عرفان سعید
محفلین
ہوش کب تھا؟ٹرمپ کے بے ہوش ہونے کی وڈیو جو وائرل ہورہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟؟؟
ہوش کب تھا؟ٹرمپ کے بے ہوش ہونے کی وڈیو جو وائرل ہورہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟؟؟
راتوں رات کیے جانے والے کاموں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے...
ویسے حد ہوگئی یعنی کہ...
چوروں کو پڑ گئے مور!!!
میری گزارش تو بس اتنی ہے کہ ان کی قابلیت کو اوور ایسٹیمیٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ غیر ضروری کریڈٹ ان کے کھاتے میں ڈال کر انہیں کوئی بڑی توپ سمجھتے رہیں۔پھر آپ لوگ کہتے ہیں یہودی سازشی قوم نہیں ہے۔ ایسی اخلاقی تنزلیاں یہودیوں کی تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔
جو قوم اپنے پیغمبروں تک کو نہ بخشے ان کا دفاع کرنا خود ایک فکری اور اخلاقی پستی کی علامت ہے۔
اس بارے میں کئی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان جب محسوس کرتا ہے کہ حالات اس کے اختیار سے بالکل ہی باہر ہیں تو وہ اپنے آس پاس ہونے والے رینڈم واقعات کے پیچھے بھی "ایجنسی" یا "ارادے" کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ جس کو آپ نے ان الفاظ میں بہت خوبی کے ساتھ بیان کیا کہ "اس کشاکش میں محض تماشہ دیکھنے والے بے بس لوگ قیاس آرائی کا ہی سہارا لیا کرتے ہیں"۔بہت خوب!
بہت متوازن تبصرہ!
مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان دن بہ دن پسپائی کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کے رہبرانِ ملت اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کو اس صورتحال سے نکال سکیں۔ سو ایک کشاکش ہے اور اس کشاکش میں محض تماشہ دیکھنے والے بے بس لوگ قیاس آرائی کا ہی سہارا لیا کرتے ہیں۔ اور یہ کہ اکثر اوقات اُن کے بدترین خدشات حقیقت کا روپ دھار کر اُن کے سامنے آ جاتے ہیں۔
سادی سی بات ہے کہ امت مسلمہ کو باکردار اور باعمل رہنماؤں کی ضرورت ہے جو کہ فی الحال نایاب ہیں
اصولآ تو چوری، قتل وغارت، قبضہ گیری، لوٹ مار، وئیپنز آف ماس ڈسٹرکشن والی آئی کیو اور دوسرے ممالک کے معاملات میں ہرممکن دخل اندازی کوئی قابلیت نہیں کہ اسے اوور اسٹیمیٹ کیا جائے۔میری گزارش تو بس اتنی ہے کہ ان کی قابلیت کو اوور ایسٹیمیٹ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ غیر ضروری کریڈٹ ان کے کھاتے میں ڈال کر انہیں کوئی بڑی توپ سمجھتے رہیں۔
اسی پر مزید اضافہ:اس بارے میں کئی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان جب محسوس کرتا ہے کہ حالات اس کے اختیار سے بالکل ہی باہر ہیں تو وہ اپنے آس پاس ہونے والے رینڈم واقعات کے پیچھے بھی "ایجنسی" یا "ارادے" کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ جس کو آپ نے ان الفاظ میں بہت خوبی کے ساتھ بیان کیا کہ "اس کشاکش میں محض تماشہ دیکھنے والے بے بس لوگ قیاس آرائی کا ہی سہارا لیا کرتے ہیں"۔
اس موضوع پر 10 مقالے پڑھیں اور ریسرچ گیپ معلوم کریںاسی پر مزید اضافہ:
Whitson, J. A., Galinsky, A. D., & Kay, A. (2015). The emotional roots of conspiratorial perceptions, system justification, and belief in the paranormal. Journal of Experimental Social Psychology, 56, 89–95.
The emotional roots of conspiratorial perceptions...
Highlights
- Uncertain emotions activate a need to imbue the world with order and structure.
- They increase government defense and belief in conspiracies and the paranormal.
- Only the uncertainty of emotions and not their valence affects compensatory control.
پیرانارمیلیٹی اور حقیقت دو الگ موضوعات ہیں۔اس موضوع پر 10 مقالے پڑھیں اور ریسرچ گیپ معلوم کریں
اس موضوع پر 10 مقالے پڑھیں اور ریسرچ گیپ معلوم کریں
پڑھنا بہت اوکھا کام ہے۔ اسائنمنٹ حل کرنی ہو تو الگ بات ہے۔2. "Belief in conspiracy theories appears to be driven by motives that can be characterized as epistemic (understanding one’s environment), existential (being safe and in control of one’s environment), and social (maintaining a positive image of the self and the social group)."
Douglas, K. M., Sutton, R. M., & Cichocka, A. (2017). The Psychology of Conspiracy Theories. Current Directions in Psychological Science, 26(6), 538–542.
SAGE Journals: Your gateway to world-class research journals
3. "Specifically, Douglas, Sutton and Cichocka (2017) argued that people aredrawn to conspiracy theories when—compared withnonconspiracy explanations—they seem tosatisfy important social psychologicalmotives that can be characterised as epistemic (e.g., the desire for understanding, accuracy, and subjective certainty), existential (e.g., the desire for control and security), and social (e.g., the desire to maintain a positive image of the self or group). We outline each of these motives in turn, highlighting evidence that people are drawn to conspiracy theories for these reasonsin particular, and not because they will simply believe anythingthey hear."
Douglas, K., Sutton, R. M., & Cichocka, A. (2019). Belief in conspiracy theories: Looking beyond gullibility. In The Social Psychology of Gullibility (pp. 61-76). Routledge.
http://www.sydneysymposium.unsw.edu.au/2018/chapters/DouglasSSSP2018.pdf
4. "Evidence suggests that the aversive feelings that people experience when in crisis-fear, uncertainty, and the feeling of being out of control-stimulate a motivation to make sense of the situation, increasing the likelihood of perceiving conspiracies in social situations."
van Prooijen, J.-W., & Douglas, K. M. (2017). Conspiracy theories as part of history: The role of societal crisis situations. Memory Studies, 10(3), 323–333.
SAGE Journals: Your gateway to world-class research journals
5. "People endorse conspiracy theories particularly when they experience existential threat, that is, feelings of anxiety or uncertainty often because of distressing societal events. At the same time, such feelings also often lead people to support groups frequently implicated in conspiracy theories (e.g., the government). ...... Moreover, once formed conspiracy theories are not functional to reduce feelings of existential threat; instead, conspiracy theories can be a source of existential threat in itself, stimulating further conspiracy theorizing and contributing to a generalized conspiracist mindset."
van Prooijen, J.-W. (2020). An existential threat model of conspiracy theories. European Psychologist, 25(1), 16–25.
https://psycnet.apa.org/record/2019-76840-001
باقی کے پانچ آپ خود پڑھ لیجیے گا۔
خوب۔سوال یہ ہے کہ سازشی نظریہ کہہ کر بہت ساری حقیقتوں سے آنکھیں کیسے چرائیں؟
پیرانارمیلیٹی اور حقیقت دو الگ موضوعات ہیں۔
ڈاکٹر محمد مشتاق لکھتے ہیں:
کورونا: سازشی نظریات کیوں مسترد کیے جائیں؟
یہ بھی ایک فیشن بن چکا ہے کہ جہاں بھی مغربی آقاؤں، بالخصوص امریکا، پر زد پڑتی ہے، تو فوراً ہی "سازشی نظریہ"، "سازشی نظریہ" کی گردان شروع کردو۔
بھئی سازشی نظریہ ہی سہی، کیا سازشیں ہوتی نہیں ہیں؟
کیا امریکا اور دیگر مغربی آقا واقعی پاک پوتر ہیں کہ وہ انسانیت کے خلاف سازش کا سوچ ہی نہیں سکتے؟
کیا ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹم بم مریخ سے آنے والے ایلینز نے گرائے تھے؟
کیا جرمنی میں انسانوں پر طبی تجربات کےلیے کوئی جن بھوت آئے تھے؟
ابھی آپ کی آنکھوں کے سامنے افغانستان پر بموں کی ماں کس نے گرائی؟
کیا کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار ان ممالک کی لیبارٹریز میں ہی نہیں بنتے؟
کیا سرمائے کی ہوس نے ان سے بارہا انتہائی غیر انسانی حرکتیں نہیں کروائیں؟
کیا غلبے کی خواہش نے انھیں بدترین مظالم پر آمادہ نہیں کیا؟
میں یہ نہیں کہتا کہ ہر سازشی نظریے پر آنکھیں بند کرکے ایمان لائیں لیکن سوال یہ ہے کہ سازشی نظریہ کہہ کر بہت ساری حقیقتوں سے آنکھیں کیسے چرائیں؟
کیا ہمارے یہ دوست ٹرمپ و من معہ پر ایمان بالغیب کی لذت حاصل کرچکے ہیں؟
اس بات پر بار بار اصرار سے یہی سمجھ سکتا ہوں کہ آپ نے اقتباسات توجہ سے نہیں پڑھے۔پیرانارمیلیٹی اور حقیقت دو الگ موضوعات ہیں۔
یہ بھی تاریخی ریکارڈ ثابت کرے گا۔ تھوڑا انتظار کیجیے۔یہ سب جو واقعات ان صاحب نے گنوائے ہیں، یہ تاریخی ریکارڈ پر بمع ثبوتوں کے موجود ہیں۔ ان کو بنیاد بناتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر سازش کے دعوے کیسے قبول کر لیے جائیں جس کا ماخذ فطرت میں صاف نظر آ رہا ہے؟
What can be asserted without evidence can be dismissed without evidence.یہ بھی تاریخی ریکارڈ ثابت کرے گا۔ تھوڑا انتظار کیجیے۔