یو ایس بائیو لوجیکل وار

محمد سعد

محفلین
ہاں یہ انداز بھی ٹھیک نہیں ہے۔
بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ نہ آپ کسی کو بھڑکائیں، نہ کوئی جواب میں آپ کو بھڑکیلا جواب دے۔ اگر کسی صاحب نے کسی لڑی میں کوئی تبصرہ کیا ہے اور آپ دلیل سے اس کا جواب دے سکتے ہیں تو دیجیے ورنہ نظر انداز کر دیجیے۔
اس کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہوگا کہ لڑی موضوع سے ڈی ریل نہیں ہو گی۔
چلیں ٹھیک ہے۔ بھڑکیلی باتیں نہیں کرتے۔
چونکہ آپ دونوں یہاں آئے ہی ہوئے ہیں تو آپ دونوں کی رائے موضوع کے حوالے سے پوچھ لیتا ہوں۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ڈیٹا اور حقائق اس کانسپیریسی تھیوری کو کوئی وزن دے رہے ہیں یا نہیں؟
Ahmed, S. F., Quadeer, A. A., & McKay, M. R. (2020). Preliminary Identification of Potential Vaccine Targets for the COVID-19 Coronavirus (SARS-CoV-2) Based on SARS-CoV Immunological Studies. Viruses, 12(3), 254.
Preliminary Identification of Potential Vaccine Targets for the COVID-19 Coronavirus (SARS-CoV-2) Based on SARS-CoV Immunological Studies

3. Results
3.1.
Structural Proteins of SARS-CoV-2 Are Genetically Similar to SARS-CoV, but Not to MERS-CoV
SARS-CoV-2 has been observed to be close to SARS-CoV—much more so than MERS-CoV—based on full-length genome phylogenetic analysis [9,12]. We checked whether this is also true at the level of the individual structural proteins (S, E, M, and N). A straightforward reference-sequence-based comparison indeed confirmed this, showing that the M, N, and E proteins of SARS-CoV-2 and SARS-CoV have over 90% genetic similarity, while that of the S protein was notably reduced (but still high) (Figure 1a). The similarity between SARS-CoV-2 and MERS-CoV, on the other hand, was substantially lower for all proteins (Figure 1a); a feature that was also evident from the corresponding phylogenetic trees (Figure 1b). We note that while the former analysis (Figure 1a) was based on the reference sequence of each coronavirus, it is indeed a good representative of the virus population, since few amino acid mutations have been observed in the corresponding sequence data (Figure S1). It is also noteworthy that while MERS-CoV is the more recent coronavirus to have infected humans, and is comparatively more recurrent (causing outbreaks in 2012, 2015, and 2018 ), SARS-CoV-2 is closer to SARS-CoV, which has not been observed since 2004.

ایک وائرس پہلے آ چکے سارس وائرس سے لگ بھگ پوری مشابہت رکھتا ہے۔ قدرتی ماحول میں وائرسز میں اس حد تک میوٹیشنز آنا معمول کی بات ہے۔ وائرس انسانوں میں پھیلتا بھی اسی خطے میں ہے جہاں سارس کی ابتداء ہوئی تھی۔ قدرتی طور پر ایک ایسے واقعے کا ہونا اچھی طرح سمجھ آتا ہے۔ اس پر اصرار کرنا کہ یہ ایک قدرتی واقعہ ہو ہی نہیں سکتا اور لازمی اس کے پیچھے کوئی "خفیہ ہاتھ" ہے، وہی بات ہے کہ یا تو ہم بڑے جینیس ہیں کہ ریسرچ سے واقفیت پیدا کیے بغیر ہی بیٹھے بیٹھے ایک عظیم سازش کو بے نقاب کر دیا یا پھر اس کی حیثیت بونگیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سارس کوروناوائرس کے متعلق مزید
Lau, S. K. P., Li, K. S. M., Huang, Y., Shek, C.-T., Tse, H., Wang, M., … Yuen, K.-Y. (2010). Ecoepidemiology and Complete Genome Comparison of Different Strains of Severe Acute Respiratory Syndrome-Related Rhinolophus Bat Coronavirus in China Reveal Bats as a Reservoir for Acute, Self-Limiting Infection That Allows Recombination Events. Journal of Virology, 84(6), 2808–2819.
https://doi.org/10.1128/jvi.02219-09

The present study revealed that recombination events are common between different SARSr-Rh-BatCoV strains from different species of bats and geographical locations, which may account for the emergence of a civet SARSr-CoV capable of cross-species transmission from bats to civets and from civets to humans.

یا شاید آپ اس بات پر رائے پیش کرنے کے لیے اس لڑی پر آئے تھے کہ وائرس اور بیکٹیریا کسی کا مذہب دیکھ کر چپکتے ہیں یا نہیں؟
ایک بار پھر۔ دعویٰ کرنے سے پہلے فیکٹ چیک کر لیا کریں۔ غلط معلومات کی بنیاد پر اسلام کی برتری کی بات کرنا کوئی اسلام کی خدمت نہیں ہے بلکہ الٹا نقصان پہنچاتی ہے۔

حج جیسے موقع تک پر طاعون پھیلتا رہا ہے۔

Shafi, S., Booy, R., Haworth, E., Rashid, H., & Memish, Z. A. (2008 ). Hajj: Health lessons for mass gatherings. Journal of Infection and Public Health, 1(1), 27–32.
Hajj: Health lessons for mass gatherings - ScienceDirect

The potential for spread of infectious diseases associated with travel has long been recognised [1]. Throughout its 14-century history, Hajj has been witness to a series of major health issues. Historical records document outbreaks of plague and cholera, involving large numbers of pilgrims, when quarantine was the prime means of control [2].


Scrimgeour E. M. (2003). Epidemic infections and their relevance to the Gulf and other Arabian Peninsula countries. Journal for scientific research. Medical sciences, 5(1-2), 1–4.
Epidemic infections and their relevance to the Gulf and other Arabian Peninsula countries

It is inevitable that importation of communicable diseases should be a feature of such population movements. In Saudi Arabia, this has been demonstrated repeatedly over past decades, with epidemics occurring during the annual Hajj, when over a million pilgrims from more than 80 countries congregate together with a similar number of local worshippers for a week in Mecca and Medina. Plague used to break out almost every year until 1918,[1] and other frequent outbreaks have included smallpox,[2] cholera,[3] and meningococcal infection.[3,4] The latter has continued to pose a problem despite the use of bivalent (A,C) vaccination for intending pilgrims, and two recent meningococcal outbreaks in 2000 and 2001 caused by new serogroups required planning to introduce quadrivalent (A,C,Y, W135) vaccination in the future.[5]


دیگر مواقع پر بھی مسلم ممالک میں طاعون جیسی بیماریاں پھیلتی رہی ہیں، مثلاً لیبیا کے بارے میں یہ پیپر دیکھ لیں۔

Cabanel, N., Leclercq, A., Chenal-Francisque, V., Annajar, B., Rajerison, M., Bekkhoucha, S., Bertherat, E., & Carniel, E. (2013). Plague outbreak in Libya, 2009, unrelated to plague in Algeria. Emerging infectious diseases, 19(2), 230–236.
Plague Outbreak in Libya, 2009, Unrelated to Plague in Algeria
جس میں 1917ء کی طاعون کی وبا کا ذکر ہے جس میں 1449 اموات ہوئیں۔
Neighboring Libya experienced several plague outbreaks during 1913–1920, the largest of which resulted in 1,449 deaths in Benghazi in 1917 [10].

ایک ایسے دور میں، جب آپ کو دنیا بھر کے ریسرچ مٹیریل تک آناً فاناً رسائی حاصل ہو، اپنی بات کو فیکٹ چیک کر لینا اتنا مشکل کام تو نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ہاں یہ انداز بھی ٹھیک نہیں ہے۔
بات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ نہ آپ کسی کو بھڑکائیں، نہ کوئی جواب میں آپ کو بھڑکیلا جواب دے۔ اگر کسی صاحب نے کسی لڑی میں کوئی تبصرہ کیا ہے اور آپ دلیل سے اس کا جواب دے سکتے ہیں تو دیجیے ورنہ نظر انداز کر دیجیے۔
اس کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہوگا کہ لڑی موضوع سے ڈی ریل نہیں ہو گی۔
ہم تو آپ سے بات کررہے ہیں۔۔۔
بی جمالو ٹائپ کے لوگ نہ جانے ہمارے بیچ میں کیوں آرہے ہیں؟؟؟
انہیں منہ نہ لگاؤ پھر بھی چِپکے جاتے ہیں!!!
 

الف نظامی

لائبریرین
In mathematics, a conjecture is a conclusion or a proposition which is suspected to be true due to preliminary supporting evidence
کنجیکچر بھی سپورٹنگ ایویڈنس کے بغیر نہیں ہوتا۔ یہاں پر فطری پراسیس ہونے کو زیادہ سپورٹنگ ایویڈنس حاصل ہے۔
برائے مطالعہ و تفہیم:
China's Coronavirus: A Shocking Update. Did The Virus Originate in the US? - Global Research
 

عدنان عمر

محفلین
یہ ایڈ ہومینم ہے۔ ایڈ ہومینم سمجھتے ہیں نا؟
اگر نہیں ہے تو آپ بتا دیں کہ "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے" سے آپ کی کیا مراد تھی؟ میں آپ کی وضاحت مان لوں گا اگر معقول ہوئی۔
ویسے میں آپ کے جملے پکڑ کر جواب طلب تو نہیں کرتا لیکن آپ کی تشفی کے لیے آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا۔
یہ لڑی غالباً کل کھلی تھی۔ اس میں پہلے سے ہی حیاتیاتی جراثیموں اور کرونا وائرس کے امکانی طور پر حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال پر بحث چل رہی تھی۔ اب سید عمران صاحب نے لڑی میں اپنا پہلا مراسلہ پوسٹ کیا۔ لڑی کے موضوع کے پیشِ نظر اگر وہ اسرائیل کو کورونا پھیلانے کا سبب قرار دیتے تو بھی ان پر اس لیے اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا کہ لڑی کا موضوع ہی یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا قدرتی ہے یا اسے دانستہ پھیلایا گیا ہے۔
سید عمران صاحب نے کسی بھی سازش کا ذکر نہیں کیا اور صرف یہ جاننا چاہا کہ آیا یہ وبا اسرائیل تک پہنچی ہے یا نہیں۔
بس یہ پوچھنا غضب ہو گیا اور انھیں یہود و ہنود کی سازشیں ڈھونڈنے والا قرار دیا گیا۔ بعد میں آپ نے بھی اس الزام کو کسی اور لڑی میں سید عمران صاحب کے ایک مراسلے کا حوالہ دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی، اور ساتھ میں مجھے بھی گھسیٹ لیا۔
حالانکہ کہ کسی دوسری لڑی پر چھڑی بحث کا اس لڑی میں حوالہ دینا خود ہی غیر متعلقہ ہے اور نا سمجھی میں موضوع کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے میرے دل میں سوال اٹھا کہ آپ حضرات کسی ایک شخص کے سیدھے سادے سوال پر آپے سے باہر کیوں ہو رہے ہیں؟ کہیں کوئی اور رنجش تو نہیں؟ کہیں کوئی بات دل میں لیے تو نہیں بیٹھے؟ اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
چلیں ٹھیک ہے۔ بھڑکیلی باتیں نہیں کرتے۔
چونکہ آپ دونوں یہاں آئے ہی ہوئے ہیں تو آپ دونوں کی رائے موضوع کے حوالے سے پوچھ لیتا ہوں۔

آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ڈیٹا اور حقائق اس کانسپیریسی تھیوری کو کوئی وزن دے رہے ہیں یا نہیں؟


یا شاید آپ اس بات پر رائے پیش کرنے کے لیے اس لڑی پر آئے تھے کہ وائرس اور بیکٹیریا کسی کا مذہب دیکھ کر چپکتے ہیں یا نہیں؟
جیسے ہی اس لڑی کے موضوع پر میری کوئی بادلیل رائے بنے گی، میں پیش کروں گا۔ کوئی متعلقہ سوال اٹھا تو وہ بھی پوچھ لوں گا۔
 

عدنان عمر

محفلین
یا شاید آپ اس بات پر رائے پیش کرنے کے لیے اس لڑی پر آئے تھے کہ وائرس اور بیکٹیریا کسی کا مذہب دیکھ کر چپکتے ہیں یا نہیں؟
کیا میں نے اس لڑی میں وائرس، بیکٹیریا یا مذہب پر کچھ تحریر کیا ہے جو آپ اس قسم کا سوال کر رہے ہیں؟
سنبھل کے جناب! مکالمہ اور استدلال یوں نہیں کیا جاتا۔
 

محمد سعد

محفلین
یہ لڑی غالباً کل کھلی تھی۔ اس میں پہلے سے ہی حیاتیاتی جراثیموں اور کرونا وائرس کے امکانی طور پر حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال پر بحث چل رہی تھی۔ اب سید عمران صاحب نے لڑی میں اپنا پہلا مراسلہ پوسٹ کیا۔ لڑی کے موضوع کے پیشِ نظر اگر وہ اسرائیل کو کورونا پھیلانے کا سبب بھی قرار دیتے تو ان پر اس لیے اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا کہ لڑی کا موضوع ہی یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وبا قدرتی ہے یا اسے دانستہ پھیلایا گیا ہے
سید عمران صاحب نے کسی بھی سازش کا ذکر نہیں کیا اور صرف یہ جاننا چاہا کہ آیا یہ وبا اسرائیل تک پہنچی ہے یا نہیں۔
تھوڑا صبر کیجیے گا، میں آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لڑی کا موضوع امریکی سازش ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ سوال اسرائیل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو امریکہ کا قریبی ساتھی ہے، گوئٹے مالا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، الجیریا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، برازیل کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، سری لنکا کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جاتا جو بالکل پڑوس میں ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ پوچھنے والے صاحب یہودیوں کے ساتھ کسی قسم کا obsession بھی رکھتے ہیں جسے سرچ کی سہولت استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بالکل اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سوال کسی ممکنہ سازش کے بارے میں کیا گیا تھا اور ایسا سمجھنا بلا وجہ ہو گا جو کسی طرح کی ڈھکی چھپی بات کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹھیک ہے سر۔ سمجھ گیا۔ آئندہ خیال رکھا جائے گا۔
 

عدنان عمر

محفلین
تھوڑا صبر کیجیے گا، میں آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لڑی کا موضوع امریکی سازش ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ سوال اسرائیل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو امریکہ کا قریبی ساتھی ہے، گوئٹے مالا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، الجیریا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، برازیل کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، سری لنکا کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جاتا جو بالکل پڑوس میں ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ پوچھنے والے صاحب یہودیوں کے ساتھ کسی قسم کا obsession بھی رکھتے ہیں جسے سرچ کی سہولت استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بالکل اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سوال کسی ممکنہ سازش کے بارے میں کیا گیا تھا اور ایسا سمجھنا بلا وجہ ہو گا جو کسی طرح کی ڈھکی چھپی بات کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹھیک ہے سر۔ سمجھ گیا۔ آئندہ خیال رکھا جائے گا۔
اس مراسلے کے آخر میں اس لڑی کا پہلا مراسلہ نقل کیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس لڑی کا موضوع فقط امریکی سازش نہیں بلکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں امریکہ اور چین کے خلاف بننے والی سازشی تھیوریاں ہیں، یعنی اس بات کا الزام کہ کورونا وائرس کو بطور جراثیمی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ یوں جراثیمی ہتھیار یا حیاتیاتی جنگ بھی ضمنی طور پر اس لڑی کے موضوع قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جس پر میں مصر نہیں ہوں کہ بس میں نے کہہ دیا تو یہی لڑی کا موضوع ہوگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنے طور پر یہ اعلان کرنے اور دوسروں کو بار بار یہ یاد دلانے کی کوشش نہ کیجیے کہ کس لڑی کا کیا موضوع ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص لڑی میں غیر متعلقہ بحث کر رہا ہے تو انتظامیہ سے رجوع فرمائیے۔ خود دوسروں کے پیچھے پڑنے کا حق آپ اور میں نہیں رکھتے، ہاں ہم شائستہ انداز میں کسی کو مخاطب کیے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بحث فلاں لڑی کے موضوع سے غیر متعلق ہے۔
امید ہے کہ آپ میری گذارشات کو معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
یو ایس بائیولوجیکل وار
عوامی جمہوریہ چین کے شہرووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس اپنے ساتھ جہاں خوف اور دہشت کی نہ ختم ہونی والی جو نت نئی کہانیاں لے کرآیا ہے‘ وہیں یہ دو بڑی عالمی قوتوں کی باہمی سیا ست اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے نت نئے منصوبوں کے متعلق افواہوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔ مغرب کے نقطۂ نظر کے مطا بق ‘سوشل میڈیا پر یہ کہانی پھیلائی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے جراثیم پھیلانے میں کسی دوسرے ملک کا ہاتھ نہیں‘ بلکہ یہ چین کا اپنا پیدا کردہ ہے‘ جس نے اس بھونچال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا کو دھوکے میں رکھ کر اب تک بیس ارب ڈالر کما لیے ہیں اور تیس فیصد سے زائد سٹاک ایکسچینج کی وہ ادائیگیاں‘ جو ایسی کمپنیوں اورا داروں کے کھاتوں سے یورپی یونین اور امریکیوں کو ادا کی جانی تھیں‘ محفوظ کر لی ہیں۔
مذکورہ بالا اس کہانی کو تقویت دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے جس تیزی سے چینی یوان نیچے کی جانب گرنا شروع ہو ا‘ اسے سب دیکھ رہے تھے‘ لیکن حیران کن طور پر چین کے سنٹرل بینک نے اپنی کرنسی کی گراوٹ کی جانب رتی بھر بھی توجہ دینے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ یہ تک سننے میں آرہا ہے کہ چین کے پاس تو کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ماسک بھی ضرورت کے مطا بق‘ موجود نہیں تھے اور یوان کے گرنے سے سٹاک ایکسچینج کی وہ ا دائیگیاں‘جو چین کا دردسر تھیں‘ وہ چینی کرنسی گرنے سے اس حد تک سمٹ کر رہ گئیں کہ الٹا اسے فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا‘ جبکہ روس کے کچھ اشاعتی ادارے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ بائیولوجیکل وار امریکی پلان کا حصہ ہے ‘جس سے اس نے چند دنوں میں چین کی معیشت اور دنیا بھر سے امڈنے والے سیاحتی طوفان کو منجمد کرکے اب تک چین کو پانچ ارب ڈالر سے محروم کر دیا ہے ۔
اگر امریکا پر اٹھنے والے شکوک سامنے رکھیں تو اس وقت یہ شک اس لئے بھی پختہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ سے امریکا اور چین کے باہمی تجارتی حجم سے امریکی پریشان ہو چکے تھے اور امریکی صدر ٹرمپ نت نئی پابندیوں کا سہارا لینے کے با وجود اپنے مقاصد حاصل نہیں پا رہے تھے ۔ دریں اثناء بڑی چالاکی سے یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ کیمیکل و بائیولوجیکل وار فیئر میں امریکا کی قوت اور صلاحیت باقی دنیا سے بہت کم ہے۔ اگر امریکا میں بائیولوجیکل وار فیئر کا کھوج لگایا جائے اور امریکی رپورٹس اور مشہور محقق Larry Romanoff کے اس تناظر میں پیش کئے تجزیئے کو سامنے رکھیں تو تمام شکوک و شبہات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں‘ کیونکہ امریکا کے سرکاری اداروں‘ یونیورسٹیوں اور اس کے بہت سے دیگر تعلیمی ا داروں میں کئی دہائیوں سے بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کیلئےRace-Specific pathogens پر سب سے زیا دہ توجہ سی جا رہی ہے اور مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔
1956ء میں امریکی افواج کو ان کے کسی بھی جنگی پلان کیلئے واضح اور غیر مبہم حکم کے ذریعے بتا دیا گیا تھاکہ بائیولوجیکل اور کیمیکل وار کو مستقبل کی کسی بھی جنگ کا بنیادی جزو سمجھا جائے اور اس کیلئے کسی بھی قسم کی مزید تشریح یا احکامات کی ضرورت نہیں‘ یہاں تک کہ کانگریس نے امریکی افواج کو First strikeکی اجا زت دے دی‘ پھر شاید کانگریس کے نئے آنے والے ارکان کو کچھ احساس ہوا اور1959ء میں اس نے فرسٹ سٹرائیک کیپشن ختم کرنے کی کوشش کی‘ لیکن وائٹ ہائوس نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پینٹاگان کو بائیولوجیکل ہتھیاروں کیلئے مختص کئے گئے فنڈز75 ملین ڈالرسے بڑھا کر سالانہ350 ملین ڈال کر دئیے‘ جو دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کیلئے حیران کن تھا۔اس سے قبل 1948 ء میں پینٹاگان کمیٹی کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اگر امریکا کسی بھی جگہ کوئی میزائل یا راکٹ وغیرہ گراتا ہے‘ تو اس کا صاف پتا چل سکتاہے کہ یہ کہاں سے اور کس نے پھینکا ہے ‘ لیکن اگر راکٹ اور میزائل حملوں کی بجائے کسی شہر میں اچانک وبائی امراض پھوٹ پڑیں تو کسی کا بھی دھیان نہیں جا سکتا کہ یہ کسی دوسرے کی وجہ سے پھیلی ہے اور یہ پیراگراف اس ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حصہ ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ امریکاNon-Fatal Viruses کیلئے کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ میکنا مارا نے1960ء کی دہائی کے آخر اوراوائل1970ء میں ایک سو پچاس سے زائد انتہائی خفیہ بائیولوجیکل ہتھیارتیار کرتے ہوئے ان کے تجربات کئے‘ جن میں کچھ امریکیوں پرآزمائے گئے تو بہت سے ویران جگہوں پر تو کچھ بیرونی ممالک میں ان کے فیلڈ ٹیسٹ کئے گئے۔ میکنا مارا نے پینٹاگان کے جائنٹ چیف آف سٹاف کو اختیار دے دیا کہ وہ ان کیمیکل ہتھیاروں اور تجربات کو امریکا کے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے وہ تمام وسائل اور طریقہ کار اختیار کرے اور اس کیلئے یہ اندازہ بھی کرنا ہو گا کہ اس کی امریکا کیلئے سیا سی قیمت اور اس کے فوائد کہاں تک جا سکتے ہیں۔2000 ء میں امریکا کیلئے نئی صدی کیلئےRe-building America's defences نام سے ایک رپورٹ تیار کی گئی‘ جس کے ایک پیرا گراف میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:(ترجمہ) ''بائیولوجیکل وار فیئر کے جدید اور تیز ترین طریقے جس سے امریکا کیلئے وقتی طور پر فوجی فوائد کی بجائے سیا سی اور معاشی فائدے حاصل کئے جا سکیں گے‘‘۔
24 ستمبر2005 ء کو شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی افواج بہت بڑی تعداد میںAnthrax ( جانوروں کو لگنے والی انتہائی مہلک بیماریوں کے جراثیم جو جانوروں سے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں)کی خریداری میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس کا اقرار ڈائریکٹر آف سن شائف ڈیوڈ ہیمنڈ نے بھی کیا تھا اور اس کے ذریعے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرتے ہوئے انہیں بڑی مقدار میں ''انتھراکس‘‘ کی فراہمی کے آرڈر دیئے گئے اور اس سلسلے میں ایک کمپنی کو دیا جانے والا کنٹریکٹ پندرہ سو لیٹر کا تھا۔ اب‘ اگر امریکا یہ تان لگاتا رہے کہ اس کا بائیولوجیکل وار فیئر سے کوئی تعلق نہیں یا وہ اس قسم کے کسی بھی پلانٹ یا تیاری میں مصروف نہیں تو اس سے ایک سیدھا سا سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ '' آپ اگر بائیولوجیکل وار میں دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی ہتھیاروں کی تیاری کر رہے ہیں تو پھر'' انتھراکس‘‘ کی اس قدر بھاری مقدار کن مقاصد کیلئے خریدی جا رہی ہیں اور امریکی صدر کینیڈی نے آج سے ساٹھ برس قبل اس مد میں بجٹ میں تین سو پچاس ملین ڈالر تک منظور کرایا‘ وہ کن مقاصد کیلئے اور تھا؟ چلیں‘ اگر امریکی یہ توضیح بھی نہیں مانتے تو پھر ان کو1994 ء کی اکائونٹ ایبلٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس رپورٹ کے ایک پیراگراف میں یہ کیوں پوچھا گیا ہے کہ ''یو ایس ملٹری بائیولوجیکل ڈیفنس پروگرام‘‘ جس کے کئی درجن شعبے ‘ ریسرچ سینٹرز ‘ بائیولوجیکل انٹیلی جنس جیسے ادارے ہیں‘ ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا نے اب تک کسی بھی جگہ کبھی بائیولوجیکل حملہ نہیں کیا‘ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ میری لینڈ ‘فورٹ ڈیٹرک میں امریکی افواج کا چھوت کی بیماریوں کیلئے میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے‘ جہاں بائیولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر کیلئے کام ہوتا ہے ۔
آخر میں سوالات‘ جو تاحال جواب طلب ہیں کہ کیا امریکا نے شمالی کوریا کی زراعت تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ Plum Islandمیں امریکا برڈ فلو اور سوائن فلو جیسے وائرس کی تیاریوں میں ایک عرصے سے مصروف عمل نہیں رہا ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
اس مراسلے کے آخر میں اس لڑی کا پہلا مراسلہ نقل کیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہے کہ اس لڑی کا موضوع فقط امریکی سازش نہیں بلکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں امریکہ اور چین کے خلاف بننے والی سازشی تھیوریاں ہیں، یعنی اس بات کا الزام کہ کورونا وائرس کو بطور جراثیمی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ یوں جراثیمی ہتھیار یا حیاتیاتی جنگ بھی ضمنی طور پر اس لڑی کے موضوع قرار دیے جا سکتے ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے جس پر میں مصر نہیں ہوں کہ بس میں نے کہہ دیا تو یہی لڑی کا موضوع ہوگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنے طور پر یہ اعلان کرنے اور دوسروں کو بار بار یہ یاد دلانے کی کوشش نہ کیجیے کہ کس لڑی کا کیا موضوع ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص لڑی میں غیر متعلقہ بحث کر رہا ہے تو انتظامیہ سے رجوع فرمائیے۔ خود دوسروں کے پیچھے پڑنے کا حق آپ اور میں نہیں رکھتے، ہاں ہم شائستہ انداز میں کسی کو مخاطب کیے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بحث فلاں لڑی کے موضوع سے غیر متعلق ہے۔
امید ہے کہ آپ میری گذارشات کو معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سو باتوں کی ایک بات کہ جب موضوع بحث امریکی سازش کا امکان ہو اور کوئی آ کر اسرائیل میں وائرس پہنچنے نہ پہنچنے کے متعلق سوال کرے، جبکہ اس سے پہلے اسرائیل کا تذکرہ نہ آیا ہو، تو سیاق و سباق سے یہ اخذ کرنا کہ وہ اس میں کسی یہودی سازش کے امکان کی بات کر رہا ہے، خالصتاً "بلا وجہ" ہو گا جس کے پیچھے "ضرور کوئی بات" ہو گی۔ آخر کو ہم کون ہوتے ہیں سیاق و سباق سے کسی کا مدعا اخذ کرنے والے۔

ٹھیک ہے سر۔ سمجھ گیا۔ آئندہ سیاق و سباق سے کسی کا مدعا اخذ کرنے جیسی قبیح غلطی سے گریز کروں گا۔
یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ مجھے سیاق و سباق سے کچھ اخذ کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود آپ کو یہ اخذ کرنے کا حق کس بنیاد پر ہے کہ "ضرور کوئی بات ہے" اور "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"۔
بالکل نہیں پوچھوں گا۔
 

محمد سعد

محفلین
اس سب گھڑمس میں ریسرچ آرٹیکل صرف ایک ہی سائٹ کیا ہوا ہے (جسے اس مضمون نے اس کے متعلق ایک میڈیا رپورٹ اور ایک غیر متعلقہ پیپر شامل کر کے ایک کے تین ریفرینسز بنا لیا ہے)۔
یہ ریسرچ آرٹیکل ChinaXiv پر پڑا ہوا ہے اور پڑھا جا سکتا ہے۔
ChinaXiv.org 中国科学院科技论文预发布平台
واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ وائرس کا ابتدائی ماخذ نہ ہونا، ہوا نان مارکیٹ اور ووہان شہر کے متعلق ہے۔ چین کے متعلق نہیں۔ ذرا غور کیجیے گا کہ پیپر میں شینژین کے شہر کا بھی نام آتا ہے۔

Findings:
Fifty-eight haplotypes were classified into five groups: 31 haplotypes were found in samples from China and 31 in samples from other countries. The rooted network suggested that H13 and H35 were ancestral haplotypes, and H1 (which with its descendants included all samples from the Hua Nan market) was derived from the H3 haplotype. Population size of SARS-CoV-2 was estimated to have had a recent expansion on 6 January 2020, and an early expansion on 8 December 2019.


Where are the original sources from?
The evolutionary network suggests that the hypothesized haplotype mv1 may be from an intermediate host or the first infected humans. From those connections, both H13 and H38 would be suggested as ancestral haplotypes. The SH-like approximate likelihood ratio test showed both haplotype H13’s group and H38 (with H45) could be the most basal clades in phylogenies of the 58 haplotypes (Figure S4), but phylogenetic information of the alignment was informative (Figure S5). Two main evolutionary paths of available haplotypes can be from H13 through H3 to H1, or from H38 through H3 to H1 (Figure 3C). Both scenarios demonstrate H3 was the key connection from an ancestral haplotype to H1. Neither H13 nor H38 has samples from Wuhan (Hubei) (Figure 3). H13 was only recovered from five Shenzhen (Guangdong) samples, including the father (patient 2) of the familial cluster, who was one of the first identified infected patients in Guangdong.[13] Two derived haplotypes were also only found in Shenzhen (H14 from the grandson of patient 2), and the other three haplotypes were found in three samples from Japan and one sample from Arizona in the United States (Figure 3). According to an epidemiological study, the Shenzhen family traveled to Wuhan after the outbreak was announced, and they could have been infected during their visit in Wuhan from a hospital or an unknown common source[13]. This suggests that H13 should have originated from Wuhan, but none of the available samples from Wuhan encode haplotypes in Group A. Genetically, haplotypes of Group A have links to only Wuhan haplotype H3 (only one sample EPI_ISL_406801, with no link to the Hua Nan market).[2] It is possible that H13 was newly derived from H3 in the family from Shenzhen (Figure 3C) and did not spread in Wuhan, or that no samples have been sequenced yet. However, this scenario is not supported by the evolutionary network. H38 has three genomes from the same patient (Table S1), who was the first identified infected patient in the United States.[14] He should have been infected while visiting his family in China. The original source of H38 can be explained as that of H13, which is also derived from H3, and the derived H45 was from a Chongqing patient who was working in Wuhan.

اس کو سازش کا "ثبوت" کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، سمجھ سے باہر ہے۔
خیر، اگر کوئی حقائق کو توڑنے موڑنے پر آئے تو کسی بھی شے کو سازش قرار دیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اس سب گھڑمس میں ریسرچ آرٹیکل صرف ایک ہی سائٹ کیا ہوا ہے (جسے اس مضمون نے اس کے متعلق ایک میڈیا رپورٹ اور ایک غیر متعلقہ پیپر شامل کر کے ایک کے تین ریفرینسز بنا لیا ہے)۔
یہ ریسرچ آرٹیکل ChinaXiv پر پڑا ہوا ہے اور پڑھا جا سکتا ہے۔
ChinaXiv.org 中国科学院科技论文预发布平台
واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ وائرس کا ابتدائی ماخذ نہ ہونا، ہوا نان مارکیٹ اور ووہان شہر کے متعلق ہے۔ چین کے متعلق نہیں۔ ذرا غور کیجیے گا کہ پیپر میں شینژین کے شہر کا بھی نام آتا ہے۔

Findings:
Fifty-eight haplotypes were classified into five groups: 31 haplotypes were found in samples from China and 31 in samples from other countries. The rooted network suggested that H13 and H35 were ancestral haplotypes, and H1 (which with its descendants included all samples from the Hua Nan market) was derived from the H3 haplotype. Population size of SARS-CoV-2 was estimated to have had a recent expansion on 6 January 2020, and an early expansion on 8 December 2019.


Where are the original sources from?
The evolutionary network suggests that the hypothesized haplotype mv1 may be from an intermediate host or the first infected humans. From those connections, both H13 and H38 would be suggested as ancestral haplotypes. The SH-like approximate likelihood ratio test showed both haplotype H13’s group and H38 (with H45) could be the most basal clades in phylogenies of the 58 haplotypes (Figure S4), but phylogenetic information of the alignment was informative (Figure S5). Two main evolutionary paths of available haplotypes can be from H13 through H3 to H1, or from H38 through H3 to H1 (Figure 3C). Both scenarios demonstrate H3 was the key connection from an ancestral haplotype to H1. Neither H13 nor H38 has samples from Wuhan (Hubei) (Figure 3). H13 was only recovered from five Shenzhen (Guangdong) samples, including the father (patient 2) of the familial cluster, who was one of the first identified infected patients in Guangdong.[13] Two derived haplotypes were also only found in Shenzhen (H14 from the grandson of patient 2), and the other three haplotypes were found in three samples from Japan and one sample from Arizona in the United States (Figure 3). According to an epidemiological study, the Shenzhen family traveled to Wuhan after the outbreak was announced, and they could have been infected during their visit in Wuhan from a hospital or an unknown common source[13]. This suggests that H13 should have originated from Wuhan, but none of the available samples from Wuhan encode haplotypes in Group A. Genetically, haplotypes of Group A have links to only Wuhan haplotype H3 (only one sample EPI_ISL_406801, with no link to the Hua Nan market).[2] It is possible that H13 was newly derived from H3 in the family from Shenzhen (Figure 3C) and did not spread in Wuhan, or that no samples have been sequenced yet. However, this scenario is not supported by the evolutionary network. H38 has three genomes from the same patient (Table S1), who was the first identified infected patient in the United States.[14] He should have been infected while visiting his family in China. The original source of H38 can be explained as that of H13, which is also derived from H3, and the derived H45 was from a Chongqing patient who was working in Wuhan.

اس کو سازش کا "ثبوت" کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، سمجھ سے باہر ہے۔
خیر، اگر کوئی حقائق کو توڑنے موڑنے پر آئے تو کسی بھی شے کو سازش قرار دیا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ مجھے سیاق و سباق سے کچھ اخذ کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود آپ کو یہ اخذ کرنے کا حق کس بنیاد پر ہے کہ "ضرور کوئی بات ہے" اور "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"۔
بالکل نہیں پوچھوں گا۔
یہ رہا جاسم اور آپ کا مراسلہ۔ ان مراسلوں میں آپ حضرات کی جانب سے چھیڑی گئی غیر متعلقہ بحثوں اور الزام تراشیوں کے بعد کیا مجھے یہ بھی کہنے کا حق نہیں تھا کہ " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔"
ویسے میں نے تو ایک دفعہ کہا تھا کہ " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"؛ اب آپ خود ہی اس جملے کی تشہیر کر رہے ہیں تو شوق سے کیجیے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اب تک ۲۱۳ اسرائیلیوں میں کورونا وائرس کنفرم ہو گیا ہے
Confirmed coronavirus cases in Israel climb to 213 – Health Ministry

شاید آپ یہاں بھی کوئی یہود و ہنود کی سازش ڈھونڈ رہے تھے لیکن ناکامی ہوئی۔

کچھ بات تو واقعی ہے۔ جیسے کچھ لوگوں کے سر پر یہودیوں کا اتنا سوار ہونا کہ ہر غیر متعلقہ تھریڈ میں بھی انہیں یہودی ملا یاد آتے رہتے ہیں، اور تین بار سمجھانا بھی ان کے لیے ناکافی ٹھہرتا ہے کہ زیر بحث موضوع کچھ اور ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اندازہ لگاتا ہے کہ یہاں بھی وہی سوچ کارفرما ہے تو اس کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔
ایسے رد عمل کو "بلا وجہ" کہتے ہوئے آپ اچھے نہیں لگتے، خصوصاً جب زیر بحث یہودیوں کو سر پر سوار کرنے کا ریکارڈ آپ کا اپنا ہو۔
 

ایم اے

معطل
تھوڑا صبر کیجیے گا، میں آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لڑی کا موضوع امریکی سازش ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ سوال اسرائیل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جو امریکہ کا قریبی ساتھی ہے، گوئٹے مالا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، الجیریا کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، برازیل کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا، سری لنکا کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جاتا جو بالکل پڑوس میں ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ پوچھنے والے صاحب یہودیوں کے ساتھ کسی قسم کا obsession بھی رکھتے ہیں جسے سرچ کی سہولت استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بالکل اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سوال کسی ممکنہ سازش کے بارے میں کیا گیا تھا اور ایسا سمجھنا بلا وجہ ہو گا جو کسی طرح کی ڈھکی چھپی بات کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹھیک ہے سر۔ سمجھ گیا۔ آئندہ خیال رکھا جائے گا۔
ارے بھائی کیوں سابقہ مباحثے یاد دلانا چاہتے ہیں۔ کیا گوئٹے مالا، الجیریا، برازیل، سری لنکا کی ٹیکنالوجیکل اور سائنٹفک حیثیت اتنی ہی ہے جو اسرائیل کو حاصل ہے؟ کیا گوئٹے مالا، سری لنکا اور برازیل وغیرہ کی ایجنسیاں سی آئی اے اور ایف بی آئی اور کانگریس اور پینٹاگون میں اتنی ہی زیادہ فعال اور سرائیت کرچکی ہیں جتنا کچھ موساد کرتی آرہی ہے؟
کچھ فیکٹ چیک کر کے پھر الزام تراشی کا آغاز کریں۔ خود تو مولوی سر پر کیا دماغ میں بٹھایا ہوا ہے اور دوسروں پر بغیر کسی وجہ کے اپنے ہی غلط فہمیوں کے سبب الزامات تھوپنے میں ذرا بھر بھی شرمندگی نہیں ہورہی؟
 

ایم اے

معطل
سو باتوں کی ایک بات کہ جب موضوع بحث امریکی سازش کا امکان ہو اور کوئی آ کر اسرائیل میں وائرس پہنچنے نہ پہنچنے کے متعلق سوال کرے، جبکہ اس سے پہلے اسرائیل کا تذکرہ نہ آیا ہو، تو سیاق و سباق سے یہ اخذ کرنا کہ وہ اس میں کسی یہودی سازش کے امکان کی بات کر رہا ہے، خالصتاً "بلا وجہ" ہو گا جس کے پیچھے "ضرور کوئی بات" ہو گی۔ آخر کو ہم کون ہوتے ہیں سیاق و سباق سے کسی کا مدعا اخذ کرنے والے۔
امریکا اور اسرائیل زمینی لحاظ سے یقینا الگ ہیں لیکن ان کے ادارے اور ماہرین دنیا بھر کے تمام ممالک سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے چلے آرہے ہیں کیوں کہ امریکی انتخابات اور فوجی اداروں میں یہودی اور موساد کی سرائیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آپ کیوں ان حقائق پر پردہ ڈال رہے ہیں؟ پھر جب کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آپ پردہ داری، یا پردہ دری کررہے ہیں تو بھڑک جاتے ہیں۔۔۔ یہ کونسی ذہنیت ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
یہ رہا جاسم اور آپ کا مراسلہ۔ ان مراسلوں میں آپ حضرات کی جانب سے چھیڑی گئی غیر متعلقہ بحثوں اور الزام تراشیوں کے بعد کیا مجھے یہ بھی کہنے کا حق نہیں تھا کہ " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔"
ویسے میں نے تو ایک دفعہ کہا تھا کہ " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"؛ اب آپ خود ہی اس جملے کی تشہیر کر رہے ہیں تو شوق سے کیجیے۔
جناب میں نے کہا تو ہے کہ بالکل بھی نہیں پوچھوں گا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس جملے پر جو آپ نے کہا۔ بلا وجہ ہی کیوں غصہ کر رہے ہیں؟ کیا میں نے کچھ کہا؟
 

محمد سعد

محفلین
امریکا اور اسرائیل زمینی لحاظ سے یقینا الگ ہیں لیکن ان کے ادارے اور ماہرین دنیا بھر کے تمام ممالک سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے چلے آرہے ہیں کیوں کہ امریکی انتخابات اور فوجی اداروں میں یہودی اور موساد کی سرائیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آپ کیوں ان حقائق پر پردہ ڈال رہے ہیں؟ پھر جب کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آپ پردہ داری، یا پردہ دری کررہے ہیں تو بھڑک جاتے ہیں؟ یہ کونسی ذہنیت ہے؟
لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ ان کا یہ کہنے کا مطلب قطعی یہ جتانا نہیں تھا کہ اس میں اسرائیل کی کوئی سازش شامل ہے۔ آئی ایم سو کنفیوزڈ۔
 

عدنان عمر

محفلین
جناب میں نے کہا تو ہے کہ بالکل بھی نہیں پوچھوں گا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس جملے پر جو آپ نے کہا۔ بلا وجہ ہی کیوں غصہ کر رہے ہیں؟ کیا میں نے کچھ کہا؟
غصہ نہیں کیا، آپ کے مراسلے میں غیر متفق بات کا جواب دیا ہے۔ باقی آپ کی سمجھ۔
 

ایم اے

معطل
لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ ان کا یہ کہنے کا مطلب قطعی یہ جتانا نہیں تھا کہ اس میں اسرائیل کی کوئی سازش شامل ہے۔ آئی ایم سو کنفیوزڈ۔
یقینا وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ
وہ یہ دعوی نہیں کررہے ہیں کہ اس میں اسرائیل کی سازش شامل ہے، بلکہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ عین ممکن ہے ایسا ہوسکتاہو۔
آپ اپنی ذہنیت درست کرلیجیے، دوسروں کے الفاظ کے مثبت مفہوم کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
 
Top