شام نہ آئے رینا بیتی جائے۔۔۔۔۔۔یہ اصل میں شیام ہیں جو رات کےکئی پہر گزر جانے پر بھی وعدے کے مطابق آنے میں ناکام رہے اور رادھا بیچاری ۔۔۔۔راہ تکے جارہی ہے اور کہے جارہی ہے :’’شام نہ آئے ، شام نہ آئے ۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
ژالہ باری ہوتی رہے گی پہلے دھیان سے سنیں ، غورسے پڑھیں یہ تختی ہے جس میں حُروف ہیں ۔اِن سے لفظ بنتے اور کتابیں چھپتی ہیں۔پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور عالم فاضل بنتے ہیں مگر دنیا میں علم کی بے قدری کا وہ سماں ہے جیسے ژالہ باری ۔۔۔۔۔۔اولے برستے ہیں اور کچھ دیر میں یہ کہتے ہوئے دم توڑدیتے ہیں کہ ایک زمانہ لگا تھا ژالے کا رتبہ پانے میں اور چندلمحے لگے خاک میں مل کر خاک ہوجانے میں۔۔۔۔۔۔​
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم​

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے


ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر20​

 
’’دستنبو‘‘مرزاغالب کی تصنیف ہے ۔ یہ دراصل 1857ء کے خونیں ہنگامے کا روزنامچہ ہے۔ کچھ تحریریں اب بھی اُسی روزنامچے کا ضمیمہ معلوم ہوتی ہیں۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قلت جیسی قلت ہے حریت پسندوں کی
کھلتا نہیں یہ راز خموشی جہان پر
سر حریت پسند کا کیوں خم ہے ان دنوں
چوری ہوگئے سارے حریت پسند۔۔۔ حالانکہ سنبھال کر عجائب گھر میں رکھے تھے۔

فوری
حاضر ہوجائیے
نین بھیا
جرمانہ ادا کرنے !
کوچہ آلکساں میں بہت بڑا سا بور ڈ نہیں دیکھا
چچ چچ چچ چچ چچچ۔۔۔۔۔ اتنا بڑا ظلم اس فقیر پر۔۔۔ جرمانے اور وہ بھی اعلانیہ۔۔۔۔ کہاں جائیں۔۔۔ الہی کہاں جائیں۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
گاتا تھا گانے
میرے سرہانے
اک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
میں نے اڑایا
واپس نہ آیا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
گاتا تھا گانے
میرے سرہانے
اک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
میں نے اڑایا
واپس نہ آیا
ایسے اداس اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔
ng4QrP.png
 
Top