محب علوی
مدیر
یعنی آپ نے تدوین کر کے خوفزدہ مراسلے کو بہادرانہ مراسلہ بنانے کی کوشش کی ہے لیکن خوف پھر بھی صاف جھلک رہا ہے کہ غالب کے شعر تک میں سے لفظ "ہائے" تک حذف کر دیا مبادا اسے علامتِ شکوہ نہ سمجھ لیا جاوے
اصل مصرع یوں ہے:
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا
جی بالکل۔۔۔ سب کچھ مفت میسر ہوتا ہےنذر نیاز کے طور پر
دیکھ لو حال اپنا کہ محبتوں کے دھاگے پر خوف کے پہرے بٹھا دیے ہیں تم نے ۔