گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جان کی امان پاؤں تو بتاتا ہوں کہ حساب کے سوالوں کے نمبر ان کے غلط یا صحیح ہونے کی بنیاد پر ملتے ہیں لیکن بیگم کا ہر دو صورت میں ایک ہی جواب ہوتا ہے۔۔۔۔ تے فیر کھاؤ میری قسم
ہن دسو روفی بھیا یہی تھا نا جواب 😂
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چونکہ حساب کے سوالوں کا جواب ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے تو مزہ بالکل ہی نہیں ہوتا جبکہ بیگم کے سوالوں کا جواب ہمیشہ نیا اور تازہ ہوتا ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بڑی سفاکی سے ٹوٹتے ہیں صدمے۔ لیکن اتنے سفاک بھی نہیں ہوتے کہ ایک ہی جگہ جم کر رک جائیں۔ یہ عمل اچانک تو ہوتا ہے لیکن اس میں ٹھہراؤ عام طور پر نہیں ہوتا۔ بڑی دھیمی اور مدہم رفتار سے چلتا جاتا ہے اور اس دھیمے پن میں اس کی شدت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ عمل اگر اس طرح سے نہ ہوتا تو زندگی رک جاتی ۔ ختم ہو جاتی ۔ 🙄
 

سیما علی

لائبریرین
ویسے کہیں سے وعلیکم السلام نہیں ہوا تو ہم نے کہہ دیا


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20
 

سیما علی

لائبریرین
نیت اچھی بندے کو جنت میں داخل کردیتی ہے۔‘‘4
اَحادیث مبارکہ:
(۱)
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے
وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘‏ (۲) ’’مؤمن کی نیت اس
کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘
’نیت لغوی طورپردل کےپُختہ (پکے) اِرادے کوکہتے ہیں اور
شَرعاًعبادت کے اِرادے کو نیت کہاجاتاہے۔‘‘
آیت مبارکہ:‏
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن میں اِرشاد فرماتا ہے وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹) ((پ۱۵،بنی اسرائیل: ۱۹) ترجمۂ کنز الایمان:’’اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انھیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔‘‘ا
 

سیما علی

لائبریرین
محبت اِلٰہی کی تعریف:
طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانا محبت کہلاتا ہے۔ اور محبت الٰہی سے مراد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قرب اور اس کی تعظیم ہے۔ حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی محبت الٰہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بندے کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت وہ ایک صفت ہے جو فرماں بردار مؤمن کے دل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا معنیٰ تعظیم وتکریم بھی ہےیہاں تک کہ بندہ محبوب کی رضا طلب کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس کے دیدار کی طلب میں بے خبر ہوکر اس کی قربت کی آرزو میں بے چین ہوجاتا ہے اور اسے اُس کے بغیر چین وقرار حاصل ہی نہیں ہوتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
لہذا
ایک قول نقل کرتے ہیں ؀
حضرت امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِیفرماتے ہیں: ’’اُمت کا اِس بات پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول سے محبت کرنا فرض ہے۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
کپکپی طاری ہوتی ہے روز قیامت سے اور اس خوف سے ایک ایک ذرہ برابر غلطی ہمارے سامنے رکھ دی جائے گی ۔۔
ایک واقعہ

ایک انصاری پر خدا کا خوف اس قدر غالب ہوگیا تھا کہ ہر وقت رویا کرتے تھے۔ جب وہ آگ کا ذکر سنتے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے دل میں ڈر اتنا بیٹھ گیا تھا کہ وہ گھر میں پڑے رہتے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر سنا تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جا کر ان کو گلے لگالیا۔ انصاری پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ گر پڑے اور روح پرواز کرگئی۔​

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو خدا کے خوف نے اس کا دل پاش پاش کردیا۔​

اے ہمارے پیارے پروردگار ہمارے دلوں کو ایسا بنادے کہ ہم پر گریہ طاری رہے
تیرے شکر کی صورت میں۔
 

سیما علی

لائبریرین
قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے کہ اُن کے ساتھ تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں ہوں گی ،تو اللہ عزّ و جلّ ان نیکیوں کو (ہوا میں منتشر ہوجانے والا) غُبار بنا (کر غارت ) کردے گا۔"
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"میں اپنی اُمت میں سے یقینی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو
قیامت والے دِن اِس حال میں آئیں گے
اے ہمارے رب ہمیں بچالے
قیامت کی سختیوں سے آمین ۔۔۔
 
Top