش الفاظ کے استعمال میں بھی تامّل نہیں ہوتا۔
وہ کہاریوں،رنڈیوں،خواصوں،محل میں آنے جانے والی عورتوں،غرض صد ہا عورتوں پر عاشق ہوئے۔اور چوں کہ ولی عہد سلطنت تھے،اپنے عشق میں خوب

ریختہ صفحہ- 102

کامیاب ہوئے۔جن کی شرمناک داستانیں،اُن کی نظموں،تحریروں اور تصنیفوں میں،خود اُن کی زبان سے سن لی جا سکتی ہیں۔اور یہی سبب ہے کہ تاریخ میں اُن کا کیرکٹر سب سے زیادہ ناپاک اور تاریک نظر آتا ہے۔
چوں کہ عمارت کا بے حد شوق تھا،اس لیے تخت نشین ہوتے ہی،قیصر باغ کی عمارت بنوانا شروع کر دی۔جو چاہے آصف الدولہ کی عمارتوں کی طرح مضبوط نہ ہو،مگر خوب صورتی اور شان داری میں لاجواب ہے۔اُس میں بہت سی خوش نما اور با شان و شوکت دو منزلی عمارتوں کا ایک مربع مستطیل رقبہ دور تک چلا گیا تھا جس کہ ایک رخ جو دریا کے جانب تھا،غدر کے بعد کھود ڈالا گیا۔اور تین ضلعے اب تک قائم ہیں،جن کو مختلف قطعات پر بانٹ کے،گورنمنٹ نے تعلق داران اودھ کے حوالے کر دیا ہے۔اور حکم دیا ہے کہ اُن میں رہیں اور ان کو اُسی وضع میں قائم و برقرار رکھیں۔
قیصر باغ کا اندرونی صحن جس میں چمن بندی تھی،جلو خانہ کہلاتا تھا۔درمیان میں بارہ دری تھی،جو آج کل لکھنؤ کا ٹاؤن ہال ہے۔اس میں کئی اور عمارتیں بھی تھیں جو اب نہیں باقی ہے۔اُس کے باہر یہاں سے متصل ہی بہت سی شاہی عمارتیں تھیں،جنہوں نے اُس قطعۂ زمیں کو اعجوبۂ روزگار بنا دیا تھا۔یہ عمارتیں،قیصر باغ کے مشرقی پھاٹک کے باہر تھیں۔لوگوں کو اس پھاٹک سے نکلتے ہی،دونوں جانب چوبی سرینیں ملتی تھیں،جن میں سے گزر کے وہ چینی باغ میں پہنچتے۔وہاں سے بائیں ہاتھ مڑ کر،آپ جل پریوں کے ایک عالی شان پھاٹک پر پہنچتے،جس پر مدار المہام سلطنت نواب علی نقی خاں کا قیام رہتا تھا،تا کہ ہر وقت جہاں پناہ سے قریب رہیں اور بہ وقت ضرورت فوراً بلا لیے جا سکیں۔اس پھاٹک کے اُس طرف حضرت باغ تھا۔اور اندر ہی داہنی طرف چاندی والی بارہ دری تھی یہ ایک معمولی اینٹ چونے کی عمارت تھی،مگر چھت پر چاندی کے پتھر جڑے ہونے کی وجہ سے چاندی والی بارہ دری کہلاتی۔اسی سے ملحق کوٹھی خاص مقام

ریختہ صفحہ- 103

تھی۔جس میں خود جہاں پناہ سلامت رہتے۔اور وہیں نواب سعادت علی خاں کی بنائی ہوئی پرانی کوٹھی ،بادشاہ منزل تھی
پھر اُن چوبی اسکرینوں کے گلیارے سے نکل کے دوسری طرف مڑیے تو پیچیدہ عمارتوں کا ایک سلسلہ دور تک چلا گیا تھا،جو چو لکھی کے نام سے مشہور تھیں۔اُن عمارتوں کا بانی،حضور نائی،عظیم اللہ تھا جنہیں بادشاہ نے چار لاکھ روپے دے کے مال لیا تھا۔نواب خاص محل اور معزز محلات عالیات اُسی میں رہتی تھیں۔اُسی کے اندر غدر کے زمانے میں حضرت محل کا قیام رہا۔اور یہیں اُن مہ دربار ہوا کرتا تھا۔
یہاں سے ایک سڑک قیصر باغ کی طرف آئی تھی،جس کے کنارے ایک بڑا بھاری سایہ دار درخت تھا۔اُس کے نیچے ارد گرد سنگِ مرمر کا ایک نفیس گول چبوترا بنایا گیا تھا جس پر قیصر باغ کے میلوں کے زمانے میں،جہاں پناہ جوگی بن کے گیروے کپڑے پہن کے آتے اور دھونی رما کے بیٹھے۔اس چبوترے سے آگے بڑھ کے ایک عالی شان پھاٹک تھا جو لکھی کہلاتا،اس لیے اُس کی تعمیر میں ایک لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔اور اُس سے بڑھ کے آپ پھر قیصر باغ میں آ جاتے۔قیصر باغ کی عمارت میں سلطنت کے اسّی لاکھ صرف ہوئے تھے۔اور اُس کے چاروں طرف عمارتوں میں جہاں پناہ کی بیگمیں اور پری جمال و ماہ طلعت خاتونیں رہتیں۔جن کی جگہ اب عجیب و غریب صورتوں کو دیکھ کے،بعض پرانے زمانے والے کہہ اٹھا کرتے ہیں:
پری نہفتہ رخ و در کرشمہ و ناز
بہ سوخت عقل زحیرت کہ این چہ بو العجبی ست

قیصر باغ کے مغربی پھاٹک کے باہر،روشن الدولہ کی کوٹھی تھی۔اُسے واجد علی شاہ نے ضبط کر کے،اُس کا نام قیصر پسند رکھ دیا تھا۔اور اُن کی ایک محبوبہ،نواب معشوق محل اُس میں رہتی تھیں۔اب اُس میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی عدالت ہے۔اس کے سامنے

ریختہ صفحہ- 104

اور قیصر باغ کے اُس مغربی پہلو پر بھی ایک دوسرا جلو خانہ تھا۔
سال میں ایک مرتبہ قیصر باغ میں ایک عظیم الشان میلہ ہوتا تھا،جس میں پبلک کو بھی قیصر باغ میں آنے اور جہاں پناہ کی عشرت پرستیوں کا رنگ دیکھنے کہ موقع مل جاتا۔بادشاہ نے سری کرشن جی کا رہس،جو ہندوؤں میں مروج ہے۔دیکھا تھا۔اور سری کرشن جی کی معشوقانہ روِش عاشقی اس قدر پسند آ گئی تھی کہ اُس رہس سے،ڈراما کے طور پر ایک کھیل ایجاد کیا تھا۔جا نے خود کنہیا بنتے۔مخررات عصمت آیات گوپیاں بنتیں۔اور ناچ رنگ کی محفلیں گرم ہوتیں۔کبھی جوشِ جوانی کے جذبات سے جوگی بن جاتے۔موتیوں کو جلا کے بھبھوت بنائی جاتی۔جس کی بدولت میں بھی شاہی کے کرشمے نظر آتے۔میلے کے زمانے میں ان صحبتوں میں شریک ہونے کی عام اہلِ شہر کو اجازت ہو جاتی،مگر اُس شرط کے ساتھ کہ گیروے کپڑے پہن کے چھیلا بن جاتے اور بادشاہ کی جوانی کے بادۂ طرب سے اپنے بڑھاپے کا جام بھر لیتے۔
یہی رنگ چلا جاتا تھا اور لکھنؤ میں کمال بے فكری کے ساتھ رنگ رلیاں منائی جا رہی تھیں کہ گورنمنٹ برطانیہ کو ریزیڈنٹوں نے یہاں کے حالات سے آگاہ کیا۔اور وہاں کے بورڈ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ مُلک اودھ،قلم رو برطانیہ میں شامل کر لیا جائے۔اس حکم کی تعمیل کے لیے انگریزی فوج لکھنؤ میں آئی اور یکایک خلاف توقع بادشاہ کو حکم سنایا گیا کہ:
"آپ کا ملک،انگریزی ممالک محروسہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔آپ کے لیے بارہ لاکھ روپیہ سالانہ اور آپ کے جلوسی لشکر کے لیے تین لاکھ روپیہ ماہ وار جو آپ کے اور آپ کے وابستگان دامن کی ضرورتوں کے لیے بہ خوبی کافی ہے،مقرر کی گئی(کذا)اور آپ کی اجازت ہے کہ شہر کے اندر آرام سے بے فکرے بن کے بیٹھے اور رعایا کی فکروں سے آزاد ہو کے بے غل و غش

ریختہ صفحہ - 105

رنگ رلیاں منائیے۔"
یہ احکام سنتے ہے شہر میں سنّاٹا ہو گیا۔خود بادشاہ نے بہت رو دھو کے بہت کچھ عذر خواہی کی۔بادشاہ کی ماں اور خاص محل نے حق وکالت ادا کیا،مگر گورنر جنرل بہادر کے حکم میں ردّ و بدل کرنا،صاحب ریزیڈنٹ کے اقتدار سے باہر تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی گورنمنٹ نے بغیر کسی زحمت و مزاحمت کے ملک اودھ پر قبضہ کر لیا۔اور بادشاہ مع اپنی والدہ،ولی عہد،خاص خاص محلات اور جاں نثار رفقاء کے،کلکتے روانہ ہوئے۔کہ انگلستان جا کے اپیل کریں اور اپنی بے گناہی ثابت کرکے انتزاع سلطنت کے حکم کو منسوخ کرائیں۔
(۸)

واجد علی شاہ کی یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ تخت و تاج جدا ہوتے ہی آخر ۱۲۸۵ محمدی(۱۸۵۶)میں لکھنؤ چھوڑ کے،کلکتے کی طرف روانہ ہو گئے تا کہ اپنے معاملے میں با ضابطہ پیروی کریں اور گورنر جنرل ہند کے دربار سے کامیابی نہ ہو،تو لندن پہنچ کے،مقدمے کو پارلینٹ اور ملکۂ انگلستان کے سامنے پیش کر دیں۔چناچہ جب کلکتے میں کام نہ نکلا تو انگلستان کا قصد کیا مگر اطبا نے بحری سفر کو بادشاہ کے لیے مضر تصور کیا،اور مشیروں نے روکا نتیجہ یہ ہوا کہ خود بادشاہ تو کلکتے ہی میں ٹھہر گئے،مگر اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ ولی عہد کو انگلستان روانہ کیا۔اس سفر میں میرے نانا منشی قمر الدین صاحب مرحوم بھی اس خانماں برباد شاہی قافلے کے ساتھ تھے۔بادشاہ کو سرکار انگریزی کی مجوزہ تنخواہ لینے سے انکار تھا۔اور اڑے ہوئے تھے کہ ہم تو اپنا تخت و تاج ہی لیں گے،جو بے قصور چھینا گیا ہے۔
بادشاہ کلکتے میں تھے،اُن کا خاندان لندن میں تھا،اور معاملہ زیرِ غور تھا کہ یکایک کارتوسوں کے جھگڑوں اور گورنمنٹ کی ضد نے،۱۲۸۶ محمدی(۱۸۵۷عیسوی) میں غدر پیدا کر دیا اور میرٹھ سے بنگالے تک ایسی آگ لگی کہ اپنے پرائے سب کے گھر جل اٹھے۔اور ایسا
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 348
دالانوں کی محرابوں کے لیے عموماً پردے ضروری سمجھے جاتے۔ مگر آج کل سینٹھوں، سرکیوں یا ٹاٹ کے پردوں کا جو رواج ہے، اُن دنوں نہ تھا۔ بلکہ اس قسم کے پردے معیوب سمجھے جاتے۔ اور ان کی جگہ تول یا جاجم کے روئی دار پردے تیار کرائے جاتے جو اکثر بندھے رہتے۔ فقط ضرورت کے اوقات میں کھول کے لٹکا دیے جاتے۔ زنانی محل سراؤں کے بیرونی دروازوں پر بھی اسی قسم کے پردے ہوتے، جس کے پاس کوئی ماما یا کہاری اکثر کھڑی نظرآتی۔
(3) وضع قطع: اِس کا ذکر لباس کے سلسلے میں آچکا ہے۔ مگر اِس موقع پر ہمیں یہ بتانا ہے کہ اُن دنوں شرفا کے مذاق میں اپنے گھر پر اندر یا باہر پورے کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بلکہ سر سے پانو تک برہنہ رہنا اور فقط ایک تول کی غرقی یعنی مختصر سی لنگی باندھے رہنا معیوب نہ تھا۔ یہ غرقی اس قطع کی ہوتی کہ جانگھیا کی طرح بجز ستر پوشی کے ٹانگیں بھی ننگی رہتیں۔ فی الحال ہمارے شرفا اپنے گھر پر بھی اندر یا باہر بنیائن، کرتا اور پائجامہ پہنے رہنا لازمی سمجھتے ہیں۔ مگر جس عہد کا ہم ذکر کر رہے ہیں، اُن دنوں بظاہر ہر گھر میں اتنے کپڑے پہنے رہنا وضع داری کے خلاف تھا۔ اُس وقت بہت سے ایسے لوگ تھے جو فقط گھر سے نکلتے وقت انگرکھا، پائجامہ پہن لیتے۔ اور اس طریقے سے ایک شوب کو مہینوں تک نباہ لے جاتے۔ اور کپڑوں کی یہ حالت ہوتی کہ معلوم ہوتا کہ آج ہی دھوکے آئے ہیں۔ معمول تھا کہ دھوبی کے وہاں سے آیا ہوا انگرکھا پہنا جاتا تو اس کے دامن گوٹ اور آستینیں چُنی جاتیں۔ اِس چناوٹ کے نشان مہینوں اُسی طرح برقرار رہتے۔
ہاں عورتوں کے لباس میں البتہ کوئی فرق نہ آتا۔ وہ اپنے گھر میں اُتنے ہی کپڑے پہنے رہتیں جتنے کہیں مہمان جانے میں پہنتیں۔ یہ اور بات ہے کہ آنے جانے کا جوڑا بھاری اور قیمتی ہوتا، اور گھر میں پہننے کا معمولی۔ کسی کے وہاں مہمان جانے کی صورت

ریختہ صفحہ 349
میں مرد اور عورت دونوں عمدہ نفیس اور بھاری پوشاکیں پہن کے جاتے۔ اور لباس کی عمدگی کی وجہ سے مردانی و زنانی دونوں صحبتیں بہت صاف ستھری اور بارونق رہتیں۔
(40)
مردوں کی وضع مسلمانوں میں قدیم الایّام سے یہ چلی آتی تھی کہ سر پر بال، کتری ہوئی مونچھیں، اور ڈاڑھی گول اور مقطّع۔ مذہبی لوگ علما و زہّاد ڈاڑھی کو حسب سنّتِ نبوی بالکل چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اور مونچھوں کے قصر میں کبھی اتنا مبالغہ کرتے کہ منڈا ڈالتے۔ لیکن امراو شرفا کی وضع یہ تھی کہ ڈاڑھی کے لیے نیچے گلے کے پاس اور اوپر گالوں پر حدیں قائم کی جاتیں اور جو بال زیادہ بڑھ جاتے اُن کو کاٹ کے ڈاڑھی میں گولائی پیدا کر کے اُس کی درازی کی ایک حد مقرّر کر دی جاتی۔ سب سے پہلے شہنشاہ اکبر نے ڈاڑھی کو خیرباد کہی۔ اور اِس کے بعد جہانگیر کے منہ پر بھی ڈاڑھی نہ تھی۔ اکبرو جہانگیر کے درباریوں پر اس کا چاہے کسی حد تک اثر پڑ گیا ہو مگر امرائے اسلام کی عام وضع وہی رہی جو پہلے سے چلی آتی تھی۔
لکھنؤ میں دربار قائم ہونے کے بعد ڈاڑھی میں قصر شروع ہوا اور ہوتے ہوتے اکثر کے منہوں پر سے ڈاڑھیاں غائب ہو گئیں۔ غالباً اس کا یہ اثر ہوا کہ ہم مذہبی کی وجہ سے یہاں کے دربار پر ایرانیوں کا اثر پڑ رہا تھا۔ اور وہاں شاہانِ صفویہ کے عہد سے بادشاہوں اور امیروں میں ڈاڑھی کی وہ اہمیت نہیں باقی رہی تھی جو آغازِ السلام سے چلی آتی تھی۔ یا تو مسلمانوں میں کسی کی ڈاڑھی مونڈ دینا سزا دینے یا اُس کی تذلیل و تحقیر کرنے کے لیے تھا، یا ایران میں ڈاڑھی نہ رکھنا شانِ امارت و حکومت میں داخل ہو گیا۔ لکھنؤ کے خاندانِ نیشاپوری کے پہلے بانی نوّاب برہانُ الملک کے مُنہ پر مقطؑع ڈاڑھی

ریختہ صفحہ 350
تھی۔ شجاع الدّولہ نے ڈاڑھی مُنڈائی اور اُس کے بعد سے یہاں کے تمام اُمرا اور بادشاہ ڈاڑھیاں مُنڈاتے رہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ عام شیعوں سے ڈاڑھی کا رواج اُٹھ گیا۔ پھر بعد کے زمانے میں بہت سے سنّیوں نے بھی ڈاڑھیاں کتروائیں یا مُنڈا ڈالیں۔
ڈاڑھی مُنڈانے کا شوق پیدا ہونے کے بعد طرح طرح کی وضعیں نکلنے لگیں۔ کسی نے کانوں کے نیچے چھوٹی چھوٹی قلمیں نکالیں۔ کسی نے ٹھیکے رکھوائے۔ کسی نے بڑے بڑے گل مُچھّے رکھے۔ اطراف و جوانبِ لکھنؤ کے قصباتیوں اور بعض شہر کے سُنّیوں نے بھی یہ وضع اختیار کی کہ ڈاڑھی رکھتے مگر راجپوتوں اور ہندی پٹھانوں کے مذاق کے مطابق ڈاڑھی کے بیچ میں ٹھڈّی کے پاس مانگ نکال کے، دونوں طرف کے بالوں کو کانوں کی طرف چڑھاتے اور اِس وضع پر ڈاڑھی کے قائم رکھنے کے لیے گھنٹوں ڈھاٹا باندھے رہتے۔ پھر اُس چڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ مونچھیں بھی کنگھی کر کے اور باندھ باندھ کے اوپر کے رُخ پر چڑھائی جاتیں۔ چنانچہ یہی وضع یہاں اور سارے ہندوستان میں سپہ گری اور شجاعت کی علامت تصوّر کی جاتی۔
سر کے متعلق حضرت سرورِ کائنات صلعم کے مبارک عہد میں عام مذاق تھا کہ سر پر بڑے بڑے بال ہوتے جو حج کے زمانے میں مُنڈایا کٹوا دیے جاتے۔
مگر عرب ہی میں ظہورِ اسلام کے چند روز بعد سر منڈانے کا عام رواج ہو گیا اور یہی رواج ایران میں معلوم ہوتا ہے۔ اور مسلمان ابتداً جب ہندوستان میں آئےہیں۔ اُس وقت اُن کی وضع عموماً یہی تھی کہ منڈے ہوئے سر اور اُن پر عمامے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کے آنے کے وقت سر پر بال رکھنے کا رواج تھا۔ یہی وضع یہاں کے مسلمانوں کو پسند آئی۔ چنانچہ آخر عہد میں علما و اتفیا اور مشائخ و صوفیہ کے سوا دہلی کے شریف و وضیع کی عام وضع یہ تھی کہ سر پر بال ہوتے جو کانوں تک رہا کرتے۔ سوا بانکوں کے، جو نئی نئی دھجیں نکالا کرتے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 351

اسی وضع میں شرفائے دہلی لکھنؤ میں آئے۔ یہاں آ کے نازک مزاجیاں بڑھیں، خود آرائی کے شوق میں ترقی ہوئی اور نزاکت اور صفائی سے کنگھی کر کے ماتھے پر عورتوں کی طرح پٹّیاں جمائی جانے لگیں۔ اور ایسی دھج پیدا ہو گئی کہ نوخیز لڑکوں میں عورتوں کی سی دل کشی پیدا ہو گئی۔ پھر چند روز کے بعد جب انگریزوں سے سیکھ کے عورتوں نے ماتھا خوب کھول کے بال الٹنا شروع کیے تو یہ وضع بھی بعض بعض مردوں نے اختیار کر لی۔
اب غدر کے بعد جب انگریزی وضع قطع اختیار کی جانے لگی تو سارے ہندوستان کے لوگوں کی طرح یہاں بھی بال کٹ کے انگریزی فیشنوں کے ہو گئے۔ اور جتنے مُنہوں پر ڈاڑھیاں باقی رہ گئی تھیں، وہ بھی تشریف لے گئیں۔
عورتوں کے بالوں کی وضع غالباً لکھنؤ میں وہی ہوگی جو دہلی میں تھی۔ لیکن یہاں شاہی میں دُلھنوں اور بناوچُناو کرنے والی عورتوں کی چوٹیوں میں بڑے بڑے رنگین دوپٹّوں کے موباف ہوتے جو خوب پیچ دے کے، موخرِ دماغ سے کمر تک بٹ کے لٹکا دیے جاتے۔اور زیادہ تکلّف کے وقت اُن میں چوڑا لچکا لپیٹ دیا جاتا اور معلوم ہوتا کہ بڑی بھاری موٹی چوٹی سر تا پا چاندی کی ہے۔ ماتھے پر محراب دار پٹّیاں جمائی جاتیں۔ اور اُن کے بیچ میں چاند ٹیکے کے گرد سنہری یا روپہلی افشاں اور ستاروں سے نقش و نگار بنائے جاتے۔
ہاتھوں پانوؤں میں منہدی عورتوں کے لیے لازمی تھی۔ مگر ان کے ساتھ رنگین مزاج مردوں نے بھی کثرت سے منہدی لگانا شروع کر دی تھی۔ جس کو دیکھ کے باہر والے لکھنؤ کے مردوں میں زنانہ پن پاتے اور اُن کا نام رکھتے۔
(4) معاشرت میں چوتھی چیز اخلاق و عادات ہیں۔ اِس بات میں لکھنؤ والوں نے خصوصیت کے ساتھ نموو حاصل کی۔ یہی چیز لکھنؤ میں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہے

ریختہ صفحہ 352

اور اِس پر بحث کرنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ دراصل لکھنؤ میں ایشیائی تہذیب کو انتہائی ترقی ہو گئی اور کسی مقام کے لوگوں میں معاشرت کے وہ قواعد نہیں ملحوظِ خاطر رہتے، جن کے اہلِ لکھنؤ عادی ہو گئے ہیں۔
تہذیب دراصل اُن اخلاقی تکلّفات کا نام ہے جن کو کوئی قوم تقاضائے شرافت سمجھنے لگے۔ آج کل ہم اکثر لوگوں کو یہ کہتے دیکھتے ہیں کہ ملنے جلنے میں چنان و چنیں اور معاشرت کے تکلّفات ایک قسم کی فضول ریاکاری ہیں۔ مگر یہ اُن کی غلطی ہے۔ یوں تو فضول ریاکاری لبار اور بودوباش کا انتظام بھی ہے۔ اور بہیمیت کی زندگی چھوڑ کے، انسانیت کی زندگی اختیار کرنے کے تمام امور فضول ریاکاری کہے جا سکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جن لوگوں کو انسانی تہذیب نہیں آتی اور مہذّب لوگوں سے ملنے کا سلیقہ نہیں ہوتا، انہوں نے اپنے لیے عذرداری کا بہانہ اِس بات کو قرار دے لیا ہے کہ ہمیں شہر والوں یا مہذّب لوگوں کی ایسی دکھاوے کی باتیں نہیں آتیں۔ مگر غور کرو تو انسانیت ہی دکھاوا ہے۔
اچھّا پہننا، اچھّا سامانِ معشیت رکھنا، اچھا کھانا، اور ہر کام میں صفائی کا خیال کرنا سب دکھاوا ہے۔
تہذیبِ اخلاق کا پہلا اصول یہ ہے کہ میل جول میں دوسرے کو ہر لطف اور نفع کی بات میں اپنے اوپر فوقیت دی جائے اور آپ کو اُس کے پیچھے اور اُس سے ادنا درجے پر رکھا جائے۔ کسی کی تعظیم کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا، اُس کے لیے صدر کی جگہ کو خالی کرنا، اور اُسے صدر میں بٹھانا، اُس کےسامنے ادب سے دوزانو بیٹھنا، اُس کی باتوں کو توجّہ سے سننا اور عاجزی کے لہجے میں جواب دینا، یہ سب باتیں دوسرے کو اپنے اوپر فوقیت دینے کی ہیں۔ اور یہ جس درجے تک وضع دار شرفائے لکھنؤ میں مروّج تھیں، لکھنؤ کے عہدِ شباب کے زمانے میں اور کہیں نہ تھیں۔
یہ تو وہ باتیں ہیں جو کو ملنے جلنے کے طرزِعمل سے تعلق ہے۔ مگر یہی چیزیں
ریختہ صفحہ 353

جب اخلاق و عادات میں پوری طرح پیدا ہو جاتی ہیں تو انسان میں ایثارِ نفس کا مادّہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ آمادہ ہو جاتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ ہر طرح کی رفاقت اور ہر بات میں اُن کی اعانت کرے۔ عہدِ شاہی میں یہ چیز اہلِ لکھنؤ میں پورے کمال کے ساتھ پیدا ہو گئی تھی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یہاں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے تھے جن کا بہ ظاہر کوئی ذریعۂ معیشت نہ تھا، اُن کے احباب ایسے مخفی طریقوں سے اُن کی کفالت کرتے کہ کسی کو کبھی پتا بھی نہ چل سکتا۔ اور ذرائعِ معاش کے مخفی رہنے کے باعث وہ سفید پوشی اور امیرانہ وضع کے ساتھ بڑے بڑے امیروں کی صحبتوں میں شریک ہوتے اور کسی کے سامنے اُن کی آنکھ نیچی نہ ہوتی۔ لکھنؤ ایسے لوگوں سے بھرا ہوا تھا کہ انقلابِ سلطنت وہ گیا اور یک بہ یک اُن کے بسر کرنے کے ذریعے مفقود ہو گئے۔
اُمرا کے ایثار کی اِس شان نے یہاں شرافت کا یہی معیار قرار دے دیا تھا کہ دوسروں کے ساتھ ایسے اخلاق سے پیش آئیں اور ان کی خاطر داشت میں ایسی فیاضی دکھائیں جس میں احسان رکھنے کا نام کو بھی شائبہ نہ ہو۔ دُنیا کے تمام بڑے شہروں میں بڑے بڑے تاجر اور دولت مند موجود ہیں جو لاکھوں روپے مستحقوں کو دے ڈالتے ہیں، مگر اُن کے طرزِعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک پیسا بھی انہوں نے بے غرضی سے نہیں صرف کیا۔ بہ خلاف اِس کے، لکھنؤ والوں کی دوست پروری اور شریف نوازی ایسی تھی کہ دُنیا کو دینے اور لینے والے میں کوئی فرق نہ نظر آتا۔
اِس میں شک نہیں کہ جب بعدِ انقلابِ سلطنت بڑے بڑے اُمرا مفلس و نادار ہو گئے اور وہ گروہ جو مخفی ذرائعِ معاش پر بسر کر رہا تھا، فاقے کرنے لگا، تو امرا فیاضی و ایثارِ نفس کا جوہر دکھانے سے معذور ہو گئے۔ مگر ظاہری اخلاق جو سرشت میں داخل ہو گیا تھا، ویسا ہی باقی رہا۔ اور اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کی یہ حالت ہو گئی کہ اپنی باتوں سے تو اعلا درجے کی مہمان نوازی کی امید دلاتے ہیں، مگر اُن کے مہمان ہو جیے،

ریختہ صفحہ 354

تو اس کے خلاف ظاہر ہوتا ہے۔ اسی کو اکثر لوگوں نے ریاکاری و لفاظی سمجھ رکھا ہے۔ مگر افسوس، یہ ریاکاری نہیں بلکہ حوصلہ مندی ہے، جس کی استطاعت نہیں۔ ایسے لوگوں پر اعتراض نہ کیجیے بلکہ اُن کی حالت پر ترس کھائیے۔
لیکن اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دولت مندی کے زمانے میں چوں کہ شہر کی آبادی کا زیادہ حصہ امراو شرفا اور احباب کی مخفی دست گیری پر بسر کر رہا تھا، اس کی وجہ سے محنت، جفاکشی اور وقت کی قدروقیمت جاننے کا مادّہ علی العموم اہلِ لکھنؤ میں فنا ہو گیا اور جو مشاغل انہوں نے اختیار کیے، وہ اُن کو ترقی قومی کی شاہ راہ سے روز بہ روز دور کرتے گئے۔ اُن کے مشغلے لہو و لعب کے سوا کچھ نہ تھے۔ بےفکری، اور فکرِ معاش سے سبک دوش ہونے نے انہیں کبوتربازی، بٹیربازی، مرغ بازی، چوسر، گنجفے اور شطرنج کا شائق بنایا۔ جن کاموں پر وہ آمدنی کا زیادہ تر حصہ صرف کرنے لگے اور "اندیشۂ فردا" کے لفظ سے ساری آبادی ناآشنا تھی۔ کوئی امیر نہ تھا جو ان مزخرف کاموں میں سے کسی ایک کا دل دادہ نہ ہو۔ اور اُس شوق نے اور بہتوں کو بھی اس کام میں نہ لگایا ہو۔
عیّاشی اور تماش بینی سے دُنیا کا کوئی شہر خالی نہیں۔ خصوصاً یورپ کی سی بدتمیزی اور بدسلیقگی کی عیّا شی خدا نہ کرے کہ ہمارے شہروں میں پیدا ہو۔ لیکن لکھنؤ میں شجاع الدولہ کے زمانے میں رنڈیوں سے تعلقات پیدا کرنے کی جو بنیاد پڑی، تو روز بہ روز اُسے ترقی ہی ہوتی گئی۔ امیروں کی وضع میں داخل ہو گیا کہ اپنا شوق پورا کرنے یا اپنی شان دکھانے کے لیے کسی نہ کسی بازاری حُسن فروش سے ضرور تعلق رکھتے۔ حکیم مہدی کا سا قابل و ہوشیار اور مہذب و شایستہ شخص جو وزیرِ اعظم کے رتبے تک پہنچ گیا تھا، اس کی ترقی کی بنیاد پیار ونام ایک رنڈی سے پڑی۔ جس نے دھڑوت کی رقم اپنے پاس سے ادا کر کے اُسے ایک صوبے کا عہدہ دلوایا تھا۔ اِن بے اعتدالیوں کا ایک ادنا کرشمہ یہ تھا کہ لکھنؤ میں مشہور تھا کہ " جب تک انسان کو رنڈیوں کی صحبت نہ نصیب ہو،

ریختہ صفحہ 355

آدمی نہیں بنتا۔" آخر لوگوں کی اخلاقی حالت بگڑ گئی اور ہمارے زمانے تک لکھنؤ میں بعض ایسی رنڈیاں موجود تھیں جن کے گھر میں علانیہ اور بے باکی سے چلا جانا اور اُن کی صحبت میں رہنا معیوب نہ سمجھا جاتا۔ بہر تقدیر اِس چیز نے ایک بڑی حد تک ان کے عادات و خصائل بگاڑ دیے، گو کہ اس کے نتیجے میں انہیں نشست و برخاست کا سلیقہ بھی آ گیا۔
رہے عورتوں کے اخلاق و عادات، اس بارے میں ہمارا عام دعوا ہے کہ جن لوگوں میں زناکاری کا شوق ہو، اُن کی عورتیں پارسا نہیں ہو سکتیں۔ تا ہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لکھنؤ میں عورتوں کے اخلاق اُتنے خراب نہیں ہوئے جتنے کہ مردوں کے خراب ہوئے تھے۔ ملنساری اور اپنے ملنے والیوں کے ساتھ ادب و تعظیم سے ملنا، عورتوں میں بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ مردوں میں تھا۔ کسی زمانے میں چرخہ کاتنا شریف عورتوں کا شریفانہ مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔ اب اگرچہ سُوت کی کلوں نے اِس مشغلے کو بالکل بےکار اور بے نتیجہ کر دیا مگر شوقینی و امارت نے اس سے پہلے ہی یہ مشغلہ یہاں کی عورتوں سے چھڑوا دیا تھا۔ یہاں اِس کے عوض عورتوں کو سینے پرونے، کاڑھنے، گھروں کی صفائی کا انتظام کرنے، ماماؤں، لونڈیوں اور پیش خدمتوں سے کام لینے اور بننے سنورنے کا زیادہ شوق تھا اور بیویوں کو گھر کے کاموں اور شوہر اور بچوں کے کپڑوں سے اتنی فرصت نہ ملتی تھی کہ جن لہو و لعب کے کاموں میں مرد مبتلا ہو گئے تھے، اُن میں وہ بھی مبتلا ہوں درحقیقت اُس دور میں مرد گھروں میں بیٹھے کھیلا کرتے تھے۔ گھر بار اور دنیا کا سارا کارخانہ فقط عورتوں کے دم سے چل رہا تھا۔
مگر امیروں کے محلوں میں جب سارا کاروبار ماماؤں، مغلانیوں، پیش خدمتوں اور انّاؤں کے ہاتھ میں ہو گیا تو عالی مرتبہ بیگموں کے سامنے مجرا کرنے کے لیے ڈومنیوں کے طائفے ملازم ہوئے۔ اور جن محلوں میں مستقل طور پر ڈومنیاں نوکر نہ تھیں، وہاں
 
Top