صالحین و صا دقین کی صحبت کا اثر
شیخ سعدی اپنی مشہور ز مانہ کتاب ’’گلستان سعدی‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حمام میں میرے دوست نے مجھے خوشبو والی مٹی دی میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عنبر ہے ؟ تیری خوشبو نے تو مجھے مست کر دیا ہے ،مٹی کہنے لگی میں تو مٹی ہی ہوں مگر ایک عرصہ تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں یہ میرے ہم نشیں کے جمال کا اثر ہے ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی سرشت میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ یہ دوسرے کا اثر بہت جلد قبول کر تا ہے ۔ جب یہ کسی کے پاس اٹھنا،بیٹھنا یا آنا جانا شروع کرے گا تو اس کے خیالات، نظریات، سیرت، کردار، اخلاق اور گفتار و طریقہ کار سے متاثر ہوتاچلاجائے گا اور کچھ عرصہ میں اس کا اثر اس کی شخصیت پر واضح نظرآئے گا۔ا
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں’’اچھی مجلس اور بُری مجلس کی مثال اس طرح ہے جس طرح خوشبو بیچنے والے اور بھٹی سلگانے والے کی مثال ہے ، اگر عطار تمہیں خوشبو نہ بھی دے تب بھی اس کی خوشبو تمہیں پہنچ کر رہے گی، اور لوہار کی بھٹی کی چنگاری تمہارے کپڑے نہ بھی جلائے تو اس کا دھواں تمہارے کپڑے میلے ضرور کردے گا۔(بخاری، مسلم)
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص
ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20