تیری یادوں سے لپٹ کر سوگئی
اپنے بستر میں سمٹ کر سوگئی
اس طرف سے یاد ِماضی نے چھواُ
اس طرف کروٹ پلٹ کر سوگئی ۔۔۔
چھوڑ دی خالی جگہ تیرے لئیے
اور ادھر تھوڑا سا ہٹ کر سوگئی
تھا خیالِ یار کا حملہ
ڈھیٹ تھی میں بھی کہ ڈٹ کر سوگئی
چاندنی راتیں، ادھر وہ، ادھرِ ِ میں
کیا کہوں ٹکڑوں میں بٹ کر سوگئی
ماہ رخ موت آگئی ہے بے وقت کیوں
میں جہاں والوں سے کٹ کر سوگئی ۔