سیما علی
لائبریرین
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کیلرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہوخارِ بیاباں پر
موت آتی ہے پر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کیلرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہوخارِ بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائیمرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیزنہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سےہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
ابھی آتی ہے بُو ، بالش سے ، اُس کی زلفِ مشکیں کییہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کیابھی آتی ہے بُو ، بالش سے ، اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری. دید کو ، خوابِ زلیخا ،. عارِ بستر ہے