سیما علی

لائبریرین

لا مُتَناہی​

رنگ ہیں ایک
انسان میں ہی سب رنگ ہیں۔ جیسے روشنی جب قوس قزح ہو جاتی ہے تو کئی رنگ نمودار ہوتے ہیں، کیا یہ سب رنگ حقیقت میں روشنی نہیں ہیں۔ کائنات کے تمام رنگ محبت ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان رنگوں کو جدا جدا کر کے دیکھتے ہیں۔



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
گول ہے دنیا
کیا سچ مچ
دنیا گول ہے ۔۔۔۔! گول ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔ لوگ مشرق کی طرف سے جاتے ہیں۔۔۔ مغرب کی طرف جا نکلتے ہیں۔۔۔ کوئی ان کو پکڑ نہیں سکتا۔۔۔ اسمگلروں اور مجرموں کے لیے ۔۔۔ بڑی آسانی ہوگئی ہے۔۔ ہٹلر نے زمین کو چپٹا کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا پھر گلیلیو نامی ایک شخص آیا ۔۔۔ اور اس نے زمین کو سورج کے گرد گھمانا شروع کردیا۔۔۔۔ پادری بہت ناراض ہوئے کہ ۔۔۔۔۔ ہم کو کس چکر میں ڈال دیا۔۔۔۔۔ گلیلیو کوتو انہوں نے قرار واقعی سزا دے کر۔۔۔۔ آئیندہ اس قسم کی حرکت سے روک دیا۔۔۔ زمین کو البتہ نہ روک سکے۔۔۔۔ برابر حرکت کیے جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ابن انشا کی کتاب ۔۔۔۔ “ اردو کی آخری کتاب“ سے اقتباس

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 

سیما علی

لائبریرین
کتنی کامیابی سے
طنزومزاح کے حربے
استعمال کئے ہے ابن انشا نے
اسکی مثال ملاحظہ کیجیے؀
"ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے۔ کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ کے چسکےلگاتےرہیئے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست دیتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پرپیتا پانی۔ "
 

فیوجی پہاڑ دراصل ایک آتش فشاں پہاڑ ہے ۔یہ 1707ء یعنی اورنگ زیب عالگیر کی وفات کے بعدسے اب تک نہیں پھٹا۔جاپان کی شریفانہ معاشرت،مہذبانہ اقدار اور ترقی پسندانہ مزاج لیکن خودداری اور ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا جیسی صفات کے ساتھ سر پہ برف کا صافہ جمائےیہ پہاڑ مستقبل کے اور زیادہ حسین اور زیادہ باوقاروباہوش جاپان کا آئینہ خانہ ہے:​
اذنِ خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر ِکارواں سے ہم​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
ع
عینک لگا کے پی کبھی چینک اُٹھا کے پی
او۔پینے ۔والے ۔دیکھ کے ۔ آنکھیں جما کے پی
ممکن ہے گرم پانی ہو اِس کیتلی کے بیچ
اے بھائی احتیاط سے ڈھکن ہٹا کے پی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
ظریف شاعر کا قتل
جعفر زٹلی وہ مزاحیہ شاعر ہے جسے بادشاہِ وقت کے لیے طنز و مزاح سے بھرپور شاعری کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی ۔ظلم کی ایک ایسی ہی مثال غالباًان شاء اللہ خاں انشاء بنے تھے جنھیں نوابِ عالی مقام کو نجیب الطرفین کہنے کے جرم میں راندۂ درگاہ ہونا پڑاتھا۔آزاؔد نے اُن کی معتوبی کا عالم لفظوں میں کیمرے سے بڑھ کر کھینچا ہے ۔’’۔آبِ حیات‘‘ پڑھیے گا۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
طائرانِ فکر و خیال پیمبرانِ حال و قال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترچھی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ضروری ہے کہ مراسلہ نمبر 45565 میں استعمال کی گئی تصویر کی تعریف کی جائے اس کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے
 

سیما علی

لائبریرین
شکیل بھائی
ش بھولے .....


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 
شکیل بھائی
ش بھولے .....
رمز سے کام لیا تھا میں نے آپا ۔۔۔۔۔۔کیونکہ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا اب جب حرف ش آئے گا تو جون صاحب کے مجموعہ ٔ کلام’’شاید‘‘ کا سرورق پوسٹ کردوں گا ۔آج میری یہ تمنا پوری ہوئی ایک بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسری بات یہ کہ کتاب میں جون صاحب کا کلام بعد کے صفحوں پر ہے اُن کا ’’نیازمندانہ ‘‘کے عنوان سے پیغام یعنی کتاب کی اشاعت کا قصہ ،جن لوگوں نے اشاعت میں ان کی مدد کی اُن کے لیے شکرو سپاس کے جذبات اور کچھ اپنے بارے میں اور بہت کچھ اپنے لائق فائق ،علمی اور ادبی خاندان کے بارے میں باتیں ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے جیسے وہ ایک بڑے شاعر تھے بعینہٖ وہ ایک بڑے نثّار بھی تھے اور بہت اعلیٰ درجہ کے خوش گفتار بھی تھے ۔اُن کی باتوں سے پھول جھڑتے تھے ، اُن کے خطاب کا ہر لفظ محبت کے رس بھرے انگوروں کا خوشہ تھا اور اُن کے کلام میں علمی وقار، ادبی چاشنی اور شعری موزونیت اِس درجہ تھی کہ ناواقف بھی جان لیتا وہ شاعر ہیں ، وہ ادیب ہیں اور واقفانِ حال انھیں شعروادب کی شان سمجھتے تھے ۔​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ذ سے
جون صاحب کا کلام
ذکر بھی اس سے کیا خلاء میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا
آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد یہ رکھنا تم کہا میرا
اب تو کچھ بھی نہیں ہوں ویسے میں
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا
وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا
اس نے ڈھونڈھا نہیں پتا میرا
تجھ سے مجھ کو نجات مل جائے
تو دعاء کر کہ ہو بھلا میرا
کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں
اک بلقیس سے صبا میرا
 

سیما علی

لائبریرین
ڈرتے نہیں جون یہ کہتے ہوئے ؀
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی
 

سیما علی

لائبریرین

دور ایسا بھی آیا جون ایلیا پر کہ جب وہ دس برس تک گھر کے ایک کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔​

جون ایلیا نہ صرف اپنے نام اور کلام کے حوالے سے یکتائے زمانہ رہے بلکہ اپنی جسمانی ساخت، وضع قطع اور پڑھنے کے انداز کے معاملے میں بھی یکتا تھے۔ ہر شاعر اپنا کلام پڑھتا ہے۔ الفاظ کے اتار چڑھاؤ کا خیال رکھتا ہے لیکن جون ایلیا جس طریقے سے اپنے کلام کی گہرائی اور گیرائی کو محسوس کرکے شعر پڑھتے تھے تو بسا اوقات ان کی آواز گلو گیر ہو جاتی تھی۔ فرط جذبات سے سر کو جھٹک دیتے تھے۔ سر پر ہاتھ مارتے تھے۔ بال بکھیر لیتے تھے یہ سب وہ اسٹیج پر ڈرامائی صورتحال پیدا کرنے کے لئے نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا وہ عمل بے اختیارانہ ہوتا تھا۔ وہ اس کیفیت میں ڈوب جاتے تھے جو وہ اپنے اس شعر کے حوالے سے محسوس کرتے تھے۔ جون ایلیا زبان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کا لہجہ کلاسیکیت والا ہے۔ بیشتر کلام سہل ممتنع ہے۔ ان کے یہاں سادگی بھی ہے اور پرکاری بھی۔ محاوروں کا برمحل استمال بھی۔ بیان میں تلخی بھی ہے اور شوخی بھی۔ یہی وہ محاسن ہیں جو جون ایلیا کو جون ایلیا بناتے ہیں۔ جون نے اپنے کلام کی جو کائنات چھوڑی ہے وہ ہے۔ شاید، یعنی، گمان، لیکن، گویا اور فرمود۔ منفرد حلیہ بشرے اور منفرد لب و لہجہ کا یہ
شاعر اکہتر برس کی عمر میں 8 نومبر 2002 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ اور اپنے پیچھے ایسا خلا چھوڑ گیا جس کا پر ہونا ناممکن ہے۔
 
Top