ایک خیالی کردار نہیں !!!!دیو داس بلکہ ایک طرز زندگی بن گیا۔ اسی لیے آپ نے کئی بار سنا ہو گا ’بڑا دیوداس بن جاتا ہے‘ خاص طور پر جب کوئی غمگین ہو، یا خود کو روگ لگا کر تباہ کر رہا ہو۔
سنہ 1917 میں لکھی گئی سراچندر چٹوپادھیائے کی کہانی دیوداس کو آج کی نسل شاہ رخ خان کے ذریعے جانتی ہے جن کی فلم دیوداس 20 سال قبل 12 جولائی 2002 کو ریلیز ہوئی تھی۔
دوسری طرف، پہلے کی نسل دیوداس (1955) کو دلیپ کمار کی وجہ سے جانتی ہے اور اس سے بھی پہلے کے ایل سہگل کی دیوداس (1936) کو۔ دیوداس کے کردار پر اس کے گرد گھومتی کہانیوں پر 15 سے 20 بار مختلف زبانوں میں فلم بنی ہے۔
لوگ اسے ’مدر آف لو سٹوریز‘ بھی کہتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہے دیوداس کی اس کہانی میں؟ دیوداس ہر دور میں کتنا مختلف دکھایا گیا ہے؟ اور کیا یہ واقعی دیوداس کی کہانی ہے یا یہ ان دو عورتوں کے بارے میں زیادہ ہے جو دیوداس کی زندگی میں تھیں، پارو اور چندر مکھی؟