گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بھائی، میرے خیال میں تعلیم و تربیت کرنے والے اور ان جیسے نظر آنے والے بظاہر اس قدر مماثلت اختیار کر گئے ہیں کہ ان میں فرق کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
اس ماحول میں ہر والد اور والدہ کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خود ذمہ داری اٹھائیں۔
یہ بالکل درست بات ہے۔ والدین کو ہر صورت تعلیم وتربیت کی ذمہ داری خود اٹھانی چاہئے کہ یہی پہلی درسگاہ ہے بچے کی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اس مذکورہ واقعہ کو جس نے سانحہ بننے سے روکے رکھا وہ سب سے پہلے ایک مولوی تھا پھر یقیناً وہ پولیس والی آئی جس نے بہادری دکھائی اور لوگوں کو قائل کیا۔
ہمارے معاشرے کا المیہ بھی تو یہ ہے کہ لوگ آگے بڑھنے سے ڈرتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ان کا جنھوں نے ایسی ہمت دکھائی۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ بالکل درست بات ہے۔ والدین کو ہر صورت تعلیم وتربیت کی ذمہ داری خود اٹھانی چاہئے کہ یہی پہلی درسگاہ ہے بچے کی۔
ہمارے بچپن میں تو ہمیں تو کمال کے لوگ ملے۔
ایک کالج کا لڑکا تھا (اللّٰہ اس کی قبر کو جنت کا باغ بنائے کچھ عرصہ قبل فوت ہو گیا) جو مسجد کا موذن ہوا کرتا تھا۔ اس نے ہمیں بچپن میں وہ وہ باتیں سکھائیں جو عموماً والدین بھی نہیں سکھاتے، اس ایک لڑکے کی وجہ سے محلے کے اکثر بچے دین کی معلومات اور عام معمولات جیسی باتیں سیکھے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہمارے بچپن میں تو ہمیں تو کمال کے لوگ ملے۔
ایک کالج کا لڑکا تھا (اللّٰہ اس کی قبر کو جنت کا باغ بنائے کچھ عرصہ قبل فوت ہو گیا) جو مسجد کا موذن ہوا کرتا تھا۔ اس نے ہمیں بچپن میں وہ وہ باتیں سکھائیں جو عموماً والدین بھی نہیں سکھاتے، اس ایک لڑکے کی وجہ سے محلے کے اکثر بچے دین کی معلومات اور عام معمولات جیسی باتیں سیکھے
ویسے کئی لوگ آج بھی ہوں گے لیکن شاید سیکھنے کی طلب کم ہو گئی ہے یا ایسے لوگوں کی تلاش ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نہایت عجیب مزاج ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی ترجیحات حد سے زیادہ بدل گئیں۔ اور آئے روز ہونے والے عجیب و غریب واقعات سے جی گھبراتا ہے ۔ کسی اجنبی کو تو چھوڑیئے اب جان پہچان کے لوگوں سے بھی خوف آتا ہے کب خدا جانے کیا کر بیٹھے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مزاجاً کمال شخصیت تھی اس کی، اس کے فوت ہونے کے بعد علم ہوا کہ وہ لوگوں کی اس قدر رازدارانہ مدد کرتا تھا کہ کسی کو علم نہیں ہونے دیتا۔ جس کے راز اس کے فوت ہونے کے بعد کھلے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نہایت عجیب مزاج ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی ترجیحات حد سے زیادہ بدل گئیں۔ اور آئے روز ہونے والے عجیب و غریب واقعات سے جی گھبراتا ہے ۔ کسی اجنبی کو تو چھوڑیئے اب جان پہچان کے لوگوں سے بھی خوف آتا ہے کب خدا جانے کیا کر بیٹھے ۔
لوگوں کی ترجیحات واقعی بہت بدل گئی ہیں۔ آج ایک بھائی صاحب کو کسی خاتون سے یہ کہتے سنا کہ وہ گھرُمیں زیادہ خرچہ نہ کیا کریں اور اپنے لیے سنبھال کر رکھیں دولت۔ اللہ اللہ سن کر دھچکا سا لگا کہ ہمارے والدین تو ایسے نہ تھے۔ اب کیوں ایسا ہو گیا ہے۔ شاید یہی نفسا نفسی تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ حسب عادت ہم بولنے سے نہ رہ سکے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

سیما علی

لائبریرین
کبھی زمانہ ایک سا نہیں رہتا، کبھی ماں باپ ہی ساری دنیا ہوتے ہیں، اور کبھی محض عضو معطل
فی زمانہ تو کبھی کبھی ہمیں
باغبان فلم کا یہ ڈائیلاگ بہت سچا لگتا ہے کہ
بچے والدین کو سیڑھی سمجھ کے انکا استعمال کرتے ہیں اور پھر وقت گذرنے پر انھیں فالتو سمجھ کر اسٹور میں رکھ کر بھول جاتے ہیں ۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
غور طلب
تلخ حقیقت
حبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کرکے تدبیر کوئی تازہ ہوا لی جائے
ویسے تو دکھ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر بھی یہ عدل کی زنجیر ہلالی جائے!!


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20​

 

سیما علی

لائبریرین
ظاہری
انسانی حقوق کا ڈھنڈورہ تو پیٹا جاتا ہے اور نعرے وغیرہ بھی خوب لگائے جاتے ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دنیا کو غلامی بنانے کے حربے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
طلب
عافیت
ہی سب بہتر ہے ۔۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ !صل اللہ علیہ وسلم مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔
 

سیما علی

لائبریرین
ضروری ہے سمجھنا عافیت کو
صاحبِ مظاہرِ حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے، اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں: دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت، لہٰذا عافیت‘ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے۔ جس نے عافیت مانگی، اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے، (نسأل اللّٰہَ العافیۃَ)۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
صبر کے بجائے آدمی کو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہیے، احادیثِ مبارکہ میں ہمیں یہی حکم دیاگیا ہے ، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو یہ دعا مانگ رہا تھا: ’’اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الصَّبْرَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! میں آپ سے صبر مانگتا ہوں۔‘‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرمادیا کہ: ’’ سَأَلْتَ اللّٰہَ الْبَلاَئَ ۔‘‘ صبر تو بلاء ومصیبت پر ہوتا ہے،’’فَسَلْہُ العَافِیَۃَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’تم اللہ سے صبر کی دعا مانگنے کے بجائے عافیت کی دعا مانگو۔‘‘
 
Top