ایم اے راجا
محفلین
بہت شکریہ استادِ محترم، اصل میں پہلی مرتبہ طرحی غزل کہی ہے سو قوانین سے بھی ناواقف تھا، میں سمجھتا ہوں کہ غزل اس قابل نہیں کہ پیش کی جا سکے ( کہیں بھی) سو دوبارہ کوشش کر کے حاضر ہوں گا۔ شکریہ۔راجا نے مجھے ذ پ میں خود اصلاح کر کے غزل بھیجی تھی۔ یہاں اس شکل کا آپریشن کیا جا رہا ہے جو ممکن ہے کہ یہا پیش کردہ غزل سے کچھ مختلف ہو:
سنا ہے تارے بھی اسکو سنور کے دیکھتےہیں
یہ بات ہے تو چلو ہم بھی کر کے دیکھتے ہیں
ہم بھی کر کے دیکھتے ہیں؟ کیا کر کے دیکھنے والے ہو راجا؟؟ واضح نہیں ہوئی بات۔ مکمل اس طرح تبدیل کرنا پڑ رہا ہے،
وہ جس کو چاند ستارے سنور کے دیکھتے ہیں
ہم اس کو خواب میں بس آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے سب سے بڑا باوفا ہے بستی میں وہ
چلو کہ اس سے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں
’ بستی میں وہ‘ میں ایک ساتھ بستی کی ی، میں کی ی اور ں، گر رہے ہیں، بستی کی جگہ شہر کر دو تو یہ سقم دور ہو جاتا ہے۔ لیکن ’باوفا‘ ملاقات کرنے کی چیز ہوتی ہے؟ شعر بھی معنی کے لحاظ سے بیکار ہی ہے۔
اس کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
وہی تو ایک ہے قاتل ہماری بستی میں
چلوہم اس سے ملاقات کر کے دیکھتے ہیں
وہ بات کرتا ہے تو پھول جھڑتے ہیں لبوں / منہ سے
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
وہی فراز کی نقل ہی ہو گئی یہ تو۔
سنا ہے بولےتو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
کچھ اور گرہ لگاؤ۔ ہر شعر تو مجھ سے مت کہلواؤ۔
نہیں ہے اب تو وہ، اس دنیا میں، فراز جو تھا
سو ملنے اس سے چلو ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں وہی اغلاط ہیں جن کا میں اکثر کہتا رہتا ہوں، خواہ مخواہ حروف گرانا اور الفاظ کی بے جا نشست۔
اس کو محض یوں کہو نا
جو تھا فراز وہ اب اس جہان میں نہ رہا
سو اس سے ملنے چلو ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
یہ کسکے خواب ہیں جو رات بھر ستاتے ہیں اب
چلو کہ نیند سے، ہم کچھ ابھر کے دیکھتے ہیں
پہلے مصرعے میں ’اب‘ کی کیا ضرورت ہے؟
یہ کسکے خواب ہیں جو رات بھر ستاتے ہیں
کافی ہے۔ اگرچہ نیند سے ابھرنا سمجھ میں نہیں آتا۔
سنا ہے آنکھ ہے گہری تری ڈبو ہی دے گی
چلو کہ ہم بھی تو اِس میں اتر کے دیکھتے ہیں
یہاں بھی ’ ہی دے گی‘ کی ی اور ے گرا دی ہے اور ’ہدگی‘ تقطیع ہو رہی ہے۔ دوسرے مصرعے میں ’ہم بھی تو‘ کا مطلب واضح نہیں ہوتا، اور کس سے کہا جا رہا ہے؟
اور فراز کا ’سنا ہے‘ بھی دور کر دو اور یوں کہو:
ہزاروں ڈوب چکے اس کی جھیل آنکھوں میں
سو آج ہم بھی اسی میں اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے راجا، وہ دیکھے تو تارے جھڑ پڑیں گے
کرشمے ہم بھی تو اس کی نظر کے دیکھتے ہیں
’سنا ہے‘ نکالنا ضروری لگتا ہے مجھے فراز کی مکمل نقل سے بچنے کے لئے۔
فلک کی سمت جو دیکھے تو تارے ٹوٹ پڑیں
پہلا مصرع کیسا رہے گا ؟
اور دوسرے مصرعے میں تخلص بھی لایا جا سکتا ہے:
کرشمے راجابھی اس کی نظر کے دیکھتے ہیں