ہم کو تکیہ تھا استخارے پر

صابرہ امین

لائبریرین
میڈم ایسے ہی اپنی ناقص علمی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مشورہ ہے اگر اس شعر میں

اذن پرواز دے کے ظالم نے
کاٹ ڈالے ہیں سب ہمارے پر
اس میں ایک معمولی تبدیلی اگر یوں کر لیں ۔۔۔۔۔۔ ----تو معنی میں کافی فرق نہیں آجائے گا ؟
اذن پرواز دے دی ظالم نے
کاٹ ڈالے ہیں جب ہمارے پر
؟؟؟
راحیل بھائی نے اس شعر سے متعلق ایک عمدہ وضاحت دے دی ہے۔ مگر آپ آئندہ بھی مشورہ سے بلاتکلف نوازیے گا۔ اصلاح سخن میں پیش کرنے کا مقصد ہی یہی ہے۔ آپ کا بہت شکریہ اکمل زیدی بھائی
 

اکمل زیدی

محفلین
اکمل بھائی، اذن مذکر ہے ،
دوسرے یہ کہ اس صورت میں پہلے مصرعے میں "تب" کی کمی کھلتی. ہے.
سمجھ گیا احسن بھائی اور آپ کا مشورہ زیادہ احسن ہے ۔۔۔کیونکہ اس سے شعر کے حسن میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔۔اور ہمارا جو شعر کو رُخ دینا مقصود تھا وہ بھی کما حقہ پورا ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔
 

سید عمران

محفلین
مگر آپ آئندہ بھی مشورہ سے بلاتکلف نوازیے گا۔
یہ کسی کو کیا مشورہ دیں گے خود انہیں لینے کے دینے پڑگئے۔۔۔
ضرورت کیا تھی بلاوجہ شعر و شاعری سے پنگے لینے کی۔۔۔
بیٹھے بٹھائے بے ز تی خراب ہوگئی ناں احسن بھائی کے ہاتھوں!!!
اکمل بھائی، اذن مذکر ہے ،
دوسرے یہ کہ اس صورت میں پہلے مصرعے میں "تب" کی کمی کھلتی. ہے.
 

سید عمران

محفلین
جی بزرگوار ، ایک مضمون عنایت کیجیے۔ منتظرم
تکیہ پر مضمون ہم بچپن میں لکھا کرتے تھے جب نیا نیا پین ہاتھ میں لیا تھا۔ اس سے پہلے پین استعمال کرنے کی ممانعت تھی صرف پنسل خرید کر دی جاتی تھی۔ ہم اپنے سے بڑوں کو پین استعمال کرتے دیکھ کر مچلتے تو یہ کہہ کر بہلا دیا جاتا کہ پہلے پنسل سے لکھائی پختہ اور رواں کرو، کیونکہ قلم سے لکھنے کے بعد مٹایا نہیں جاسکتا۔
بہرحال جب پین سنبھالنے کی عمر آئی تو خود کو نہ سنبھال سکے۔ سب سے پہلی شامت تکیہ کی آئی۔ کیونکہ یہی وہ جنس غیر نایاب تھی جو جگہ جگہ دستیاب تھی۔ جب ہمارے ہاتھ کی صفائی پر اماں کی نظر پڑتی تو ہماری طبیعت صاف کرتیں۔ اماں پوچھتیں یہ کیا ہے؟ ہم کبھی جواب دیتے کہ یہ گلاب کا پھول بنایا ہے، کبھی کسی ہنرمندی کے پہاڑ ہونے کا یقین دلاتے تو کبھی سامنے والی پڑوسن آنٹی کی شبیہہ بتاتے۔ مگر اماں کو ان سب سے چنداں رغبت نہ تھی۔ وہ سب کو فضولیات قرار دے کر ہماری فنکاری کو تکیہ کے غلاف کی بربادی تصور کرتیں۔
ایک دن ہم نے ڈائریکٹ تکیہ پر پینٹنگ کرنے کے بجائے کاغذ پر اپنی بے مثل ہنرمندی کے نمونے بکھیرے، پھول پتے بنائے اور گوند لگا کر تکیہ پر چپکادئیے۔ لیکن سماج دشمن عناصر بھی بھلا کبھی پوزیٹیو ہوئے ہیں۔ اماں تیز پنکھا چلاتی جاتیں اور ہمارے پھول پتے اکھاڑ اکھاڑ کر ہوا میں بکھیرتی جاتیں۔ پنکھے کی تیز ہوا سے خشک ہوتے پتے بھی ہوا دینے لگے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہم نے جن تکیوں پر اپنی انگلیاں فگار کرکرکے ایسے نادر شاہی نقوش ثبت کیے تھے ان تکیوں نے بھی ہمارے حق میں کوئی گواہی نہیں دی۔ الٹا ہمارے ہی پتے ہمیں ہی ہوا دینے لگے۔ بس اس قیامت خیز دن کے ٹھیک بارہ بجے یہ محاورہ ایجاد ہوگیا۔۔۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!!!
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم بجھے، دل بجھا، امید بجھی
بخت کے ڈوبتے ستارے پر
یعنی کہ امید پر دنیا قائم ہے ۔۔۔ کو بس جھوٹی تسلی ہی جانا جائے؟
دل دیا اس کو درد کے بدلے
ہم کو ہے ناز اس خسارے پر
:ROFLMAO: :ROFLMAO: :ROFLMAO:
نہ کریں صابرہ آپا۔۔۔۔ ایسے خسارے اور آج کے دور میں؟
دل کے بدلے دل ہی لینا چاہئیے۔۔۔ حالانکہ کہ وہ بھی خسارے کا سودا ہی ہوتا ہے۔

اذن پرواز دے کے ظالم نے
کاٹ ڈالے ہیں سب ہمارے پر
کٹے پر پھر سے اُگ آتے ہیں آپا۔۔۔ جیسے ہماری نیناں کے اگ آئے۔ پہلے اسے ہتھیلی پہ بٹھا کر دانہ کھلانا پڑتا تھا مگر اب خود ہی اڑ کر باقیوں کے ساتھ دانہ چُگ لیتی ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
@یہ کسی کو کیا مشورہ دیں گے خود انہیں لینے کے دینے پڑگئے۔۔۔
ضرورت کیا تھی بلاوجہ شعر و شاعری سے پنگے لینے کی۔۔۔
بیٹھے بٹھائے بے ز تی خراب ہوگئی ناں احسن بھائی کے ہاتھوں!!!
بھئی اب تو ضرور دیں گے ۔۔۔آفیشلی بہت اصرار کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ :cool:
مگر آپ آئندہ بھی مشورہ سے بلاتکلف نوازیے گا
رہی بات بے زتی کی تو ہم اسے گل و گلزار ہونا سمجھتے ہیں ۔۔کہ دانہ مل کے مٹی میں ۔۔۔۔والا شعر یاد ہے نا۔۔۔اور ۔۔استاد جی سے اتنے ڈنڈے پڑے ہیں یہاں پر کہ اب یہ تو محسوس بھی نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ :D
 

سید عمران

محفلین
رہی بات بے زتی کی تو ہم اسے گل و گلزار ہونا سمجھتے ہیں ۔۔کہ دانہ ۔۔۔۔والا شعر یاد ہے نا۔۔۔اور ۔۔استاد جی سے اتنے ڈنڈے پڑے ہیں یہاں پر کہ اب یہ تو محسوس بھی نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔
نہ ہی آپ دانہ ہیں نہ ہی اب بچے رہے۔۔۔
اس لیے ڈنڈے کھانے والی باتیں نہ کیا کریں!!!
 

اکمل زیدی

محفلین
نہ ہی آپ دانہ ہیں نہ ہی اب بچے رہے۔۔۔
اس لیے ڈنڈے کھانے والی باتیں نہ کیا کریں!!!
سچ میں استاد جی نے ایک اصلاح سخن میں ایسے طور پر اصلاح کی تھی کے باز آئے۔۔۔اب لکھتے بھی ہیں تو خود استاد بن جاتے ہیں اور پھر ہم خود کلامی کرتے ہیں کہ غالب ، ذوق یا آتش ہوتے تو مقابلہ ہوتا ۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
تکیہ پر مضمون ہم بچپن میں لکھا کرتے تھے جب نیا نیا پین ہاتھ میں لیا تھا۔ اس سے پہلے پین استعمال کرنے کی ممانعت تھی صرف پنسل خرید کر دی جاتی تھی۔ ہم اپنے سے بڑوں کو پین استعمال کرتے دیکھ کر مچلتے تو یہ کہہ کر بہلا دیا جاتا کہ پہلے پنسل سے لکھائی پختہ اور رواں کرو، کیونکہ قلم سے لکھنے کے بعد مٹایا نہیں جاسکتا۔
بہرحال جب پین سنبھالنے کی عمر آئی تو خود کو نہ سنبھال سکے۔ سب سے پہلی شامت تکیہ کی آئی۔ کیونکہ یہی وہ جنس غیر نایاب تھی جو جگہ جگہ دستیاب تھی۔ جب ہمارے ہاتھ کی صفائی پر اماں کی نظر پڑتی تو ہماری طبیعت صاف کرتیں۔ اماں پوچھتیں یہ کیا ہے؟ ہم کبھی جواب دیتے کہ یہ گلاب کا پھول بنایا ہے، کبھی کسی ہنرمندی کے پہاڑ ہونے کا یقین دلاتے تو کبھی سامنے والی پڑوسن آنٹی کی شبیہہ بتاتے۔ مگر اماں کو ان سب سے چنداں رغبت نہ تھی۔ وہ سب کو فضولیات قرار دے کر ہماری فنکاری کو تکیہ کے غلاف کی بربادی تصور کرتیں۔
ایک دن ہم نے ڈائریکٹ تکیہ پر پینٹنگ کرنے کے بجائے کاغذ پر اپنی بے مثل ہنرمندی کے نمونے بکھیرے، پھول پتے بنائے اور گوند لگا کر تکیہ پر چپکادئیے۔ لیکن سماج دشمن عناصر بھی بھلا کبھی پوزیٹیو ہوئے ہیں۔ اماں تیز پنکھا چلاتی جاتیں اور ہمارے پھول پتے اکھاڑ اکھاڑ کر ہوا میں بکھیرتی جاتیں۔ پنکھے کی تیز ہوا سے خشک ہوتے پتے بھی ہوا دینے لگے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہم نے جن تکیوں پر اپنی انگلیاں فگار کرکرکے ایسے نادر شاہی نقوش ثبت کیے تھے ان تکیوں نے بھی ہمارے حق میں کوئی گواہی نہیں دی۔ الٹا ہمارے ہی پتے ہمیں ہی ہوا دینے لگے۔ بس اس قیامت خیز دن کے ٹھیک بارہ بجے یہ محاورہ ایجاد ہوگیا۔۔۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!!!
واہ واہ عمران بھائی کیا برجستگی پائی ہے آپ نے برجستہ شعر تو بہت سنا تھا مگر برجستہ مضمون اور وہ بھی خوب ۔۔:applause:
 
Top