نہ رنگ و روپ کی طرح نہ خدوخال کی طرح
وہ میرے من میں بسا ہے کسی ملال کی طرح
میں راستہ ہوں اور تمھاری یاد قافلہ ہے جو
گزر رہی ہے مجھ سے میرے ماہ و سال کی طرح
درد میں ڈوبی صبحیں ہیں نیر میں بھیگی شامیں ہیں
اپنے جیون میں کیا ہے بس یادیں ہی یادیں ہیں۔۔۔۔۔۔
قسمیں ساری رسمیں تھیں وعدے سارے بہلاوے تھے
کون کسی کا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مجھے فرصت ہی فرصت ہے
سویرے جلد اٹھنا ہے
نہ شب کو دیر سے سونا
کہیں باہر نہیں جانا
کسی سے بھی نہیں ملنا
نہ کوئی فکر لاحق ہے
نہ کوئی یاد باقی ہے
مگر یہ آخری مصرعہ
ذرا سا جھوٹ لگتا ہے
(زہرہ نگار)