سارہ خان
محفلین
اس شام وہ رخصت کا سماں یار رہے گا
وہ شہر ، وہ کوچہ ، وہ مکاں یاد رہے گا
وہ ٹیس کے ابھری تھی اِدھر یاد رہے گی
وہ درد کے اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا
ہاں بزم شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا
کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرے
اک درد کا تھا جن میں بیاںیاد رہے گا
جاں بخش سی اک برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاںیاد رہے گا
(ابنِ انشا)
وہ شہر ، وہ کوچہ ، وہ مکاں یاد رہے گا
وہ ٹیس کے ابھری تھی اِدھر یاد رہے گی
وہ درد کے اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا
ہاں بزم شبانہ میں ہمیں شوق جو اس دن
ہم تو تری جانب نگراں یاد رہے گا
کچھ میر کے ابیات تھے، کچھ فیض کے مصرے
اک درد کا تھا جن میں بیاںیاد رہے گا
جاں بخش سی اک برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا، ہمیں ہاںیاد رہے گا
(ابنِ انشا)