گلی سے گزرتی رہیں لڑکیاں

الف عین

لائبریرین
یہ مصرع درست ہے سلیم کوثر کا، دونوں مصرعوں میں استعمال کا فرق ہے۔
م خیا۔۔۔ متفا ۔ میں’ میں‘ بطور ’م‘ کے بعد ’خیا‘ہے، تمہارے مصرع میں ’نے‘ جو ناگوار گزرتا ہے۔ اس کو درست عروضی اصطلاح میں کہنے سے قاصر ہون۔ آسی بھائی شاید میری مدد کریں
 

Arshad khan

محفلین
شکریہ استادِ محترم میں اسے تبدیل کر دیتا ہوں
مگر میں اس نقطہ پہ سمجھا نہیں کہ سلیم کوثر کا کیوں درست ہے اور میرا کیوں غلط اس کی وضاحت فرمائیں پلیز
 

bilal260

محفلین
ارشاد خان بہت اچھی شاعری لکھی ہے امید ہے اور بھی لکھے گے ۔شیئرنگ کا شکریہ۔بہت خوب چھا گئے ہو۔
 
یہ مصرع درست ہے سلیم کوثر کا، دونوں مصرعوں میں استعمال کا فرق ہے۔
م خیا۔۔۔ متفا ۔ میں’ میں‘ بطور ’م‘ کے بعد ’خیا‘ہے، تمہارے مصرع میں ’نے‘ جو ناگوار گزرتا ہے۔ اس کو درست عروضی اصطلاح میں کہنے سے قاصر ہون۔ آسی بھائی شاید میری مدد کریں
محمد یعقوب آسی
 
ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭتی ﺭﮨﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻬﯽ ﮐﻬﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺭﮐﮭﯽ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ

’’میں‘‘ ضمیر کی ی گرانا یا نہ گرانا کوئی اتنا بڑا تنازعہ نہیں ہے، موقع کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ تاہم یہاں جو صوتیت ہمیں حاصل ہوتی ہے، وہ ہے:
منے بھی کھلی تھی ۔۔ ۔۔ فعولن فعولن فعلن فعو(ل)۔ جو اچھا تاثر نہیں دے رہی۔
میرا اس گرانے وغیرہ کے معاملے میں بہت واضح مؤقف ہے کہ بھلے اس کی اجازت ہو؛ جہاں شعر کی جمالیاتی سطح متاثر ہوتی ہے وہاں تامل کی بات ہو گی۔ ہم شعر کہتے ہیں جمالیات کے لئے اور اگر کہیں عروضی قواعد کا حاصل (یعنی حروف و الفاظ کی حاصل شدہ صوتیت) ناگواری پیدا کرے تو اسے ترک کر دینا اولیٰ۔

اس شعر کے حوالے سے میرے اور بھی تحفظات ہیں۔ جن کے پیشِ نظر میں سفارش کرتا ہوں کہ صاحبِ غزل اس کو ترک کر دیں اور مطلع نیا کہیں۔
 
ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭتی ﺭﮨﯽ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﻬﯽ ﮐﻬﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺭﮐﮭﯽ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ

ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﮮ ﺭﮨﻨﻤﺎ
ﻋﻄﺎ ﺟﻦ ﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻡ ﺑﺪﻡ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ

ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ

ﮐﻮﺋﯽ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺟﺎﻧﮑﻨﮯ
ﮐﻬﻠﯽ ﮨﮯ ﺭﮐﮭﯽ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ

ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﻬﺮ ﺑﻬﯽ ﺗﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮬﻤﮑﯿﺎﮞ

گرامر کی بے تحاشا غلطیاں ہیں

خلیل الرحمٰن صاحب مجھے گرائمر نہیں آتی
جو کچھ لکھا ہے میری طرف سے تو اب بھی درست ہے

بحر حال آپ اگر درستی فرمائیں تو. .تشکر

شاعری کرنا ٹھہرا تو گرامر سیکھنی پڑے گی، الفاظ کے درست ہجے اور درست اعراب سیکھنے پڑیں گے۔ روزمرہ، محاورہ، ضرب الامثال کا درست استعمال سیکھنا پڑے گا۔
اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
آپ سب احباب کا بہت بہت شکریہ
کیا ابھی تک میم گزررہی ہیں برفباری میں کیا حال ہوگا جب میم فل پردے والے کپڑے میں گزرے گی اور کھڑکی کھلی رکھ کر سورہے ہوگے۔
images
 

Arshad khan

محفلین
میں کوشش کر رہا ہوں کہ یہ میمز گز جائیں مگر دماغ ساتھ نہیں دے رہا میرے بهائی
اور اگر دماغ ساتھ نہیں دے گا تو ان بچاریوں کو اسی حالت میں رہنا پڑے گا
 

Arshad khan

محفلین
گزر گئی معترض صاحبان!
مطلع ختم ہوگیا ہے

نظر آئے شاید مری دلرُبا
ﮐﻬﻠﯽ ﮨﯿﮟ رکھیں آس میں ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ

ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺮﮮ ﺭﮨﻨﻤﺎ
ﻋﻄﺎ ﺟﻦ ﻧﮯ کیں ﺩﻡ ﺑﺪﻡ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ

ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ

ﮐﻮﺋﯽ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ جھانکنے
ﮐﻬﻠﯽ ﮨﯿﮟ رکهیں ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ

ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﻬﺮ ﺑﻬﯽ ﺗﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﭼﮧ ﻣﻠﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮬﻤﮑﯿﺎﮞ

اپنی رائے سے نوازیں
 
آخری تدوین:

Arshad khan

محفلین
’’میں‘‘ ضمیر کی ی گرانا یا نہ گرانا کوئی اتنا بڑا تنازعہ نہیں ہے، موقع کے مطابق دیکھا جاتا ہے۔ تاہم یہاں جو صوتیت ہمیں حاصل ہوتی ہے، وہ ہے:
منے بھی کھلی تھی ۔۔ ۔۔ فعولن فعولن فعلن فعو(ل)۔ جو اچھا تاثر نہیں دے رہی۔
میرا اس گرانے وغیرہ کے معاملے میں بہت واضح مؤقف ہے کہ بھلے اس کی اجازت ہو؛ جہاں شعر کی جمالیاتی سطح متاثر ہوتی ہے وہاں تامل کی بات ہو گی۔ ہم شعر کہتے ہیں جمالیات کے لئے اور اگر کہیں عروضی قواعد کا حاصل (یعنی حروف و الفاظ کی حاصل شدہ صوتیت) ناگواری پیدا کرے تو اسے ترک کر دینا اولیٰ۔

اس شعر کے حوالے سے میرے اور بھی تحفظات ہیں۔ جن کے پیشِ نظر میں سفارش کرتا ہوں کہ صاحبِ غزل اس کو ترک کر دیں اور مطلع نیا کہیں۔
استاد جی مطلع ترک کر دیا ہے اور آپ سفارش کر کے شرمندہ نہ کریں پلیز
حکم سے نوازا کی جئے
 
Top