تیسری سالگرہ ہفتۂ شعر و سخن - محفل کی تیسری سالگرہ کا جشن

ٹیگ پٹی پر بائیں جانب "ٹیگز کو مدون کریں" تحریر ہے اس پر کلک کریں اور نمودار ہونے والے ٹیکسٹ ایریا میں متعلقہ کی الفاظ کو کاما (،) کے ذریعہ علیٰحدہ کر کر کے لکھ دیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود
ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ !

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ آفتاب کیا ، یہ سپہرِ بریں ہے کیا !
سمجھا نہیں تسلسلِ شام و سحر کو میں

اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں

کُھلتا نہیں مرے سفرِ زندگی کا راز
لاؤں کہاں سے بندۂ صاحب نظر کو میں

حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

”جاتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وہ دوریوں کا رہِ آب پر نشان کھلا
وہ رینگنے لگی کشتی وہ بادبان کھلا
مرے ہی کان میں سرگوشیاں سکوت نے کیں
مرے سوا کبھی کس سے یہ بے زبان کھلا
سمجھ رہا تھا ستارے جنہیں وہ آنکھیں ہیں
مری طرف نگران ہیں کئی جہان کھلا
مرا خزانہ ہے محفوظ میرے سینے میں
میں سو رہوں گا یونہی چھوڑ کر مکان کھلا
ہر آن میرا نیا رنگ ہے نیا چہرہ
وہ بھید ہوں جو کسی سے نہ میری جان کھلا
جزا کہیں کہ سزر اس کو بال و پر والے
زمیں سکڑتی گئی، جتنا آسمان کھلا
لہو لہو ہوں سلاخوں سے سر کو ٹکرا کر
شکیبؔ بابِ قفس کیا کہوں کس آن کھلا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکیب کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے

برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انھیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرا دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہوجائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہوجائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرز براندام ہوجائے

مثال ایسی ہے اس دور ِخرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ اور صحرا نام ہوجائے

شکیبؔ اپنے تعارف کیلئے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے
 

محمد وارث

لائبریرین
میر تقی میر کا ایک لطیفہ بہت مشہور ہے۔

ان سے لکھنو میں کسی نے پوچھا، "کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے۔"

میر صاحب نے کہا، "ایک تو سودا ہے اور دوسرا خاکسار، اور پھر کچھ تامل سے بولے، آدھے خواجہ میر درد"۔

اس شخص نے کہا۔ "حضرت، اور میر سوز؟"

میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا، "میر سوز بھی شاعر ہیں؟"

اس نے کہا، "آخر بادشاہ آصف الدولہ کے استاد ہیں۔"

میر صاحب نے کہا، "خیر اگر یہ بات ہے تو پونے تین سہی۔" :)



انہی 'چوتھائی شاعر' سید محمد میر سوز کی ایک غزل پیش ہے:

یہ تیرا عشق کب کا آشنا تھا
کہاں کا جان کو میری دھرا تھا

وہ ساعت کونسی تھی یا الہٰی
کہ جس ساعت دو چار اس سے ہوا تھا

میں، کاش اس وقت آنکھیں موند لیتا
کہ میرا دیکھنا، مجھ پر بلا تھا

میں اپنے ہاتھ، اپنے دل کو کھویا
خداوندا، میں کیوں عاشق ہؤا تھا

ولے کیا آن تھی، اللہ اللہ
کہ جس غمزے سے چھاتی پر چڑھا تھا

وہ مجھ کو ذبح کرتا تھا چُھری سے
میں اس کی تیز دستی تک رہا تھا

نہ تھا اس وقت، جز اللہ، کوئی
ولے یہ سوز پہلو میں کھڑا تھا
 

محمد وارث

لائبریرین
اکبر الٰہ آبادی کے تین قطعات

وفاتِ سر سید مرحوم پر

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے، کرنے والے میں

کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

--------

ایک خط بنام منشی نثار حسین لکھنؤی

نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجیئے
اس فصل میں جو بھیجیئے بس آم بھیجیئے

ایسے ضرور ہوں کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر ہوں بیس تو دس خام بھیجیئے

معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجیئے

ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی، پہلے مگر دام بھیجیئے

-----------

دعوت نامہ بنام علامہ شبلی نعمانی

آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
بس صاف یہ ہے کہ بھائی شبلی

تکلیف اٹھاؤ آج کی رات
کھانا یہیں کھاؤ آج کی رات

حاضر جو کچھ ہو دال دلیا
سمجھو اس کو پلاؤ قلیا

(اکبر الٰہ آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیکھنا ہر صُبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ مطلعِ انوار کا

یاد کرنا ہر گھڑی اُس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دلِ بیمار کا

آرزوئے چشمہء کوثر نہیں
تشنہ لب ہوں شربتِ دیدار کا

عاقبت کیا ہووے گا؟ معلوم نہیں
دل ہوا ہے مبتلا دِلدار کا

مسندِ غل منزلِ شبنم ہوئی
دیکھ رتبہ دیدہء بیمار کا

اے ولی کیوں سُن سکے ناصح کی بات
جو دِوانا ہے پری رخسار کا

(ولی دکنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جب صنم کو خیالِ باغ ہوا
طالبِ نشّہء فراغ ہوا

فوجِ عشاق دیکھ ہر جانب
نازنیں صاحبِ دماغ ہوا

رشک سے تجھ لباں کی سرخی پر
جگرِ لالہ داغ داغ ہوا

دلِ عشاق کیوں نہ ہو روشن
جب خیالِ صنم چراغ ہوا

اے ولی گل بدن کو باغ میں دیکھ
دلِ صد چاک باغ باغ ہوا

(ولی دکنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سے کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سے کہوں گا

دی باد شہی حق نے تجھے حُسن نگر کی
یہ کشورِ ایراں میں سلیماں سے کہوں گا

دیکھا ہوں تجھے خواب میں اے مایہء خوبی
اِس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سے کہوں گا

(ولی دکنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
صحنِ گلشن میں جب خرام کیا
سرو آزاد کو غلام کیا

کاملیت کا تجھ کو تھا دعویٰ
حق نے دعویٰ ترا تمام کیا

غمزہء شوخ نے بہ نیم نگاہ
کام عشاق کا تمام کیا

تجھ دہن نے کہ میم معنی ہے
دلِ سیماب میں مقام کیا

تا کہے خلق تجھ کو ماہِ تمام
زلف تیری کو حق نے لام کیا

گل رخاں خوف سے ہوئے یکسو
تجھ نگہہ نے جب اہمتمام کیا

تام تیرا ولی نے اے اکمل
شوق سے ورد صبح و شام کیا

(ولی دکنی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کتاب الحسن کا یہ مکھ صفا ترا صفا دِستا
ترے ابرو کے دو مصرع سوں اس کا ابتدا دِستا

ترا مکھ حسن کا دریا و موجاں چین پیشانی
اُپر ابرو کی کشتی کے یو تل جیوں ناخدا دِستا

ترے لب ہیں‌برنگ حوضِ کوثر مخزنِ خوبی
یہ خال عنبریں تس پر بلال آسا کھڑا دِستا
(ولی دکنی)
 
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)

میراث

وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!

وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!

ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!

وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!

اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!

--
سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 8 مارچ، 2007
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت خوب جا رہا ہے یہ سلسلہ۔ بہت عمدہ کلام پیش کیا ہے سب دوستوں نے اب تک۔ خاص طور پرمیں امید اور محبت، وارث صاحب، خرم شہزاد خرم صاحب، سارہ خان صاحبہ، سخنورصاحب کا ممنون ہوں‌ کہ انہوں‌ نے اتنا عمدہ کلام پیش کیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)

میراث

وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!

وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!

ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!

وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!

اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!

--
سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 8 مارچ، 2007

سعود بھائی

پہلی دفعہ آپ کی کوئی تحریر پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور اس تحریر نے دل موہ لیا، اتنا اچھا لکھتے ہیں آپ اُسے بھی تک بندی کہتے ہیں یہ آپ کی انکساری اور بڑا پن ہے۔

بہرحال بہت عمدہ خیال اور بہت بہترین انداز، دل خوش ہوا۔ اس ناچیز کی جانب سے نذرانہء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔ قبول کیجے۔

اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے (آمین)
 
Top