محمد وارث
لائبریرین
لا جواب، مکمل شعر ہے، میرا نیک مشورہ یہی ہے کہ آپ فوراً شاعری شروع کر دیں۔
چلو۔ جب فرمائش ہو ہی گئی ہے تو اپنا کچھ تازہ کلام یہاں پیش کر دوں۔
وارث۔۔ یاد ہے مصحفی کی غزل۔ کبھی اس سے بات کرنا، کبھی اُس سے بات کرنا۔۔ جس کا قافیہ بدل کر میں نے ایک شعر کہا تھا۔ بعد میں دو چار اشعار مزید ہو گئے ہیں:
کبھی بھول جانا گنتی، کبھی کچھ شمار کرنا
کوئی بات چھوڑ دینا، کوئی بار بار کرنا
جو تو سامنے بھی آئے تو میں بند کر لوں آنکھیں
مجھے راس آ گیا ہے ترا انتظار کرنا
وہی تیری شان، وعدے کرے اور بھول جائے
وہ سدا کی اپنی عادت، کہ پھر اعتبار کرنا
وہی ایک خواب اُٹھا دے ہمیں وقتِ فجر اکثر
جو کبھی نہ کر سکے ہم، وہ ہزار بار کرنا
اور یہ شعر ابھی زیرِ مرمت ہے:
یہ کہے گریز پائی، کوئی ایسی راہ بھی ہے؟
ترے کوچے سے نہ گزرے، اسے اختیار کرنا
واہ واہ، سبحان اللہ، کیا خوبصورت غزل ہے اعجاز صاحب، بہت خوب۔ سبھی اشعار بہت اچھے ہیں لیکن یہ تو بہت ہی اچھے لگے مجھے:
کبھی بھول جانا گنتی، کبھی کچھ شمار کرنا
کوئی بات چھوڑ دینا، کوئی بار بار کرنا
جو تو سامنے بھی آئے تو میں بند کر لوں آنکھیں
مجھے راس آ گیا ہے ترا انتظار کرنا
سبحان اللہ، لاجواب
میں تو فی الوقت دو شعر ہی پیش کر سکتا ہوں۔
ترے خیال کی خوشبو سے دل معطر ہے
ترے وجود سے ہے رونق جہاں اب بھی
بچھڑ کے تم سے زمانہ گزر گیا لیکن
میں دیکھتا ہوں تمھیں رو برو یہاں اب بھی
بہت اچھے اشعار ہیں آپ کے امر شہزاد صاحب، لاجواب۔
امید ہے اپنا مزید کلام بھی پیش کریں گے۔