خرم شہزاد خرم
لائبریرین
بہت خوب سعود بھائی بہت خوب
واہ سعود بھائی! کیا ہی اچھوتا خیال لائے ہیں۔۔۔ لاجواب
سعود بھائی
پہلی دفعہ آپ کی کوئی تحریر پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور اس تحریر نے دل موہ لیا، اتنا اچھا لکھتے ہیں آپ اُسے بھی تک بندی کہتے ہیں یہ آپ کی انکساری اور بڑا پن ہے۔
بہرحال بہت عمدہ خیال اور بہت بہترین انداز، دل خوش ہوا۔ اس ناچیز کی جانب سے نذرانہء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔ قبول کیجے۔
اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے (آمین)[/b]
بہت خوب سعود بھائی بہت خوب
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)
میراث
وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!
وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!
ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!
وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!
اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!
--
سعود ابن سعید
وارث صاحب میں صرف دو ٹیگز شامل کر سکا ہوں۔ دو سے زیادہ پر Error آرہا ہے۔
بہت اچھے اشعار ہیں سعود صاحب، لا جواب، دل کو لگتے ہیں۔
شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا