محمد وارث
لائبریرین
انشاءاللہ جلدی ہی کچھ پوسٹ کرتی ہوں۔
لیکن پہلے میری پہلی فرمائش بھی نوٹ کر لی جائے۔ اگر ممکن ہو تو 'اے دیس سے آنے والے بتا' (اختر شیرانی والی نہیں بلکہ جو احمد فراز نے لکھی ہے) پوسٹ کریں پلیز۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد تو نہیں آ رہا لیکن شاید یہ نظم 'تنہا تنہا' میں شامل ہے۔
یہ خوبصورت کلام فراز کی کتاب 'نابینا شہر میں آئینہ' کا دیباچہ سمجھنا چاہیئے کہ اپنے ہاتھ سے انتساب لکھنے کے بعد اسے بھی خود لکھا ہے اور نیچے تاریخ وغیرہ بھی لکھی ہے۔
اے دییس سے آنے والے بتا
وہ شہر جو ہم سے چھُوٹا ہے، وہ شہر ہمارا کیسا ہے
سب دوست ہمیں پیارے ہیں مگر وہ جان سے پیارا کیسا ہے
شب بزمِ حریفاں سجتی ہے یا شام ڈھلے سو جاتے ہیں؟
یاروں کی بسر اوقات ہے کیا ہر انجمن آرا کیسا ہے
جب بھی میخانے بند ہی تھے اور وا درِ زنداں رہتا تھا
اب مفتیٔ دیں کیا کہتا ہے، موسم کا اشارہ کیسا ہے
میخانے کا پندار گیا، پیمانے کا معیار کہاں
کل تلخیٔ مے بھی کَھلتی تھی، اب زہر گوارا کیسا ہے
وہ پاس نہیں احساس تو ہے، اک یاد تو ہے اک آس تو ہے
دریائے جدائی میں دیکھو تنکے کا سہارا کیسا ہے
ملکوں ملکوں گھومے ہیں بہت، جاگے ہیں بہت روئے ہیں بہت
اب تم کو بتائیں کیا یارو دنیا کا نظارا کیسا ہے
یہ شامِ ستم کٹتی ہی نہیں، یہ ظلمتِ شب گھٹتی ہی نہیں
میرے بدقسمت لوگوں کی، قسمت کا ستارہ کیسا ہے
اے دیس سے آنے والے مگر تم نے تو نہ اتنا بھی پوچھا
وہ کَوی جسے بن باس ملا، وہ درد کا مارا کیسا ہے
تازہ ترین
احمد فراز
15 اکتوبر 83
نیویارک
فرحت میں نے نظم پوسٹ کر دی اب آپ بھی اپنا انتخاب ہمارے ساتھ شیئر کیجیئے