ہمارا گاؤں

شمشاد

لائبریرین
گاؤں قدرت کے خاصے قریب ہوتے ہیں۔ وہاں پر شہروں کی سی گہما گہمی اور نفسا نفسی کا عالم نہیں ہوتا۔ اس لیے سال میں چند دن گاؤں میں ضرور گزارنے چاہییں۔
 
گاؤں قدرت کے خاصے قریب ہوتے ہیں۔ وہاں پر شہروں کی سی گہما گہمی اور نفسا نفسی کا عالم نہیں ہوتا۔ اس لیے سال میں چند دن گاؤں میں ضرور گزارنے چاہییں۔
بالکل۔لیکن آجکل گاؤں بھی نفسا نفسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
حسیب بھائی آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، پھر بھی گاؤں میں ابھی بھی سادگی پائی جاتی ہے، رشتوں ناطوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ کُھلی تازہ ہوا اور ہریالی ہی ہریالی سے طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ٹاہلی اور کیکر دو الگ الگ درخت ہیں۔ دونوں ہی پھل نہیں دیتے۔

ٹاہلی کی لکڑی بہت مضبوط اور دیرپا ہوتی ہے۔ اس کو فرنیچر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ٹاہلی کا درخت کہیں دس سال کے بعد جا کر اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی لکڑی استعمال کی جا سکے۔ پنجاب کے بعض دیہاتوں میں یہ بات مشہور ہے کہ لڑکی پیدا ہوتے ہی ٹاہلی کا ایک درخت لگا دیتے ہیں۔ کہ اس کی شادی پر اس درخت کی لکڑی سے جہیز کے لیے فرنیچر وغیرہ بن سکے۔ یادرہے کہ دیہاتوں میں لڑکیوں کی شادی نوعمری میں ہی کر دیتےہیں۔

کیکر کے درخت میں کانٹے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اور خاصے بڑے بڑے کانٹے ہوتے ہیں۔ چیل، کوا کیکر پر ہی اپنے گھونسلے بناتے ہیں کہ کوئی اس درخت پر کانٹوں کی وجہ سے چڑھ نہیں سکتا۔
لیکن بھیا مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ میری پوسٹ کے نیچے کیوں لکھا انہوں نے ٹاہلی اور کیکر۔
 

شمشاد

لائبریرین
انہوں نے نجانے کیوں لکھا؟ لیکن آپ نے "ٹاہلی اور کیکر؟" لکھا تو میں سمجھا کہ آپ ٹاہلی اور کیکر کے متعلق جاننا چاہتی ہیں۔ اس لیے تھوڑی سی تفصیل لکھ دی۔
 
حسیب بھائی آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، پھر بھی گاؤں میں ابھی بھی سادگی پائی جاتی ہے، رشتوں ناطوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ کُھلی تازہ ہوا اور ہریالی ہی ہریالی سے طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔
بالکل اس بات پر تو میں سو فیصد متفق ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
چلتے ہیں اب نہر کنارے
PA140174_zps4b495b1e.jpg

کس قدر حسین !
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حسیب بھائی آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں، پھر بھی گاؤں میں ابھی بھی سادگی پائی جاتی ہے، رشتوں ناطوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ کُھلی تازہ ہوا اور ہریالی ہی ہریالی سے طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔

میرا تو دل چاہتا ہے زندگی بھی گاؤں میں گزاری جائے
 
درست کہا ، ایسا ہی ہوتا ہو گا ، شہر ہو یا گاؤں ایک ہی جگہ رہتے ہوئے یکسانیت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔
میرے خیال میں شہر میں زیادہ اکتاہٹ ہوتی ہے بہ نسبت گاؤں کے
میرے گھر کے سامنے سرسبز کھیت دکھائی دیتے ہیں۔میں جب بھی چھت پر کھڑا ہو کر اس طرف دیکھتا ہوں تو ہر بار نیا لگتا ہے
اور مزا آتا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کون سے گاؤں گئی تھیں اور کتنا عرصہ قیام کیا تھا؟

چند ایک میں جانا ہوا تھا لیکن ہم کھیل کود میں لگے رہتے تھے تو تفصیلات اور نام نہیں معلوم ایک تو روہی کا کوئی گاؤں تھا شاید ایک ہفتہ رکے تھے یا اس سے بھی کم۔ بہت مشکل رستہ تھا پہلے بس میں پہنچے وہاں پھر آگے وہاں کوئی سڑک نہیں تھی اور باقی رستہ اونٹ پر بیٹھ کر جانا پڑا تھا اس سب رستے میں ریت تھی، لیکن جب وہاں پہنچ گئے تو بہت مزے آئے ہمارے۔ بہت صاف ستھرا گاؤں تھا اور کچے گھر زیادہ تر۔ اور دور دورتک بہت سارے کھیت ہی کھیت، اور فصلیں ، گنے کے بہت سارے کھیت تھے اور کپاس کے بہت سے کھیت تھے، ہم لوگ دن بھر کھیتوں میں گھسے کھیلتے رہتے صرف کھانا کھانے بڑی مشکل سے نکلتے کھیتوں سے اور سب بچے مقابلہ کرتے تھے کپاس چننے کا اور تھیلے بھر بھر کر بیچتے تھے ایک دکان تھی کپاس کی وہاں جا کے۔ اور مقابلہ ہوتا تھا کہ کس نے زیادہ کپاس جمع کی اور زیادہ پیسے جمع کیے :happy: پھر پارٹی کرتے تھے ۔ واپسی کا سفر پھر اونٹ پر تھا :skull: یعنی جہاں سڑک تھی وہاں تک۔

ایک اور گاؤں وزیرآباد کا تھا لیکن گاؤں کا نام نہیں معلوم کیا تھا شاید دو دن رکے تھے۔ وہاں آدھا دن کھیل کود میں گزر جاتا تھا اور آدھا دن ماموں کے دوست کے رشتہ داروں سے ملنے جانا پڑتا تھا فالتو میں ۔ اب بڑے بوڑھوں میں ہم بچوں کا بھلا کیا کام لیکن مجبوری تھی جانا پڑتا تھا ، وہاں ماموں کے دوست کا گھر تھا اور ان کے رشتہ داروں کے گھر تھے تو ماموں کے دوست بہت سے گھروں میں اپنے رشتہ داروں سے ملانے کے لیے لے جاتے تھے۔ وہاں کے گھر پکے تھے اور گلیاں بھی پکی بنی ہوئی تھیں کچے مکانات بھی تھی لیکن سب گلیاں اور گھر بہت صاف ستھرے تھے اور بہت تنگ تنگ گلیاں بھی تھیں
 
Top