کاروانِ علم ِ ادب میں بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے گیسوے اُردُو سنوارنے اور اُجالنے میں ہمتیں صرف کیں مگر باباے اُردُومولوی عبدالحق کی نثر اُردُو کے جُوڑے کا سب سے خوبصورت پھول ہے۔۔۔۔۔
غور و فکر اور مشاہدے
کے شوقین
بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کا مقام پاک و ہند میں اُردو سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اُردو تحریک کو بامِ عروج تک پہنچانے والوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے اس کے علاوہ دنیا میں کسی بھی زبان میں اس زبان سے اس قدر محبت کرنے اور اس کے فروغ کے لئے آخری سانسوں تک جدوجہد کرنے والی اگر کوئی شخصیت ہے تو یہ منفرد اعزاز بھی بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ کو حاصل ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور یہاں انجمن ترقی اُردو کے دفتر کے قیام کے ساتھ ہی اُردو کے نفاذ اور اُردو یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد بھی شروع کردی۔ بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ پاکستان کی تشکیل اور یکجہتی کو اُردو سے وابستہ دیکھتے تھے۔ بابائے اُردومولوی عبدالحق کی تحریک ایک بامقصد تحریک تھی خاص طور پر پاکستان میں اُردو کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ایک سو سال قبل بابائے اُردو ڈاکٹرمولوی عبدالحقؒ نے جو نظریہ قائم کیا تھا وہ آج بھی سچ ثابت ہورہا ہے۔ اُردو ہمارے ملک کی یکجہتی کے لئے ضروری ہے۔
اُردو ہماری قومی یکجہتی کی ضمانت، قومی ترجمان، سماجی، معاشی، تہذیبی اور مذہبی حلقوں کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں ہر قومی گوشے میں اُردو کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اُردو مقامی زبانوں اور بولیوں کی سب سے بڑی معاون ہے وہ ان کی بھی ترجمانی کرتی ہے۔ ان تمام کاوشوں اور ملک میں اُردو کالج سے وفاقی جامعہ اُردو کے قیام اور انجمن ترقی اُردو کی شاندار ترقی کا سہرا بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے سر جاتا ہے ان کی اُردو کے لئے خدمات، کاوشوں اور مصائب کو برداشت کرنے کی تاریخ بہت طویل ہے۔