محمد وارث
لائبریرین
مشہور ہے کہ شعراء کرام جب شعر کہتے ہیں تو جب تک سنا نہ دیں کسی کو، ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہےئ۔ اس خاکسار کے ساتھ الٹی واردات ہوئی۔
پرسوں پیر کو میرے پیٹ میں درد اور بد ہضمی کی شکایت ہع گئی تھی اور میں چھٹی پر تھا۔ اسی شام کو کچھ اشعار کا۔۔ بلکہ مکمل غزل کا نزول ہوا:
عرض کر رہا ہوں:
شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
یہ خواب میں ہنسنے والے بچے تو سب نے دیکھے
جن آنکھ بیدار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
جو نامکمل تھی جوٗری، کچھ فیصلہ تو ہوتا
کمی جو اس بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
عبید جب اپنی تازہ غزلیں سنا رہے تھے
جو روح سرشار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
واہ واہ لا جواب، اعجاز صاحب، کیا خوبصورت غزل ہے، کیا لاجواب اشعار ہیں، کیا ردیف ہے، کیا تیزی ہے، کیا روانی ہے، کیا کاٹ ہے، کیا بات ہے، واہ واہ واہ۔ اس غزل کا ایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ 'حالتِ نزول' کی چیزے دیگری ہے۔ لا جواب!
(اعجاز صاحب، 'جو نامکمل تھی' کہ بعد مجھے ایک ڈبہ نظر آ رہا ہے، درست فرمادیں گے تو عین نوازش آپ کی)۔