رضوان نے کہا:
شمشاد نے کہا:
ان کے ہاں بزرگ ان کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہیں۔ وہ اصل میں سکول نہیں جا سکے تھے اور یہ کالج اور یونیورسٹی تک ہو آئے
نئی ہم نے بزرگوں کو بھی کئی دفعہ اسکول دکھوایا۔ جب کبھی ٹیچروں کو شکایت لگانی ہوتی تھی اور بات ان کے اختیار سے بڑھ جاتی تو پھر بزرگ بھی اسکول دیکھ آتے تھے۔
کالج تک ہمیں باہر کی باتیں باہر تک محدود رکھنے کا ڈھنگ آگیا تھا۔
یونیورسٹی والوں کو تو ہم خود کہتے تھے کہ بھئی شکایت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاکہ بزرگوں کو وہ کچھ یاد آئے جو بھولے بیٹھے ہیں۔
ایک صاحب نے اپنے دوست سے نئی نسل کی بے راہ روی شکایت کر رہے تھے ‘ میں نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں اس لئے داخل کروایا تھا کہ اعلی تعلیم حاصل کر لے گا ، مگر وہ وہاں نشہ کرکے خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ گھومتا رہتا ہے ،
دوست نے دلاسا دیا اور کہا ‘ آج کل کےنوجوان یونیورسٹیوں میں ایسی حرکیتیں کرتے ہی رہتے ہیں ‘،
باپ کے منہ سے اک سرد آہ نکلی اور وہ بے اختیار بولا‘
اس سے تو اچھا تھا کہ میں بیٹے کو دوکان پر بیٹھاتا اور خود یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتا ،