سیما علی
لائبریرین
وقت کاوقت کی پابندی۔
ہمارے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں دعوتیں کی جاتی ہیں ان میں اوقات کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا اور مہمان ۔ ایک یا دو گھنٹے۔ تک تاخیر سے پہنچ رہے ہوتے ہیں ۔ اس بات پر کوئی حیرت یا اعتراض نہیں کیا جاتا گویا یہ یہ سب میزبانوں اور مہمانوں نے بطور نارمل روٹین تسلیم کیا ہوا ہے ۔شہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے چند منٹ کی تاخیر تو ٹریفک یا پارکنگ کے پیش نظر کسی حد تک نظر انداز کی جاسکتی ہے لیکن دو گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی بڑھ کر وقت کا ضیاع ایک تکلیف دہ حقیقت ہے ۔
ضیا ع
ہمارا
قومی شعار بن چکا ہے ہم شادی بیاہ ہو دفتر
سب آہستہ آہستہ اس میں شامل ہوتے جارہے دانستہ یا نا داستہ
ہماری کوشش یہ ہوتی ہے اگر بہت زیادہ دیر ہو تو اہل خانہ سے بچتے ہوئے اپنا لفافہ کوشش کرکے جاتے کے ساتھ حوالے کرتے ہیں اگر دولہا کی طرف شرکت کرتے ہیں تو دولہا کو اور اگر دولہن کی طرف سے شرکت ہو تو دلہن کو
دے کر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح اپنا وقت ضائع ہونے سے بچاتے ہیں ۔۔
سب سے حیرت انگیز رویے لوگوں کے ہیں کہ آپس میں تو بات کرتے نظر آتے ہیں !!! مگر انفرادی طور
بہتری لانے کی کوشش نہیں کرتے ۔۔۔ہمارے خالہ زاد بھائی اس معاملے میں مثال ہیں انھوں نے اپنے بیٹے
کی بارات کا وقت نو بجے رات کا کہا اور انھوں نے کہا اگر تین لوگ بھی وقت پر آئیں گے تو میں بارات لیکر چلا جاؤں گا
اسی لئے عمل بھی کیا بھابھی ناراض ہوگئیں
کہ انکے بھائی نہیں پہنچے
پر بھائی صاحب لے کر وقت پر بارات پہنچ گئے اور مثال قائم کی
یہی ہے وقت کی ضرورت اپنے طور پر کوشش تو کی جائے ۔۔۔