گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ضرر نہیں پہنچتا انکی افلاطونی سے کسی کو 👏👏👏👏👏


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر۔۔۔۔ ۔
نہیں بالکل بھی ایسا نہیں۔ نہ افلاطونی سے نہ بقراطی سے نہ سقراطی سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
کرمنلز نے کراچی شہر پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، جب، جہاں اور جِسے چاہا، موبائل فونز یا رقوم سے محروم کردیا۔اِس لُوٹ مار میں ایک نیا ٹرینڈ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مسلّح افراد نے گروہوں کی صُورت ہوٹلز یا شادی ہالز میں بیٹھے افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
قربانی حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام کی پیغمبرانہ اور رُوحانی زندگی کی خصوصیت تھی
اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمؑ کا یہ جذبۂ ایمانی اس قدر پسند آیا کہ اسے ایمان کا حقیقی معیار قرار دیا، یہی جذبہ ہر دَور کا ایمانی معیار اور ہر عہد کی کسوٹی ہے۔ دین کی دعوت، عقیدۂ توحید کی عظمت اور بُت شکنی کی پاداش میں آپ کو بادشاہِ وقت، نمرود نے آگ میں ڈال دیا، لیکن آپؑ استقامت کے ساتھ دین کی عظمت اور عقیدۂ توحید کی سربلندی کے لیے پوری طرح حق پر ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان جاری ہُوا :’’ہم نے حکم دیا کہ اے آگ، سرد ہوجا اور ابراہیمؑ پر (مُوجب) سلامتی بن جا۔‘‘(سُورۃ الانبیاء، 69)۔
شاعرمشرق فرماتے ہیں
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا.
آگ کرسکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا
 

سیما علی

لائبریرین
فدیہ بنادیا
انکی قربانی کو
اور بعد میں آنے والوں میں ابراہیمؑ کا ذکرِ خیر (باقی) چھوڑ دیا کہ ابراہیمؑ پر سلام ہو، ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘(سُورۃ الصّافات102تا 110)۔
علّامہ سیّد سلیمان ندوی کیا خُوب لکھتے ہیں:’’یہ قربانی کیا تھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی، بلکہ رُوح اور دل کی قربانی تھی۔‘‘ یہ ماسویٰ اللہ اور غیر کی محبّت کی قربانی، اللہ کی راہ میں تھی، یہ اپنی عزیز ترین متاع کو اللہ رب العزت کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی، یہ اللہ کی اطاعت، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا، یہ تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کا وہ امتحان تھا، جسے پورا کیے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی، باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا، نہ تھا، بلکہ اپنے رب کے سامنے اپنے تمام جذبات، خواہشوں، تمنّاؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی، اللہ کے حکم کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا، جانورکی ظاہری قربانی اُس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشیدِ حقیقت کا ظلِّ مجاز تھا۔(سیّد سلیمان ندوی / سیرت النبیؐ 201/5 )۔
 

سیما علی

لائبریرین
’غُلغُہ‘‘ (یعنی شور، غُل، غوغا) ہے یا غَلغَلہ۔
میری نوائے شوق سے شور، حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں، بت کدہ صفات میں

یہ لفظ فارسی ہے جبکہ بعض لغات میں اسے عربی بتایا گیا۔ فرہنگ آصفیہ نے اسے فارسی قرار دیا ہے۔ {اب معاملہ یہ ہے کہ عربی میں لفظ غَلغَلہ موجود تو ہے، مگر مختلف معانی کے ساتھ۔ عربی میں لفظ ’’غَلغَہ‘‘ (دونوں غین پر زبر کے ساتھ) کا مطلب ہے، چلنے میں جلدی کرنا (مصباح اللغات ۔ گویا Brisk walk


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر۔۔۔20۔ ۔
 
Top