شمشاد
لائبریرین
بہت اچھا لگا پڑھ کر۔چند ایک میں جانا ہوا تھا لیکن ہم کھیل کود میں لگے رہتے تھے تو تفصیلات اور نام نہیں معلوم ایک تو روہی کا کوئی گاؤں تھا شاید ایک ہفتہ رکے تھے یا اس سے بھی کم۔ بہت مشکل رستہ تھا پہلے بس میں پہنچے وہاں پھر آگے وہاں کوئی سڑک نہیں تھی اور باقی رستہ اونٹ پر بیٹھ کر جانا پڑا تھا اس سب رستے میں ریت تھی، لیکن جب وہاں پہنچ گئے تو بہت مزے آئے ہمارے۔ بہت صاف ستھرا گاؤں تھا اور کچے گھر زیادہ تر۔ اور دور دورتک بہت سارے کھیت ہی کھیت، اور فصلیں ، گنے کے بہت سارے کھیت تھے اور کپاس کے بہت سے کھیت تھے، ہم لوگ دن بھر کھیتوں میں گھسے کھیلتے رہتے صرف کھانا کھانے بڑی مشکل سے نکلتے کھیتوں سے اور سب بچے مقابلہ کرتے تھے کپاس چننے کا اور تھیلے بھر بھر کر بیچتے تھے ایک دکان تھی کپاس کی وہاں جا کے۔ اور مقابلہ ہوتا تھا کہ کس نے زیادہ کپاس جمع کی اور زیادہ پیسے جمع کیے پھر پارٹی کرتے تھے ۔ واپسی کا سفر پھر اونٹ پر تھا یعنی جہاں سڑک تھی وہاں تک۔
ایک اور گاؤں وزیرآباد کا تھا لیکن گاؤں کا نام نہیں معلوم کیا تھا شاید دو دن رکے تھے۔ وہاں آدھا دن کھیل کود میں گزر جاتا تھا اور آدھا دن ماموں کے دوست کے رشتہ داروں سے ملنے جانا پڑتا تھا فالتو میں ۔ اب بڑے بوڑھوں میں ہم بچوں کا بھلا کیا کام لیکن مجبوری تھی جانا پڑتا تھا ، وہاں ماموں کے دوست کا گھر تھا اور ان کے رشتہ داروں کے گھر تھے تو ماموں کے دوست بہت سے گھروں میں اپنے رشتہ داروں سے ملانے کے لیے لے جاتے تھے۔ وہاں کے گھر پکے تھے اور گلیاں بھی پکی بنی ہوئی تھیں کچے مکانات بھی تھی لیکن سب گلیاں اور گھر بہت صاف ستھرے تھے اور بہت تنگ تنگ گلیاں بھی تھیں
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری زندگی میں یہی سات یا آٹھ دن گاؤں میں گزارے۔
مری رائے میں ایک سال میں کم از کم دو ہفتے تو کسی گاؤں میں گزاریں۔