تیسری سالگرہ ہفتۂ شعر و سخن - محفل کی تیسری سالگرہ کا جشن

محمداحمد

لائبریرین
کچھ اور انتخاب....

غزل

لہروں میں ڈوبتے رہے دریا نہیں ملا
اُس سے بچھڑ کے پھر کوئی ویسا نہیں ملا

کچھ لوگ تھوڑی دیر تو اچھے لگے مگر
ہم جس کے ہو سکیں کوئی ایسا نہیں ملا

میں اُس کو جانتا ہوں وہ جس کا نصیب ہے
کیسے اُسے بتائوں مجھے کیا نہیں ملا

وہ بھی بہت اکیلا ہے شاید مری طرح
اُس کو بھی کوئی چاہنے والا نہیں ملا

ساحل پہ کتنے لوگ مرے ساتھ تھے مگر
طوفاں کی زد میں آیا تو تنکا نہیں ملا

دو چار دن تو کتنے سکوں سے گزر گئے
سب خیریت رہی کوئی اپنا نہیں ملا

بشیر بدر
 

محمداحمد

لائبریرین
سپنے کیسے بات کریں

سپنے کیسے بات کریں
خدشوں کی زنجیر پڑی ہے نیند بھری سب آنکھوں میں
سپنے کیسے بات کریں
سپنے کس سے بات کریں
جن لوگوں کا رستہ تکتے عمریں رزقِ خاک ہویئں
اب وہ لوگ اور اُن کے سپنے دیکھنے والی
آنکھیں بجھ کر راکھ ہوئیں
راکھ کے اس انبار میں ہوں گے کیسے کیسے زندہ خواب
خوابوں کی اس راکھ کو لیکن چھیڑے کون؟
جس رستے پر چھائوں نہ پانی
اُس پر ڈالے ڈیرے کون؟
جس مٹی میں ریت ملی ہو
اُس میں کیسے باغ لگائیں
دریا ہی پایاب ہو جب تو
اس میں کشتی کیا لے جائیں
خوشبو اک آوارہ جھونکا! اس جھونکے کو گھیرے کون؟
کیسے دنیا کو بتلائوں تم ہوتے ہو میرے کون؟

امجد اسلام امجد
 

محمداحمد

لائبریرین
غزل

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا، جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اُٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریہء جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشہ بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تونے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

کس کو نیرنگیء ایام کی صورت دکھلائیں
رنگ اُڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

اسلم انصاری
 

فرخ منظور

لائبریرین
"خم خانہء جاوید" سے کچھ غیر معروف شعرا کا کلام پیش کر رہا ہوں جو اتنے زیادہ مشہور تو نہ ہو سکے لیکن کلام بہت عمدہ ہے -

قدیر احمد خان قدیر لکھنوی - ولادت 30 اگست 1890

کلمہ پڑھیں گے اور کبھی سجدا کریں گے ہم
سو سو طرح سے عرضِ تمنا کریں گے ہم

ناصح نہ پوچھ عشق میں کیا کیا کریں گے ہم
جیسا سمجھ میں آئے گا ویسا کریں گے ہم

روز اعتبارِ وعدہء فردا کریں گے ہم
توڑا کریں گے دل کو وہ جوڑا کریں گے ہم

تھوڑی بہت تو ہوگی تلافی گناہ کی
ہر گھونٹ پر شراب کے توبا کریں گے ہم

مفہوم تھا صدائے انالحق کا اے قدیر
اپنے سوا کسی کو نہ سجدا کریں گے ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادا تو خوب ہے غنچوں کے مسکرانے کی
مگر جو خیر رہے میرے آشیانے کی

ہمیں پہ چرخ نے توڑے مظالمِ دنیا
ہمیں پہ ختم ہوئیں گردشیں زمانے کی

حضور غور سے دیکھیں لہو کے اشکوں کو
ہر ایک قطرہ ہے سرخی مرے فسانے کی
 
واہ سعود بھائی! کیا ہی اچھوتا خیال لائے ہیں۔۔۔ لاجواب

بہت شکریہ عمار بھائی۔ :)

در اصل یہ شعر فرمائشی تھا۔ کسی نے مجھ سے شعر لکھنے کو کہا وراثت کے عنوان پر۔ میں نے کہا بھئی کچھ اور بتائیے کیا کچھ بیان کرنا ہے۔ پر جواب تھا نہیں کچھ نہیں یہ بھی آپ کو ہی سوچنا ہے۔ اور جلدی لکھ کر دینا ہے۔ خیر امتحانات چل رہے تھے اور صبح پرچہ دینے جانا تھا۔ وہ تو کہئے امتحانات تھے اس لئے رات ہی میں کچھ موزوں ہو گیا نہیں مشکل ہی تھی۔ اب بھی سوچتا ہوں امتحانات آئیں تو کچھ لکھنے کا اتفاق ہو کہ میری اکثر تک بندیاں امتحانوں کی مرہون منت ہیں۔ :)

سعود بھائی

پہلی دفعہ آپ کی کوئی تحریر پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور اس تحریر نے دل موہ لیا، اتنا اچھا لکھتے ہیں آپ اُسے بھی تک بندی کہتے ہیں یہ آپ کی انکساری اور بڑا پن ہے۔

بہرحال بہت عمدہ خیال اور بہت بہترین انداز، دل خوش ہوا۔ اس ناچیز کی جانب سے نذرانہء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔ قبول کیجے۔

اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے (آمین)
[/b]

بہت شکریہ محمد احمد بھائی۔ :) بس یہ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے اور کچھ بھی نہیں۔

بہت خوب سعود بھائی بہت خوب

خرم جونئیر بھائی! خیر اب آپ کو کیا کہیں۔ اچھا خیر بہت بہت شکریہ۔ :) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)

میراث

وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!

وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!

ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!

وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!

اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!
--
سعود ابن سعید

بہت اچھے اشعار ہیں سعود صاحب، لا جواب، دل کو لگتے ہیں۔

 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب میں صرف دو ٹیگز شامل کر سکا ہوں۔ دو سے زیادہ پر Error آرہا ہے۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ دو ٹیگ ہی شامل کر سکتے ہیں :)

میں نے تھریڈ شروع کیا تھا سو میں پانچ کر سکتا تھا، اس زمرے کے موڈریٹر پچیس یا پچیس تک جتنے رہتے ہوں، ٹیگ شامل کر سکتے ہیں۔
 
بہت اچھے اشعار ہیں سعود صاحب، لا جواب، دل کو لگتے ہیں۔


بہت شکریہ وارث بھائی آپ لوگوں کی تعریف کسی بیش بہا انعام سے کم نہیں ہے۔

خیر مزاقاً عرض کر دوں کہ اب تو مجھے ورثے میں کچھ صندوق بھی ملے ہیں۔ جنہیں کسی طور خرم جونئیر بھائی سے بچانا ہے۔ :) ورنہ لوگ اس سے تعلقات وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
مشہور ہے کہ شعراء کرام جب شعر کہتے ہیں تو جب تک سنا نہ دیں کسی کو، ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہےئ۔ اس خاکسار کے ساتھ الٹی واردات ہوئی۔
پرسوں پیر کو میرے پیٹ میں درد اور بد ہضمی کی شکایت ہع گئی تھی اور میں چھٹی پر تھا۔ اسی شام کو کچھ اشعار کا۔۔ بلکہ مکمل غزل کا نزول ہوا:
عرض کر رہا ہوں:

شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
یہ خواب میں ہنسنے والے بچے تو سب نے دیکھے
جب آنکھ بیدار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
جو نامکمل تھی جوٗری، کچھ فیصلہ تو ہوتا
کمی جو اس بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
عبید جب اپنی تازہ غزلیں سنا رہے تھے
جو روح سرشار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
 
واہ واہ۔۔۔۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔!
شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا​

یہ مشاعرہ ہوتا تو میں ان اشعار پر مکرر مکرر کہتا۔ :)
 

ملائکہ

محفلین
یہاں تو بہت خوصورت کلام پوسٹ ہورہا ہے
کچھ میری طرف سے بھی



دنیائے رنگ و بو کی وہ صورت نہیں رہی
یا آئینوں میں کشف و کرامات نہیں رہی
کیوں اڑ رہی ہیں وقت کے رخ پر ہوائیاں
کیا کائنات میں کوئی رنگت نہیں رہی
اک انقلاب طرز معشیت میں ہےبپا
پہلی سی خوش گوار طبیعت نہیں رہی
انسان قیمتوں میں تھا اعلیٰ تو قدر تھی
بے قدر یوں ہے آج کہ قیمت نہیں رہی
خاصے کی چیز چشم عنایت نہیں رہی مگر
اب چشم رہ گیا ہے عنایت نہیں رہی
آپس میں رسم و راہ کا فقدان ہوگیا
ویوانہ وار ملنے کی عادت نہیں رہی
تعبیر بن کے خواب کی آتے ہیں خواب میں
افسوس ان کو اتنی بھی فرصت نہیں رہی
کیوں آج دل بھی ترک تعلق پہ ہے مصر
کیا دھڑکنوں کو اسکی ضرورت نہیں رہی
مختار شاعری کے بدلتے نصاب میں
اسلوب رہ گیا ہے فصاحت نہیں رہی


سید مختار اجمیری
 

ملائکہ

محفلین
کبھی بن سنور کے جو آگئے تو بہار حسن دکھا گئے
میرے دل کو داغ لگا گئے، یہ نیا شگوفہ دکھا گئے
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
مرے پاس آتے تھے دم بدم، وہ جدا نہ ہوتے تھے ایک دم
یہ دکھایا چرخ نے کیا ستم کہ مجھی سی آنکھ چرا
جو ملاتے تھے میرے منہ سے منہ کبھی لب سے لب کبھی دل سے دل
جو غرور تھا وہ انھیں یہ تھا وہ سبھی غرور کو ڈھا گئے
بندھے کیوں نہ آنسوؤں کی جھڑی کہ یہ حسرت ان کے گلے پڑی
وہ جو کاکلیں تھیں بڑی بڑی وہ انہی کے بیچ میں آگئے

بہادر شاہ ظفر
 
"تجزیہ"

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
!


پھر بھی جب بھی تو پاس نہیں ہوتی
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن!

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن!

پھر بھی شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں
تری ہر بات سوچتا ہوں میں
کون سے پھول تم کو بھاتے ہیں
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن!

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن
!


پھر بھی احساس سے نجات نہیں
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے
دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں
جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن!
(جاں نثار اختر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ظہور اللہ خان نوا (خُم خانہء جاوید سے)

تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا

گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پرفسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا

دیوانہء پری کو کب اُنس اِنس سے ہو
جو اس کے در پہ بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا

خوبانِ حور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا

دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزاروں
پر تو وہ سنگ دل ہے بیرونِ در نہ آیا

غمازیوں نے ڈالے آپس میں تفرقے یہ
برسوں ہوئے کہ واں کا کوئی اِدھر نہ آیا

کس کس اذیتوں سے مارا “نوا“ کو تو نے
کچھ بھی خدا کا ظالم تجھ کو حذر نہ آیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
مولوی رضا علی وحشت (خم خانہء جاوید سے)

در مدحِ مرزا غالب

ظہوری ہو کہ طالب تیرے دل کا راز کیا سمجھے
ادا دانی کو تیری عرفئ شیراز کیا سمجھے

حزیں یہ شیوہء فکرِ چمن پرداز کیا سمجھے
تری ترکیب کیا جانے ترے انداز کیا سمجھے

ہوا ہے رشک افزائے عجم ہندوستاں تجھ سے
بنی یہ سرزمیں دلی کی گویا اصفہاں تجھ سے
 

فرخ منظور

لائبریرین
میر بہادر علی وحشت (خُم خانہء جاوید سے)

نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم
محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم

ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود پنہاں ہیں ہم

صبر و تاب و تواں کے جانے سے
ہائے گم کردہ کارواں ہیں ہم

دل کو لے کر خبر بھی دل کی نہ لی
پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم

آ کے جلدی کرو مسیحائی
اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم

آئینہ دیکھنے نہ دیویں گے
جانتے ہو کہ بدگماں ہیں ہم

کم کوئی ہوگا موردِ آفات
جس قدر زیرِ آسماں ہیں ہم
 
Top