ابلی ہوئی مچھلی کھانے کا صحیح طریقہ!!!
چوں کہ سر نے مچھلی اُبالنا سیکھ لی ہے چناں چہ غالب گمان ہے کہ مزید پنجہ آزمائی فرماتے رہیں گے لہٰذا سر کا دامنِ امید تھامنے کا وقت آپہنچا ہے۔ اگرچہ سر عموماً بوشرٹ پہنتے ہیں جس کا دامن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تاہم اگر ہم اتنی باریکیوں میں جانے لگے تو کھا چکے مچھلی!!!
آمدم برسر مطلب۔ ذکر چل رہا تھا سر کی مچھلی کھانے کا۔ یہاں سر الگ اور کی الگ پڑھا جائے۔ آج کل ہر ایک خود ہی سِرکا ہوا ہے، بھلا ’’سِرکی‘‘ ہوئی مچھلی کھانے کیوں جانے لگا۔ خیر ہم چلے تھے سر کا دامن امید تھامنے کہ تنگیِ داماں کی حکایت بیان کرنے لگے۔ بہرحال کتنا ہی بھٹک جائیں کبھی نہ کبھی سر کے دامن تک پہنچ ہی جائیں گے۔
اگر آپ سر کے گھر ابلی ہوئی مچھلی کھانے پہنچنا ہی چاہتے ہیں تو اس کی ایک انتہائی غیر آزمودہ ترکیب ضرور سنتے جائیں۔ سر کے گھر جاتے سمے اپنی من پسند مچھلی جو از قسم انسان نہ ہو لے کر سر کے در پر جاکھڑے ہوں۔ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ سر آپ کے لیے مچھلی ابالیں بھی اور خریدیں بھی۔ ویسے بھی اپنے بڑوں سے اتنا کام نہیں لینا چاہیے۔ یا تو سر سے مچھلی خریدوالیں یا ابلوالیں۔ اگر سر نے مچھلی خریدی تو ابالیں گے نہیں۔ مچھلی ابلے گی نہیں تو آپ کھائیں گے کیا؟ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پلے سے روکڑا خرچیں اور مچھلی لے کر سیدھے دربارِ عالیہ تک جاپہنچیں۔
اس بات کا خیال رہے کہ مچھلی میٹرو کے علاوہ کہیں اور سے نہ لی جائے۔ اگر آپ موسیٰ کالونی سے مچھلی خریدیں گے تو سر اسے ہرگز نہیں ابالیں گے۔ کیا ایک مچھلی کی بو ہی کافی نہیں کہ سستی جگہ کی بو بھی فضاؤں میں بکھرے؟ ویسے بھی سر کا نفیس گھر اس لیے نہیں کہ قسم ہا قسم کی بوؤں سے مہکا کرے۔ قصہ مختصر اعلیٰ جگہ سے اعلیٰ قسم کی مچھلی خرید کر سر کے گھر پہنچا جائے۔
ایک تو آپ لوگوں کو سمجھانا اتنا پڑتا ہے کہ وقت کا بہت زیاں ہوتا ہے۔ اب دیکھیے ابھی تک سر کے گھر نہ پہنچ پائے۔ حالاں کہ پہلے سے سب سیکھ رکھا ہوتا تو مچھلی ابال کر کھا بھی چکے ہوتے۔ حد ہوگئی یعنی کہ!!!
بہرحال سر کے گھر پہنچ کر دروازے پر لگی بیل بجائیں۔ دھیان رہے کہ ہر وقت مہذب بننا نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے اگر آپ مہذب بنے اور سر سے فون پر آنے کی پیشگی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ کوشش تاقیامت ثمر بار نہیں ہوگی لہذا شرم و حیا رکھئیے طاق پر اور سر کے گھر کی گھنٹی بجائیے۔ یہ شرم و حیا گھر جاکر طاق سے ضرور اٹھا لیجیے گا۔ زیادہ بے شرمی پھیلانے کی بھی نہیں ہورہی!!!
گھنٹی کے جواب میں جب سر اندر سے پوچھیں کون؟ تو سچا اور ایماندار شہری ہونے کے فرائض نباہنے کی قطعاً ضرورت نہیں ورنہ بابِ حاجب کبھی وا نہ ہوگا۔ یہ مت بتائیے گا کہ ہم آپ کے ہاتھ کی مچھلی کھانے آئے ہیں۔ سر کو کیا پڑی کہ پرائی مصیبت مول لیں۔ وہ بھلا کیوں آپ کے لیے مچھلی ابالنے لگے۔ کبھی آپ نے بھی ان کے لیے کچھ ابالا ہے؟؟؟
بہرحال سر کے جواب میں سچ بولنے کی بالکل ضرورت نہیں، صاف جھوٹ بول دیں کہ بینظیر انکم سپورٹ میں آپ کا نام آیا ہے ہم آپ کو پچیس ہزار دینے آئے ہیں۔ یہ سنتے ہی جھٹ دروازہ کھلے گا اور آپ فٹ اندر داخل ہوجائیے گا۔ تعارف وعارف کا مرحلہ اندر طے ہوتا رہے گا۔ جب سر آپ کے پیچھے پیچھے اپنے ہی گھر میں داخل ہوں گے تو آپ تحریر ہذا کا حوالہ بطور رسید کے دیں اور مچھلی کی تھیلی سر کے آگے کردیں۔ سر لاکھ انکار کریں آپ سر کے سر ہوجائیں کہ آپ کے ہاتھ کی ابلی ہوئی مچھلی نہ کھائی تو زہر کھالیں گے۔ لیکن یہ صرف باتوں تک ہی رکھیے گا، سر کا پیش کیا ہوا زہر کھا مت لیجیے گا!!!
اب چوں کہ سر نے مچھلی ابالنے کا راز فاش کردیا ہے تو اس سے پِھر نہیں سکتے۔ چار و ناچار مذکورہ بالا ترکیب کے مطابق اپنے پیارے پیارے دوسری شادی کے لیے کنوارے ہاتھوں سے آپ کے لیے مچھلی ابالیں گے۔
کھا کر زندہ بچ گئے تو ہمیں بھی ذائقہ کے بارے میں ضرور بتائیے گا!!!