سیما علی

لائبریرین
خدا نہ کرے کہ تمہارے کان کے پردے پھٹیں، پہلے ہی نہ جانے کیا کیا پھاڑ چکی ہو!
حالیہ بِھڑوں کے چَھتے کو جو چھیڑ دیا تھاُاُس سے تو ہم بہت ڈر گئے تھے ۔۔۔۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20

 
تاآنکہ سائنس کی اٹوٹ برتن بنانے میں پیش رفت نظر نہیں آتی مگر یہ کہ ایسے ظروف کی تیاری میں کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی ،کسی نہ کسی طرح سرگرمِ عمل تو ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی سائنس دان جو ایک عدد شوہر بھی ہو اور بیگم کے بڑھائے ہوئے اِس خرچ سے بیزار بھی اوراپنے دکھتے ہوئے سر سے مجبور بھی ۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
پہلے انگلستان کی کراکری پھر فرانس کے برتن اور اب چائنا کے بھانڈے زیر ِ استعمال ہیں۔ بھانڈےسے بھانڈ کا لفظ لیں تو یہ مسخروں کی وہ قسم ہے جو جملے کستے ہیں مگر خود نہیں ہنستے ۔کبھی اشاروں میں اور کبھی براہِ راست دنیا بھر کی باتیں کہہ جاتے ہیں اور لوگ جز بز ہوکر رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی جو اِن کے نشانے پہ ہوں۔۔۔​
 
آخری تدوین:
بہت سے مسخرے وہ ہیں جنھیں اچھے، باذوق، پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے لوگوں کی صحبت میسر آتی ہے ۔ یہ صحبت اُن کی ظرافت سے پھکڑپن(بھانڈپن ) کے عناصر چھان جاتی ہے۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
اِس طرح ایک وہ ہیں جو باقاعدہ ادب کی صنف ’’مزاح نگاری ‘‘ سے منسلک ہیں ۔آغاز اُنھوں نے بھی (اودھ پنج والے) اپنےمخالفین کی تنقید و تنقیص میں معیار کو فائق نہ رکھ کر کیا مگر اِس صنف کے فروغ اور اِس کی تہذیب میں ایک موثر کردار ضرور ادا کرگئے چنانچہ ایک لمبے سفر کے بعد ہمیں مشتاق احمد یوسفی جیسے صاحبِ طرز مزاح نگارمیسر آئے۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
یوسفی صاحب کے طرزِ ادا کو قائم رکھنا ایسا آسان تو نہیں مگر اُمید ہے اِس میدان میں جلدیا بدیر بہرحال کوئی نہ کوئی آئے گا۔۔۔۔۔۔
 
ہنسی علاج ِ غم ضرور ہے مگر اِس میں احتیاط، احترام اور احتساب کا التزام ہو۔مجھے منشی سجاد حسین یاد آتے ہیں ۔ اُن کے بعض مزاحیہ ناول پڑھنے کا اتفاق ہوا اور پھر اُن کے آخر وقت کی رودا دبھی اُن کے کسی دوست کی تحریرکردہ نظر سے گزری جوپھر کبھی بیان کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ !​
 
ناتجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اکبرالہ آبادی کی غزل :ہنگامہ ہے کیوں برپا کا یہ ایک مصرع ہے ناتجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں۔میں نے اِس پر غور کیا تو مجھے لگا کہ کبھی کبھی لاعلمی ، بے خبری اور نا تجربہ کاری بھی علم و آگہی اور تجربے سے زیادہ سود مند ہوتی ہے ۔یوٹیوب میں غریب ملک کے ایک گاؤں میں رات کو سوئے ہوئے خاندان کے آس پاس متعدد زہریلے سانپوں کو رینگتے دکھایابلکہ بعض کو تو اِن سوتوں کے جسم سے گزرتے بھی دکھایا گیا ہے ۔ وہ اگر جاگتے ہوئے اُنھیں دیکھ لیتے تو دہشت زدہ ہوکر جان ہارجاتےمگر لاعلمی نے اُنھیں محفوظ رکھا۔
میر نے دنیا کی اصلیت سے ہماری بیخبری پر اِسی نوع کی ایک بات کہی اور کیا خوب کہی:​
غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ۔۔۔۔۔یا وہ سماں ہے جیسےکہ دیکھے ہے کوئی خواب
 
مجھے تو یہ شاعر لوگ سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین سے زیادہ حیرت انگیز تجربات کے عامل اورعلوم کےحامل معلوم ہوتے ہیں ۔یہ جس طرح اپنے مشاہدات اور تجربے دومصرعوں میں بیان کرتے ہیں دیگر علوم کے ماہرین اور اساتذہ کے لیے تو میرا خیال ہے یہ ممکن ہی نہیں۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
لیکن خوامخواہ شاعر بننے کی کوشش بھی نہ کریں ۔اپنی بات کہنے ،کوئی تجربہ بیان کرنے یا کسی حقیقت کی ترجمانی میں آپ کا لکھامختصر سانثری نوٹ بھی کسی اعلیٰ درجہ کے شعر پر بھاری ہوسکتا ہے۔۔۔​
 
آخری تدوین:
کاروانِ علم ِ ادب میں بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے گیسوے اُردُو سنوارنے اور اُجالنے میں ہمتیں صرف کیں مگر باباے اُردُومولوی عبدالحق کی نثر اُردُو کے جُوڑے کا سب سے خوبصورت پھول ہے۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لیکن خوامخواہ شاعر بننے کی کوشش بھی نہ کریں ۔اپنی بات کہنے ،کوئی تجربہ بیان کرنے یا کسی حقیقت کی ترجمانی میں آپ کا لکھامختصر سانثری نوٹ بھی کسی اعلیٰ درجہ کے شعر پر بھاری ہوسکتا ہے۔۔۔​
فوراً ہمیں یاد آئے جناب ابن انشا

انشاء جی ہے نام انہی کا،

چاہو تو ان سے ملوائیں؟
ان کی روح دہکتا لاوا

ہم تو ان کے پاس نہ جائیں!۔
یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے،

جوگی بے راگی کہلائیں

انشاء جی ایک بھرپور نثر نگار تھے۔ اپنے قاری سے کہیں تو قہقہے لگوادیتے تھے اور کہیں وہ ان کے کالم پڑھ کر چیخ چیخ کر رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ ان کی تحریر کا کمال تھا۔ ان کے اندر سچائی اور کھرا پن تھا۔
ہمارے ناقص تعلیمی نظام پر طنز ملاحظہ فرمائیے۔
’’ہم پھر مہمان خصوصی بنے‘‘
خود کو مہمان خصوصی بنتے ہم نے ایک بار دیکھا تھا۔ دوسری بار دیکھنے کی ہوس تھی۔ اب ہم ہر روز بالوں میں کنگھا کرکے اور ٹائی لگا کر بیٹھنے لگے کہ ہے کوئی اندھا محتاج جو دے سخی کو دعوت نامہ بلائے اسے صدارت کے لیے۔ اپنے دوستوں سے بھی باتوں باتوں میں ہم نے بہت کہا کہ ہم خالی ہیں اور خدمت ِقوم کے لیے تن من دھن سے حاضر ہیں۔ کوئی یونیورسٹی یا کالج یا اسکول ہماری بستودہ صفات سے اپنے جلسے کی رونق بڑھانا چاہے تو ہم بخوشی اس کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال لیں گے۔ ایک جگہ سے دعوت نامہ آیا۔ اسپوٹنک انگلش اسکول گولیمار کے پرنسپل صاحب نے ہم سے استدعا کی کہ آپ ہمارے ہاں مہمان خصوصی بن کر آئیں۔ اور اسکول کو اپنی جیب خاص سے کم از کم پانچ سو روپیہ عطیہ دیں توہم بہت ممنون ہوں گے ہم نے کہا ہم ہیں تو بہت مصروف لیکن آپ کی خاطر آجائیں گے اور پانچ سو تو خیر زیادہ ہیں دوسوروپے اسکول کو دیں گے تاکہ ہمارے ملک میں تعلیم کی ترقی ہو۔ ہم ایسے نیک کاموں کی سرپرستی نہ کریں گے تو اور کون کرے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبوں کو اس سے زیادہ عطیہ دینے والا کوئی اور نہ ملا لہٰذا معاملہ پٹ گیا اور ہم نے اپنی شیروانی ڈرائی کلین ہونے کے لیے بھجوادی۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر 20

 

سیما علی

لائبریرین
کاروانِ علم ِ ادب میں بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے گیسوے اُردُو سنوارنے اور اُجالنے میں ہمتیں صرف کیں مگر باباے اُردُومولوی عبدالحق کی نثر اُردُو کے جُوڑے کا سب سے خوبصورت پھول ہے۔۔۔۔۔​
غور و فکر اور مشاہدے
کے شوقین
بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کا مقام پاک و ہند میں اُردو سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اُردو تحریک کو بامِ عروج تک پہنچانے والوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس کے علاوہ دنیا میں کسی بھی زبان میں اس زبان سے اس قدر محبت کرنے اور اس کے فروغ کے لئے آخری سانسوں تک جدوجہد کرنے والی اگر کوئی شخصیت ہے تو یہ منفرد اعزاز بھی بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ کو حاصل ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور یہاں انجمن ترقی اُردو کے دفتر کے قیام کے ساتھ ہی اُردو کے نفاذ اور اُردو یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد بھی شروع کردی۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ پاکستان کی تشکیل اور یکجہتی کو اُردو سے وابستہ دیکھتے تھے۔ بابائے اُردومولوی عبدالحق کی تحریک ایک بامقصد تحریک تھی خاص طور پر پاکستان میں اُردو کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ایک سو سال قبل بابائے اُردو ڈاکٹرمولوی عبدالحقؒ نے جو نظریہ قائم کیا تھا وہ آج بھی سچ ثابت ہورہا ہے۔ اُردو ہمارے ملک کی یکجہتی کے لئے ضروری ہے۔
اُردو ہماری قومی یکجہتی کی ضمانت، قومی ترجمان، سماجی، معاشی، تہذیبی اور مذہبی حلقوں کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر قومی گوشے میں اُردو کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اُردو مقامی زبانوں اور بولیوں کی سب سے بڑی معاون ہے وہ ان کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ان تمام کاوشوں اور ملک میں اُردو کالج سے وفاقی جامعہ اُردو کے قیام اور انجمن ترقی اُردو کی شاندار ترقی کا سہرا بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے سر جاتا ہے ان کی اُردو کے لئے خدمات، کاوشوں اور مصائب کو برداشت کرنے کی تاریخ بہت طویل ہے۔
 
Top