محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کھبی کبھی کہ ایک مچھلی سارا تالاب میلا کرتی ہے ۔
مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کھبی کبھی کہ ایک مچھلی سارا تالاب میلا کرتی ہے ۔
واہ کیا مطلب نکالا ہے آپ نے سر!!!یقیناً آپ کا مطلب ہے “گندہ”۔
مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کھبی کبھی کہ ایک مچھلی سارا تالاب میلا کرتی ہے ۔
ویس بھی سر نے مچھلی تالاب میں نہیں، ابلتے ہوئے پانی کی پتیلی میں ڈالی تھی!!!لیکن ہم نے یہ مچھلیاں تالاب سے نہیں پکڑیں، سمندری مچھلیاں تھیں بیچای، نہایت شریف النفس، معصوم اور بھولی بھالی۔ یہ کیونکر گندگی کا باعث بن سکتی ہیں؟
فرقان بھیا۔۔۔ابلی ہوئی مچھلی کھانے کا صحیح طریقہ!!!
چوں کہ سر نے مچھلی اُبالنا سیکھ لی ہے چناں چہ غالب گمان ہے کہ مزید پنجہ آزمائی فرماتے رہیں گے لہٰذا سر کا دامنِ امید تھامنے کا وقت آپہنچا ہے۔ اگرچہ سر عموماً بوشرٹ پہنتے ہیں جس کا دامن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے تاہم اگر ہم اتنی باریکیوں میں جانے لگے تو کھا چکے مچھلی!!!
آمدم برسر مطلب۔ ذکر چل رہا تھا سر کی مچھلی کھانے کا۔ یہاں سر الگ اور کی الگ پڑھا جائے۔ آج کل ہر ایک خود ہی سِرکا ہوا ہے، بھلا ’’سِرکی‘‘ ہوئی مچھلی کھانے کیوں جانے لگا۔ خیر ہم چلے تھے سر کا دامن امید تھامنے کہ تنگیِ داماں کی حکایت بیان کرنے لگے۔ بہرحال کتنا ہی بھٹک جائیں کبھی نہ کبھی سر کے دامن تک پہنچ ہی جائیں گے۔
اگر آپ سر کے گھر ابلی ہوئی مچھلی کھانے پہنچنا ہی چاہتے ہیں تو اس کی ایک انتہائی غیر آزمودہ ترکیب ضرور سنتے جائیں۔ سر کے گھر جاتے سمے اپنی من پسند مچھلی جو از قسم انسان نہ ہو لے کر سر کے در پر جاکھڑے ہوں۔ اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ سر آپ کے لیے مچھلی ابالیں بھی اور خریدیں بھی۔ ویسے بھی اپنے بڑوں سے اتنا کام نہیں لینا چاہیے۔ یا تو سر سے مچھلی خریدوالیں یا ابلوالیں۔ اگر سر نے مچھلی خریدی تو ابالیں گے نہیں۔ مچھلی ابلے گی نہیں تو آپ کھائیں گے کیا؟ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پلے سے روکڑا خرچیں اور مچھلی لے کر سیدھے دربارِ عالیہ تک جاپہنچیں۔
اس بات کا خیال رہے کہ مچھلی میٹرو کے علاوہ کہیں اور سے نہ لی جائے۔ اگر آپ موسیٰ کالونی سے مچھلی خریدیں گے تو سر اسے ہرگز نہیں ابالیں گے۔ کیا ایک مچھلی کی بو ہی کافی نہیں کہ سستی جگہ کی بو بھی فضاؤں میں بکھرے؟ ویسے بھی سر کا نفیس گھر اس لیے نہیں کہ قسم ہا قسم کی بوؤں سے مہکا کرے۔ قصہ مختصر اعلیٰ جگہ سے اعلیٰ قسم کی مچھلی خرید کر سر کے گھر پہنچا جائے۔
ایک تو آپ لوگوں کو سمجھانا اتنا پڑتا ہے کہ وقت کا بہت زیاں ہوتا ہے۔ اب دیکھیے ابھی تک سر کے گھر نہ پہنچ پائے۔ حالاں کہ پہلے سے سب سیکھ رکھا ہوتا تو مچھلی ابال کر کھا بھی چکے ہوتے۔ حد ہوگئی یعنی کہ!!!
بہرحال سر کے گھر پہنچ کر دروازے پر لگی بیل بجائیں۔ دھیان رہے کہ ہر وقت مہذب بننا نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگر آپ مہذب بنے اور سر سے فون پر آنے کی پیشگی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ کوشش تاقیامت ثمر بار نہیں ہوگی لہذا شرم و حیا رکھئیے طاق پر اور سر کے گھر کی گھنٹی بجائیے۔ یہ شرم و حیا گھر جاکر طاق سے ضرور اٹھا لیجیے گا۔ زیادہ بے شرمی پھیلانے کی بھی نہیں ہورہی!!!
گھنٹی کے جواب میں جب سر اندر سے پوچھیں کون؟ تو سچا اور ایماندار شہری ہونے کے فرائض نباہنے کی قطعاً ضرورت نہیں ورنہ بابِ حاجت کبھی وا نہ ہوگا۔ یہ مت بتائیے گا کہ ہم آپ کے ہاتھ کی مچھلی کھانے آئے ہیں۔ سر کو کیا پڑی کہ پرائی مصیبت مول لیں۔ وہ بھلا کیوں آپ کے لیے مچھلی ابالنے لگے۔ کبھی آپ نے بھی ان کے لیے کچھ ابالا ہے؟؟؟
بہرحال سر کے جواب میں سچ بولنے کی بالکل ضرورت نہیں، صاف جھوٹ بول دیں کہ بینظیر انکم سپورٹ میں آپ کا نام آیا ہے ہم آپ کو پچیس ہزار دینے آئے ہیں۔ یہ سنتے ہی جھٹ دروازہ کھلے گا اور آپ فٹ اندر داخل ہوجائیے گا۔ تعارف وعارف کا مرحلہ اندر طے ہوتا رہے گا۔ جب سر آپ کے پیچھے پیچھے اپنے ہی گھر میں داخل ہوں گے تو آپ تحریر ہٰذا کا حوالہ بطور سند کے دیں اور مچھلی کی تھیلی سر کے آگے کردیں۔ سر لاکھ انکار کریں مگر آپ بھی سر کے سر ہوجائیں کہ آپ کے ہاتھ کی ابلی ہوئی مچھلی نہ کھائی تو زہر کھالیں گے۔ لیکن یہ صرف باتوں تک ہی رکھیے گا، سر کا پیش کیا ہوا زہر کھا مت لیجیے گا!!!
اب چوں کہ سر نے مچھلی ابالنے کا راز فاش کردیا ہے تو اس سے پِھر نہیں سکتے۔ چار و ناچار مذکورہ بالا ترکیب کے مطابق اپنے پیارے پیارے، دوسری شادی کے لیے کنوارے ہاتھوں سے آپ کے لیے مچھلی ابالیں گے۔
کھا کر زندہ بچ گئے تو ہمیں بھی ذائقہ کے بارے میں ضرور بتائیے گا!!!
جی مفتی صاحب، قبلہ! ضرور، بالضرور! دراصل، ہم ان دنوں کرونا ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ابلی ہوئی مچھلی سے بھی کچھ کام لیتے ہیں۔
ہماری مخدوش یاد داشتوں میں یہ مصرع اس طرح محفوظ ہے ، سو یاد داشت کے مخدوش ہونے کی وجہ سے اسے غیر محفوظ بھی کہہ سکتے ہیں ۔چہ خوش بودی اگر بودی زبانِ خوش دہانِ من
آپ جیسے ناآشناؤں کے لیے ہی ہم نے وہ مراسلہ پوسٹ کیا تھا!!!ویسے ہم نے کبھی اُبلی ہوئی مچھلی نہیں کھائی!
تعجب ہے۔۔۔جی مفتی صاحب، قبلہ! ضرور، بالضرور! دراصل، ہم ان دنوں کرونا ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
آپ جیسے ناآشناؤں کے لیے ہی ہم نے وہ مراسلہ پوسٹ کیا تھا!!!
سر کسی صورت مچھلی پر دست شفقت نہیں رکھ رہے!!!قرائین سے ایسا گمان ہو رہا ہے کہ کچھ دنوں بعد آپ لوگ بہادرآباد میں ہوٹل کی میز پر بیٹھے اُبلی ہوئی مچھلی سے ناشتہ کرتے نظر آئیں گے۔
سر کسی صورت مچھلی پر دست شفقت نہیں رکھ رہے!!!
واقعی آپ کے اس مراسلے سے آج ہمیں معلوم ہوگیا کہ سر کتنے شقی القلب واقع ہوئے ہیں۔۔۔دستِ شفقت تو اُن کو آپ پر رکھنا چاہیے۔
مچھلی پر تو دستِ شقاوت رکھا جائے گا اُبلنے سے پیشتر۔
آپ کی باتیں تو پڑھیے اور سر دُھنیے آتی کہاں سے ہیں جناب کے اعلیٰ ترین دماغ میں ۔بندہ پاگلوں کی طرح ہنس رہا ہوتا ہے اور دیکھنے والا سمجھتا ہے واقعی بندی سرک گئییہاں سر الگ اور کی الگ پڑھا جائے۔ آج کل ہر ایک خود ہی سِرکا ہوا ہے، بھلا ’’سِرکی‘‘ ہوئی مچھلی کھانے کیوں جانے لگا۔ خیر ہم چلے تھے سر کا دامن امید تھامنے کہ تنگیِ داماں کی حکایت بیان کرنے لگے۔ بہرحال کتنا ہی بھٹک جائیں کبھی نہ کبھی سر کے دامن تک پہنچ ہی جائیں گے۔
یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپکی بدبو دار اُبلی مچھلی پوری پڑھی یہ تو پورا کڑوا کریلہ اوپر سے نیم چڑھا وہ جو مچھلی کا چمچہ اپنے کھانے کی پتلی پر رکھنا گوارہ نہ کرے وہ بدبو دار مچھلی کا پورا مضمون پڑھے۔۔۔کیونکہ وہ لکھا ہوا جناب سید عمران مفتی صاحب کے قلم کے کمالات کے ہم پہلے دن سے قائل ہیں اب چوں کہ سر نے مچھلی ابالنے کا راز فاش کردیا ہے تو اس سے پِھر نہیں سکتے۔ چار و ناچار مذکورہ بالا ترکیب کے مطابق اپنے پیارے پیارے، دوسری شادی کے لیے کنوارے ہاتھوں سے آپ کے لیے مچھلی ابالیں گے۔
کھا کر زندہ بچ گئے تو ہمیں بھی ذائقہ کے بارے میں ضرور بتائیے گا!!!
واہ واہ بے حد کمالسبق اس کہانی سے ملتا یہی ہے
سمندر کی مخلوق بھی جل پری ہے
مگر اپنا حصہ فقط ایک مچھلی
بہت خوبصورت بہت نیک مچھلی
کم از کم صبح تو اس بدبو دار اور اوپر سے اُبلی کانام نہیںقرائین سے ایسا گمان ہو رہا ہے کہ کچھ دنوں بعد آپ لوگ بہادرآباد میں ہوٹل کی میز پر بیٹھے اُبلی ہوئی مچھلی سے ناشتہ کرتے نظر آئیں گے۔
ہائے بہنا! آپ نے چکھی ہی نہیںکم از کم صبح تو اس بدبو دار اور اوپر سے اُبلی کانام نہیں