یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

الف عین

لائبریرین
فراز کو خراج عقیدت کے سلسلے میں اس کا خیال آیا ۔ شاکر بھائی بھی کہہ چکے تھے کہ کبھی کبھی یہاں طرحی شعری محفل سجائی جائے۔
تو سخن ورانِ محفل
آئیں میدان میں۔ اور فراز کے اس طرحی مصرعے پر طبع آزمائی کریں:

یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں​

ردیف: کے دیکھتے ہیں
قوافی: کر، ابھر، سنور وغیرہ۔

یہ ساری شاعری، جو عروض کے مطابق ہوگی، ’سمت‘ کے اگلے شمارے میں فراز کے گوشے میں شائع کی جائے گی۔
جلدی جلدی یہاں آئیں۔ ذ پ کی ضرورت نہیں ہو تو بہتر ہے۔
 
السلام علیکم ورحمتہاللہ وبرکاتہ
اک ادنٰی سی کوشش کی ہے ۔

سنا ہےکہ بہت چپ چاپ سےرہتے ہیں وہ
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
اس کی سادگی میں رنگ حسن ہے نمایاں
آج ہم بھی کچھ سج سنور کے دیکھتے ہیں
بہت دن گم رہے ہیں اس کے تصور میں
خیال یار میں آج تو ابھرکے دیکھتے ہیں
اس کے نہ ملنے کا یقیں ہے ہمیں پھر بھی
اک بار اور سہی دعا کر کے دیکھتے ہیں
جی لیا بہت اس کی خاطر ہم نے ناز
چلو اب اس کے نام پہ مر کے دیکھتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم میں نے بھی آج ہی یہ دھاگہ دیکھا ہے چلے کچھ لکھتےہیں بہت شکریہ سر جی اگر آپ بحر کے رکن بھی لکھ دیتے تو ہمارے لیے بہتر ہو جاتا
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب یہ بحر مجتث مثمن مخبون مخذوف ہے اور اسکے افاعیل ہیں:

مَفَاعِلُن فَعِلاتُن مَفَاعِلُن فَعِلُن

اشاری نظام میں

2121 2211 2121 211

آخری رکن یعنی فَعِلُن میں فَعلُن (عین ساکن کے ساتھ)، فَعِلان اور فَعلان (عین ساکن کے ساتھ) بھی آ سکتے ہیں۔

بہت خوبصورت بحر ہے اور بہت استعمال ہوتی ہے!
 

الف عین

لائبریرین
کل دہلی میں مکمل ہوی، اگرچہ کچھ کانٹ چھانٹ تو جاری رہے گی۔ یہ خام شکل دیکھیں:

پھر اس کی وادی میں تھوڑاٹھہر کے دیکھتے ہیں
وہی ہیں سلسلے شام و سحر کے؟۔۔ دیکھتے ہیں
عجب ہے حیرتِ نظارگی افق تا افق
جو اپنی آنکھوں میں آکاش بھر کے دیکھتے ہیں
یہ کہتے تھے کہ نہیں جی سکیں گے تیرے بغیر
سو اپنی بات سے ہم بھی مکر کے دیکھتے ہیں
ذرا پتہ تو چلے اس کو کیا بچھڑ کے ملا
مہینوں گزرے ، ذرا فون کر کے دیکھتے ہیں
وہی ہیں اب بھی چمن بندیاں فراز کے بعد ؟؟
چلو کہ کوئے غزل سے گزر کے دیکھتے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
ارے میں نے تو یہ دھاگہ دیکھا ہی آج ہے واہ واہ،
بہت شکریہ اعجاز صاحب،
ثوبیہ صاحبہ بہت خوب کہا اور اعجاز صاحب واہ واہ، فون کر کے دیکھتے ہیں۔
وارث بھائی بہت شکریہ، چلیں ہم بھی کوشش کر کے دیکھتے ہیں،
لیکن ایک سوال، کیا ہر مصرع میں ہم آخری رکن تبدیل کر سکتے ہیں، یا مطلع سے آخر تک آخری رکن ان تینوں میں سے ایک ہی رہے گا جو مطلع کے پہلے مصرع میں باندھا جائے گا؟
 

الف عین

لائبریرین
طرح اگر مقرر کی جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ اصل کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ یوں بھی آخری رکن کی تبدیلی سے تمہارے‌ذہن میں کون سی بحر تھی؟؟
ویسے فراز کی ہی ایک اور غل اسی بھر اور زمین میں ہے، لیکن قوافی "چل کے دیکھتے ہیں" نکل کے دیکھتے ہیں‘ ہیں۔ وہ بھی اس طرح سے باہر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چونکہ 'مصرع طرح' ہے اسلیئے قافیہ، ردیف تو وہی فالو کرنا ہے جو احمد فراز کا ہے، اس لیئے مطلع اور ہر شعر کے مصرعِ ثانی کے آخری رکن میں آپ کچھ تبدیل نہیں کر سکتے اور آخری رکن ویسے ہی آئے گا جیسے احمد فراز باندھ گئے ہیں۔

ہاں مطلع کے بعد ہر شعر کے پہلے مصرع میں آپ آخری رکن کو جیسے مرضی باندھیں!
 

جیا راؤ

محفلین
ایک چھوٹی سی کوشش ہماری طرف سے بھی۔۔۔۔ :)


سنا ہے لہجے سے وہ حال جان لیتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

شکستہ حال ہے گر وہ ہماری فرقت میں
سو اُس کے ہجر میں ہم بھی بکھر کے دیکھتے ہیں

وہ تیرا دل ہمیں جاں کے عوض جو مل نہ سکا
لگیں گے دام کیا اُس اک گُہر کے دیکھتے ہیں

اے جان آئینہ کیونکر ہوا رقیب ترا
کہ ہم تو آنکھ میں تیری سنور کے دیکھتے ہیں

ہنسی پہ اُس کی جیا ! کب یقین کرتے ہیں
ملال جو بھی ہیں اُس کی نظر کے، دیکھتے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
چونکہ 'مصرع طرح' ہے اسلیئے قافیہ، ردیف تو وہی فالو کرنا ہے جو احمد فراز کا ہے، اس لیئے مطلع اور ہر شعر کے مصرعِ ثانی کے آخری رکن میں آپ کچھ تبدیل نہیں کر سکتے اور آخری رکن ویسے ہی آئے گا جیسے احمد فراز باندھ گئے ہیں۔

ہاں مطلع کے بعد ہر شعر کے پہلے مصرع میں آپ آخری رکن کو جیسے مرضی باندھیں!
بہت شکریہ استادِ محترم اور وارث بھائی، اصل میں میرا مطلب اس غزل طرح میں نہیں میں نے تو جنرل سوال پوچھا تھا کہ اگر اسی بحر میں کوئی اور غزل کہی جائے تو کیا ہم ہر شعر میں آخری رکن مرضی کے مطابق باندھ سکتہیں یا نہیں، جس رکن سے شروع کریں گے آخر تک اسی کے پابند رہیں گے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ایک ادنیٰ سی کوشش ہماری بھی ذیل میں عرض ہے۔ کوشش جوں کی توں ہے، تبدیلیاں ممکن ہیں:)

وہ جسکو چاند ستارے سنور کے دیکھتے ہیں
چلو کہ اس سے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں

عجیب جادو ہے باتوں میں اسکی، سنتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

فلک کی سمت وہ دیکھیں توتارے ٹوٹتے ہیں
اسی لیئے وہ نظر نیچی کر کے دیکھتے ہیں

ہزاروں ڈوب چکے اسکی جھیل آنکھوں میں
سو آج ہم بھی تو ان میں اتر کے دیکھتے ہیں

یہ کسکےخواب ہیں جو رات بھر ستاتے ہیں
چلو کہ نیند سے ہم کچھ ابھر کے دیکھتے ہیں

وہی تو ایک ہے قاتل ہماری بستی میں
اسی کے ہاتھوں سے آج ہم مر کے دیکھتے ہیں

جو تھا " فراز " وہ اب اس جہان میں نہ رہا
سو اس سے ملنے چلو را جا مر کے دیکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
بطور استاد ہی نہیں، بطور مدیر سمت، ان غزلوں میں اصلاح کا اختیار میرا ہے ہی۔۔۔راجا، اپنے اشعار کی تقطیع خود ہی کر کے دیکھو کہ کہلاں گڑبڑ ہے، میں بعد میں بتاؤں گا۔
جیا، تمہاری غزل بھی اچھی ہے، بس ایک آدھ لفظ تبدیل کرنے کی ضرورت ہو شاید۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
تو پھر یہاں بھی اپنی نظرِ کرم فرما دیں میں بھی حاضر ہوں شو مو گو لے کے ہا ہا ہا


غزل
وہ باتوں باتوں میں دل میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

یہ اس کے حسن کی اک ہی مثال کافی ہے
فلک سے چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں

وہ ایک خواب نہیں وہ تو اک حقیقت ہے
اسی لیے تو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

یہاں پہ آ کے محبت سبی کی ایک ہوئی
اُدھر کے لوگ ہوں یا پھر اِدھر کے دیکھتے ہیں

فراز ہو یا کہ غالب یا میر ہو خرم
تمام لوگ اُسے آو بھر کے دیکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
کچھ غزلوں کی چیر پھاڑ کر دی ہے۔ حاضر ہے۔ پہلے جیا راؤ:

وہ تیرا دل ہمیں جاں کے عوض جو مل نہ سکا
لگیں گے دام کیا اُس اک گُہر کے دیکھتے ہیں
" دوسرے مصرعے میں ’کیا اک‘ بھلا نہیں لگ رہا: اور “پہلے مصرع میں بھی تھوڑی سی تبدیلی کی تجویز ہے:

جو تیرا دل ہمیں جاں کے عوض بھی مل نہ سکا
لگیں گے دام کیا ہم اُس گُہر کے دیکھتے ہیں

اے جان آئینہ کیونکر ہوا رقیب ترا
کہ ہم تو آنکھ میں تیری سنور کے دیکھتے ہیں

///تھوڑی اصلاح، اگر اسے اصلاح کہا جا سکے تو۔۔ اے جان کی ے گرنا اچھا نہیں لگ رہا، اِجان آتا ہے وزن میں۔۔
رقیب کیسے ترا آئینہ ہوا جاناں
کہ ہم تو آنکھ میں تیری سنور کے دیکھتے ہیں

ہنسی پہ اُس کی جیا ! کب یقین کرتے ہیں
ملال جو بھی ہیں اُس کی نظر کے، دیکھتے ہیں

دوسرا مصرع یوں ہو تو۔۔۔
ملال جو ہیں بس اُس کی نظر کے، دیکھتے ہیں
ٹھیک ہے جیا۔۔۔۔ قبول کرو تو اسے فائنل کر دوں سمت ‘ کے لئے!!
 

الف عین

لائبریرین
اب باری ہے خرم شہزاد کی:

وہ باتوں باتوں میں دل میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

///درست بلکہ خوب۔ کہیں داغ سے رشتہ تو نہیں تمہارا؟

یہ اس کے حسن کی اک ہی مثال کافی ہے
فلک سے چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں

/// یہ اس کے حسن کی بس اک مثال کافی ہے
اک ہی اچھا نہیں لگ رہا۔

وہ ایک خواب نہیں وہ تو اک حقیقت ہے
اسی لیے تو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

///درست

یہاں پہ آ کے محبت سبھی کی ایک ہوئی
اُدھر کے لوگ ہوں یا پھر اِدھر کے دیکھتے ہیں

///مطلب واضح نہیں ہوا خرم، پھر کہو اس کو۔

فراز ہو یا کہ غالب یا میر ہو خرم
تمام لوگ اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
///پہلا مصرع یوں کہو
وہ میر ہوں کہ ہوں غالب، فراز یاخرم
تمام لوگ اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
یا کہ غالب میں یا کہ محض یک تقطیع میں آ رہا ہے۔ حروف اتنے زیادہ نہ گرائیں جائیں تو بہتر ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا نے مجھے ذ پ میں خود اصلاح کر کے غزل بھیجی تھی۔ یہاں اس شکل کا آپریشن کیا جا رہا ہے جو ممکن ہے کہ یہا پیش کردہ غزل سے کچھ مختلف ہو:

سنا ہے تارے بھی اسکو سنور کے دیکھتےہیں
یہ بات ہے تو چلو ہم بھی کر کے دیکھتے ہیں
ہم بھی کر کے دیکھتے ہیں؟ کیا کر کے دیکھنے والے ہو راجا؟؟ واضح نہیں ہوئی بات۔ مکمل اس طرح تبدیل کرنا پڑ رہا ہے،
وہ جس کو چاند ستارے سنور کے دیکھتے ہیں
ہم اس کو خواب میں بس آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے سب سے بڑا باوفا ہے بستی میں وہ
چلو کہ اس سے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں
’ بستی میں وہ‘ میں ایک ساتھ بستی کی ی، میں کی ی اور ں، گر رہے ہیں، بستی کی جگہ شہر کر دو تو یہ سقم دور ہو جاتا ہے۔ لیکن ’باوفا‘ ملاقات کرنے کی چیز ہوتی ہے؟ شعر بھی معنی کے لحاظ سے بیکار ہی ہے۔
اس کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
وہی تو ایک ہے قاتل ہماری بستی میں
چلوہم اس سے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں

وہ بات کرتا ہے تو پھول جھڑتے ہیں لبوں / منہ سے
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
وہی فراز کی نقل ہی ہو گئی یہ تو۔
سنا ہے بولےتو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
کچھ اور گرہ لگاؤ۔ ہر شعر تو مجھ سے مت کہلواؤ۔

نہیں ہے اب تو وہ، اس دنیا میں، فراز جو تھا
سو ملنے اس سے چلو ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں وہی اغلاط ہیں جن کا میں اکثر کہتا رہتا ہوں، خواہ مخواہ حروف گرانا اور الفاظ کی بے جا نشست۔
اس کو محض یوں کہو نا
جو تھا فراز وہ اب اس جہان میں نہ رہا
سو اس سے ملنے چلو ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں

یہ کسکے خواب ہیں جو رات بھر ستاتے ہیں اب
چلو کہ نیند سے، ہم کچھ ابھر کے دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں ’اب‘ کی کیا ضرورت ہے؟
یہ کسکے خواب ہیں جو رات بھر ستاتے ہیں
کافی ہے۔ اگرچہ نیند سے ابھرنا سمجھ میں نہیں آتا۔

سنا ہے آنکھ ہے گہری تری ڈبو ہی دے گی
چلو کہ ہم بھی تو اِس میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہاں بھی ’ ہی دے گی‘ کی ی اور ے گرا دی ہے اور ’ہدگی‘ تقطیع ہو رہی ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’ہم بھی تو‘ کا مطلب واضح نہیں ہوتا، اور کس سے کہا جا رہا ہے؟
اور فراز کا ’سنا ہے‘ بھی دور کر دو اور یوں کہو:
ہزاروں ڈوب چکے اس کی جھیل آنکھوں میں
سو آج ہم بھی اسی میں اتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے راجا، وہ دیکھے تو تارے جھڑ پڑیں گے
کرشمے ہم بھی تو اس کی نظر کے دیکھتے ہیں
’سنا ہے‘ نکالنا ضروری لگتا ہے مجھے فراز کی مکمل نقل سے بچنے کے لئے۔
فلک کی سمت جو دیکھے تو تارے ٹوٹ پڑیں
پہلا مصرع کیسا رہے گا ؟
اور دوسرے مصرعے میں تخلص بھی لایا جا سکتا ہے:
کرشمے راجابھی اس کی نظر کے دیکھتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اب باری ہے خرم شہزاد کی:

وہ باتوں باتوں میں دل میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

///درست بلکہ خوب۔ کہیں داغ سے رشتہ تو نہیں تمہارا؟

یہ اس کے حسن کی اک ہی مثال کافی ہے
فلک سے چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں

/// یہ اس کے حسن کی بس اک مثال کافی ہے
اک ہی اچھا نہیں لگ رہا۔

وہ ایک خواب نہیں وہ تو اک حقیقت ہے
اسی لیے تو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

///درست

یہاں پہ آ کے محبت سبھی کی ایک ہوئی
اُدھر کے لوگ ہوں یا پھر اِدھر کے دیکھتے ہیں

///مطلب واضح نہیں ہوا خرم، پھر کہو اس کو۔

فراز ہو یا کہ غالب یا میر ہو خرم
تمام لوگ اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
///پہلا مصرع یوں کہو
وہ میر ہوں کہ ہوں غالب، فراز یاخرم
تمام لوگ اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
یا کہ غالب میں یا کہ محض یک تقطیع میں آ رہا ہے۔ حروف اتنے زیادہ نہ گرائیں جائیں تو بہتر ہو۔

کہیں داغ سے رشتہ تو نہیں تمہارا؟:grin1::grin1::grin1:


سر داغ صاحب خوش قسمت ہیں کہ میرا ان سے کوئی رشتہ نہیں ورنہ میرے جیسا نالائق ان کے خاندان سے ہوتا تو پھر شاید نالائق نا ہوتا :grin:

وہ باتوں باتوں میں دل میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں


فلک سے چاند ستارے اتر کے دیکھتے ہیں
یہ اس کے حسن کی بس اک مثال کافی ہے

وہ ایک خواب نہیں وہ تو اک حقیقت ہے
اسی لیے تو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں


وہ میر ہوں کہ ہوں غالب، فراز یاخرم
تمام لوگ اُسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں


یہاں تک تو آپ کی مہربانی ہوگئی بہت شکریہ سر جی باقی
اس شعر
یہاں پہ آ کے محبت سبھی کی ایک ہوئی
اُدھر کے لوگ ہوں یا پھر اِدھر کے دیکھتے ہیں
کو میں دیکھتا ہوں بلکے تبدیل ہی کر دیتے ہیں میں کوشش کرتا ہوں بہت شکریہ
 
Top