م
محمد سہیل
مہمان
وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نِباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مِرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، شکائتیں، وہ مزے مزے کی حکائتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سُنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذِکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کہ ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مُبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نِباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مِرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، شکائتیں، وہ مزے مزے کی حکائتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سُنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذِکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کہ ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مُبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو