ڑے آپا کیا خوب شعر ہے۔ژوبی شعر سننیے
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی، کبھی کاغذ کے پھولوں سے
دور کیا تھا بھیا ہر بات کیسے آکر اباجان کو سنایا کرتے تھے پھر ڈانٹ کھائیں یا داد ملےڈانٹ کھائی تھی میں نے ابا کو جب یہ شعر سنایا تھا۔۔۔پرائمری سکول میں۔
آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
بلالے اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے
خیر سے ہمیں ہمیشہ ڈانٹا اگر ہم نے غلطی سے بھی کہہ دیا فلاں چیز وہاں پڑی ہے اٹھا لوڈانٹ کھائی تھی میں نے ابا کو جب یہ شعر سنایا تھا۔۔۔پرائمری سکول میں۔
آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
بلالے اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے
حمّآل کے وزن پر کمّآل جیسے آج کل نسیم شاہ کہتا ہے ، اشتہار میں۔ڈانٹ کھائی تھی میں نے ابا کو جب یہ شعر سنایا تھا۔۔۔پرائمری سکول میں۔
آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
بلالے اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے
چاہ سے پر ہمیں یہ عوامی شعر بیحد پسند ہےرہ نہ سکا میں دوسرا مصرع کہے بنا۔
خط کا جواب نہ آئے تو خط لکھنا چھوڑ دوں ۔
عوامی اشعار ایسے ہی ہوتے ہیں
جب دمانہ دل کا زمانہ تھا ۔ اب کا زمانہ پیسے اور دکھاوے کا زمانہ ہے ۔دکھ ہے اس بات کا آپا۔دور کیا تھا بھیا ہر بات کیسے آکر اباجان کو سنایا کرتے تھے پھر ڈانٹ کھائیں یا داد ملے
ٹوٹتا نہین یہ سلسلہ کیسے فلم کےپردے پہجب دمانہ دل کا زمانہ تھا ۔ اب کا زمانہ پیسے اور دکھاوے کا زمانہ ہے ۔دکھ ہے اس بات کا آپا۔
پر یہ بتایے دعوت پر کون آرہا ہےثبوتوں کے ساتھ بچپن یاد کیا جا رہا ہے اور ہم چھریاں تیز کر رہے ہیں مرغے کاٹنے کو۔ 🙄