گُلِ یاسمیں
لائبریرین
ہاں استانی۔۔۔ لیکن ہماری اردو پھر سے کمزور پڑنے لگی ہے۔ پہلے جیسی روانی سے نہیں لکھی جا رہی اس غیر حاضری کی بدولت۔ بار بار اٹک جاتی ہے جیسے اسپیڈ بریکر ہوں سڑک پہ۔نہیں استانی ۔۔۔
ہاں استانی۔۔۔ لیکن ہماری اردو پھر سے کمزور پڑنے لگی ہے۔ پہلے جیسی روانی سے نہیں لکھی جا رہی اس غیر حاضری کی بدولت۔ بار بار اٹک جاتی ہے جیسے اسپیڈ بریکر ہوں سڑک پہ۔نہیں استانی ۔۔۔
نمک ملے پانی کا گلاس پاس رکھئیے ایسی صورتِ حال کے لئےایسا نہ کہیں ہم دل پر لے کر بیٹھیں یا نہ بیٹھیں مگر آپ کی بات ہمارا دل ضرور بٹھا دے گی ۔ ۔ ۔
آداب عرض ہے۔۔۔واہ واہ عمران بھائی کیا برجستگی پائی ہے آپ نے برجستہ شعر تو بہت سنا تھا مگر برجستہ مضمون اور وہ بھی خوب ۔۔
🤕 یہ کچھ یوں بنتی ہے صورت ۔ ۔ ۔آپ کو کامیاب و کامران دیکھنا ہمارا مقصد حیات ہے۔۔۔
اگر ان چکروں میں پڑ گئے تو کس کام کے رہیں گے؟؟؟
کچھ بھی ہو بس تیری صورت دیکھا چاہیے (ناشتہ پر)!!!🤕 یہ کچھ یوں بنتی ہے صورت ۔ ۔ ۔
لبیک لبیک ۔۔۔یا اخی ۔ ۔ ۔کچھ بھی ہو بس تیری صورت دیکھا چاہیے (ناشتہ پر)!!!
ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے۔۔۔۔ واقعی میں ۔واہ واہ عمران بھائی کیا برجستگی پائی ہے آپ نے برجستہ شعر تو بہت سنا تھا مگر برجستہ مضمون اور وہ بھی خوب ۔۔
مضمون سے پہلے ہی معلوم تھا کسی مذموم حرکت کا ذکر خیر ہو گا اور وہی ہوا!!تکیہ پر مضمون ہم بچپن میں لکھا کرتے تھے جب نیا نیا پین ہاتھ میں لیا تھا۔ اس سے پہلے پین استعمال کرنے کی ممانعت تھی صرف پنسل خرید کر دی جاتی تھی۔ ہم اپنے سے بڑوں کو پین استعمال کرتے دیکھ کر مچلتے تو یہ کہہ کر بہلا دیا جاتا کہ پہلے پنسل سے لکھائی پختہ اور رواں کرو، کیونکہ قلم سے لکھنے کے بعد مٹایا نہیں جاسکتا۔
بہرحال جب پین سنبھالنے کی عمر آئی تو خود کو نہ سنبھال سکے۔ سب سے پہلی شامت تکیہ کی آئی۔ کیونکہ یہی وہ جنس غیر نایاب تھی جو جگہ جگہ دستیاب تھی۔ جب ہمارے ہاتھ کی صفائی پر اماں کی نظر پڑتی تو ہماری طبیعت صاف کرتیں۔ اماں پوچھتیں یہ کیا ہے؟ ہم کبھی جواب دیتے کہ یہ گلاب کا پھول بنایا ہے، کبھی کسی ہنرمندی کے پہاڑ ہونے کا یقین دلاتے تو کبھی سامنے والی پڑوسن آنٹی کی شبیہہ بتاتے۔ مگر اماں کو ان سب سے چنداں رغبت نہ تھی۔ وہ سب کو فضولیات قرار دے کر ہماری فنکاری کو تکیہ کے غلاف کی بربادی تصور کرتیں۔
ایک دن ہم نے ڈائریکٹ تکیہ پر پینٹنگ کرنے کے بجائے کاغذ پر اپنی بے مثل ہنرمندی کے نمونے بکھیرے، پھول پتے بنائے اور گوند لگا کر تکیہ پر چپکادئیے۔ لیکن سماج دشمن عناصر بھی بھلا کبھی پوزیٹیو ہوئے ہیں۔ اماں تیز پنکھا چلاتی جاتیں اور ہمارے پھول پتے اکھاڑ اکھاڑ کر ہوا میں بکھیرتی جاتیں۔ پنکھے کی تیز ہوا سے خشک ہوتے پتے بھی ہوا دینے لگے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ہم نے جن تکیوں پر اپنی انگلیاں فگار کرکرکے ایسے نادر شاہی نقوش ثبت کیے تھے ان تکیوں نے بھی ہمارے حق میں کوئی گواہی نہیں دی۔ الٹا ہمارے ہی پتے ہمیں ہی ہوا دینے لگے۔ بس اس قیامت خیز دن کے ٹھیک بارہ بجے یہ محاورہ ایجاد ہوگیا۔۔۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!!!
ہم ایسے اہل علم کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں!!!اہل علم اس کا صحیح ماخذ بتا کر خواہ مخواہ شرمندہ کر سکتے ہیں۔
شکر ہے خبطی نہیں کہا!!ہم ایسے اہل علم کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں!!!
ہم ایک نیا بزنس اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔پہلے ہی معلوم تھا
نہ نہ ایسا نہ کہیں اب ایسی بھی مذموم نہیں ۔۔۔ایک تو آپ کی فرمائش پر انہوں نے مضمون لکھ مارا اور آپ نے اسے مذمومیت کے کھاتے میں ڈال دیا ۔۔پتہ تو ہے اپنے عمران بھائی بچپن سے ہی ناٹی ناٹی ہیں ۔۔۔اور اب پچپن میں بھی نہیں بدلے ۔ ۔ ۔پہلے ہی معلوم تھا کسی مذموم حرکت کا ذکر خیر ہو گا
یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔شکر ہے خبطی نہیں کہا!!
اب دیکھیں ناں آپ نے ہمارے حق میں اتنی اچھی بات کی ہے تو کیا ہم آپ کو ناشتہ بھی نہیں کراسکتے!!!نہ نہ ایسا نہ کہیں اب ایسی بھی مذموم نہیں ۔۔۔ایک تو آپ کی فرمائش پر انہوں نے مضمون لکھ مارا اور آپ نے اسے مذمومیت کے کھاتے میں ڈال دیا ۔۔پتہ تو ہے اپنے عمران بھائی بچپن سے ہی ناٹی ناٹی ہیں ۔۔۔اور اب پچپن میں بھی نہیں بدلے ۔ ۔ ۔
اور اس بار عمران بھائی کی خوبصورت کور ڈرائیو فیلڈر بال کے پیچھے ۔۔۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
انڈر اسٹوڈ ہے!!!
لیں ہم تو سیٹ پر سیٹ ہو کر بیٹھ گئے اگر ایسا چا نَس بننے کی امید ہے تو۔۔۔اب دیکھیں ناں آپ نے ہمارے حق میں اتنی اچھی بات کی ہے تو کیا ہم آپ کو ناشتہ بھی نہیں کراسکتے!!!
سو سال کیوں کم کر دیے آپ نے!!اب پچپن میں بھی نہیں بدلے ۔ ۔ ۔