خرم شہزاد خرم
لائبریرین
مجھے تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ٹیگ کیسے لگاتے ہیں
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)
میراث
وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!
وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!
ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!
وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!
اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!
--
سعود عالم ابن سعید
کتبہ: 8 مارچ، 2007